جبڑے کسے وہ سخت اشتعال کا شکار تھا لیکن اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھری تھیں ۔۔۔
کتنی ہی دیر تک وہ بنا کسی جنبش کے کرِسی پر بیٹھا رہا تھا ۔۔ لیکن جونہی ایک آنسو اس کے مضبوطی سے آپس میں جکڑے ہاتھوں کی پشت پر گرا اس کے صبر کی بس ہوگئی ۔۔!!!
اپنے جڑے ہوئے ہاتھوں کو پیشانی سے لگائے وہ باقاعدہ آہیں بھرنے لگا تھا ۔۔۔ آنسو یوں نکل رہے تھے جیسے اب کبھی نہیں رکیں گے ۔۔۔۔۔
اس کا کھانا ٹرے میں سجا کر لاتی وریشہ کے قدم گویا زمین نے جکڑ لیئے تھے ۔۔۔
اپنی زندگی میں اس نے پہلی بار کسی مرد کو روتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔!
وہ بھرپور وجاہت کا مالک چھ فٹ کا مرد ایڑھیاں رگڑ کر رو رہا تھا ۔۔ اور کیوں رو رہا تھا ۔۔۔۔؟
ایک عورت کے لیئے ۔۔۔۔۔۔!!
اس کے رونے کا انداز ایسا تھا کہ وریشہ کی اپنی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھیں ۔۔۔۔
کھانے کی ٹرے پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے وہ تیزی سے اپنے رہائشی حصے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔۔
کچن سے نکلتی ساشہ نے حیرت سے کھانے سے بھری ہوئی ٹرے کو دیکھا تھا ۔۔۔
"یہ واپس کیوں لے آئیں ۔۔۔۔؟؟"
"وہ نہیں کھائیں گے ۔۔۔"
"کیوں نہیں ۔۔۔؟؟"
ساشہ کے الجھ کر پوچھنے پر ویشہ نے ایک خفگی بھری نظر اس پر ڈالی تھی جس پر ساشہ نظریں چرا گئی تھی ۔۔۔۔
"آپی وہ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔۔! پلیز ان کا دل نہ توڑیے ۔۔۔۔
پلیز آپی ۔۔۔۔۔ جلد بازی میں آپ اپنا مون بھائی کا اور سلیم کا بھی نقصان کر دیں گی ۔۔!!
آپی آپ نے ٹھیک نہیں کیا سلیم بھائی کا پرپوزل قبول کر کے ۔۔۔ انہیں منع کردیں پلیز ۔۔۔ ابھی بہت دیر نہیں ہوئی ۔۔۔۔"
"وریشہ ابھی تم چھوٹی ہو ۔۔ ان معاملوں کو نہیں سمجھ سکتیں ۔۔"
پیشانی پر سلوٹیں لیئے وہ ناگواری سے بولی تھی ۔۔۔
"اوہ پلیز آپی۔۔ اتنی بھی چھوٹی نہیں ہوں ۔۔۔۔ اور حالات نے کچھ زیادہ ہی بڑا کردیا ہے ۔۔۔۔۔۔ کیوں ناراض ہیں آپ ان سے مجھے سب پتا ہے ۔۔ لیکن پلیز سب بہت ہوگیا ۔۔۔ ایک وہ میشا باجی ہیں ۔۔ ہر وقت جوگن بنی رہتی ہیں ۔۔۔ آپ کا بھی وہی حال نہ ہوجائے آپی ۔۔! باقی مون بھائی تو گارنٹڈ رانجھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔"
"میں چپ ہوں تو مطلب تم جو دل میں آئیگا بولے چلی جائوگی ۔۔؟؟ مت بھولو میں بڑی ہوں تم سے ۔۔۔۔۔۔!"
ساشہ پہلی بار چیخ کر بولی تھی ۔۔۔ وریشہ تو اپنی جگہ ساکت رہ ہی گئی تھی ۔۔ میشا اور علیشہ بھی بھی اپنے کمرے سے نکل آئی تھیں ۔۔۔
اتنی اونچی آواز جو ہوگئی تھی اس کی ۔۔!
اور اپنے پورشن میں دم سادھے ان کی گفتگو سنتا منان بھی گہری سانس خارج کر کے شرٹ کی آستین سے آنسو صاف کرتا وہاں پہنچ گیا تھا ۔۔
اسے دیکھ کر ساشہ نے پہلو بدلا تھا ۔۔۔
"ہر انسان کو ۔۔۔۔۔۔!"
اف یہ آنسو ۔۔۔۔۔!!!
بات ادھوری چھوڑ کر اس نے پھر سے امڈے آتے آنسو صاف کیئے تھے ۔۔
ایک ٹھنڈی سانس خارج کرتا وہ نیا نیا نکھرا نکھرا مدھم سا مسکرایا تھا۔۔۔۔
"ہر انسان کو اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے ۔۔۔۔
ہم خود کو کسی پر زبردستی مسلط نہیں کر سکتے ۔۔
ہم صرف محبت ہی کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔ آپ کی محبت میں وہ طاقت ہوئی تو محبوب چاہ کر بھی آپ سے دور نہیں جا پائے گا ۔۔ میں بھی بس اب صرف محبت کروں گا ۔۔۔!! باقی جو کرے گی ۔۔ میری محبت کرے گی ۔۔۔۔۔۔!!"
بھرپور مسکراہٹ سب کی طرف اچھالتا وہ ساشہ کو آنکھوں میں چیلنج کرتا واپس چلا گیا تھا ۔۔
انگلیاں چٹخاتی ساشہ کو جانے کیوں لگا تھا تینوں بہنیں اسے مسکرا کر دیکھ رہی ہیں ۔۔۔
حالانکہ بظاہر تو سب سپاٹ چہرے لیئے کھڑی تھیں ۔۔۔
لب بھینچ کر وہ تینوں پر مشترکہ گھوری ڈالتی کچن میں چلی گئی تھی ۔۔۔۔
****************
اسکارف چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے وہ جب کمرے سے باہر نکلی تھی ۔۔ تو کچھ تھا سب کی نظروں میں جس نے اسے گڑبڑا دیا تھا ۔۔۔
پیشانی سے پسینہ ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے وہ بےوجہ ہی مجرمانہ سے انداز میں سر جھکا گئی تھی ۔۔۔۔ سلیم اسے اپنے ساتھ ڈنر پر لیجانا چاہتا تھا ۔۔۔ وہ ہرگز بھی نہ جاتی اگر منان قطیعت سے انکار نہیں کردیتا ۔۔۔ سو اس کے انکار نے ساشہ کو ضد دلا دی تھی ، اور اب وہ نیلی اسکرٹ ۔۔ لمبے سے سیاہ کوٹ اور اسکرٹ کے ہم رنگ اسکارف میں ہلکے سے میک اپ کے ساتھ تیار کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
"میں پھر کہہ رہی ہوں ٹھیک نہیں کر رہیں آپ ۔۔۔۔!!"
خفگی سے کہتی وریشہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔۔ میشا اور علیشہ نے کچھ کہا نہیں تھا لیکن آنکھوں سے ناگواری واضح تھی ۔۔۔
بھائیوں کی پیشانی چوم کر وہ جیسے ہی گھر سے باہر نکلی منان سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔۔۔
سر اٹھا کر دیکھا تو کیا کیا نظر نہیں آیا اسے منان کی آنکھوں میں ۔۔
آنچ دیتے جزبوں سے گھبرا کر وہ تیزی سے سلیم کی طرف بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ پشت پر مسلسل اسے ان سرد و گرم جزبات سے لبریز نظریں محسوس ہوتی رہی تھیں ۔۔۔
دور جاتی چھوٹی سی گاڑی کو حیرت سے تکتے ہوئے منان کو اندازہ نہیں ہوا تھا اس کی آنکھیں چھلک پڑی ہیں ۔۔
نمی کے احساس پر ہاتھ اٹھا کر گال ٹٹولا تھا اور پوروں پر موجود نمی بغور دیکھ کر اس نے نظریں آسمان پر ٹکا دی تھیں ۔۔۔۔۔
"ایسے سزا دیں گے آپ مجھے ۔۔۔۔؟ ہمم۔۔۔۔۔۔ ویسے ایسی سزا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی ۔۔۔ یہ سزا بہت سخت بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ایسی ہی ٹھیک ہے ۔۔
میرے دل میں اس کے لیئے انتہا والی محبت جگا کر اس کی زندگی میں کوئی اور بھیج دیا ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ قبول ہے ۔۔ برداشت کرلیں گے ۔۔۔۔! کر ہی لیں گے۔۔۔۔۔ مرنے والے ہوجائیں گے ۔۔ مر تو نہیں جائیں گے ۔۔۔۔!!!"
گرنے کے انداز میں دہلیز پر بیٹھ کر وہ چہرہ ہاتھوں سے چھپائے سسکنے لگا تھا ۔۔۔
اور پھر مہینے بھر بعد ہی ساشہ اور سلیم کی شادی ہوگئی تھی ۔۔۔ بہت سادگی سے ۔۔
ساشہ کے لیئے یہی کافی تھا کہ سلیم اس کو بیٹی سمیت اپنانے کے لیئے تیار تھا ۔۔!
شام کو کچھ دیر کے لیئے وہ بھی ہوٹل میں ان کا ہاتھ بٹانے چلی آتی تھی ۔۔ اندھیرا کچھ گہرا ہونے لگتا تب سلیم بھی وہاں چلا آتا ۔۔۔ ترکی کی خاص چائے پیتا اور ساشہ کو ساتھ لیئے چلا جاتا ۔۔ ان اوقات میں منان چہرہ سپاٹ بنائے گونگا ہی نہیں بعض اوقات بہرا بھی بن جایا کرتا تھا ۔۔۔
سلیم برا تو نہیں تھا ۔۔ ساشہ کو اس کی سنگت میں مطمئین دیکھ کر وہ سب بہن بھائی خوش تھے لیکن منان کی حالت سب کو افسردہ کردیتی تھی ۔۔۔
دراصل منان کو یقین ہوچکا تھا کہ اب جو سب ملے ہیں تو ساشہ نے جب کبھی شادی کا فیصلہ کیا وہ صرف اس ہی کے بارے میں سوچے گی ۔۔! حالات نے اسے کچھ زیادہ ہی پراعتماد کردیا تھا ۔۔۔۔
اس کا دل ہی نہیں خود اعتمادی بھی کرچی کرچی ہوگئی تھی ۔۔ سو اب جو اس کی حالت تھی وہ تو ہونی ہی تھی ۔۔۔۔۔!!!
*****************
اندھیرے کمرے میں کسی کی بھاری بھاری سانسیں شور مچاتی محسوس ہورہی تھیں ۔۔۔
اندھیرا اس قدر تھا کہ اندازہ کرنا ناممکن تھا کہ کب دن چڑھتا ۔! تھا کب رات ہوتی تھی ۔۔؟
اندر زنجیروں میں جکڑے اس دبلے پتلے سے شخص کو اس بات سے کوئی غرض بھی نہیں تھی ۔۔۔
اسے بس کھانے سے غرض تھی جو اسے بہت ترسا ترسا کر تب دیا جاتا تھا ۔۔ جب وہ بھوک سے نڈھال مرنے والا ہوجاتا تھا ۔۔۔
خشک حلق میں کانٹے اگ رہے تھے ۔۔
وہ ہوش و حواس میں تھا لیکن پیاس کی وجہ سے اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھیں ۔۔۔
اچانک ابھرنے والی کریہہ آواز اسے زندگی کی نوید لگی تھی ۔۔ کوئی خوبصورت دھن لگی تھی ۔۔۔
ٹھنڈی یخ ہوتی بےرنگ دیوار سے ننگی پشت لگا کر بیٹھتے ہوئے اس کی آنکھیں اندھیرے میں بھی چمکنے لگی تھیں ۔۔
"کھانا ۔۔ کھانا ۔۔۔۔!!"
بھاری قدموں کی آواز قریب آتی جا رہی تھی اور پھر کال کوٹھڑی کا دروازہ کھول دیا گیا تھا ۔۔۔۔ باہر سے آتی بہت ہلکی سی روشنی کمرے میں چھا گئی تھی جو اسے بلکل پسند نہیں آئی تھی ۔۔۔
آنکھیں میچ کر اس نے چہرہ دوسری طرف کو موڑ لیا تھا ۔۔۔۔۔
آنے والے کے لبوں پر کرخت مسکراہٹ ابھری تھی ۔۔
وہاں کی لائٹ جلا کر اس نے بغور دودھیا روشنی میں اس کا بےلباس کھال اور بال سے سجا ڈھانچا وجود دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
اس کے سامنے اکڑوں بیٹھ کر اس شخص نے پانی کی بوتل اس کے لبوں سے لگائی تھی ۔۔۔
غٹاغٹ پانی حلق میں اتارتا یکدم خالی پیٹ میں ہونے والی تکلیف کی وجہ سے کراہنے لگا تھا ۔۔۔
اس کے الجھے چکٹتے ہوئے بالوں پر ہاتھ پھیر کر اس شخص نے نوالہ بنا کر اس کی طرف بڑھای تھا جسے تیزی سے اس نے منہ میں لیا تھا ۔۔۔۔۔۔
جب اس ڈھانچے میں کچھ جان پڑگئی اور وہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوگیا تب اس شخص نے پھر اپنا سوال دوہرایا تھا ۔۔۔۔۔۔
"دبئی ۔۔ چین ۔۔ یا ترکی ۔۔؟؟"
اس نے دھندلائی نظروں سے ہمدانی کا کرخت چہرہ دیکھا اور پھر نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔
اس کا خیال تھا اس کے انکار پر آج پھر ہمدانی اسے بےشمار گالیاں دے کر اپنے گارڈز کو اس پر تشدد کرنے کے لیئے بھیج دے گا لیکن آج وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا تھا ۔۔
پارس نے نیم وا آنکھوں میں الجھن بھر کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
"بہت ضدی ہو تم بہت زیادہ ضدی ۔۔۔ آخر کیوں نہ ہوتے ۔۔ میں نے پالا ہے تمہیں ۔۔۔ میں نے خود ۔!
ہوش میں ہو یا نیم بےہوشی میں ۔۔۔۔ کبھی سچ نہیں بتایا تم نے ۔۔۔۔۔۔!!! فخر ہے تمہاری ضد پر مجھے ۔۔۔۔
کیا تمہیں اندازہ ہے پارس ۔۔؟ تمہیں یہاں قید ہوئے چار سال ہوچکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ چار سال ۔۔!!!!"
پارس کی گرے بےرونق آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں ۔۔۔
"ہاں چار سال ۔۔ حیران ہو نہ ۔۔۔؟ میں خود بھی بہت حیران ہوتا ہوں سوچ کر ۔۔۔۔۔
تمہیں یہاں لانے کے دو مہینے بعد معلوم ہوگیا تھا مجھے کہ وہ لوگ ترکی میں ہیں ۔۔ کس شہر میں کس علاقے میں ۔۔ سب معلوم ہے مجھے ۔۔۔۔!"
"ممم ۔۔۔ مم ۔۔ مجھے جان سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ماردو ۔۔۔۔۔ لل ۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ انھ ۔۔۔۔ انھیں ۔۔۔۔۔۔ کچھ مت ۔۔۔ کک۔۔۔ کہنا ۔۔۔"
بہت عرصے بعد اس نے اتنی لمبی بات بولی تھی ۔۔۔ ہمدانی ناگواری سے مسکرانے لگا ۔۔
"میں چاہتا تھا تم ان کا پتہ بتادو ۔۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرو ۔۔ تمہیں اور مون کو کوئی ہلکی پھلکی سزا دے کر میں یہ معاملہ ختم کردیتا لیکن تم ۔۔۔۔۔
تم بہت ڈھیٹ ہو ۔۔ میری طرح ۔۔۔!!"
ہمدانی پل بھر کو رکا ۔۔ اس کی کھانے پر جمی نظریں دیکھ کر پھر نوالے بنا بنا کر اسے کھلانے لگا
تم کہتے ہو انھیں کچھ نہ کہوں اور تمہیں ماردوں ۔۔۔؟؟
تم اب بھی زندہ کہاں ہو میرے بچے ۔۔؟ ایک ہاتھ اور ٹانگ ہی نہیں تم اپنی مردانگی تک گنوا چکے ہو ۔۔ سانسیں چلنے کو تم زندہ ہونا کہتے ہو تو ایسی سانسیں نہیں چاہئیں مجھے ۔۔۔۔۔!!"
پارس کھانے سے منہ موڑ کر سسک پڑا تھا ۔۔ اسے یاد آیا تھا کہ ہمدانی نے کتنا بڑا نقصان کردیا تھا اس کا ۔۔۔۔
وہ جسمانی طور پر ہی نہیں اندرونی طور پر بھی معزور کردیا گیا تھا ۔۔ اور وہ معزوری ایسی تھی جو اسے ذہنی طور پر بھی معزور کرنے لگی تھی ۔۔!
"نہیں رئو میرا بچہ نہیں رئو ۔۔۔ آج میں تمہارے لیئے اس قید سے آزادی کی نوید لے کر آیا ہوں ۔۔۔۔۔۔"
انتہائی بےیقینی سے پارس نے اسے دیکھا تھا جو اب اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔
"یہاں آئو ۔۔۔۔!"
اس کی گرجدار پکار پر باہر موجود اس کے دو بندے اندر آئے تھے ۔۔۔
"اسے گیسٹ روم میں لے چلو ۔۔۔"
پارس پر ایک اچٹتی نظر ڈال کو وہ قدموں کی دھمک پیدا کرتا وہاں سے نکل گیا تھا ۔۔
*******************
خوابناک نظروں سے وہ کھڑکی سے باہر نظر آتے زندگی سے بھرپور مناظر دیکھے جا رہا تھا پلکیں جھپکائے بغیر ۔۔۔ جب گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی ۔۔
ایئرپورٹ پر نظریں ڈال کر اس نے غائب دماغی سے ہمدانی کو دیکھا تھا اور پہلی بار ہمدانی کو اس پر سچ مچ ترس آگیا تھا ۔۔۔۔
اسے خود پالا پوسا تھا ۔۔ اپنی گودوں میں کھلایا تھا ۔۔۔۔ کچھ انسیت تو تھی اس سے ۔۔۔۔۔۔!!
"کاشف ترکی جا رہا ہے ۔۔۔"
اس نے ڈرئیور کے پہلو میں بیٹھے اپنے ایک بندے کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔۔۔
"تمہیں بھی لے جارہا ہے ۔۔۔ تمہارے پیاروں کے پاس ۔۔!! ہم تو تمہارے کچھ ہیں نہیں ۔۔۔۔ ہے نا ۔۔؟
جتنی سزا دینی تھی تمہیں دے دی ۔۔۔! تم جیسے خوبصورت نوجوان کے لیئے یہ سزا کافی ہے ۔۔ اب جائو اور جی لو اپنی زندگی ۔۔۔ ہاہاہا ۔۔۔!!! ارے بھئی جاتے جاتے ایک بار گلے تو لگ جائو۔۔۔!"
وہ جو ہمدانی کی باتیں غائب دماغی سے سنتے ہوئے اپنی اسٹک کے سہارے آگے بڑھ رہا تھا ہمدانی کے گلے لگ جانے کے بعد بھی ایک سکتے کی سی کیفیت میں ہی رہا تھا۔۔۔
اس کا کانپتا ہوا دبلا بتلا دور جاتا وجود بغور دیکھتے ہوئے ہمدانی نے ایک طویل سانس خارج کی تھی جب اس کا فون گنگنایا تھا ۔۔
"ہاں بولو ۔۔۔۔۔ کیا نام بتایا لڑکی کا ۔۔؟ علیزے ۔۔؟ نام ہی اتنا پیارا یے ۔۔ خود کیا ہوگی ۔۔؟"
کچھ چیزیں تھیں ۔۔ جو شائد رہتی دنیا تک نہیں بدلنی تھیں ۔۔۔۔!!!
***************