"اسلام علیکم !
مجھے پارس ہمدانی کہتے ہیں۔۔۔"
"تو یہ بتانے کے لیئے آئے ہیں آپ ؟"
کہیں کا غصہ کہیں پر نکالتی وہ اگلے ہی پل شرمندہ ہو کر سر پر ہاتھ مار کر رہ گئی تھی ۔۔
"آ ۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔!
کہیے ؟؟"
"دراصل کچھ دیر پہلے آپ روڈ پر کسی سے جھگڑ رہی تھیں ۔۔۔
یہ آپ کا بٹوہ گر گیا تھا ۔۔!
سو ۔۔ میں یہ لوٹانے آیا تھا ۔۔۔"
ساری کلفت جھنجلاہٹ رفو چکر ہوئی تھی ۔۔ اپنا چھوٹا سا سیاہ بٹوہ اس اجنبی کے ہاتھ میں دیکھ کر ۔۔۔
جھپٹنے والے انداز میں اس نے اپنا بٹوہ پارس کے چوڑے ہاتھ پر سے اٹھایا تھا ۔۔
"اتنی لاپروہ کیسے ہو سکتی ہوں میں ۔۔۔۔۔ سارے پیسے اسی بٹوے میں موجود تھے ۔۔
اگر یہ نہ ملتا یا لگ جاتا کسی مطلب پرست شخص کے ہاتھ تو ؟
سارا مہینہ کیسے کٹتا !
یا اللہ !!"
بٹوہ ہاتھ میں پکڑے وہ دل ہی دل میں خود کو گھرک رہی تھی اس بات سے انجان کے سامنے کھڑا شخص زیرک نظروں سے اس کا اور گھر کے اندر کا جائزہ لے رہا تھا ۔۔
"آپ کا بہت بہت شکریہ !
ویسے شکریہ لفظ تو کچھ بھی نہیں اس احسان کے آگے ۔۔ مگر اس سے زیادہ میرے بس میں نہیں ۔۔!!"
احساس تشکر میں گھری وہ مدھم سی آواز میں بولی تھی ۔۔۔
"بس میں ہے تو سہی!"
عجیب سے انداز میں کہتا وہ میشا کو چونکا گیا تھا ۔۔
"جی ؟؟؟"
"جی ؟ جی کچھ نہیں !
پانی ملے گا پلیز ایک گلاس ؟؟"
پل پل بدلتے لہجوں میں بات کرتا وہ میشا کو الجھا رہا تھا ۔۔
"جی لاتی ہوں ۔۔۔۔!"
وہ چاہ کر بھی اس پر کوئی شک نہیں کر پا رہی تھی کہ احسان ہی کچھ اتنا عظیم کیا تھا پارس نے ۔۔!!
اور وہ شک کرتی بھی کیا ؟
"اگر وہ اچھا انسان نہ ہوتا تو بٹوہ کیوں لوٹانے آتا !"
اس نے دل میں اٹھتے سوالوں کو دلیل دی تھی اور مطمئین کر دیا تھا ۔۔۔۔۔
وہ بیچاری کہاں جانتی تھی ۔۔۔
پارس یہ چند ہزار لوٹا کر اس کے زریعہ لاکھوں حاصل کرنے والا تھا !!
***********
نیلی چمچماتی گاڑی اس سیاہ گیٹ پر رک گئی تھی ۔۔۔
ہارن کی آواز پر واچ مین نے گیٹ وا کیا تھا ۔۔
گاڑی سے نکل کر وہ لان میں ہی بیٹھے ربانی کی طرف بڑھا تھا ۔۔
ایک ملازم اس کے کندھے دبا رہا تھا جبکہ دوسرا ٹانگیں دبانے میں مصروف تھا ۔۔
جبکہ ہاتھ میں اس نے ٹھنڈے ٹھار مشروب کا گلاس تھام رکھا تھا !!
"کیا ٹھاٹھ ہیں اس گینڈے کے بھی !"
دل ہی دل میں بڑبڑاتا پارس مسنوعی مسکراہٹ چہرے ہر سجا کر اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔
"اسلام علیکم ربانی صاحب !"
ربانی نے جواب میں بس ایک ترچھی نظر اس کے خوبرو چہرے پر ڈالی تھی ۔۔۔
"ہم تم پر سلامتی تب بھیجیں گے جب تم ہمیں وہ خبر سنائو گے ۔۔۔ جسے سننے کے لیئے ہم بے چین ہیں ۔۔!!"
"کچھ وقت تو لگے گا ربانی صاحب ۔۔۔۔۔
وہ لوگ غریب ضرور ہیں مگر عزت غیرت پر سمجھوتا نہیں کریں گے ۔۔۔۔
مگر اچھی بات یہ ہے کہ ان کے آس پاس کوئی ایسا مرد موجود نہیں جو ہمارے بارے میں زیادہ چھان بین کر سکے ۔۔
سو جلد ہی آپ وہ من پسند خبر سنیں گے ۔!"
پارس کے حوصلہ افزا جواب پر بھی ربانی کی تیوری چڑھی ہی رہی تھی ۔۔۔
مگر کچھ دیر بعد وہ بے چین سا ہو کر پوچھ بیٹھا ۔۔
"نام کیا ہے اس حسین بلا کا ؟"
"میشا !
میشا ابراہیم ۔۔۔
باپ آٹھ سال پہلے ہی چل بسا ۔۔۔۔
ماں بھی کچھ دن کی مہمان لگتی ہے ۔۔۔
سات بہن بھائی ہیں ۔۔
بڑی بہن طلاق لے کر بچی سمیت واپس آ گئی ہے ۔۔۔۔
میشا دوسرے نمبر پر ہے ۔۔
دو اور بہنیں بھی ہیں مگر وہ بس "سو سو" ہیں باقی ایک ہی سائز کے تین بھائی ۔۔۔!"
ایک ہی دن میں اس کے منہ سے اچھی خاصی انفارمیشن جان لینے کے بعد ربانی واقعی پرسکون ہو گیا تھا ۔۔ تب ہی شوخ سے انداز میں گویا ہوا ۔۔
"ہممم ۔۔۔۔۔۔ کیا بتائوں یار ۔۔
بس اس کی وہ نیازی ۔۔ وہ اکڑ ۔۔ دل آ گیا اس کے حسن بے نیاز پر ۔۔۔"
"قریب سے اور بھی پیاری لگتی ہے ۔۔!!"
اس کی حالت دیکھ کر ربان نے چسکا لینے کے خیال سے بتایا تھا ۔۔۔ اور جواباً ربانی کی بیچاری سی شکل پر قہقہ لگا کر ہنس پڑا تھا ۔۔
"بس ایک بار ہاتھ آ جائے وہ ۔۔۔۔۔"
ربانی کچھ کہتے کہتے رکا اور یکدم وارننگ دینے والے انداز میں گویا ہوا ۔۔
"مجھے وہ جیسی ہے ۔۔ بلکل اسی حال میں چاہیے ! یعنی ۔۔۔۔۔ سمجھ رہے ہو نہ ؟"
اور اس کی بات سمجھ کر پارس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر زرا سا خم کیا تھا ۔۔
*************
پانچویں سگرٹ پھونکتے ہوئے اس نے ایک گہری نظر دور نظر آتی اس خستہ حال مکان کی دوسری منزل پر ڈالی تھی ۔۔۔۔
وہ مین روڈ کے قریب اپنی گاڑی روک کر کھڑا تھا کیونکہ ان چھوٹی چھوٹی گلیوں میں اس کی گاڑی داخل نہیں ہو سکتی تھی ۔۔
وہ شکار کے اور نزدیک ہونے کے موقح کی تلاش میں تھا !!
یکدم وہ چوکننا سا ہو کر کار کی کھڑکی سے پیشانی ٹکا کر غور سے ان ہیولوں کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔
اگلے ہی پل اس کی گرے آنکھیں چمک اٹھی تھیں ۔۔۔
چہرے پر اس نے ایسے تاثرات سجا لیئے تھے ۔۔ جیسے ان کی موجودگی سے بلکل ناواقف ہو ۔۔
فون کان سے لگائے اونچی آواز میں بولتا وہ انہیں متوجہ کر گیا تھا ۔۔
مگر وہ اس کے نزدیک نہیں آئے تھے ۔۔ وہ منتظر ہی رہا لیکن شاباش تھی ان لوگوں کی بے نیازی کو ۔۔۔
ٹھنڈی سانس خارج کرتا وہ فون کان سے ہٹا کر خود ہی ان کی طرف پیش قدمی کا سوچ رہا تھا جب اس نے ان کو اپنی طرف بڑھتا دیکھا تھا ۔۔!
وہ دونوں اس کے نزدیک آ کر کھڑے ہو گئے تھے ۔۔۔
ہلکی ہلکی روشنی میں میشا کے چہرے سے واضح تھا وہ اس سے مدد نہیں لینا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔۔۔ ہائے رے مجبوری ۔!
"اچھا یار ٹھیک ہے ۔۔۔ پھر اب کل صبح ہی ملیں گے ۔۔۔۔"
مصروف سے انداز میں کہ کر اس نے فون کان سے ہٹایا تھا اور سوالیا نظریں ان پر ڈالی تھیں ۔۔
"وہ ۔۔۔۔ بھائی آپ ہمیں کوئی رکشہ وغیرہ کروا دیں گے ؟
ہماری اماں کی طبیعت خراب ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔۔ انہیں ہاسپٹل لے جانا ہے ۔۔ یہاں آس پاس نہیں مل رہا ۔۔ دور جا نہیں سکتے ۔۔ پلیز جلدی کروا دیں ۔"
اپنے چھوٹے بھائی کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ۔۔ وہ بس رو دینے کو تھی ۔۔۔
جبکہ پارس سوچ رہا تھا شائد میشا نے ابھی اس کو پہچانا نہیں ۔۔
یا ہو سکتا ہے نیم اندھیرے میں یہ میرا چہرہ دیکھ ہی نہی پائی ۔۔!
"اگر اتنی ہی ایمرجنسی ہے تو آپ لوگ پلیز مجھ پر بھروسہ کیجیئے ۔۔۔
آئیے میں لے چلتا ہوں ۔۔!
دراصل میں اپنے دوست۔۔۔۔۔۔"
پارس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ "شکریہ" کی کہ کر اپنی ماں کو لانے بھاگ گئی تھی اور ہونق سا ہوتا پارس بھی کچھ سوچ کر اس کے پیچھے چل پڑا ۔۔۔۔
*********
اس مہنگے ترین ہاسپٹل میں داخل ہو کر ایک پل کے لیئے تو اس کی پیشانی تر ہو گئی تھی ۔۔ مگر اس وقت سب سے ضروری اماں کی طبیعت تھی !
سو "اللہ مالک ہے" کہ کر وہ ماں کے لیئے دعائوں میں لگ گئی تھی ۔۔
لیکن جب اماں کی طبیعت سنبھلنے کی خبر ملی اور پارس کو بل لیتے دیکھا تو گھبرا کر اس کے نزدیک جا پہنچی ۔۔
"یہ بل مجھے دیجیئے ۔۔۔"
بغور اس کا چہرہ دیکھتی میشا غالباً پہچان کے مرحلے سے گزر رہی تھی ۔۔۔
"دل آپ کو دے دیا ہے ۔۔ اب بل دے دیا تو دل کی توہین ہو جائے گی میرے ۔۔۔!"
پارس کے آنکھیں مٹکا کر کہنے پر میشا کی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔
"جی ؟؟"
"جی !!"
"یہ بل مجھے پے کرنے دیجیئے ۔۔۔
مجھ پر بھروسہ کرنے کے واسطے ۔۔!"
تیوری چڑھائے میشا کو یقین ہو گیا تھا یہ آدمی کچھ کھسکا ہوا ہے ۔۔
جو بھی تھا ۔۔۔ اتنا اسے یقین تھا ۔۔ وہ یہ بھاری بھرکم بل اسی بدحال حال میں ہوئی تو دوسرے جنم میں بھی بھر نہیں سکے گی ۔۔۔۔
سو وہ خاموش ہی رہی ۔۔۔
"شائد آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟"
پارس کو اس کا انداز اب کھلنے لگا تھا ۔۔
"پہچان لیا ہے مگر آپ رات کے دو بجے ہمارے علاقے میں کیا کر رہے تھے ؟"
"آہم ۔۔ میرا دوست قریب ہی رہتا ہے ۔۔ اس سے ملنے کی پلاننگ تھی جو عین اس وقت کینسل ہو گئی جب آپ مجھ سے مدد لینے آئیں ۔۔۔
شائد اللہ کو آپ کی مدد منظور تھی ۔۔
وہ ذات وہاں سے مدد بھیجتی ہے جہاں سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔!!"
اس کے لہجے سے جھلکتے جزب سے میشا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی تھی ۔۔۔۔
********
اور یوں پارس ہمدانی میشا ابراہیم کی زندگی میں آیا تھا ۔۔۔۔
بلکل اچانک ۔۔ ایک فرشتہ کی طرح !
اس ذمہ داریوں سے پریشان لڑکی کو جب کوئی مددگار ملا تو وہ خود کو خواب سجانے سے روک نہیں پائی تھی ۔۔۔
صنف نازک ۔۔ صنف نازک ہی ہوتی ہے ۔۔۔
چاہے کسی بھی عمر کی ہو ۔۔ کسی بھی مزاج کی ہو ۔۔۔
محبت کے دو بول ۔۔ تھوڑی سی توجہ ۔۔ زرا سا ساتھ ۔۔۔
اور وہ اپنا آپ نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
پھر پارس نے اس کے اصولوں کے خلاف اس سے ریستورانس پارکس وغیرہ میں ملنے کی خواہش تو نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔
بہت مہذب انداز میں اپنے "گھر والوں" کو رشتے کی بات کرنے بھیج دیا تھا ۔۔
اب وہ سپنے نا سجاتی تو کیا کرتی ؟؟؟؟
********
"یا میرے مولا ۔۔۔۔ جتنا شکر ادا کروں اس ذات کا کم ہے ۔۔۔۔۔۔!!
میں پہلے ہی جانتی تھی ۔۔ جتنی میری بیٹی ذمہ دار ہے ۔۔۔ اللہ اسے اتنا ہی اجر دے گا !
دیکھا کیسے دور دور سے بھی رشتے دار نکل کر آ رہے ہیں میری خوش بخت بچی کے نصیب کو نظر لگانے !"
اماں کے انداز میں رشتے داروں کے سابقہ رویوں کی تلخی بھی تھی اور میشا کے لیئے فخر بھی ۔۔۔
"اللہ ایسے ہی میرے سارے بچوں کے نصیب اونچے کرے گا ۔۔۔ آمین ۔۔۔"
اماں کی دعائوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔۔
ساشہ اٹھ کر دوسری منزل پر چلی گئی جہاں وہ موجود تھی ۔۔۔
"تم روئی ہو ؟ کیوں ؟"
اس کی سرخ آنکھیں اور نم گال دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی تھی ۔۔۔
"مجھے سمجھ نہیں آ رہا ۔۔۔ میں چلی جائونگی تو گھر میں سب کیسے چلے گا ۔۔۔
میرا دل راضی نہیں ہو رہا ؟؟"
"کیسی فکریں پال رہی ہو پاگل ؟
تمہارے منہ سے ایسی نا امیدی کی باتیں بلکل اچھی نہیں لگ رہیں ۔۔۔۔۔
دیکھو ۔۔۔ جب پارس بھائی ہماری زندگی میں نہیں تھے ۔۔ تب بھی ہماری زندگی جیسی تیسی بھی گزر رہی تھی نا ؟
سارے مسئلے ہم خود ہی حل کر لیتے تھے ۔۔۔۔
مگر جب پارس بھائی ہماری زندگی میں آئے تو ہمیں یوں لگا وہ ہماری بہت بڑی ضرورت ہیں ۔۔
میں اکثر حیران ہو کر سوچتی ہوں کہ ان کے ہماری زندگی میں آنے سے پہلے ہم کیسے زندگی گزار رہے تھے ؟
کتنے ہی کام بس ان ہی کی مرہون منت انجام پاتے ہیں ۔۔
کہنے کا مطلب بس یہ ہے کہ انسان ہر قسم کے حالات کے ساتھ جینا سیکھ جاتا ہے ۔۔۔
ہم بھی گزارا کر لیں جیسے تیسے ۔۔۔
تم بس خوش رہا کرو ۔۔۔!!!"
یک ٹک ساشہ کو تکتی وہ بدقت مسکرائی تھی ۔۔ مگر دل ہی دل میں ایک فیصلہ بھی کر لیا تھا اس نے ۔۔۔
********
سامنے کے منظر سے لطف اندوز ہوتا وہ گنگناتے فون پر بد مزہ سا ہوا تھا ۔۔۔
مگر کال کرنے والے کا نام پڑھ کر وہ الرٹ ہو کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ میشا نے خود اسے کال کی تھی ۔۔
"اسلام علیکم ۔۔"
"وعلیکم سلام ۔۔۔"
سلام کا جواب دے کر میشا الفاظوں کو ترتیب دینے لگی ۔۔
جبکہ پارس ایک تیز نظر اس چیختی چلاتی لڑکی پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔
"یہ چیخا کون تھا ؟"
میشا ٹھٹھک گئی ۔۔
"فلم دیکھ رہا تھا دوستوں کے ساتھ ہوں ۔۔۔ اب باہر آ گیا ہوں کمرے سے ۔۔ آپ آرام سے بات کریں !"
گلا کھنکھار کر کہتے ہوئے اس نے پیٹھ ٹھونکتے منان کو گھورا تھا جو اس کے قریب ہی آ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
"م۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔!!"
لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے منہ سے ادا ہوئے تھے جبکہ پارس نے بے ساختہ سر پر ہاتھ مارا تھا ۔۔۔
پھر دل گداز لہجے میں تڑپ کر بولا ۔۔
"کیوں جان نکالنے والی بات کر رہی ہیں آپ ؟"
منان نے اشارے سے "کیا ہوا ؟" پوچھا تھا ۔۔ جواباً پارس نے منہ پر انگلی رکھ کر بائیں آنکھ دبائی تھی ۔۔۔
دوسری طرف میشا کا دل دھڑک اٹھا تھا اس انداز پر ۔۔
"میں ۔۔ مجھ پر ۔۔۔۔ بہت ذمہ داریاں ہیں ۔۔
میں شادی کر کے آرام سے بیٹھ جائوں ۔۔۔ اور میرے گھر والے تکلیفیں جھیلتے رہیں ۔۔ یہ نہیں ہو سکتا ۔۔!"
"یہ ہوگا بھی نہیں !"
پارس کے فوراً ہی کہنے پر میشا چپ کی چپ رہ گئی تھی ۔۔۔
"میں جانتا ہوں آپ پر کتنی ذمہ داریاں ہیں ۔۔
مگر آپ شائد نہیں جانتیں کہ آپ اب تنہا نہیں ہیں ۔۔۔۔ میں ہوں آپ کے ساتھ ۔۔
آپ کی ساری پریشانیاں میری ہیں اور میں آپ کا !"
منان نے منہ پر ہاتھ رکھ کر بہت مشکل سےاپنی ہنسی روکی تھی ۔۔
پارس نے مسنوعی گھوری اس پر ڈالی تھی ۔۔۔
"مجھے افسوس ہو رہا ہے میں ان دو مہینوں میں آپ کے دل میں اپنے لیئے وہ یقین نہیں پیدا کر سکا ۔۔
آپ مجھے پرایا سمجھتی ہیں ؟؟
اب بھی ؟؟"
"نا۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردیجیئے ۔۔ میں بس۔۔۔"
میشا گھبرا گئی تھی پارس کی بھاری آواز میں آنسئوں کی آمیزش محسوس کر کے ۔۔
"پلیز معافی نہ مانگیں ۔۔ آئی کین انڈرسٹینڈ !
بس آپ ہر فکر سے خود آزاد کر لیں ۔۔۔۔
آپ کو بس مجھے سنبھالنا ہے ۔۔ باقی سب میں سنبھال لوں گا !"
وہ اس بےباق جملے کی تاب نا لا سکی اور کال کاٹ گئی ، اور اس کے رابطہ منقطع کرتے کے ساتھ ہی پارس نے اپنا کب کا روکا ہوا قہقہ آزاد کیا تھا ۔۔۔۔۔
"اوہ گاڈ ۔۔ ہائو اسٹوپڈ !"
منان اور پارس نے زور دار تالی ماری تھی ۔۔۔۔۔
منزل بہت قریب تھی ۔۔!!!
********
برستی آنکھوں کو بےدردی سے رگڑ کر اس نے اپنے زخم زخم ہوتے پیروں کے تلوئوں سے کانچ نکالنے چاہے تھے ۔۔۔ مگر اندھیرا اس قدر تھا کہ یہ مشکل لگ رہا تھا ۔۔
پھر پورے جسم میں عجیب مردنی سی چھائی تھی ۔۔۔۔
خود میں کسی چیز کی ہمت نہیں پا رہی تھی وہ ۔۔۔۔
"کتنی بیوقوف تھی میں ۔۔۔
بھلا قسمت ہم جیسوں پر بھی مہربان ہوتی ہے ؟؟
کیسے اتنی جلدی یقین کر لیا میں نے ایک اجنبی شخص پر ؟"
وہ جتنا روتی اتنا کم تھا ۔۔۔
اب تو آنسو بھی ختم ہو گئے تھے ۔۔
بس آنکھیں تھیں جو جلی جا رہی تھیں ۔۔۔
سسکیوں کا گلا گھونٹ کر میشا نے ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ اور اس کوشش میں وہ ایک بار پھر سے گر گئی تھی مگر اس بار گرتی ہی چلی گئی تھی ۔۔
آنکھیں مکمل بند ہونے سے پہلے اس نے درختوں کی ٹہنیوں کو خود پر جھکا دیکھا تھا ۔۔۔
***********
دیوانہ وار بھاگتے ہوئے وہ اپنے خفیہ اڈے کی جانب گامزن تھا ۔۔۔
اپنی گاڑی وہ بہت دور چھوڑ آیا تھا کیونکہ گاڑی کی مدد سے پولیس کو اس کا پیچھا کرنے میں آسانی ہو رہی تھی ۔۔۔
پاگلوں کی طرح اندھیرے جنگل میں بھاگتے ہوئے اس کے پیر کسی چیز سے الجھ پڑے تھے ۔۔
منہ کے بل گرتا وہ اگلے ہی پل اٹھ بیٹھا تھا ۔۔۔
ہاتھ سے ٹٹولنے پر انسانی وجود کو محسوس کر کے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی ۔۔۔
موبائل کی روشنی اس وجود کے چہرے کی طرف ڈال کر ایک پل کو اس کی سانسیں رک گئی تھیں ۔۔۔
سرسراتی سی آواز اس ے منہ سے نکلی تھی ۔۔
"میشا !!!"
*******