"شبنم خالہ آپ کو پتہ تو ہیں ہمارے گھر کے حالات ۔۔۔ خدارا کچھ رحم کیجیئے ۔۔۔ ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
"میں سب پر رحم کرتی پھروں ۔۔۔۔ اور مجھ پر رحم کون کرے گا ؟ بی بی تمہیں بھی میرے حالات کا پتہ ہے ۔۔۔۔۔ میں بھی بیوہ ہوں چار بچوں کا ساتھ ہے ۔۔ مہنگائی اس قدر ہے ۔۔۔ اور آمدن کا زریعہ بس یہ گھر کا کرایہ ہے ۔۔۔۔ میرے حالات ایسے نہیں ہیں کہ میں رحم کھاتی پھروں ۔۔۔ تم مجھ پر رحم کھائو !"
گھر کی مالک مکان بھی اپنی جگہ ٹھیک ہی تھی ۔۔۔ اس کی بھی اپنی مجبوریاں تھیں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ وہ گھر کے باہر چلا چلا کر انہیں ذلیل کر ڈالے اور سارا محلہ وہیں جمح کر لے ۔۔۔۔
گھر کے دروازے پر کھڑی ساشہ کی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں ۔۔۔۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اس طرح بھیڑ میں کھڑی بے عزت ہو رہی تھی ۔۔
"خالہ ۔۔۔۔ خالہ ہمیں بس ایک ہفتے کا وقت دیں ۔۔۔ بس ایک ہفتہ ۔۔!!"
"اور اس ایک ہفتے میں میرے بچے بھوک سے مر جائیں تو ۔۔۔"
خالہ صاحبہ غصیلی ہی نہیں جزباتی بھی معلوم ہوتی تھیں جو ایسی بات کر گئی تھیں ۔۔۔۔
"صرف تین دن کا وقت دے رہی ہوں میں تین دن بعد مجھے کرایہ نہ ملا تو سارا سامان اٹھوا کر باہر پھنکوا دوں گی ۔۔۔ پھر گلا نہ کرنا ہائے خالہ یہ کیا کر دیا ۔۔ بھلے سے پھر رحم رحم کرتی میرے پیر پکڑ لو ۔۔ مجھ سے کوئی امید مت رکھنا رحم وہم کی ۔۔۔!"
انگلی اٹھا کر گھورتے ہوئے چبا چبا کر وارن کرتی وہ ساشہ کا دل لرزا گئی تھیں ۔۔۔
"جی!"
ان کے جانے کے بعد ساشہ نے لمحے کی دیر کیئے بغیر دروازہ بند کر لیا تھا ۔۔۔۔
دروازہ بند کرنے کے بعد وہ کافی دیر تک وہیں کھڑی بے آواز آنسو بہاتی لب کچلتی رہی جب علیشہ کی آواز کانوں میں پڑی تھی ۔۔۔
"ساری مصیبتیں ایک ساتھ نازل ہو گئی ہیں ۔۔۔"
"اب کیا ہو گیا ۔۔۔ ؟"
گہری سانس بھر کر ساشہ نے مدھم سے آواز میں پوچھا تھا ۔۔۔
"جن چار بچوں کو میں ٹیوشن پڑھاتی ہوں ان میں سے دو تو دوسرے شہر شفٹ ہو رہے ہیں ۔۔۔ اب کیا حاصل کر لوں گی میں ۔۔۔۔۔۔۔ کیسے گزارہ ہوگا ساشہ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔!"
علیشہ سچ مچ سہم گئی تھی ۔۔۔
اس کی آنکھوں میں "کیا ہوگا کیسے ہوگا" کا خوف واضح تھا ۔۔
"تم تو ہمت نہ ہارو ۔۔۔ تمہاری وجہ سے تو میری کچھ ہمت بندھی ہے ۔۔۔۔ گھبرائو نہیں ۔۔ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا ۔۔۔ اللہ مالک ہے ۔۔۔۔!"
نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے وہ اپنی چھوٹی بہن اور شائد کہ خود کو بھی حوصلہ دے رہی تھی ۔۔۔
"تم مجھے کل اپنے ساتھ اسکول لے چلنا ۔۔۔ میں کوشش کروں گی وہاں ۔۔ منت کروں گی ان کی ۔۔ شائد کہ جاب دے دیں ۔۔۔!!"
"ابھی تو تم نے انٹر تک نہیں کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ خیر کوشش کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا ۔۔۔! چلیں گے ۔۔۔"
ساشہ اس کے چہرے پر اداسی دیکھ کر حوصلہ افزا انداز میں بولی تھی ۔۔۔۔
*******
منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر وہ جب واش روم سے باہر نکلی اسی وقت پارس بھی باہر سے اندر آیا تھا ۔۔۔ بڑی جلدی میں لگتا تھا ۔۔ داخلی دروازہ بھی بند نہیں کیا تھا ۔۔۔
"چلو !!"
میشا کا نم ہوتا ہاتھ تھام کر وہ مڑا تھا جب میشا نے خوفزدہ انداز میں اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا ۔۔۔
ٹھٹھک کر مڑتا پارس اس کی بڑی بڑی آنکھوں کا خوف دیکھ کر اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا ۔۔۔
میشا کا چہرہ پل بھر میں لٹھے کی طرح سفید پڑ گیا تھا اور اس کے خوفزدہ چہرے کے سفید رنگ کو دیکھ کر پارس کے اپنے چہرے پر سیاہی پھیلنے لگی تھی ۔۔۔
اگلے ہی پل وہ سنبھل کر نرمی سے اس کا ہاتھ دوبارہ تھام چکا تھا ۔۔۔۔۔
"پریشان مت ہو ۔۔۔ اس وقت تو بس جنگل گھمانے لے جا رہا ہوں تمہیں ۔۔۔۔۔۔ آج موسم بہت سہانا ہے ۔۔ ایسے موسم میں ہرے بھرے جنگل کی سیر ایک خوبصورت پارٹنر کے ساتھ بہت مزہ دے گی ۔۔۔۔۔ !"
اس کے ہلکے پھلکے انداز پر بھی میشا کے چہرے پر تذبذب قائم رہا تھا تاہم اس بار اس نے اپنا ہاتھ نہیں چھڑوایا تھا ۔۔۔۔۔
ڈری ڈری سی وہ اس کے ساتھ گھر سے باہر نکلی تھی اور جب کچھ دیر بعد اسے اس بات کا یقین یو گیا کہ پارس اسے چہل قدمی کرنے کے لیئے ہی ساتھ لایا ہے تو وہ بھی مطمئین ہو گئی تھی۔۔۔۔۔
اس بڑی سی سیاہ تتلی پر سے نظریں ہٹا کر اس نے دو قدم آگے چلتے پارس کو دیکھ تھا اور پھر اپنے ہاتھ کو جو اس کے مضبوط ہاتھ میں نرمی سے قید تھا ۔۔۔
یک ٹک اس کو تکتے ہوئے میشا کے ذہن میں کچھ آیا تھا جو وہ اسے مخاطب کر بیٹھی تھی ۔۔۔۔
"پارس"
"ہمم؟؟؟"
"اگر میں ابھی یہاں سے بھاگ جائوں تو ؟"
"تو میں تمہیں شوٹ کر دوں گا اور زرا بھی نہیں پچھتائوں گا !"
"آپ مزاق کر رہے ہیں نہ ؟؟"
میشا کے لہجے میں مان سا جھلکا تھا ۔۔
"میرا اور تمہارا مزاق والا کوئی رشتہ نہیں ہے ۔۔۔۔!"
سرد مہری سے کہ کر وہ اگلے ہی پل قہقہ لگا کر ہنس پڑا تھا ۔۔۔
"مزاق ہی کر رہا ہوں ۔۔ رونے کو کیوں ہو رہی ہو ؟
میں تو بہت گھبرا جائوں گا بھئی ۔۔۔۔ پانچ لاکھ کی بات ہے کوئی مزاق ہیں پانچ لاکھ ؟؟ تمہارا بال بھی بیکا ہوگا تو وہ ربانی میری کھال ادھیڑ دے گا ۔۔۔۔ اب اس طرح کیا گھور رہی ہو ؟؟؟؟"
اور میشا جو جبڑے کسے خود پر ضبط کیئے اس کے وجہہ چہرے کو نفرت سے دیکھ رہی تھی گرنے کے سے انداز میں اس کے سینے سے لگ گئی تھی ۔۔۔۔
اور وہ لمحہ جیسے وہیں رک سا گیا تھا ۔۔۔۔
پارس خود بھی تھم گیا تھا ۔۔ اس کی سانس بھی اٹک گئی تھی ۔۔ اور دل کی دھڑکن بھی ساکت سی لگی تھی ۔۔۔۔۔۔
میشا کے بازو اب بھی اس کے اپنے سین پر بندھے تھے ۔۔ وہ اب بھی اس سے ایک مخصوص فاصلے پر تھی مگر چہرہ پارس کے ساکن دل پر تھا ۔۔۔۔۔
پیشانی پر چمکتی ننھی ننھی بوندوں کو ہاتھ سے صاف کر کے پارس نے اس کے گرد بازئوں کا حلق بنا کر اسے اپنے قریب کر لیا تھا ۔۔۔۔۔ اس سے قبل کے میشا کسی خوش فہمی کا شکار ہوتی وہ خود پر مکمل کنٹرول کر کے لاپروہ سے انداز میں بولا تھا ۔۔۔۔
"تم بہت مختلف سی ہو ۔۔۔ میں تمہارے جانے کے بعد بہت یاد کروں گا تمہیں ۔۔۔۔۔!! تمہارے ساتھ گزارے لمحات میری زندگی کے یادگار لمحات میں سے ہیں ڈیئر میشا ۔۔۔۔۔!!!"
"آپ نہیں کر پائیں گے ۔۔۔۔۔"
میشا کی آواز بھاری ہو گئی تھی ۔۔۔
"کیا نہیں کر پائوں گا ؟"
وہ انجان بنا ۔۔
"مجھے خود سے دور !!"
"اور اگر کر دیا تو ۔۔ ؟؟"
"تو ساری زندگی پچھتاتے رہیں گے ۔۔۔۔"
وہ پریقین تھی اور اس کا یہ یقین پارس کو پریشان کر رہا تھا ۔۔۔۔
"میں نے زندگی میں کبھی کچھ ایسا نہیں کیا جس پر بعد میں پچھتانا پڑے ۔۔۔"
پارس نے حتی المقدور کوشش کی تھی اس کی آس توڑنے کی ۔۔۔
"مگر اس بار ۔۔۔ شائد آپ ایسا کچھ کر ڈالیں ۔۔۔!!"
"کر ہی ڈالوں گا !!!"
پارس کے جتاتے لہجے پر میشا سر نفی میں ہلا کر رہ گئی تھی ۔۔۔
******
علیشہ کی معمولی تعلیم کی وجہ سے اسے بھی ایک چھوٹی سی کلاس کی ذمہ داری دے دی گئی تھی ۔۔۔۔ تنخواہ بس اونٹھ کے منہ میں زیرے کے برابر تھی مگر کچھ نہ ہونے سے پھر بھی بہتر تھا ۔۔۔۔
جاب ملنے کی اکلوتی وجہ اس کا اعتماد تھا !
جس نے ہیڈ مسٹریس کو متاثر کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور ساشہ کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔ اعتماد واقعی کتنی بڑی نعمت ہے ۔۔۔ ورنہ وہ انٹرویو کے وقت علیشہ سے زیادہ گھبرا رہی تھی ۔۔۔
شکر تھا اس کا اعتماد بچوں کے سامنے بحال رہتا تھا اور اپنی نرم طبیعت کے باعث وہ بچوں کی عزیز ترین ٹیچر بن گئی تھی ورنہ وہ جانتی تھی جتنی وہ بے اعتماد ہے ہیڈ مسٹریس اسے نکال بھی سکتی تھیں ۔۔۔ !
اس کے پاس نہ خاص تعلیم تھی نہ اعتماد ۔۔ اسے صرف میشا کے سپورٹ کی وجہ سے لیا گیا تھا ۔۔۔۔
"ہاہ ۔۔۔۔۔ !!!
میشا میری بہن ۔۔ پتہ نہیں کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے ؟ پولیس کوئی رابطہ کیوں نہیں کرتی ۔۔۔۔۔!
کیا اب تک کچھ نہیں معلوم ہو سکا پولیس کو ؟؟
یا اللہ میری بہن کی حفاظت فرمانا ۔۔۔۔۔۔
مم۔۔۔۔۔۔ مجھے خود ہی پولیس سے رابطہ کر لینا چاہیے ۔۔۔!"
ذہن میں سوچوں کا جال بچھائے وہ یکدم ہی ایک پختہ ارادہ کر چکی تھی ۔۔۔ یوں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا جا سکتا تھا ۔۔۔۔
"ہاں میں خود ہی پولیس سے رابطہ کروں گی اب ۔۔۔۔ ہاں میں کر لوں گی ۔۔۔ میں کر ہی لوں گی !"
دل ہی دل میں خود کو حوصلہ دیتے ہوئے وہ کافی پرسکون ہو چکی تھی ۔۔۔۔
********
چائے کا بھرا ہوا کپ لبوں سے لگائے وہ کل ہی کھلنے والی کھڑکی میں کھڑی دلچسپی سے درخت کی شاخ پر بنے چڑیا کے گھونسلے کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جب اسے دور سے پارس آتا ہوا نظر آیا تھا ۔۔۔۔
یہ دوسری بار تھا کہ پارس کافی زیادہ وقت کے لیئے اسے گھر میں تنہا چھوڑ گیا تھا ۔۔۔ اور خوش گوار حیرانی تو اسے اس بات پر ہوئی تھی کہ پارس نے کھڑکی بند کرنی بھی ضروری نہیں سمجھی تھی ۔۔۔۔!!
"تم مجھ پر اعتماد کرنے لگے ہو ۔۔۔۔۔ محبت بھی کرنے لگو گے ۔۔۔ پھر ہم میرے گھر جائیں گے ۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ! بس کچھ وقت اور ۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ دل ہی دل میں گویا گنگنائی تھی ۔۔۔ پرسکون زندگی ۔۔ ہیپی اینڈنگ کا تصور ہی اسے اندر تک شاد کر گیا تھا ۔۔۔!
پارس اب گھر کے قریب پہنچ گیا تھا ۔۔ سر اٹھا کر اس نے بس ایک نظر کھڑکی میں کھڑی میشا پر ڈالی تھی اور اس کی یہ ایک نظر میشا کے دل کی دھڑکن بڑھا گئی تھی ۔۔۔
ناجانے کیا تھا اس نظر میں کہ میشا کے اندر کی ساری خوش گواری اڑن چھو ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
چہرے پر الجھنوں کا جال بچھائے اس نے داخلی دروازے کے کنڈی کھلنے کی کریہہ آواز سنی تھی ۔۔۔۔
لب بھینچ کر اس نے پارس کو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر اپنے قریب آتا دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
وہ آتے آتے اتنا قریب آ گیا تھا کہ اس کی طویل سانس جس میں سگرٹ کی بو بھی شامل تھی میشا نے اپنے جلتے چہرے پر محسوس کی تھی ۔۔۔۔!
دونوں ہاتھ اس کے دائیں بائیں کھڑکی پر ٹکائے وہ کتنی ہی دیر تک میشا کے جھکے چہرے پر لمبی گھنی پلکوں کو لرزتے دیکھتا رہا تھا ۔۔ پھر کس قدر ناگواری لہجے میں سمو کر بولا تھا ۔۔۔۔
"کھڑکی کھلی چھوڑی تھی ۔۔۔ بھاگ نہیں سکتی تھیں ۔۔۔۔ ؟؟"
میشا اس عجیب بات پر حیران رہ گئی تھی ۔۔۔ جب ہی سر ٹھا کر نا سمجھی سے پارس کی گرے آنکھوں میں دیکھا تھا جن میں سرد مہری تھی ۔۔۔۔
"ایک موقع تھا تمہارے پاس ۔۔۔ فائدہ اٹھاتیں اور بھاگ جاتیں بیوقوف !!
یہ حقیقی زندگی ہے ۔۔ کوئی فلم نہیں کہ میں تمہاری محبت میں گرفتار ہو کر ہر جرم سے توبہ کر کے تمہاری زلفوں کا اسیر ہو کر رہ جائوں گا ۔۔۔۔۔۔!!
ایک موقع دیا تھا تمہیں قسمت نے اور شائد میں نے بھی !
تم نے فائدہ نہیں اٹھایا ۔۔۔۔ اب جو بھی ہو اس پر مجھ سے گلہ نہیں کرنا !"
یکدم پیچھے ہو کر پارس نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا جو مچل کر اس نے پھر سے چھڑوا لیا تھا ۔۔۔۔۔
"کہاں لے جا رہے ہیں آپ مجھے ؟"
"تمہاری امیدوں کی قبر پر ۔۔!"
"میں کہیں نہیں جائوں گی کبھی نہیں جائوں گی سنا آپ نے۔۔۔۔"
حلق کے بل چیخ کر کہتے ہوئے میشا کمرے میں بھاگ گئی تھی اور پارس بھی اس خدشے میں گھرا کہ کہیں وہ کمرے کا دروازہ اندر سے بند نہ کرلے ۔۔۔ اس کے پیچھے بھاگا تھا مگر میشا نے دروازہ بند نہیں کیا تھا ۔۔۔۔
دھچکا اتنا شدید تھا کہ اس وقت اس کا ذہن کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر ہو رہا تھا ۔۔۔ وہ کمرے میں رکھی چیزیں اٹھا کر پھینک کر رہی تھی اور چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی ۔۔۔۔
"آپ میرا بھروسہ نہیں توڑ سکتے ۔۔۔۔ کتنی دعائیں کی ہیں میں نے اللہ سے ۔۔۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ میں نے کبھی نا امیدی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی ۔۔۔ پھر ایسا کیسے ہو تا ہے ؟؟
اللہ انسان کو وہی دیتا یے نہ جس کی انسان اللہ سے امید کرتا ہے پھر کیوں ؟؟؟
میں آپ کو قتل کر دوں گی چھوڑیں مجھے ۔۔۔۔۔۔چھوڑیں !!"
پارس ان سنی کیئے اسے زبردستی کھینچ کر کمرے سے باہر لے آیا تھا ۔۔۔
"چھوڑیں مجھے ۔۔۔ پلیز چھوڑیں ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں رہی اب کوئی امید آپ سے ۔۔ ایک موقح اور دیں میں اس بار بھاگ جائوں گی ۔۔۔ موقع نہ دیں اپنی گن ہی دے دیں میں خود کو ختم کر لوں گی ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔ چھوڑیں مجھے پارس ۔۔۔ اب نہیں رہی نہ کوئی امید میرے اندر ۔۔۔۔۔۔ پلیز لیو می ۔۔۔۔۔ اس بار میں چلی جائوں گی ۔۔۔۔۔"
وہ نیچے جانے والی سیڑھیوں سے اترنے سے انکاری تھی ۔۔ دوسرے ہاتھ سے دروازے کو سختی سے پکڑے وہ بہت تکلیف بھی محسوا کر رہی تھی مگر ۔۔۔
اب سب کچھ اسی کے ہاتھ میں تھا ۔۔۔۔ جو کرنا تھا جیسے کرنا تھا اسے خود ہی کرنا تھا ۔۔۔!!!
ساری خوش گمانیوں نے دم توڑ دیا تھا ۔۔۔۔۔
وہ خود کو بلکل خالی محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
پارس نے جھٹکے سے اسے اپنے کاندھے پر لاد لیا تھا ۔۔۔۔
نیچے کا حصہ جو بند ہی رہتا تھا وہاں جیپ موجود تھی جس پر میشا کو زبردستی بٹھا کر جیپ کے ہیچھے ہی پڑی رسی سے اسے باندھ دیا تھا ۔۔۔۔۔
جو اس کی حالت تھی اسے دیکھ کر پارس کو یقین تھا وہ چلتی جیپ سے چھلانگ لگانے میں لمحہ بھر کو بھی نہیں ہچکچائے گی ۔۔۔۔!
جنگل سے نکل کر جیپ نے بمشکل پندرہ منٹ کا سفر کیا تھا اور پھر وہ ربانی کی عالیشان حویلی کے سامنے موجود تھے ۔۔۔۔
حویلی دیکھ کر چیختی چلاتی میشا کے لب ساکت ہوئے تھے ۔۔۔۔ خوف اس کے چہرے پر واضح تھا ۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ جس سیٹ پر بیٹھی تھی اس ہی سیٹ میں دھنس کر غائب ہو جائے ۔۔۔۔۔
رسی کھولتے ہوئے پارس نے ایک نظر اس کے سفید چہرے پر ڈالی تھی ۔۔ اگلے ہی پل وہ نظریں چرا گیا تھا ۔۔۔۔
"آئو ۔۔۔"
"نو ۔۔ نیور ۔۔۔۔!!"
میشا جو بلکل نا امید اور بے جان سی ہو گئی تھی پوری شدت سے چلائی تھی ۔۔۔
ایک ہٹا کٹا سا شخص حویلی کا گیٹ کھول کر باہر نکلا تھا اور پارس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی آگے بڑھ کر میشا کے چلانے پر اسے پوری قوت سے تھپڑ رسید کر دیا تھا ۔۔۔۔
میشا تو میشا ۔۔ پارس بھی اپنی جگہ سکتے میں چلا گیا تھا ۔۔۔
"ہ۔۔۔۔ ہاتھ مت اٹھائو اس پر ۔۔۔"
وہ بمشکل بولا تھا مگر وہ شخص پارس کی بات پر توجہ دیئے بغیر میشا کو بے زبان جانور کی طرح کھینچتا ہوا گیٹ کے اندر لے جانے۔ لگا تھا ۔۔۔۔
بلکل دم توڑتی امید کے باوجود میشا نے آنکھوں میں ایک آس لیئے پھر پارس کو دیکھا تھا اور اس کے چہرہ موڑ لینے پر سسک کر دل کی گہرائیوں سے خدا کو پکارا تھا ۔۔۔۔۔
*********