"ٹھک ٹھک ٹھک"
اماں نے گیٹ پر دستک دی تھی جبکہ ان کے ساتھ موجود ان کے چھوٹے بھائی نے گھنٹی بجائی تھی ۔۔۔
"جی کہیں ؟"
واچ مین نے گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھول کر کوفت زدہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔
"جی ۔۔ میں پارس ہمدانی کی ساس ہوں !"
اماں کے لہجے میں مان ہی مان تھا ۔۔ اور ہلکا سا غرور بھی ۔۔۔
"کون پارس ہمدانی ۔۔ ؟"
ان کے آنے سے واچ مین کی نیند میں خلل پڑا تھا جو وہ سخت بدمزاج ہو رہا تھا ۔۔
جواباً وہ دونوں بہن بھائی چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔۔
"ارے اماں بی ٹائم ضائح نہیں کرو میرا ۔۔۔۔"
خرانٹ سا چوکیدار دروازہ واپس بند کرنے لگا تھا جب اماں جلدی سے بولی تھیں ۔۔۔
"پارس ہمدانی ۔۔۔ اس گھر کا مالک ۔۔!!"
"اس گھر کا مالک صغیر وڑائچ ہے ۔۔۔۔ کون پارس ہمدانی؟ میں تو کسی پارس ہمدانی کو نہیں جانتا ۔۔۔
پرسوں ہی گائوں سے آیا ہوں ۔۔!"
اماں نے بے ساختہ ہی اپنے بھائی کا سہارا لیا تھا ۔۔۔
"ارے بھائی اس گھر کا مالک پارس ہمدانی ہے ۔۔۔ ہم ایک مہینہ پہلے ہی اس گھر میں آئے تھے ۔۔۔ ہماری بیٹی رخصت ہو کر کل ہی یہاں آئی ہے ۔۔۔"
ساتھ لائے ناشتے کا شاپر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل کرتے ہوئے اس بار شفیق ماموں گویا ہوئے تھے ۔۔۔
کچھ غلط ہو جانے کے احساس سے ان کی پیشانی پر ننھی منی بوندیں نمودار ہوئی تھی ۔۔
"دو بلاک چھوڑ کر اس گھر کا اصل مالک رہتا ہے ۔۔۔ آپ لوگ ان سے بات کر لو ۔۔ مجھے تو کچھ نہیں معلوم !!"
ان بہن بھائیوں کے انداز میں کچھ تو ایسا تھا کہ واچ مین کا لہجہ اپنے آپ ہی نرم ہو گیا تھا ۔۔۔
"ک۔۔۔ کہاں ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہے اصل مالک کا گھر ؟؟؟
بھائی مہربانی کرو ۔۔ ہمیں لے چلو اس کے گھر تک !"
اماں کا لہجہ ایسا تھا کہ بس ہاتھ جوڑنے کی کسر رہ گئی تھی
دو پل کو سوچ کر واچ مین گردن کھجاتا ہوا راضی ہو گیا تھا ۔۔۔۔
*********
"یہ گھر ہے"!
عالیشان سے بنگلے کے آگے انہیں چھوڑ کر وہ واپس ہو لیا تھا جبکہ اماں اور شفیق ماموں کچھ پل کشمکش کا شکار رہنے کے بعد دستک دینے کو آگے بڑھے تھے ۔۔۔
"یس ؟"
پہلی ہی دستک پر دروازہ کھول لیا گیا تھا ۔۔۔ وہ سوٹڈ بوٹڈ سا شخص شائد گیٹ کے قریب ہی تھا ۔۔!
"وہ جی ہمیں پارس ہمدانی سے ملنا ہے ۔۔۔!"
اماں تو بس دل ہی دل میں دعائوں جت گئی تھیں ۔۔۔ شفیق ماموں نے ہی لب کشائی کی تھی ۔۔
"کون پارس ہمد۔۔۔۔۔۔
اوہ پارس ہمدانی ! انہوں نے میرا دوسرا گھر پانچ مہینوں کے لیئے کرائے پر لیا تھا ۔۔ دو ہفتے پہلے ہی وہ لوگ گھر چھوڑ گئے ہیں ۔۔۔!!"
الفاظ تھے یا دھماکہ !
کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگی تھی ۔۔۔ جبکہ دماغ بلکل کورے ہو چکے تھے ۔۔
کچھ غلط ہو جانے کا ۔۔۔ کچھ ، یا شائد سب کچھ لٹ جانے کا احساس سانس روکنے لگا تھا ۔۔۔۔
شفیق ماموں مزید بھی کچھ پوچھنا چاہ رہے تھے مگر اماں جو دل پر ہاتھ رکھ کر گرتی چلی گئیں تو شفیق ماموں اور وہ سوٹڈ بوٹڈ شخص بھی حواس باختہ سے ہو کر رہ گئے تھے ۔۔!
********
وہ بیدار ہو چکی تھی مگر آنکھوں میں آنسئوں نے گند مچا رکھا تھا ۔۔۔۔۔
بھاری بھاری سانسیں لیتے ہوئے اس نے آنکھوں کو مسلنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔
"اماں !!!"
خشک ہونٹوں نے بے آواز صدا لگائی تھی ۔۔۔
آنکھوں سے گدلاہٹ صاف ہوئی تو وہ کتنی ہی دیر تک چت پڑی چھت کو گھورتی رہی تھی ۔۔۔۔۔ اندازہ کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔ جو کچھ ذہن میں آ رہا تھا وہ بھیانک خواب تھا یا حقیقت ۔۔
آنکھ کے کنارے بہتے ہوئے آنسو کو صاف کرتے ہوئے اس کی نظریں اپنی زخمی کلائیوں پر اور ٹوٹی پھوٹی سرخ چوڑیوں پر پڑی تھیں اور اگلے ہی پل وہ وحشت زدہ سی ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔۔
"تو وہ سب حقیقت تھی ۔۔۔ یا اللہ میں کیا کروں ؟
میں ہوں کہاں اس وقت !!"
اسے یاد آیا بیہوشی میں اسے کسی کی پناہوں کا احساس تو ہوا تھا مگر کس کی ؟؟؟
بے رنگ در و دیوار اور کسی بھی قسم کے سامان سے خالی اس ایک روشن دان والے کمرے کو دیکھتے ہوئے وہ کچھ پر سکون بھی ہوئی تھی کہ کم سے کم وہ اس محل میں نہیں تھی ۔۔
جہاں ایک دیو اس کے شکار کو موجود تھا !
باتوں کی آواز پر وہ چوکننا سی ہو کر بند دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔
ہینڈل پر ہاتھ رکھا تو کچھ حیرت ہوئی تھی ۔۔۔ دروازہ بند جو نہیں تھا ۔۔!!
"پارس !!!"
ایک بار پھر وہ بے آواز پکار اٹھی تھی ۔۔۔۔۔
دل خوش گمانی کا شکار ہونے لگا تھا ۔۔
"پارس ویسے نہیں ہو سکتے ۔۔۔
یہ مجھے بچا کر لائے ہیں۔۔
اور میں نے انہیں کتنا غلط سمجھ لیا ۔۔۔۔ کتنی بد دعائیں دے ڈالی ۔۔ بات کچھ اور ہوگی ۔۔۔۔۔۔!"
پر سکون ہوتے اعصاب کے ساتھ وہ بھیگی آنکھوں کح ساتھ مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکلنے لگی تھی جب کوفت زدہ سا پارس دوسری طرف کی سن کر جھنجلا کر بولا تھا ۔۔۔
"ہزار دفع تو کہا ہے ۔۔۔
جیسی ہے ویسی کی ویسی مل جائے گی ۔۔ پانچ لاکھ وصولے ہیں میں نے اس کے ۔۔۔ وعدہ خلافی نہ میں نے کبھی کی ہے ۔۔۔ اور نہ کروں گا !"
وہ کچھ پل کو رکا تھا ۔۔ دوسری طرف کی سنی تھی ، پھر اسی اکتاہٹ بھرے انداز میں پھر گویا ہوا ۔۔۔۔
"ربانی صاحب آپ بس پولیس کا کچھ کیجیئے ۔۔۔ میشا میری ذمہ داری ہے ۔۔!
ایک بال کے بھی نقصان کے بغیر وہ آپ کو مل جائے گی ۔۔
آپ کی بیوی اگر اچانک ہی آ دھمکی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں ؟
مجھ پر بھروسہ نہیں ہے تو میں اسے آپ کے کسی اور ریسٹ ہائوس یا فلیٹ پہچا دوں ؟"
دوسری طرف ربانی کے چھکے چھوٹ گئے تھے اس بات پر ۔۔
"نہیں نہیں ۔۔۔ ان دنوں میرا کوئی گھر خالی نہیں ہے ۔۔۔ بس احتیاط کرنا تم ۔۔
پولیس کی ٹینشن مت لو ۔۔۔ وہ میں سنبھال لوں گا ۔۔ اب بار بار فون مت کرنا یہ شکی عورت جان عذاب کر دے گی میری ۔۔۔ اس کے جانے کے بعد رابطہ کروں گا !"
"خدا حا۔۔۔"
پارس کا خدا حافظ پورا ہونے سے پہلے ہی ربانی کال کاٹ چکا تھا ۔۔۔
ایک موٹی سی گالی بے ساختہ ہی پارس کے منہ سے نکلی تھی ۔۔
اگلے ہی پل وہ کسی احساس سے چونک کر مڑا تھا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی ۔!
میشا قریب ہی رکھی موٹی سی لکڑی اٹھا کر اس پر ٹوٹ پڑی تھی ۔۔۔
"ہے بچ !
نان سینس !
پاگل لڑکی !
ابے دور ہٹ !!!"
دو تین ڈنڈے کھا کر پارس نے لکڑی اس سے چھین لی تھی اور ساتھ ہی زور دار دھکا بھی اسے دے ڈالا تھا ۔۔
دیوار سے لگ کر گری وہ اگلے ہی لمحے پھر اس پر پل پڑی تھی ۔۔
اسے مکے تھپڑ رسید کرتے ہوئے میشا کو خود کتنی جسمانی تکلیف سہنی پڑ رہی تھی وہ اس بات سے اس وقت بلکل بے پروہ تھی ۔۔۔۔
اس بار پارس نے اسے نہیں روکا تھا وہ خود ہی کچھ دیر بعد مزید تکلیف برداشت نہیں کر سکی تھی اور دونوں ہاتھوں سے اپنے زخمی بازو سہلاتے ہوئے بیٹھتی چلی گئی تھی ۔۔۔
پارس کو بلکل نظر انداز کیئے وہ کبھی اپنے زخمی پیرو کو سہلا رہی تھی تو کبھی بازئوں کو ۔۔۔
بیچ بیچ میں وہ آنکھوں سے سیلابی ریلے کی صورت نکلتے آنسئوں کو بھی صاف کر لیتی تھی ۔۔
اس کے انداز میں ایک جنون جھلک رہا تھا جس سے پارس کو وحشت ہونے لگی تھی ۔۔۔
کچھ پل اسے تکنے کے بعد وہ فرسٹ ایڈ باکس اٹھا لایا تھا جسے میشا نے جھپٹ کر اس سے لیا تھا ۔۔
اپنی الٹی سیدھی مرہم پٹی کرنے کے بعد اس نے ایک گہری سانس بھری تھی اور پھر یک ٹک خود کو تکتے پارس کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔۔۔
"کیوں کیا آپ نے ایسا ؟"
"کیا کیا ہے میں نے ؟"
انجان بنتا پارس میشا کا دل اور جلا گیا تھا ۔۔۔
"میرا قصور کیا تھا ؟"
وہ دہاڑی تھی جبکہ پارس کان میں انگلی گھماتے ہوئے کمینہ سا مسکرایا تھا ۔۔۔۔
"خوبصورتی تمہاری ۔۔۔۔ یہ ایکسٹرا بیوٹی ۔۔ تمہارا قصور ہے ۔۔!"
شان بے نیازی سے کہ کر وہ دونوں ٹانگیں پسار کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔
اس کے پر سکون انداز پر کتنی ہی دیر تک میشا کچھ کہہ نہیں پائی تھی ۔۔
بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
"ہم۔۔۔۔۔ ہمارا ۔۔۔ ہمارا ۔۔۔۔۔۔ نکاح تو اصل میں ۔۔۔۔۔ اصل میں ہوا تھا نہ ہمارا نکاح ؟
سچا نکاح تھا نہ ہمارا؟ ؟؟؟؟؟"
اٹک اٹک کر بولتی وہ آخر میں حلق کے بل چیختی روانی میں بولی تھی ۔۔۔
"ہاں سچا تھا ۔۔!
نکاح تو سچے ہی ہوتے ہیں ۔۔
جو جھوٹے ہوتے ہیں ۔۔ وہ نکاح ہوتے ہی نہیں ۔۔۔۔۔!!"
"مطلب میں بیوی ہوں تمہاری ؟
شوہر ہو تم میرے ؟
میری عزت کے محافظ ہو تم ؟
پھر تم ایسا کیسے کر سکتے ہو ؟
کیسے اپنی عزت کو نیلام کر سکتے ہو ؟
شرم نہیں آ رہی تمہیں ؟
گھٹیا انسان !!!
بلکہ نہیں ۔۔ تم انسان نہیں ہو !
تم انسان ہو ہی نہیں سکتے ۔۔۔۔۔
تم ۔۔۔ تم شیطان ۔۔۔۔!!!"
چیخ چیخ کر کہتی وہ ایک بار پھر اسے مارنے کو اٹھی تھی مگر اگلے ہی پل کمزوری سے چکرا کر واپس گر گئی تھی ۔۔۔
اسے یاد آیا تھا وہ کل رات سے بھوکی پیاسی کے ۔۔ حلق میں بھی کانٹے اگ رہے تھے ۔۔۔۔
تھوک سے حلق تر کر کے وہ اپنی بدنصیبی پر سسکنے لگی ۔۔
"یا اللہ !
میری عزت کی حفاظت فرمانا یا اللہ !
اور میرے گھر والے ۔۔۔۔ میرے گھر والے کس حال میں ہوں گے ؟؟؟
ان پر کیا گزر رہی ہوگی ؟؟
یا اللہ میرے گھر والوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھیئے گا ۔۔۔"
گھٹی گھٹی سسکیوں کے درمیان اس کا دل مسلسل خدا سے التجائیں کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
گھٹنوں میں منہ دیئے بیٹھی وہ اس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔
تو سگریٹ نکال کر سلگاتا اپنی "جاب" کے چھ سالہ عرصے میں پہلی بار ایسی سچویشن کا سامنہ کرنے والا پارس بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ اب وہ کیا کرے ؟؟؟
"اب جب مجھے شیطان کہ ہی دیا ہے تو مجھ سے کسی بھلے کی توقح مت رکھنا ۔۔ اور اچھی بچی کی طرح سکون سے رہنا ۔۔۔۔
دیکھو ہونا وہی ہے جو میں چاہوں گا ۔۔۔۔۔
تو رونے چلانے کا فائدہ ؟؟؟؟"
کچھ دیر بعد اس کے کانوں سے پارس کی آواز ٹکرائی تو وہ بپھر اٹھی ۔۔۔۔
اسے قتل کر دینے کی خواہش زور پکڑ چکی تھی ۔۔۔۔۔
"اپنی جان سے بڑھ کر ہے مجھے میری عزت !
اللہ کے بعد میری ذات پر صرف اور صرف میرا حق ہے ۔۔ بھیڑ بکری نہیں ہوں میں ۔۔ جو سودا کرو گے تم میرا ۔۔۔۔!!
اپنا بال بھی بیکا نہیں کرنے دوں گی میں تمہیں میری یہ بات یاد رکھنا ۔۔۔۔۔
اب کھانے کو کچھ دو مجھے !!!"
سکون سے اس کی باتیں سنتا ، پیر جھلاتا پارس اس کی آخری بلکل غیر متوقح بات پر چونک پڑا ۔۔۔
"کیا ؟؟ کھانا ؟"
اس کی بھاری آواز میں حیرت ہی حیرت تھی ۔۔۔
"ہاں کھانا ۔۔۔۔۔ کمزوری سے بیہوش ہونے والی ہو رہی ہوں میں ۔۔ اور میں مدہوش نہیں ہونا چاہتی ۔۔۔۔ میرا ہوش میں رہنا ضروری ہے ۔۔۔ میں ہوش میں رہوں گی تب ہی تو تمہارے ہوش ٹھکانے لگائوں گی !!"
اس کے چبا چبا کر کہنے پر پارس نے اپنی گردن ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر لڑھکائی تھی ۔۔۔
جبکہ گرے آنکھوں کی روشنی بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔
اس کا دل کہ رہا تھا ۔۔ کچھ انٹریسٹنگ ہونے والا ہے ۔۔۔۔۔!!
*********