میں نے مظہر شاہ کو دور سے ہی مسکراتے چہرے کے ساتھ دفتر داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔ ’’اللہ خیر کرے۔ اس کا آج پھر بیوی سے جھگڑا ہوا ہو گا‘‘۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ مظہر شاہ دنیا کا واحد شخص تھا۔ جب بھی اس کا بیوی سے جھگڑا ہوتا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ شاید کوئی حاسد اسے شیطانی مسکراہٹ کا نام دے، لیکن میں تو اسے ہمیشہ مستانی مسکراہٹ کہتا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے جھگڑا کر کے محظوظ ہوتا تھا۔ مظہر شاہ میں گیٹ سے اندر داخل ہوا، سائیکل کو ایک کونے میں کھڑا کیا۔ اور ہنستا ہوا میرے کمرے میں آیا۔
’’ماشاء اللہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آج پھر بیگم سے جھگڑا ہوا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ میں نہ بھی پوچھتا تو وہ خود ہی بتا دیتا۔ بات اس کے منہ سے ابل کر باہر آیا ہی چاہتی تھی۔
’’وہ جی کیا ہونا تھا۔ میں ذرا دیر سے اٹھا۔ دفتر کا وقت ہو رہا تھا۔ میں نے کپڑے تبدیل کئے، بیگم سے کہا ناشتہ بنا دو۔ کہنے لگی اب خود بنا لو۔ اتنی گرمی میں مجھ سے بار بار چولہا نہیں جلتا۔ میں ذرا غصے میں بولا، ’’اچھا تو نہیں بنا کر دو گی؟‘‘۔ تو کہنے لگی خود دیر سے اٹھے ہو اب بھونکتے کیوں ہو۔ میں نے کہا گھر میں کتا جو نہیں ہے اس کی کمی پوری کر رہا ہوں۔ جوابی حملے کا انتظار کئے بغیر میں نے جلدی سے سائیکل اٹھایا اور دفتر بھاگ آیا‘‘۔ وہ خود تو ہنس ہی رہا تھا۔ آخری فقرہ سن کر میری بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ یہ تھا ہمارا نائب قاصد مظہر حسین شاہ، جو قریبی گاؤں سے آیا کرتا تھا۔ اب وہ گاؤں کیا تھا۔ شہر پھیلنے کی وجہ سے شہر کا ہی حصہ معلوم ہوتا تھا۔
نائب قاصد کو پہلے چپراسی کہا جاتا تھا۔ اور یہی عہدہ انگریز بہادر کے دور سے بطور یاد گار چلا آ رہا تھا۔ حکومت نے جہاں دیگر انگریزی یادگاروں کے نام بدلے وہاں کچھ عہدوں کے ناموں میں بھی تبدیلی لائی گئی۔ ان میں ایک چپراسی بھی تھا جسے بدل کر اب نائب قاصد کا نام دیا گیا تھا۔ تاہم عوام کو یہ جاننے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ صرف عہدے کا نام تبدیل ہوا ہے۔ چپراسی والی حرکتیں اور برکتیں ویسی کی ویسی ہی ہیں۔ دفتر میں دو مزید نائب قاصد بھی تھے۔ ایک کا نام رحمت اور دوسرے کا امین تھا۔ انہیں نوکری کرتے ایک عرصہ ہو چلا تھا۔ یہ صرف نام کے رحمت اور امین تھے جبکہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی یہ کمیں گی کی ساری حدیں پار کر جاتے تھے۔ کینٹین سے چائے لاتے وقت ہر کپ سے ایک ایک چسکی لینا اپنا حق سمجھتے تھے۔ کھانے پینے کی چیز منگواؤ تو اپنا حصہ پہلے ہی نکال لیتے۔
مظہر شاہ کو دفتر میں بھرتی ہوئے ایک سال سے بھی کم عرصہ ہوا تھا۔ لیکن اپنی خوش لباسی، خوش مزاجی اور خوش گفتاری کی وجہ سے جلد ہی سب میں گھل مل گیا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ روزانہ صاف ستھرے اور کلف لگے کپڑے پہن کر آتا۔ چہرے پر نواب آف کالا باغ طرز کی مونچھیں بھی تھیں۔ اس کی ظاہری حالت سے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ یہاں نائب قاصد ہے۔ ہر آنے والا یہی سمجھتا وہ دفتر میں کسی اچھی سیٹ پر ایک بابو تعینات ہے۔ اس کی ایک نظر دفتر کے اندر کام کرنے والے بابوؤں پر اور دوسری میں گیٹ پر ہوتی۔ جونہی کوئی ڈھیلی ڈھالی ’’اسامی‘‘ دفتر میں داخل ہوتی۔ یہ فوراً اس کے پاس پہنچتا، اس کا حال احوال پوچھتا، بڑے احترام سے اسے ایک طرف بنچ پر بٹھاتا، پانی پیش کرتا اور مدعا پوچھتا۔ ’’جناب میں یہ کام ابھی کروا دیتا ہوں، میرے ہوتے فکر کس بات کی!‘‘۔ آنے والا اس خوش اخلاق استقبال پر ہر فکر سے آزاد ہو جاتا۔ پھر اپنی خوشی سے مظہر شاہ کو ’’خوش‘‘ کرتا۔ دوسرے دونوں نائب قاصد بڑی حسرت سے شکار کو قربان گاہ پہنچنے سے پہلے ہی قربان ہوتا دیکھتے تو ان میں جذباتِ رقابت و حسد پیدا ہونا فطری بات تھی۔
سائلوں کو پانی وغیرہ پیش کرنے کی عادت رمضان کے مہینے میں بھی جاری رہتی۔ خاص طور پر گرمیوں میں وہ روزہ داروں کو بھی پانی پلا دیتا۔ جونہی طویل مسافت اور گرمی سے بے حال سائل دفتر میں داخل ہوتا۔ وہ اسے اپنے مخصوص بینچ پر بٹھاتا اور ٹھنڈے پانی کا گلاس پیش کرتا۔ ٹھنڈے پانی کو سامنے دیکھ کر اکثر سائل بھول جاتے کہ ان کا روزہ ہے۔ کسی کو ایک گھونٹ بعد۔ کسی کو نصف گلاس اور کسی کو پورا گلاس خالی کرنے کے بعد یاد آتا کہ ان کا تو روزہ ہے۔ اس وقت مظہر شاہ اپنی ہنسی کو کنٹرول کر لیتا۔ پھر میرے کمرے میں آ کر خوب ہنستا۔ اور کہتا ’’آج اتنے لوگوں کا روزہ تڑوایا ہے‘‘۔ وہ خود گھر سے تو روزہ رکھ کر آیا کرتا تھا۔ تاہم دفتر سے چھٹی ہوتے ہی تھوڑی دور ہسپتال کی کینٹین سے کھانا کھاتا، چائے پیتا، ایک دو سگریٹ سلگا کر اپنی نکوٹین پوری کرتا، اور منہ ایسے بنا کر گھر کی طرف جاتا جیسے روزے سے اس کی جان نکلی جا رہی ہو۔
مظہر شاہ کی حاضر جوابی دفتر اور دفتر سے باہر بڑی مشہور تھی۔ بلدیاتی الیکشن کا زمانہ تھا۔ ایک شام اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر نکل کر دیکھا کہ اس کی وارڈ کے امیدوارکونسلر اپنے دو تین خاص حواریوں کے ہمراہ دروازے پر کھڑے ہیں۔ مظہر شاہ فوراً بولا ’’حضور آنے سے پہلے کسی کے ہاتھ دو چار ہار اور مٹھائی کا ٹوکرا ہی بھیج دیتے تاکہ میں آپ کا استقبال بھرپور طریقے سے کرتا‘‘۔ امیدوار صاحب اس لفظی حملے کے لئے بالکل تیار نہ تھے۔ کوئی اور موقع ہوتا تو اس کے حواری اسے پھینٹی لگا دیتے۔ مگر موقع کی مناسبت سے اس حملے کو برداشت کرنا ضروری تھا۔ وہ لوگ کھسیانی ہنستے ہوئے آگے چل دئے۔
مظہر شاہ کا ایک سالہ جرمنی چلا گیا۔ پانچ چھ سال بعد واپس لوٹا تو اس کے ساتھ اس کی جرمن بیگم بھی تھی۔ دونوں سالا بہنوئی میں قریبی رشتہ داری اور تقریباً ہم عمر ہونے کی وجہ سے بے تکلفی بھی تھی۔ ایک رات مظہر شاہ نے اپنی بیگم کے حکم پر سالہ صاحب کو مع جرمن بیگم اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ اگر اسے سالا صاحب سے قیمتی تحفہ ملنے کی امید نہ ہوتی تو وہ کبھی اسے دعوت پر نہ بلاتا۔ کھانے کے دوران مظہر شاہ کو شرارت سوجھی بولا ’’یار تم جوان بھی ہو اور خوبصورت بھی۔ تم واپس جا کر دوسری میم کر لینا یہ یہیں میرے لئے چھوڑ جاؤ‘‘۔
’’یہ تمہارا رشتہ دار پاگل تو نہیں‘‘۔ جرمن خاتون نے جب ٹھیٹھ اردو میں جواب دیا تو مظہر شاہ کی حاضر جوابی دم توڑ گئی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ خاتون اس سے کہیں زیادہ اردو جانتی تھی۔
’’بھابھی جی گزشتہ سال یہ دو ماہ پاگل خانے کا مہمان بھی رہ چکا ہے۔ میں اسے روزانہ پاگلوں والی دوائی نہ کھلاؤں تو یہ چند دن میں پورا پاگل ہو جائے‘‘۔ مظہر شاہ کی بیگم اپنے بھائی کی موجودگی میں کود کر بولی۔ جرمن خاتون خوف یا کسی اور وجہ سے دسترخوان سے ذرا پرے کھسک گئی۔ یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ مظہر شاہ گنگ ہو کر رہ گیا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کا مذاق ایٹم بم بن کر اس کی شخصیت کے ناگاساکی کے چیتھڑے اڑا دے گا۔ وہ تو شکر ہوا کہ سالا صاحب اور جرمن خاتون جلد واپس اپنے ملک چلے گئے ورنہ وہ خود اپنے ہاتھوں اسے پاگل خانے داخل کروا کر جاتے۔ ان کے جانے کے کئی ماہ بعد مظہر شاہ کے حواس بحال ہوئے تو اس نے بیگم سے پوچھا ’’تم نے کس سال مجھے پاگل خانے داخل کروایا تھا؟‘‘۔
’’میں نے تو مذاق کیا تھا‘‘۔ بیگم چہک کر بولی۔ ’’تم مذاق کر سکتے ہو تو میں نہیں کر سکتی‘‘۔ مظہر شاہ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
مظہر شاہ کی بیگم کو مسور کی کالی دال بڑی پسند تھی۔ ہر دوسرے تیسرے روز یہ دال اپنے سامنے دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھتا۔ مگر بیگم کے ڈر سے بولتا بھی نہیں تھا۔ ایک دن اس کے من کی مراد پوری ہو گئی۔ ایک دن ایک حکیم صاحب اپنے مجرب اور خاندانی نسخوں سے تیار ایک ہفتے میں جوان بنا دینے والی دواؤں کی مشہوری کے لئے دفتر تشریف لائے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی تیار کردہ گولیاں کھانے سے جسم میں توانائی کا خزانہ بھر جاتا ہے۔ مظہر شاہ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے پوچھا: ’’حکیم صاحب آپ کی گولیوں سے زیادہ طاقت تو مسور کی کالی دال میں ہوتی ہے‘‘۔ حکیم صاحب کو اپنی موروثی دواؤں کی تذلیل ہضم نہ ہو سکی۔ انہوں نے مسور کی دال کے فوائد سے زیادہ اس کے نقصانات پر ایسا حکیمانہ لیکچر دیا کہ مظہر شاہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ دوسرے دن دفتر آیا تو میری میز کو طبلہ بناتے ہوئے سُر میں خوش خبری سنائی کہ مسور کی کالی دال سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ کہنے لگا ’’میں گھر گیا تو یہی دال پکی ہوئی تھی۔ جب بیگم نے دال والی رکابی میرے سامنے رکھی تو میں اسے پاس بٹھا کر غور سے دیکھنے لگا۔ وہ حیران ہو کر میری اس غیر متوقع حرکت کا سبب پوچھنے لگی۔ میں نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے آنکھوں کے سامنے دھند سی آ رہی تھی۔ میں آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس گیا تھا۔ اس نے مجھ سے سب سے پہلے یہی سوال کیا: ’’تمہارے گھر میں مسور کی دال زیادہ تو نہیں پکتی؟ کیونکہ مسور کی کالی دال کھانے سے انسان کی بینائی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہے۔ میں نے پیار بھرے انداز سے بیگم کا ہاتھ پکڑا اور کہا ’’آج دال کھانے سے پہلے میں تمہیں جی بھر کر دیکھنا چاہتا ہوں مبادا میں بالکل ہی اندھا ہو جاؤں۔ اور تیرا مکھڑا پھر نہ دیکھ سکوں‘‘۔ یہ اس کی زندگی کا پہلا موقع تھا جب بیگم کو اس پر ترس آ گیا۔ اور وعدہ کیا کہ مسور کی کالی دال دوسرے تیسرے روز پکنے کی بجائے مہینے میں ایک دو بار ہی پکا کرے گی۔
مظہر شاہ کو سگریٹ پینے کی بھی عادت تھی۔ مگر اس کی بیگم کو اس عادت سے نفرت تھی۔ مظہر شاہ دفتر کے اوقات میں اپنی نکوٹین پوری کرتا رہتا۔ اتنا سمجھدار اور عقلمند تھا کہ اس نے ٹوتھ پیسٹ اور برش دفتر میں ہی رکھے ہوئے تھے۔ چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے دانت ضرور صاف کرتا۔ اگر کہیں غلطی سے ایسے ہی چلا جاتا یا سگریٹ کی بو آ رہی ہوتی۔ جس پر بیگم استفسار کرتی تو کہتا ’’بی بی، راستے میں گاڑیوں کا دھواں ہی اتنا تھا۔ ایک جگہ پھنس گیا تھا سارا دھواں کپڑوں کو لگ گیا‘‘۔
’’مگر بُو تو تمہارے منہ سے آ رہی ہے‘‘ بیگم پوچھتی۔
’’بی بی، رش میں ویسے ہی سانس بند ہو رہی ہوتی ہے۔ اگر دھواں سانس کے رستے اندر چلا جائے اور گلے یا ناک میں اٹک جائے تو اس میں میرا کیا قصور‘‘۔ بیگم کی تسلی ہوتی یا نہیں۔ لیکن وہ خاموش ہو جاتی۔
ایک دن رحمت نائب قاصد کے دماغ میں زبردست ترکیب آئی۔ وہ سارا دن ساتھ والی کینٹین اور دفتر سے سگریٹوں کے ٹوٹے اکھٹا کرتا رہا۔ اس نے ان ٹوٹوں کو احتیاط سے ایک ڈبیہ میں رکھا اور موقع ملتے ہی چپکے سے مظہر شاہ کی بغلی جیب میں ڈال دیا۔ مظہر شاہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ظلم بھی ہو سکتا ہے۔ چھٹی کے بعد جب وہ گھر گیا اور قمیض اتار نے لگا تو اسے بغلی جیب بھاری محسوس ہوئی۔ بیگم پاس ہی کھڑی تھی۔ مظہر شاہ نے جیب میں ہاتھ مارا تو وہاں سگریٹ کی ڈبیا تھی۔ اس سے پہلے کہ مظہر شاہ اسے کہیں خرد برد کر دیتا بیگم نے ہاتھ مار کراسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ کھول کر دیکھا تو سگریٹوں کے ٹوٹے بھرے ہوئے تھے۔
’’اچھا تو اب سڑکوں سے سگریٹ کے ٹوٹے اکٹھے کرتے رہتے ہو۔ یہ ہے اس گھر میں میری عزت۔ کسی واقف نے دیکھ لیا تو؟۔ میں نہیں رہتی اس نیچ گھر میں‘‘۔ بیگم کی آواز میں غصہ بھی تھا اور دکھ بھی۔ وہ دوسرے کمرے میں گئی اور برقعہ اٹھا لائی۔ ’’میں چلی اپنی اماں کو دکھانے کہ اس کا لاڈلا بھانجا اب سڑکوں سے سگریٹ اکٹھا کر کے پیتا ہے‘‘۔ مظہر شاہ جو جیب سے ڈبیا نکلنے پر پہلے ہی حواس کھو بیٹھا تھا۔ فوراً زمین پر لیٹ گیا اور بیگم کے پاؤں پکڑ کر پیروں فقیروں پنجتن پاک کے واسطے دے کر یقین دلانے لگا کہ یہ ڈبیا کسی نے شرارت سے اس کی جیب میں رکھی ہے۔ اس دن بڑی مشکل سے جان چھوٹی۔ ورنہ اس کی بیگم اپنی اماں جی کو بتا دیتی تو شاہ جی کی چھترول لازمی تھی۔
مظہر شاہ کو پکا یقین تھا کہ یہ شرارت رحمت یا امین کی ہے۔ لیکن امین اس دن چھٹی پر تھا۔ تو گویا یہ رحمت کی مہربانی تھی۔ دوسرے دن مظہر شاہ دفتر آیا تو اس نے محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس نے چپکے سے بڑے صاحب کے پانی پینے والے گلاس کے پیندے میں ہلکا سا صابن لگا دیا۔ رحمت ہی بڑے صاحب کے گلاس میں پانی بھر کر رکھا کرتا تھا۔ اس دن بھی اس نے پانی کا گلاس رکھا تو تھوڑی دیر بعد پانی کی سطح پر تین چار جھاگ کے بلبلے نمودار ہو گئے۔ صاحب بہادر جب پانی پینے لگے تو بلبلے دیکھ کر طیش میں آ گئے۔ رحمت، امین اور مظہر شاہ کو بلایا گیا۔ پتہ چلا رحمت نے ہی پانی کا گلاس رکھا تھا۔ مظہر شاہ اسی موقع کے انتظار میں تھا فوراً بولا ’’سر، میں پہلے بھی کہنے والا تھا۔ رحمت جب بھی کسی کو پانی دیتا ہے اس میں تھوک کر دیتا ہے‘‘۔ اس انکشاف پر رحمت سٹ پٹا کر رہ گیا۔ وہ صفائیاں ہی پیش کرتا رہ گیا۔ مگر بڑے صاحب کا غصہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اس کی نوکری تو نہ گئی۔ البتہ سزا کے طور پر اس کی دو ماہ کی تنخواہ دفتر کے خاکروب کو دینے کا حکم سنا دیا گیا۔ رحمت کو بھی پتہ چل گیا کہ مظہر شاہ نے سگریٹ کی ڈبیا کا بدلہ لیا ہے۔ لیکن اپنے اپنے محاذ پر دونوں خاموش رہے۔ ان میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اس کا ذکر کسی دوسرے سے کریں۔
ہمارے دفتر کی بیرونی دیوار کے ایک کونے میں چھوٹی سی کینٹین تھی، جہاں سے دفتر کو اور اردگرد کے ٹھرکیوں کو چائے اور ٹھنڈے مشروبات پلائے جاتے تھے۔ انہی دنوں حکومت نے اعلان کی کہ سرکاری دفتروں میں ظہر کی نماز پڑھائی جایا کرے گی۔ پہلے ہی دن جب نماز کی جماعت کھڑی ہونے لگی تو کینٹین کا مالک بھی شامل ہونے کے لئے آ گیا۔ مظہر شاہ اگلی صف میں تھا۔ اس کے دماغ میں فوراً ایک زبردست ترکیب آئی۔ وہ بظاہر احتراماً پچھلی صف میں آ گیا اور اپنی جگہ پر کینٹین کے مالک کو کھڑا کر دیا۔ نماز ختم ہوئی توسب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ میں بھی اپنے کمرے میں آ گیا۔ جب دراز کھولی تو اس میں فروٹ کیک اور بسکٹوں کے چند پیکٹ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ سوچا اللہ کریم نے اس نماز کا انعام اس دنیا میں ہی دے دیا ہے۔ ابھی میں اپنے ساتھی باؤ سے اس بارے میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ مظہر شاہ تیزی سے اندر داخل ہوا اور ہاتھ کے اشارے سے چپ رہنے کا کہا۔ میں بڑا حیران ہوا۔ کچھ دیر بعد جب تمام عملہ اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گیا۔ تو مظہر شاہ آیا، کیک اور بسکٹ اپنے تھیلے میں ڈالے اور اسے ریکارڈ والی الماری میں رکھ دیا۔ یہ سلسلہ چند دن چلتا رہا۔ ہر نماز کے بعد میری دراز سے کھانے پینے کی چیزیں برآمد ہوتیں۔ جنہیں مظہر شاہ اپنے تھیلے میں منتقل کر کے اپنے گھر لے جاتا۔
یہ سوچ سوچ کر میرا دماغ آدھا گھِس گیا کہ یہ چیزیں میری دراز میں آتی کہاں سے ہیں۔ ابھی اس معمے کو چلتے چلتے ہفتہ دس دن ہی ہوئے تھے کہ ایک روز نماز ظہر کے دوران ہی کینٹین سے شور کی آواز سنائی دی۔ نماز کے بعد ہم جلدی سے جائے وقوعہ پر پہنچے۔ میری دراز سے برآمد ہونے والے بسکٹوں، ٹافیوں، لکس صابن کی ٹکیوں وغیرہ کا معمہ حل ہو چکا تھا۔ مظہر شاہ موقع پر پکڑا گیا تھا۔ ہوتا یوں تھا کہ جونہی کینٹین کا مالک اگلی صف میں نماز پڑھ رہا ہوتا۔ مظہر شاہ پیچھے سے کھسک کر کینٹین پہنچ جاتا، جو ہاتھ لگتا اسے بڑی تیزی سے لا کر میری دراز میں رکھ دیتا۔ جہاں کسی کو شک ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ تو برا ہو محلے کی تندور والی مائی کا۔ اس نے مظہر شاہ کو کینٹین پر جارحانہ کاروائی کرتے دیکھ لیا تھا۔ وہ اس وقت تو کچھ نہ بولی لیکن کینٹین کے مالک کوسب کچھ بتا دیا۔ اس دن بھی وہ نماز پڑھنے کی نیت سے اگلی صف میں کھڑا ضرور ہوا مگر اس انتظار میں رہا کہ مظہر شاہ نماز ادھوری چھوڑ کر باہر نکلے تو اسے پکڑے۔ جونہی جماعت شروع ہوئی مظہر شاہ تیزی سے نکلا۔ کینٹین کا مالک اسی تاک میں تھا۔ وہ بھی ننگے مگر دبے پاؤں اس کے پیچھے نکلا۔ جونہی مظہر شاہ نے بسکٹوں والے خانے میں ہاتھ ڈالا، کینٹین کے مالک نے وہیں پکڑ لیا۔ پھر اس کے بعد جو ہوا اس پر، مظہر شاہ اپنی تھوڑی سی بھی بے عزتی محسوس کرتا تو نوکری چھوڑ کر بھاگ جاتا۔ مگر قربان جائیں اس کے حوصلے اور قوت برداشت پر۔ کیونکہ ایک سال کے اندر وہ بھی پکا نائب قاصد بن چکا تھا۔
دوسرے دن چشم فلک کے ساتھ ساتھ اردگرد کے لوگوں نے بھی دیکھا کہ مظہر شاہ اسی شان بان اور آن کے ساتھ اسی کینٹین سے چائے لے کر آ رہا تھا۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ بعد میں پتہ چلا اس نے کینٹین والے سے ’’پلی بارگین‘‘ کے تحت سارے معاملات سلجھا لئے ہیں۔
(سہ ماہی ارمغان ابتسام۔ ستمبر۔ دسمبر 2018)