"کیا بات ہے یہاں تو گاہک بھی دن دہاڑے چلے آ رہے ہیں ۔۔۔۔۔!"
عباس کی بکواس پر اس وقت کسی نے توجہ نہیں دی تھی اگر دے دی ہوتی تو یقیناً عباس سلامت نہ کھڑا ہوتا ۔۔۔۔۔
"تم ۔۔۔۔۔ تم فرخندہ کے داماد ہو نہ ۔۔۔۔۔؟"
شبنم بیگم کو فوراً یاد آیا تھا ۔۔۔۔
میشا کی وہ قیمتی بری ان کے ذہن سے نکلتی ہی نہ تھی ۔۔۔۔ پھر پارس کی بظاہری شخصیت بھی ایسی تھی کی کئی دل جل کر خاک ہوئے تھے ۔۔۔ شبنم بیگم کا دل بھی ان ہی دلوں میں شامل تھا ۔۔۔۔۔۔۔!! ان کی اپنی بھی جوان بیٹی تھی آخر ۔۔۔۔۔!
"داماد" لفظ سن کر عباس چونک گیا جبکہ پارس گردن کھجا کر کچھ گڑبڑا گیا ۔۔۔۔۔۔
اس دوران ساشہ بھی گویا نیند سے جاگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔!!
"میشا ۔۔۔۔۔؟ میشا آئی ہے نہ پارس بھائی ۔۔۔؟ کہاں ہے وہ ۔۔۔۔؟ کہاں تھے آپ لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
میشا ۔۔۔۔۔۔؟ میشا ۔۔۔۔۔؟"
ساشہ دوڑ کر دروازے تک بھاگی تھی ۔۔۔ اس کی رفتار دیکھ کر پارس خود ہی جلدی سے سائڈ ہو گیا ۔۔
اور باہر سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا منان جو قدرے پریشان نظروں سے اس گھر کا جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔ دروازے سے جھانکنے والی ساشہ کو دیکھ کر ایک پل کو ساکت ہونے کے بعد جھٹکے سے گھوم گیا ۔۔۔۔۔ اس کے وجیہہ چہرے پر پسینے کے قطرے نمایاں تھے ۔۔۔!
"تو یہ اب بھی یہاں ہے ۔۔۔۔!"
منان کی بڑبڑاہٹ سرگوشیانہ تھی ۔۔۔۔
کہاں ہے میشا پارس بھائی ۔۔۔۔؟ کہاں چلے گئے تھے آپ لوگ ۔۔۔۔؟؟
ہماری ماں مر گئی ۔۔۔۔ ہماری زندگی عذاب ہو کر رہ گئی ۔۔۔۔۔ کہاں لے گئے تھے آپ میری بہن کو ۔۔۔۔ کیسی کیسی باتیں کر رہے ہیں لوگ ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں چلے گئے تھے آپ لوگ ؟؟؟؟"
پارس تو کچھ کہنے کے قابل نہیں تھا ۔۔۔۔۔ وہ بہت سے بہانے سوچ کر آیا مگر اب اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔
وہ بس گلا کھنکارتا ۔۔۔ کچھ کہنے کی کوشش کرتا ۔۔ اور پھر ناکام ہو کر گردن سہلانے لگتا ۔۔۔۔۔
کافی دیر تک صحن میں بس ساشہ کی ہی آوازیں گونجتی رہیں مگر اچانک ہی وہ شدید ذہنی ہیجان کا شکار ہوتی زمین پر گرتی چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔ شبنم بیگم اور وریشہ نے آگے بڑھ کر اسے سنبھالا تھا ۔۔۔۔
یہ سب دیکھ کر پارس اور حواس باختہ سا ہو گیا ۔۔۔۔۔
جبکہ عباس نے بغور پارس کا بھرپور وجود دیکھا اور اس وقت پتلی گلی سے نکلنا ہی مناسب سمجھا ۔۔۔
"پانی لائو بھئی ۔۔۔ کیا کھڑے گھورے جا رہے ہو سب ۔۔؟"
شبنم بیگم کے گرجنے پر تینوں بھائی ایک ساتھ بھاگے تھے پانی لانے ۔۔۔۔
پانی بھی چھڑکہ گال بھی تھپتھپائے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اب کے بار وہ پارس پر گرجی تھیں ۔۔۔
"او میاں کھڑے کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو ۔۔۔۔؟ کوئی گاڑی ہے تو اٹھا کر اسے وہاں ڈالو ۔۔۔۔ نہیں تو جائو کوئی رکشہ ٹیکسی کروائو ۔۔۔!"
سر ہلا کر ہونق سا پارس پہلے باہر بھاگا ۔۔ منان کو گاڑی اسٹارٹ کرنے کا کہا اور واپس آ کر کچھ جھجھک کر ساشہ کو اٹھا لیا ۔۔۔۔۔
"وریشہ تو ان کے ساتھ جا میں یہاں ہوں ۔۔۔۔۔۔!!"
خدا جانے شبنم بیگم کو اچانک ہی برسوں کے ساتھ کا احساس ہوا تھا یا پارس کی صورت میں اپنا کرایہ نظر آ گیا تھا ۔۔۔۔
پل میں وہ مدبر سی بڑی بزرگ بن گئی تھیں جو ایسی صورت حال میں ذہنی طور پر سب سے فعال ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔
****************
پارس کی پریشانی الگ تھی ورنہ وہ بار بار جیکٹ کے کالرز چڑھاتے نظریں چراتے پسینہ پسینہ ہوتے منان کو دیکھ کر چونک ضرور جاتا ۔۔۔۔
"کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی ۔۔۔؟"
منان بھینچی آواز میں چلایا تھا ۔۔۔۔
پارس نے گھور کر اسے دیکھا تھا مگر کچھ کہا نہیں تھا ۔۔۔۔
اس کی اپنی حالت عجیب تھی ۔۔
ساشہ ہوش میں آ گئی تو پھر وہ کیا کرے گا ۔۔۔۔؟
کیا جواب دے گا اسے میشا کے بارے میں ۔۔۔۔۔؟
ساشہ کو ڈرپ لگائی گئی تھی ۔۔۔۔
صرف کمزوری اور ذہنی پریشانی کی وجہ سے بیہوش ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔!!
"انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔!"
یہ ڈاکٹر نے کہا تھا ۔۔۔۔
"تو کیا وہ خوش نہیں ہے ۔۔۔۔؟
کب سے ۔۔۔؟
جب میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟"
منان کو سوچوں کے گھیرے سے پارس کی زور دار چپت نے نکالا تھا ۔۔۔۔
"کیا یے۔۔؟"
"تجھے کیا ہے ۔۔۔؟ پراسرار سا لگ رہا ہے ۔۔"
پارس کی بات پر منان کا رنگ اڑ گیا ۔۔۔۔۔!!
"کچھ۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ۔۔۔!!!"
خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہتا منان اسے اور بھی چونکا گیا تھا ۔۔۔۔ ماتھے پر تیوریاں لیئے اس سے پہلے کے وہ مزید تفتیش کرتا پیچھے سے آتی "منان بھائی" کی پکار نے دونوں کو اچھلنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔
وریشہ آنکھوں میں بے پناہ حیرت اور نا گواری لیئے منان کو گھور رہی تھی ۔۔۔۔ پھر رخ پارس کی طرف کیا ۔۔۔۔
"یہ آپ کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔؟"
پارس بیچارہ میشا کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوالات سوچ سوچ کر گھبرایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔
توقح کے بلکل ہی خلاف منان کے بارے میں سوال پوچھے جانے پر الجھ کر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔
اس وقت اپنی ہی شکل پر بڑا بڑا "میں پاگل ہوں" لکھا اسے خود محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔
اس نے سوالیا نظریں منان کی طرف اٹھائیں ۔۔
منان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ابھی کے ابھی بھاگ نکلنے کی التجا کی تو پارس نے آنکھوں گھما کر وریشہ کو ساشہ کا خیال رکھنے کا کہا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا منان کی سنگت میں وریشہ کی پکاریں ان سنی کرتا ہاسپٹل سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔
بل وہ پے کر چکا تھا ۔۔۔
میشا اپنے گھر نہیں پہنچی اس سوال کا جواب بھی مل گیا تھا ۔۔۔۔۔
سو اب وہاں رکنا فضول تھا ۔۔۔۔۔!!!
****************
بالوں کو ٹاول سے خشک کرتے ہوئے میشا کی آنکھیں کسی بھی جزبے سے بے نیاز تھیں ۔۔۔۔
اس کی خوش قسمتی تھی کہ ربانی کے دونوں گارڈز میں سے ایک اس کے اسکول کا سیکورٹی گارڈ بھی رہ چکا تھا جس پر ایک جھوٹا الزام لگا کر نا کہ صرف بے عزت کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔
بلکہ جاب سے بھی فارغ کر دیا گیا تھا ۔۔
میشا کو جانے کیوں یقین نہیں آیا تھا ۔۔ تھوڑی بہت کوشش کے بعد وہ حقیقت سامنے لے آئی کہ وہ لڑکے اسکول کی دیواریں پھلانگ کر باہر جاتے ہیں جنہیں روکنے پر ان ممی ڈیڈی بچوں نے گارڈ پر تشدد کا الزام لگا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
میشا کا ایک بار کا کیا گیا احسان آج لوٹ کر اس کی عزت کا محافظ بن گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ بھی آنکھیں بند کر کے ایک شخص کو ذلیل ہوتا دیکھ لیتی تو آج نا جانے کس حال میں ہوتی ۔۔۔۔۔
گارڈ نے پوری کوشش کی تھی ایسی اداکاری کی کہ کسی کو شک نہ ہو اس کی رحم دلی پر ۔۔۔۔
مگر میشا کو اس کے انداز کا بہت اچھی طرح احساس ہو رہا تھا ۔۔
اس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ جس طرح اپنے ہی ساتھی پر الٹ کر گر پڑا تھا اور میشا کو ان کی نظروں سے اوجھل ہونے کا موقح ملا تھا ۔۔۔۔۔
یہ سب سوچ کر میشا کے لبوں پر پل بھر کو مسکراہٹ بکھری تھی ۔۔۔۔
اور یہ مسکراہٹ اس کے بے نیازی کے خول پر بہت اثرانداز ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
زرا سی مسکراہٹ کے بعد وہ تولیہ منہ پر رکھے بری طرح رونا شروع کر چکی تھی ۔۔۔۔۔
اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں جب اندر داخل ہوتی اس کی کولیگ اور سہیلی دوڑ کر اس کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔۔۔۔
سینے میں بھینچ کر اس کا سر تھپکتے ہوئے اس کی اپنی آنکھیں بھی اس کے رونے کے انداز پر نم ہو گئی تھیں ۔۔۔۔
وہ بھی تو شریک تھی اس کی شادی میں ۔۔۔۔۔۔
میشا کی چمکتی قسمت نے خوشی کے ساتھ ساتھ لمحہ بھر کے حسد کا بھی شکار کر دیا تھا ۔۔۔۔۔
مگر حقیقت کیا نکلی ۔۔۔؟؟
اتنی تلخ ۔۔۔ !!!
جسے عزت کا محافظ بننا تھا وہی عزت کا سوداگر نکلا ۔۔۔۔۔
"بس ۔۔۔۔ بس میشا ۔۔۔ بس کر جائو نہ ۔۔۔ چپ یار میشا!!"
میشا کو اس کے حوصلہ دینے پر اور رونا آ رہا تھا ۔۔۔ کتنا تو اتراتی پھر رہی تھی وہ ان ہی سب لوگوں کے سامنے ۔۔۔۔۔۔ اپنی اوقات بھولنے کی کچھ سزا تو ملنی تھی اسے ۔۔۔۔۔
"میشا ۔۔۔۔۔!!"
"شمح ۔۔۔ پانی دینا پلیز ۔۔۔۔۔!"
نمکین پانی حلق میں اتار کر وہ بمشکل بولی تھی ۔۔۔۔
اور جب تک شمح پانی لے کر آئی وہ خود کو سنبھال چکی تھی ۔۔۔۔۔
پانی کا گھونٹ گھونٹ اس کے اندر زہر بن کر اتر رہا تھا ۔۔۔۔۔
وہ تباہ کر دینا چاہتی تھی پارس ہمدانی کو ۔۔۔
نفرت ہی نہیں گھن بھی آ رہی تھی اسے اس شخص سے ۔۔۔۔۔۔!!
"اللہ کرے کبھی تم بھی یونہی رئو پارس ۔۔ کبھی یونہی تڑپو ۔۔۔۔۔۔!!!"
گلاس سائڈ پٹخ کر میشا نے بھینچی آواز میں اسے بد دعا دی تھی ۔۔۔۔
*************
"وہ کالج اسٹوڈنٹ تھی ۔۔۔۔۔۔ اس کے سانولے رنگ میں جو جادو تھا وہ میں نے کسی دودھ ملائی سے رنگت والے چہرے میں بھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
مجھ پر ہی نہیں ۔۔۔ چوہدری پر بھی اس کے سانولے رنگ کا جادو چل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔"
****************