میاں لچھن دفتر جانے کے لئے ویگن میں سوا رتو ہو گئے جب کنڈیکٹر کو پیسے دینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو باہر نکالنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ آج صبح بیگم سے کرایہ مانگنا بھی یاد نہ رہا تھا۔ کنڈیکٹر نے جو ایک لِشکتی ہوئی ٹنڈ والے بزرگ کا ہاتھ جیب میں ہی اٹکتا دیکھا تو یہی سمجھا کوئی مفت برہے یا پھر 5رتکوئی فقیر ہے اور جان بوجھ کر کرایہ نہیں دینا چاہتا۔ کنڈیکٹر نے بائیں ہاتھ میں پکڑے نوٹ سیدھے کئے اور دائیں ہاتھ کو بڑھا کر ایک کراری چپت میاں لچھن کی کنواری ٹنڈ پر رسیدکرتے ہوئے ’’کبھی کرایہ بھی دے دیا کرو۔ یہ ویگن تمہارے باپ کی نہیں‘‘ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ کنواری ٹنڈ پر پڑنے والی چپت کی سریلی آواز سے بس کے دوسرے مسافر بہت محظوظ ہوئے۔
میاں لچھن اس صریح ظلم پر احتجاج کے قابل بھی نہ تھے۔ یہ ٹنڈ تھی یا بلائے ناگہانی۔ ہر کوئی ہاتھ دھوئے بغیر اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ اور تو اور خود بیگم لچھن بھی صدقے واری جاتی ہوئی اس ٹنڈ پر چار حملے کر چکی تھیں۔ بلکہ وہ تو پیکہ اور مائکہ کی خاندانی متحدہ اسمبلی کا اجلاس بلا کر میاں لچھن کے خلاف خاندانی، ازدواجی، مالی، سیاسی، سماجی اور نہ جانے کیا کیا پابندیاں لگانے کا سوچ رہی تھیں۔ اگر میاں لچھن کو معلوم ہوتا کہ ٹنڈ کرانا عراق کے کویت پر چڑھائی کرنے سے بھی زیادہ سنگین جرم ثابت ہو گا تو وہ کبھی اس کا سوچتے بھی نہ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے ایساکام خوشی سے تو نہیں کیا تھا۔ پہلے ہی سر پر بال صرف قسم کھانے کو رہ گئے تھے۔ ان حالات میں ان کا بھی چٹ صفایا کر دینا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ ویسے بھی میاں لچھن جیسی عوامی، سماجی، سرکاری بلکہ ہمہ جہتی شخصیت ٹنڈ کرانے کا رسک کیسے لے سکتی تھی۔ اس ٹنڈ کے پیچھے ایک دردناک داستان پوشیدہ تھی۔ میاں لچھن چاہتے تو یہی تھے کہ ان کے مفت میں گلے پڑنے والی تکلیف کم ہو۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک تکلیف سے نجات حاصل کرتے کرتے زمانے بھر کی تکلیفیں ان کی ٹنڈ میں آ جائیں گی۔
اصل کہانی کچھ یوں تھی کہ تین ہفتے قبل میاں لچھن اپنے ایک سسرالی عزیز کی شادی میں شرکت کے لئے مع بیگم اور اکلوتی پیدا وار میاں کچھن کراچی گئے۔ وہاں انہیں پورا ہفتہ قیام کرنا پڑا۔ اب شادی بیا ہوں میں ایک بڑی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ وہاں مہمانوں کی تعداد کے مطابق منجی بستروں کا بندوبست نہیں ہوتا۔ بس جس کا سینگ جہاں سماتا ہے پڑا رہتا ہے۔ ظاہری طور پر تو شادی کی خوشی ہوتی ہے مگر منجی بستر سے محروم لوگ میزبانوں کو کوستے ہوئے یوں تبصرے کرتے ہیں جیسے گاڑی میں سفر کے دوران لٹ گئے ہوں اور پلیٹ فارم پر رات گزارنا پڑ گئی ہو۔ کسی کو ناشتہ پسند نہیں ہوتا تو کسی کو چاول۔۔۔ چاول کھا کھا کر کسی کا گلہ بند ہو جاتا ہے، کسی کا کچھ اور کسی کی کچھ۔۔۔۔ ہر طرف بند ہی بند کا چکر۔
اس شادی میں بھی باقی سب ٹھیک تھا لیکن سب سے بڑا مسئلہ رات کو سونے کا تھا۔ ان دنوں کراچی میں بات بات پر کرفیو لگنا معمول بن چکا تھا۔ کراچی کے لوگ تو اس کے عادی ہو چکے تھے مگر دیگر شہروں سے کراچی شادی وغیرہ میں شرکت یا سیر کے لئے آئے مہمانوں کے لئے یہ بڑا پریشان کن مسئلہ تھا۔ شومیِ قسمت کہ شادی کی تقریب شروع ہونے سے عین ایک دن قبل کرفیو لگ گیا۔ بس پھر کیا تھا گھر والوں کے ساتھ ساتھ دور دراز سے آئے مہمان بھی گھر میں قید ہو کر رہ گئے۔ کرفیو کی وجہ سے شادی کا دھوم دھڑ کا ختم اور صرف رسم باقی رہ گئی۔ مقامی انتظامیہ کو ترلے واسطے دئے تو انہوں نے اتنی اجازت دی کہ سرکاری ایمبولینس میں بارات جا سکتی ہے۔ اس طرح پوری بارات کی بجائے چار آدمی دولہا کو لے کر دلہن والوں کے گھر گئے اور جلدی سے دلہن کو اٹھا کر اپنے گھر لے آئے مبادا کرفیو میں کوئی اور مصیبت نہ کھڑی ہو جائے اور دلہن کے ساتھ دولہا وہیں نہ رہ جائے۔ بقیہ باراتی گھر میں بند شادی پر کم اور کرفیو پر زیادہ تبصرے کر رہے تھے۔
میاں لچھن، ان کی بیگم اور اکلوتی نشانی باؤ کچھن کو سونے کے لئے جو کمرہ الاٹ کیا گیا وہ صرف چند دن قبل پرانے کپڑوں، بستروں، فالتو برتنوں، ٹوٹی ہوئی چار پائیوں اور دیگر ناکارہ سامان کا قبرستان تھا۔ مہمانوں کی خاطراس سارے کوڑ کباڑ کو نکال کر دن کو سورج کی کرنیں اور رات کو تارے گننے کے لئے اوپر چھت پر رکھ دیا گیا۔ شادی کے بعد اسے دوبارہ قید تنہائی کی سزا دے کر اس کمرے میں بند کر دیا جانا تھا۔ کمرے کے سیلن زدہ فرش پر محلے کی مسجد سے دری منگوا کر بچھا دی گئی تھی جس پر سالن یا کسی دوسری تیل والی چیز کے بڑے بڑے داغ اور پاؤں تلے کچلے ہوئے چاولوں کی باقیات چپکی ہوئی تھیں۔ اس دری پر اضافی چادر وغیرہ بھی بچھانے کی زحمت نہ کی گئی تھی۔ دری پر جو دو تکئے رکھے ہوئے تھے وہ بھی گندے تھے۔ اور بس۔۔۔۔ سو جاؤ۔ سردی لگے تو اپنی چادر اوڑھو، گرمی لگے تو ہاتھ سے پنکھا کرو۔ اب کراچی جیسے شہر میں جہاں باہر نکلنے کی پابندی تھی۔ سیلن زدہ مرطوب کمرے سے عجیب قسم کی بو بھی آ رہی تھی۔ بوسیدہ اور گندی دری پر سونا ایک سزا سے کم نہ تھا، مگر میاں لچھن میں احتجاج کی ہمت نہ تھی، کیوں کہ یہ ایک سسرالی رشتہ دار کی شادی تھی۔
پہلی ہی رات جب میاں لچھن اس پر سوئے تو ساری رات سراور بدن کے کچھ حصوں پر کسی مخلوق کے رینگنے کا احساس ہوا۔ یوں لگتا تھا جیسے سیکڑوں کن کھجورے مختلف سمتوں سے حملہ آور ہو رہے ہوں۔ وقفے وقفے سے سوئیاں چبھنے کا بھی احساس ہوتا۔ سر اور بدن کو کھجاتے کھجاتے رات کا بیشتر حصہ گزر گیا۔ میاں لچھن نے بتی کی مدھم روشنی میں اس نامعلوم حملہ آور کو پہچاننے کی کوشش کی۔ سر اور بدن کے جس جس حصے میں سوئیاں چبھ رہی تھیں، ان کا جائزہ لیا۔ دری پر نگاہ دوڑاتے ہوئے ہاتھ پھیر کر دیکھا۔ یہ دیکھ کر ان کا خون خشک ہو گیا کہ جووؤں اور کالی چیچڑیوں کے غول در غول دری کی تہوں سے نکل رہے تھے جیسے جرمن ٹینک خراماں خراماں کیموفلاج سے نکل کر محاذِ جنگ پر جا رہے ہوں۔ جوئیں میاں لچھن کے سر میں چھاؤنی قائم کر چکی تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ جسم کے مختلف حصوں میں جہاں کھجلی ہو رہی تھی۔ وہاں سیاہ چیچڑیاں بڑی شان سے چہل قدمی کر رہی تھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ پاس ہی سوئے ہوئے بیگم لچھن اور باؤ کچھن اس خون چوس دشمنوں کے حملہ سے پوری طرح محفوظ تھے۔ اب میاں لچھن کوئی شہد کا چھتہ تھوڑی تھے جن پر جوئیں اور چیچڑیاں یوں مدھو مکھیوں کی طرح حملہ آور ہو رہی تھیں۔ میاں لچھن نے ایک دفعہ تو سوچا کہ خراٹے لیتی بیگم اور بچے کو جگا کر ان سے مدد لی جائے۔ لیکن یہ کوئی آسان بات نہ تھی۔ ایک دفعہ میاں لچھن نے اپنی بیگم کو آدھی رات کو جگانے کی کوشش کی تھی۔ بیگم نے اٹھتے ہی میاں جی کو پہلے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا پھر ان کی درگت بنانا شروع کر دی۔ چار پانچ ٹھیک نشانے پر لگنے والے زور دار تھپڑوں کے بعد بولیں ’’اچھا! تو یہ آپ تھے؟ میں سمجھی شاید کوئی چور گھر میں گھس گیا ہے‘‘ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ انہیں جگانے والا کون ہے۔
ایک دوسرے موقع پر بھی میاں لچھن نے اپنی بیگم کو عین اس وقت جگانے کی کوشش کی تھی جب وہ نیند کے بھر پور خراٹوں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ بیگم لچھن نے پہلے تو اشاروں کی زبان سے سمجھانے کی کوشش کی ’’پپو یار تنگ نہ کر‘‘ جب میاں لچھن نے اصرار کیا تو بیگم نے ان کے پیٹ پر اتنے زور سے لات رسید کی کہ وہ سامنے دیوار سے ٹکرا کر نیچے فرش پر جا گرے۔ وہ خود تو منہ دوسری طرف کر کے لیٹی رہیں، جبکہ میاں لچھن پیٹ میں لات پڑنے کی وجہ سے کافی دیر تک بے حس و حرکت گٹھڑی بنے بیٹھے رہے۔ اس دن کے بعد سے میاں لچھن نے رات تو رات دن کے وقت بھی بیگم کی مرضی کے خلاف انہیں جگانے کا سو چا تک نہیں۔ وہ ماضی کے ان دلخراش مناظر کو یاد کر کے چپکے پڑے رہے۔
اب سوال یہ تھا کہ جوؤں اور چیچڑیوں کے اس التفاتِ خصوصی کی وجہ کیا تھی۔ انہوں نے سر پر ہاتھ پھیر کر سونگھا تو گھی اور زردے کی ملی جلی خوشبو آئی۔ دری پر جہاں کچلے چاولوں کی باقیات چپکی ہوئی تھیں، وہاں کالی چیچڑیاں دعوت اڑا رہی تھیں۔ میاں لچھن کو جوؤں اور چیچڑیوں کے حملے کی وجہ سمجھ میں آنے لگی تھی۔ در اصل اس شام انہوں نے زردے کی بڑی طشتریاں سر پر رکھ کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پہنچائی تھیں۔ اس سے سر میں میٹھی چکنائی اور زردے کی خوشبو رچ گئی تھی۔
وہ رات انہوں نے جاگ کر گزاری مگر جو جوئیں سر میں غاصبانہ طریقے سے قبضہ جما چکی اور جو کپڑوں کے اندر چیچڑیاں گھُس چکی تھیں انہیں نکالنا آسان کام نہ تھا۔ صبح تک میاں لچھن کا شب بیداری سے برا حال ہو چکا تھا۔ سر میں کھجلی اب بھی ہو رہی تھی۔ بیدار ہوتے ہی دوسری گلی میں واقع حجام کی دوکان پر گئے اور حمام میں برتن دھونے والے صابن سے سر کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا۔ کپڑے اچھی طرح جھاڑے۔ اس سے سر کی تکلیف اور جسم میں ہونے والی کھجلی کو کچھ افاقہ ہوا۔
کراچی کے سمندر اور دیگر مقامات کی سیر کی حسرت دل میں لئے ایک ہفتہ بعد میاں لچھن کرفیو زدہ شادی سے واپس اپنے شہر اپنے گھر واپس آئے تو پرائے دیس کی خون چوس سوغات ان کے سر کے خفیہ حصے میں موجود تھی بلکہ اگلے چند روز میں جوؤں کی تعداد اور حملوں میں اضافہ ہو چکا تھا۔ میاں لچھن نے اس دردسری سے نجات کے لئے سرکاری ہسپتال سے رجوع بھی کیا۔ لیکن افاقہ کہاں ہونا تھا۔ بھلا سرکاری ہسپتال کی دواؤں سے بھی کسی کو افاقہ ہوا ہے۔ سر کی حالت سدھارنے کے لئے انہوں نے تمام مروجہ طریقے استعمال کر ڈالے مگر نہ جوؤں کی تعداد کم ہو سکی اور نہ ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگ سکی۔ ایک دو راز داں دوستوں سے تذکرہ کیا تو انہوں نے مشورہ دیا:۔
’’جناب جوؤں سے چھٹکارہ پانا ہے تو ان کی چھاؤنی پر بلڈوزر چلا کر ان کے مورچوں کا مکمل صفایا کر دیں۔ پھر انہیں کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ ملے گی۔‘‘
میاں لچھن نے دوستوں کے اس مشورے کو بیگم کے سامنے رکھا اورسر کو نذرِ استرا کرنے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بیگم نے نہ صرف اس تجویز کی بھرپور مخالفت کی بلکہ ببانگ دہل اعلان کر دیا کہ اگر ایسی کوئی بات سوچی بھی تو پھر اس کا نتیجہ یہودیوں کے ہولو کاسٹ سے بھی زیادہ اذیت ناک نکل سکتا ہے۔ میاں لچھن، اپنی بیگم کی عادت سے پوری طرح واقف تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ یہ دھمکی محض زنانہ بھڑک نہیں۔ بیگم جو کہتی ہیں، کر گزر تی ہیں۔ بیگم کے غضب سے بچنے کا واحد حل یہی تھا کہ جوؤں کو جہاں تک ہو سکے برداشت کیا جائے۔
ایک روز دفتر میں کچھ خاص سرکاری مہمان آ گئے۔ انہوں نے جب میاں لچھن کو وقفے وقفے سے سر کھجاتے دیکھا تو پوچھ ہی لیا: ’’میاں جی لگتا ہے آپ کو اس گرمی کے موسم میں بھی روزانہ نہانے کی عادت نہیں‘‘۔ میاں لچھن کو پہلی دفعہ بے عزتی محسوس ہوئی۔ دفتر سے واپسی پر ان کے ذہن سے بیگم کی دھمکی نکل گئی اور ساتھی افسروں کا طنزیہ جملہ بار بار ہتھوڑے لگانے لگا۔ اتنے میں انہیں سامنے نائی کی دکان نظر آئی۔ بے اختیار ان کے قدم دکان کے اندر چلے گئے۔ اور پھر استرے کے الٹے سیدھے ترچھے آڑھے وار سے جوؤں کے مورچے مکمل طور پر تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے ماتھے کا طول تین انچ سے تیرہ انچ ہو گیا۔ انہوں نے وہیں حمام پر غسل کیا۔ باہر نکل کر سٹور سے سر کا رو مال خریدا جس سے اپنی کنواری ٹنڈ چھپا کر گھر تشریف لے آئے۔ ان کا خیال تھا کہ بیگم کو بتانے کی کیا ضرورت ہے خود ہی پتہ چل جائے گا۔ جو نہی میاں لچھن گھر میں داخل ہوئے تو بیگم نے سر پر خاص انداز سے بندھے ہوئے رو مال کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ میاں لچھن کے دل سے ان کا خوف جاتا رہا ہے۔ اور وہ اپنی مرضی کر کے ہی آئے ہیں۔ میاں لچھن اپنے کمرے میں چلے گئے۔ وہیں کھانا منگوایا۔ بیگم کھانا تو لے آئیں مگر اپنے مجازی شوہر کے سامنے ذرا فاصلے پر رکھ دیا اور بولیں۔
’’ذرا یہ رو مال تو اتار دیجئے آرام سے کھانا کھائیے۔‘‘
وہ اس سوال پر اندر سے گھبرائے، پھر سنبھلے، سنبھل کر جھپٹے، اور پوری قوت جمع کر کے بولے:۔
’’در اصل جوؤں سے نجات کا کوئی اور ذریعہ بھی تو نہیں تھا‘‘ انہوں نے منہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا۔
بیگم نے جھپٹ کر رو مال اتارا تو نیچے سے کائی زدہ چند یا بر آمد ہوئی۔ حالانکہ نائی نے اس میں چمک دمک اور زیبائش پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر بیگم نے عام خواتین کی طرح کور ذوقی کا ثبوت دیا اور دائیں ہاتھ سے چندیا کے عین وسط میں ناپ تول کر پورے وزن کی چپت رسید کی کہ میاں لچھن جو پاؤں لٹکائے چار پائی پر بیٹھے تھے، اچھل کر منہ کے بل زمین بوس ہو گئے۔ جب تک وہ اٹھے بیگم کھانے کا ٹرے اٹھا کر کمرے سے باہر جا چکی تھیں۔ میاں لچھن بیگم کے سامنے بے بس تھے غصہ آتا بھی تو اتارتے کس پر۔ الٹا شامت آ جاتی۔ دبی دبی آواز میں صرف اتنا احتجاج کر پائے۔ ’’کیا بد تمیزی ہے؟‘‘
کیا مجال ہے جو پھر منہ سے ایک لفظ بھی زائد نکلا ہو۔ وہ دوڑتے ہوئے بیگم کا پیچھا کرتے، باورچی خانے تک گئے مگر بیگم نے عین وقت پر اسی انداز سے اور بھر پور زور سے دروازہ بند کیا کہ میاں لچھن کا ابھی پاؤں اندر داخل ہوا ہی تھا دروازہ کھٹاک سے ان کے چہرے پر لگا اور وہ پشت کے بل زمین پر آ رہے ابھی یہ کھیل جاری رہتا کہ باؤ کچھن بستہ اٹھائے اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے جو اپنے باپو کو نا تواں ہڈیوں کا سہارا لے کر زمین سے اٹھتے دیکھا تو نہ جانے کیا سمجھ کر رونے لگا۔ بیگم باؤ کچھن کے رونے کی آواز سن کر باہر نکلیں اور گھور کر میاں کی طرف دیکھا۔ میاں لچھن موقع کی نزاکت بھانپ گئے اور فوراً کہا۔ ’’خدا کی قسم! میں نے کچھ نہیں کہا اسے۔‘‘
بیگم نے پیار سے پوچھا۔ ’’کیا ہوا میرے لال؟‘‘
’’میں نہیں بولوں گا۔‘‘ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
کیا لے گا میرا بیٹا؟ بیگم لچھن نے دلاسہ دیتے ہوئے پوچھا۔
’’جو ٹوپی ابا نے پہنی ہے۔‘‘ باؤ کچھن کے منہ سے الفاظ کیا نکلے بیگم لچھن لال پیلی ہو کر گرجنے لگیں۔ ’’کر دیا ناں گھر کا ستیا ناس۔۔۔۔ بچے کو خراب کر کے چھوڑے گا کم بخت۔۔۔ میری اچھی بھلی عزت ہے محلے میں۔ لوگ کیا کہیں گے شوہر نے ٹنڈ کروا لی ہے۔ ہائے میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی‘‘۔
بیگم لچھن روہانسی ہو کر کچھن کو لے کر دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ میاں لچھن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ٹنڈ کرانا واقعی اتنا بڑا جرم ہے کہ بیوی کا سٹیٹس تباہ ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے ہے۔ بھلا معصوم ٹنڈ سے گھر میں اس قدر طوفان کیسے پیدا ہو سکتا ہے، منہ لٹکائے بھوکے ہی اپنے کمرے میں آ گئے۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے چہرے کا بغور جائزہ لینے لگے۔ بالکل در کونہ۔۔۔۔ مونچھیں اور داڑھی پہلے ہی چٹ صاف تھیں۔ اب سر کے بالوں کی عدم موجودگی میں صرف بھنویں ہی آنکھوں اور سر کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کے لئے باقی رہ گئیں تھیں۔ اگر ان کا خاتمہ بھی ہو جاتا تو پورا چہرہ یوں لگتا جیسے کاندھے پر ’’گرما‘‘ رکھا ہو۔
دوپہر کا کھانا تو گیا۔ شام کے کھانے کا وقت آیا تو میاں لچھن کمرے سے نکلے اور بڑے معصومانہ انداز میں بیگم سے معذرت کرنے لگے۔ میاں بیوی کے اس رشتے میں ایک بات طے تھی۔ اول بیگم کو ٹنڈ والے مردوں سے سخت نفرت تھی۔ چاہے وہ ان کا شوہر نامدار ہی کیوں نہ ہو۔ بازار میں یا گلی میں گزرتے ہوئے اگر کوئی ٹنڈ والا نظر آ جاتا تو راہ بدل لیتی تھیں۔ اس کے پیچھے کیا راز تھا یا کس قسم کی کڑوی میٹھی یادیں وابستہ تھیں، میاں لچھن کو کبھی پوچھنے کی بھی ہمت نہ ہوئی تھی۔ دوسری بات، میاں لچھن کو بیگم کی غضبناکی سے بہت ڈر لگتا تھا۔ بیگم کو ذرا غصہ آنا شروع ہوا اور میاں لچھن کے اوسان خطا ہونا شروع ہو گئے۔ یہی وہ ظالم لمحہ ہوتا تھا جب بیگم کا ہاتھ بھی اٹھ جاتا تھا۔ اگرچہ بعد میں اپنے زمینی خدا سے دست بستہ معافی کی طلبگار ہوتی تھیں۔ لیکن میاں لچھن کئی دن کی مالش اور ٹکور کے بعد ہی واپس اس دنیا میں آنے کے قابل ہوتے تھے۔
میاں لچھن جس طرف سے مخاطب ہوتے بیگم منہ دوسری طرف کر لیتیں۔ شام کو بیگم نے صرف اپنے اور باؤ کچھن کے لئے کھانا پکایا۔ اور باورچی خانے کو تالہ لگا کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ میاں لچھن منہ ہی دیکھتے رہ گئے۔ انہوں نے بہانے سے کچھن کو بلانے کی کوشش کی مگر بیگم نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایسا زبردست پیغام دیا تھا کہ وہ پھڑک کر بلکہ دبک کر بیٹھ گیا۔ دن کا معاملہ کچھ اور تھا رات تو بھوکے پیٹ نہیں گزاری جا سکتی تھی۔ انہوں نے ہزار منتیں کیں، معافیاں مانگیں اور پھر دھمکیاں بھی دیں خود کشی کی، مگر بیگم تھیں کہ اصلی بھینس ذرا ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ میاں لچھن یہ کہہ کر باہر نکل گئے۔ ’’اچھا تو پھر میں ہوٹل سے کھا آتا ہوں۔‘‘
بیگم پر اس دھمکی کا بھی اثر نہ ہوا۔ کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ ہر ماہ ایک ایک پائی گن کرساری کی ساری تنخواہ پر تو خود قبضہ کر لیتی تھیں۔ میاں لچھن کو روزانہ صرف ویگن کا کرایہ دیتی تھیں۔ ان حالات میں ہوٹل کا کھانا کھانے کے لئے ان کے پاس پیسے ہی نہیں تھے۔ میاں لچھن نے بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں بازار کا رخ کیا کہ شاید کوئی واقف کار مل جائے اور انہیں کھانا کھلا دے۔ جونہی بازار میں داخل ہوئے۔ مختلف دوکانوں سے پکوانوں کی خوشبو نے ان کی اشتہا کو ہزار گنا کر دیا۔ ابھی وہ اپنے خیالوں میں مگن کسی دوست کی تلاش میں جا ہی رہے تھے کہ کہیں سے ایک روڑا آیا اور ان کی چندیا کو بوسہ دے گیا۔ گھر سے نکلتے وقت انہیں اتنا بھی ہوش نہ رہا تھا کہ ان کا اچھا بھلا سرجو کدو میں بدل چکا تھا اس پر کیمو فلاج کا کوئی قانون لاگو کر لیتے۔ انہوں نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ کسی کو محض شبے کی بناء پر مورد الزام تو نہیں ٹھہرایا جا سکتا تھا۔ وہ پھر چلے پڑے۔ مزید چند قدم گئے ہوں گے کہ ایک نرم چیز ان کے سر سے ٹکرائی جو ٹکراتے ہی ٹند کی سختی کی تاب نہ لا کر پھٹ گئی۔ میاں لچھن پلٹے، کسی کم بخت نے اصلی انڈا کہ جس کے خراب ہونے کا انتظار بھی نہ کیا گیا تھا کس کر میاں لچھن کے کدو نما سر پر دے مارا تھا۔ میاں لچھن کا سر انڈے کی لیس سے لتھڑا جا چکا تھا۔ انہوں نے ارد گرد نگاہ دوڑائی تو چاروں طرف قہقہوں کا سیلاب امڈ رہا تھا۔ میاں لچھن چاہتے تو یہیں کھڑے کھڑے بھرے بازار کو اپنی طوفانی گالیوں سے دریا برد کر دیتے، مگر موقع کی نزاکت کو سمجھ چکے تھے۔ انہوں نے وہیں سے واپس گھر کی طرف قدم لئے۔ ابھی بازار کی حد ختم ہونے ہی والی تھی کہ کسی نے رنگین پانی سے بھرا غبارہ ان کی ٹنڈ پر دے مارا۔ پانی کی سرخی ٹنڈ سے ہوتی ہوئی کپڑوں تک پھیل گئی۔ یوں لگا جیسے کسی نے ان کا سر پھوڑ دیا ہو اور خون بہہ کر کپڑوں کو خراب کر رہا ہو۔ وہ قمیض کا پلو اٹھائے کچھ دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک منچلا آیا اور پیچھے سے زور دار چپت رسید کر کے میاں لچھن سے لپٹ گیا۔ میاں لچھن اس نا گہانی اور وکھری ٹائپ کی صورتحال سے سیخ پا ہو گئے اور غصے سے کہا ’’چھوڑ مجھے۔۔۔۔۔‘‘۔ اس منچلے نے اپنا ایک ہاتھ ڈھیلا کیا اور پھر دوسری بھر پور چپت رسید کرتے ہوئے کہا ’’یا رشیدے بڑی مدت بعد نظر آئے ہو۔ کہاں چلے گئے تھے‘‘۔
’’او مجھے۔۔۔۔‘‘ میاں لچھن اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ اس شخص نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور سامنے آ کر بغل گیر ہوتے ہوئے کہا۔ ’’یار شیدے گلے تو مل۔‘‘
میاں لچھن نے اپنے آپ کو آزاد کرانا چاہا مگر وہ کم بخت انہیں شیدا شیدا کہہ کر مخاطب کرتا جاتا اور وقفے وقفے سے ایک چپت لگاتا جاتا۔ ارد گرد کے لوگ بھی اس تماشے سے محظوظ ہو رہے تھے۔ بازار قہقہوں سے گونج رہا تھا اور لوگوں کا جمگھٹا بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ بالآخر میاں لچھن نے اس نامعقول کے پیٹ میں گد گدی کی وہ پیچھے ہٹا تو روہانسی آواز میں کہا ’’میں شیدا نہیں ہوں۔‘‘ لوگوں کے قہقہے اور بلند ہو گئے تھے۔ اس منچلے نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے میاں لچھن کے چہرے کو دیکھا اور پھر ہاتھ باندھ کر کہنے لگا:۔
’’معاف کرنا یار مغالطہ لگ گیا ہے۔‘‘ اور تیزی سے سڑک کے پار غائب ہو گیا۔
میاں لچھن کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ مزید بے حرمتی نہ چاہتے تھے۔ فوراً کھسک لئے مگر کسی کم بخت نے ٹوٹی چپل کھینچ کے کمر پر دے ماری میاں لچھن نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ ایک دوسرے کم بخت نے تو حد ہی کر دی، چکن کی دکان سے ایک چھیچھڑا اٹھا یا اور میاں لچھن کی ٹنڈ کی طرف اچھال دیا، وہ تو اچھا ہوا ایک چیل تیزی سے آئی اور اسے راستے میں ہی اُچک لیا ورنہ میاں لچھن کی ٹنڈ چیل کے پنجوں سے واقعی لہو لہان ہو جاتی۔ وہ تیز قدم اٹھاتے ہوئے بازار سے نکل گئے،۔ پیچھے ’’پاگل ای اوئے۔۔۔ پاگل ای اوئے‘‘ کے نعرے، تالیاں اور قہقہے گونج رہے تھے۔ بڑی مشکل سے سڑک پار کر کے گلی میں داخل ہوئے۔
اندھیرا پھیل چکا تھا۔ گلی میں جلنے والا واحد بلب بھی روشن نہ ہوا تھا۔ ایک قدم آگے بڑھایا ہی تھا کہ شڑاپ نالی میں جا گرے۔ شکر ہوا کہ وہاں کوئی دیکھنے والا نہ تھا یا یہ کسی کو نظر نہ آئے ورنہ اچھا بھلا تماشہ لگ جاتا۔ جلدی سے اٹھے اور غلاظت میں لتھڑے کپڑوں کو سمیٹ کر گھر میں داخل ہو گئے۔ اپنے کمرے کا رخ کیا مگر بند تھا۔ کنڈی کو ہاتھ لگا کر محسوس کیا تو تالہ لگا ہوا پایا۔ اندر باورچی خانے میں گئے وہاں بھی تالا۔ بیگم اور باؤ کچھن نے اپنے کمرے کو اندر سے کنڈی لگا کر بند کر لیا ہوا تھا۔ میاں لچھن نے بہتیری آواز دیں۔ مگر وہاں سننے والا کون تھا۔ بیگم بھلا ڈرنے والی تو نہ تھی۔ مجبوراً غسل خانے کا رخ کیا صرف اس کا دروازہ کھلا تھا۔ وہاں انہوں نے شلوار اور قمیض سے کیچڑ کو صاف کیا۔ سر سے انڈے کو اتارا اور سونے کے لئے کمرے کی طرف آئے۔ وہاں بھی تالا لگا ہوا تھا۔ بے بسی کے عالم میں چھت پر چلے گئے اور ننگے فرش پر سو گئے۔
صبح آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کافی نکل چکا تھا۔ بھاگم بھاگ نیچے آئے۔ چھت کے ننگے اور ٹھنڈے فرش سے جسم میں اکڑن پیدا ہو گئی تھی اور درد بھی کر رہا تھا۔ پھر رات کے پے در پے حملوں سے ٹنڈ بھی صدائے احتجاج بلند کرنے لگی تھی۔ اتنی تکلیف تو جوؤں کی وجہ سے نہ پہنچی تھی جتنی بازار میں لوگوں نے ٹنڈ کی ’’خدمت‘‘ پر دی تھی۔ باورچی خانے میں بیگم آرام سے ناشتہ کر رہی تھیں۔ باؤ کچھن ناشتے کے بعد اپنا بستہ ٹھیک کر رہا تھا۔ میاں لچھن نے نہانے کے بجائے منہ ہاتھ دھونے پر اکتفا کرنا چاہا۔ ابھی ایک ہاتھ ہی دھو پائے تھے کہ بیگم گرجیں۔ ’’یہ ہاتھ کس خوشی میں دھوئے جا رہے ہیں۔‘‘
میاں لچھن بوکھلا گئے اور بولے۔ ’’باؤ کچھن کو سکول چھوڑنے جانا ہے۔‘‘
’’وہ خود چلا جائے گا۔‘‘ بیگن لچھن زور سے گرجیں۔‘‘ میں اس پر کسی پاگل کا سایہ نہیں پڑنے دوں گی۔‘‘ یہ کہا اور باؤ کچھن کی انگلی پکڑ کر اسے گلی میں ایک لڑکے کے حوالے کر کے اندر جو آئیں تو دیکھا میاں لچھن جلدی جلدی کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔ بیگم نے گردن سے پکڑ کر انہیں باورچی خانے سے باہر نکالا اور دھکا دیتے ہوئے بولیں۔ ’’شرم نہیں آتی۔ جاؤ اور مانگ کر کھاؤ شاہ دولہ کے چوہے۔‘‘
میاں لچھن کو اس نئے خطاب پر رہی سہی عزت بھی خاک میں ملتی نظر آئی۔ ادھر دفتر سے دیر ہو رہی تھی۔ اگر چند منٹ مزید یونہی گزر جاتے تو کافی لیٹ ہو سکتے تھے۔ مجبوراً بھوکے پیٹ گھر سے نکلے۔ کل صبح کے بعد کچھ نہ کھایا تھا۔ مسلسل فاقے سے منہ چوسے ہوئے آم کی طرح نکل آیا میاں لچھن کی ٹنڈ نے بیگم لچھن کی معاشرے میں ناک کٹوا دی تھی۔ میاں لچھن نے بہتری اسی میں سمجھی کہ چند دن کے لئے کہیں چلے جائیں۔ گھر سے دفتر جاتے ہوئے ویگن کے کنڈکٹر نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی اور بھکاری کا اچھا بھلا خطاب دے کر ٹنڈ کی عزت و حرمت میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا تھا۔
وہ ویگن سے اترے اور سیدھے دفتر پہنچے۔ ابھی کمرے میں داخل ہونا ہی چاہتے تھے کہ چپڑاسی نے قمیض کے کالر سے پکڑ کر باہر کھینچا اور پرے دھکا دے دیا۔
’’بھائی جی! یہ صاحب کا کمرہ ہے تم کدھر۔‘‘
میاں لچھن نے پلٹ کر اسے دیکھا تو چپڑاسی سکتے میں آ گیا۔ ’’سلام صاحب! میں مغالطہ کھا گیا تھا۔‘‘
میاں لچھن کچھ کہے بغیر اندر داخل ہوئے، اپنی کرسی پر بیٹھے، ایک ماہ رخصت کی درخواست لکھی اور ہیڈ کوارٹر بھجوا دی۔ بیگم کو صرف یہ پیغام بھجوا دیا، ’’تیری یاد آئے گی بال آنے کے بعد‘‘۔ اور کسی ایسے دوست کی تلاش شروع کی جو انہیں چند دن اپنے ہاں ٹھہرنے کی اجازت دے دے۔ میاں لچھن مقامی طور پر جس دوست کے گھر گئے۔ اور چند دن رہنے کی استدعا کی، اس نے مختلف بہانے سے معذرت کر لی۔ سب طرف سے مایوس ہو کر میاں لچھن آخری ٹھکانے کے طور پر اپنے آبائی قبرستان گئے۔ جہاں اپنی والدہ اور والد مرحومین کی قبروں پر بیٹھ کر زار و قطار رونے لگے۔ سیانے کہتے ہیں رونے میں بھی سُر ہوتا ہے۔ لیکن اس بے وقت، بے طلب، بے مقصد، بے سرے رونے کی آواز سن کرقبرستان کا گورکن گھبرا کر اپنے ایک کمرے پر مشتمل گھرسے باہر نکل آیا۔ اور قریب آ کر اس گریہ و زاری کا سبب پوچھا۔ میاں لچھن بھی دل کا اس قدر سادہ نکلا کہ گورکن کو صاف صاف بتا دیا کہ بیگم نے اس کی ٹنڈ کی وجہ سے اسے گھر سے نکال دیا ہے۔ اب وہ اپنی اماں اور ابا کے ساتھ یہیں سویا کرے گا۔ گورکن کا دل جو روزانہ مردوں کی اکھاڑ پچھاڑ کرتے اور انہی کے ساتھ رہتے، سوتے اتنا نرم نہیں رہا تھا۔ پھر بھی پتہ نہیں اسے کیوں ترس آ گیا۔ اس نے میاں لچھن کو اپنے ساتھ ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ اس شرط پر کہ بوقت ضرورت میاں لچھن کو قبر تیار کرنے میں اس کا ہاتھ بٹانا پڑے گا۔ گورکن نے مزید مہربانی کرتے ہوئے ان سے وعدہ کیا کہ ہاتھ بٹانے کی صورت میں وہ ان کی مالی طور پر خدمت بھی کیا کرے گا۔ سودا مہنگا نہیں تھا۔ اس طرح گورکن کے ساتھ گزارے چند دن ان کی زندگی کے سنہرے دن ثابت ہوئے۔ شام کے وقت کسی نہ کسی گھر سے کھانا آ جاتا تھا۔ جو دو آدمیوں کی ضرورت سے بھی زیادہ ہوتا۔ باقی کھانا صبح کام آ جاتا۔ واہ ری ٹنڈ، یہاں آ کر کتنی بھاگاں والی نکلی تھی۔ دو روز بعد میاں لچھن کسی کو بتائے بغیر قبرستان سے نکلے اور کسی نہ کسی طرح سیدھے اپنے ایک ماموں زاد کے پاس حیدر آباد پہنچ گئے۔
ایک ماہ میں جب سر کے بال کچھ بڑے ہوئے تو واپس گھر تشریف لائے۔ لیکن گھر کے اندر داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی۔ گھر کے دروازے کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ آدھ گھنٹے کے بعد بیگم نے باہر گلی میں جھانکا تو اپنے شوہر نامدار کو منہ لٹکائے کھڑے دیکھا۔ بیگم کی پہلی نظر ان کے سر پر پڑی جہاں سبز کدو کی جگہ بالوں کی گھاس اگی ہوئی تھی۔ ہلکا سا مسکراتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔ پھر بھی وہ سہمے سہمے سے اندر داخل ہوئے۔ بیگم لچھن نے میٹھے پوڑے پکا کر اپنے جیون ساتھی کا استقبال کیا۔
(تیس روزہ چاند اکتوبر۱۹۹۰ء )