سینے پر بازو لپیٹے وہ پتھرائی نظروں سے سمبل کو دیکھ رہا تھا جو چھپ کر اس سے ملنے چلی آئی تھی ۔۔۔ کیسے نہ آتی ۔۔۔؟؟؟
بڑی لگاوٹ سے پارس نے اس سے کہا تھا ۔۔
"ڈائمنڈ رنگ لی ہے تمہارے لیئے ۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے پہنانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ !"
اور وہ خوشی خوشی اپنے گھر والوں سے جھوٹ بول کر اس کے فارم ہائوس میں چلی آئی تھی ۔۔۔۔
اور اب اپنی اس نادانی کی سزا بھگت رہی تھی ۔۔۔۔۔
رسیوں سے بندھی وہ ٹیپ سے بند منہ سے آوازیں نکالنے کی کوشش کرتی ہوئی پارس کو قابل ترس لگی تھی ۔۔۔۔ جب ہی وہ ایک گھٹنا ٹیک کر اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
"پاگل تھیں یا بچی تھیں ۔۔۔۔؟؟
بتائو مجھے کیا تھیں تم ۔۔۔۔۔۔؟؟؟
لالچی تھیں ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
آخر کیسے تم مہینہ بھر پہلے ملنے والے شخص پر اتنا اندھا اعتبار کر سکتی ہو ۔۔۔۔؟؟
گھر والوں سے جھوٹ بول کر چھپ کے چلی آئیں تم بیوقوف کہیں کی۔۔۔۔۔۔۔"
اس کے سر پر تھپڑ رسید کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔
سمبل کے رونے میں شدت آگئی تھی ۔۔۔ اگر اس کا منہ بند نہ ہوتا تو وہ شائد اتنا چلاتی کہ اس کی چیخیں عرش تک جا پہنچتیں ۔۔۔۔۔!!
"ایک بات بتائوگی ۔۔۔۔؟
سر کے اشارے سے جواب دینا ۔۔!
کیا تمہارے دماغ میں ایک بار بھی یہ خیال آیا تھا یہاں آتے وقت کہ میں تمہارے ساتھ کچھ غلط سلط کر سکتا ہوں ۔۔۔۔؟؟
بتائو سمبل جواب دو ورنہ زندہ دفن کردوں گا میں تمہیں ۔۔ جواب دو ۔۔۔۔۔ آیا تھا ایسا کوئی خیال ذہن میں ۔۔۔۔۔؟؟؟ جواب دے تو گھٹیا عورت ۔۔۔!"
اپنے اندر کی گھٹن کم کرنے کے لیئے وہ اس پر حلق پھاڑ کر چلا رہا تھا ۔۔۔۔۔ سبمل کا چہرہ پوری طرح آنسئوں سے بھیگ گیا تھا ۔۔ پارس کی اونچی آواز دہشت زدہ کر رہی تھی ۔۔۔۔
"کیا پوچھا ہے میں نے تجھ سے ۔۔۔ ؟ خیال آیا تھا یا نہیں ۔۔۔۔؟؟؟؟؟"
اپنا مضبوط ہاتھ پوری قوت سے اسے رسید کرنے کے بعد اس نے ایک طرف کو لڑھک جانے والی سمبل کو بازو سے پکڑ کر پھر سیدھا بٹھایا تھا ۔۔۔۔
"آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں میں "جان جی!"
اس وقت پارس کی آنکھوں میں وحشت ہی وحشت تھی ۔۔۔۔ یوں لگتا تھا وہ اپنے اندر سے جنگ لڑ رہا ہو ۔۔۔۔
زور زور سے سر اثبات میں ہلا کر وہ پارس کو مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔۔۔۔ اس کی مسکراہٹ ہنسی میں بدلی تھی اور پھر وہ پاگلوں کی طرح قہقے لگانے لگا تھا ۔۔۔۔
"پھر بھی آگئیں ۔۔۔؟ کیوں ۔۔۔۔؟"
یکدم سنجیدہ ہوتا وہ بہت خطرناک لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔ سمبل کو یقین سا ہونے لگا کہ وہ پاگل ہوچکا ہے ۔۔
منہ پر پٹی بندھی تھی ۔۔۔۔ ایسے میں اس کے سوالوں کے جواب وہ کیسے دیتی ۔۔۔؟؟
"تم جیسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود جان کر موقع دیتی ہو ہم جیسوں کو ۔۔۔ پھر بعد میں روتی ہو ۔۔۔۔ اور دنیا بھی ہم جیسوں کو بددعائیں دیتی ہے ۔۔۔ گالیوں کی لپیٹ میں ہم آتے ہیں اور تم جیسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مظلوم بن جاتی ہیں ۔۔!"
سمبل کا چہرہ تپ اٹھا ۔۔ بہت گندی گالیاں مسلسل پارس کے منہ سے نکل رہی تھیں ۔۔۔
"پہلے مجھے کچھ افسوس ہورہا تھا ۔۔ لیکن اب تم اس سب کے قابل لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔ !!!
چھٹی حس الارم دے رہی تھی پھر بھی چلی آئیں برتھڈے گفٹ لینے ۔۔۔۔ کیسا لگا پھر برتھڈے گفٹ ۔۔۔۔۔۔؟؟
بتائو نا جانو کیسا لگا برتھڈے گفٹ ۔۔۔۔؟؟؟"
پارس کو خود بھی اندازہ ہورہا تھا وہ اس وقت ذہنی طور پر بہکا ہوا یے ۔۔۔۔۔۔ اسے لگ رہا تھا وہ سمبل کا قتل کردیگا جب ہی بڑے بڑے قدم اٹھاتا اس کمرے سے نکل گیا ۔۔۔۔ اور کچھ دیر بعد ایک رئیس زادہ بھاری بھرکم لفافہ لیئے وہاں چلا آیا تھا اور اپنی "امانت" لے کر چلتا بنا تھا ۔۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ پارس نے سمبل کا ہوش و خرد سے بیگانہ وجود اس شخص کو گاڑی کی ڈگی میں رکھتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔
*********************
سگرٹ کا دھواں فزا کے سپرد کرتے ہوئے اس نے گردن موڑ کر میشا کو دیکھا تھا جو چائے کا کپ لیئے اس کے قریب ہی چلی آرہی تھی ۔۔۔ کپ اس کے سامنے رکھی چھوٹی سی ٹیبل پر رکھ کر میشا نے جونہی اس کے چہرے پر نظر ڈالی خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں سرائیت کرگئی تھی ۔۔۔۔ ایسے تاثرات تو میشا نے اس کے چہرے پر تب بھی نہیں دیکھے تھے جب وہ اسے ربانی کے لیئے سنبھالے ہوئے تھے ۔۔۔
اس کی گرے آنکھیں میشا کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ۔۔ میشا کو ایسا لگنے لگا جیسے اس کا چہرہ آگ کے شعلوں کی لپٹ میں ہو ۔۔۔۔
سر جھٹک کر وہ وہاں سے جانے لگی جب پارس نے اس کی کلائی تھام کر اسے جھٹکے سے کھینچ کر زمین پر بٹھا دیا ۔۔۔
سارا ڈر خوف کہیں بھاگ نکلا تھا ۔۔ اس حرکت پر میشا کو اس پر صرف غصہ آیا تھا ۔۔۔۔
تیز نظروں سے اسے گھورت ہوئے اس نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا تھا لیکن پارس نے اپنی گرفت اور مضبوط کردی تھی ۔۔۔ یہاں تک کہ زور آزمائی کرتے کرتے میشا کی آنکھوں میں پانی جمح ہونے لگا تھا ۔۔
ہار مان کر اس نے سر اٹھا کر خفگی بھری سوالیا نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔!!
"مجھ سے محبت کرتی ہو ۔۔۔۔؟؟"
ارے۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ۔۔؟؟؟
آگ اگلتی نظریں ۔۔۔
پتھرایا ہوا چہرہ ۔۔۔
لیکن لہجہ ۔۔۔۔۔ لہجہ کیسا ہارا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ عاجزانہ سا ۔۔ ڈرا ڈرا سا ۔۔۔ منت کرتا ہوا ۔۔۔ !
میشا کو پہلی بار پارس سے خوف آیا تھا ۔۔۔۔۔
"یہ کیسا سوال ہے ۔۔۔؟؟"
"جو پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دو ۔۔۔۔!!"
اس کی کلائی کو ہلکے سے جھٹک کر وہ بھینچی آواز میں چیخا تھا ۔۔۔۔۔
"نہیں ۔۔!!"
اس کی آنکھوں میں بغور جھانک کر میشا نے مضبوط لہجے میں کہا تھا ۔۔۔۔
"کیوں ۔۔؟؟"
انداز ہی نہیں ۔۔۔ وہ سرتاپہ شکوہ بن کر اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔
"تم میں ایسا کیا ہے جو محبت کی جائے ۔۔؟ ایک شکل صورت زرا بھلی ہے ۔۔۔ لیکن افسوس میں صورت پر مرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔۔"
"پھ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔؟؟ پھر کیا کروں ایسا کہ تمہیں پسند آجائوں ۔۔؟"
میشا کی نم آنکھوں میں استعجاب ابھر آیا ۔۔۔ پارس کا ہارا ہارا انداز اسے الجھا رہا تھا ۔۔
"تم کیا بولے جا رہے ہو ۔۔۔؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔ تم ۔۔۔ تم جانتے ہو تم جو کام کرتے ہو ۔۔جیسے لوگوں سے جڑے ہو ۔۔۔۔ کوئی عزت دار لڑکی کبھی تم سے محبت نہیں کرے گی ۔۔کم از کم میں تو نہیں کر سکتی ۔۔۔۔"
پارس کے سینے میں چھن سے کچھ ٹوٹا تھا ۔۔۔ یہ باتیں میشا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ کہی ہوتیں تو شائد تکلیف اتنی نہ ہوتی ۔۔۔۔
"نفرت گناہ سے کرتے ہیں گنہگار سے نہیں ۔۔"
وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔
"میں اتنی عظیم نہیں ہوں ۔۔ میں گنہگار سے بھی نفرت کرتی ہوں ۔۔۔"
"تم بہت سنگلدل ہو میشا ۔۔۔۔"
کچھ پل خفگی سے اس کی آنکھوں میں دیکھنے کے بعد وہ اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
میشا کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی ۔۔۔ ایک نظر اپنی سرخ پڑتی کلائی پر ڈال کر تیزی سے وہاں سے اٹھ کر بھاگ گئی تھی ۔۔۔۔ اور پارس ۔۔! وہ پھر اپنے آپ سے جنگ کرنے لگا ۔۔۔
"میں جیسا ہوں میشا مجھے ویسا قبول کیوں نہیں کر لیتی ۔۔؟ میرے لیئے مشکلات کیوں کھڑی کر رہی ہے ۔۔۔۔۔ ؟ جیسا بھی ہوں ۔۔ جو بھی کررہا ہوں ۔۔۔۔ اس کا کیا بگڑ رہا ہے ۔۔۔؟؟ میرے کام ، میرے مسئلے مجھ تک رہنے دے ۔۔ میرے ساتھ ایک پرسکون زندگی جیئے ۔۔۔"
ہاتھوں سے بال جکڑے وہ آگے پیچھے کو ہل رہا تھا جب فون کی چنگھاڑ اس کے سر پر ہتھوڑے کی طرح برسی تھی ۔۔ بالوں میں انگلیاں چلا کر اس نے خود کو کچھ پرسکون کیا تھا ۔۔۔ اور کال کرنے والے کا نام پڑھ کر الرٹ ہوا تھا ۔۔۔
"ہاں بولو ۔۔۔ کام ہوا ۔۔۔؟"
***************
ساری رات گھر سے غائب رہ کر منان اور پارس ناشتے کے وقت لوٹے تھے ۔۔۔۔
کسی نے کوئی سوال نہیں کیا تھا لیکن آنکھیں جواب طلب کر رہی تھیں اور کیوں نہ کرتیں کہ دل میں تو اب بھی ایک ڈر کنڈلی مارے بیٹھا تھا ۔۔۔!!
خاموشی سے ناشتہ کرتے ہوئے وہ گاہے بہ گاہے میشا کے پھولے چہرے پر بھی نظریں ڈال لیتا تھا ۔۔۔
ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد پارس نے کچھ کاغزات وغیرہ ان کے سامنے رکھے تھے ۔۔ برتن سمیٹی میشا اور ساشہ کی الجھن بھری نظریں ٹکرائی تھیں ۔۔۔
پارس نے کچھ نہیں کہا تھا وہ لب چباتا غیر مرئی نقطے کو گھورنے لگا جب منان نے آہستگی سے کہا تھا ۔۔۔۔۔
"یہ آپ سب لوگوں کے پاسپورٹ وغیرہ ۔۔۔"
"کیا پاسپورٹ ۔۔؟"
"کیا مطلب اس سب کا ۔۔۔۔۔؟؟"
"ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔؟"
"تم لوگوں کے دماغ میں اب چل کیا رہا ہے ۔۔۔؟؟"
چاروں بہنوں کہ منہ سے مختلف جملے نکلے تھے مگر مطلب ایک ہی تھا ۔۔۔۔۔!
"بہت مشکل سے ۔۔ بہت پیسا ضائح کرکے یہ پیپرز بنوائے ہیں ۔۔۔ کوئی فضول ایشو کھڑا کر کے دماغ مت خراب کرنا میں منہ توڑدوں گا ورنہ ۔۔۔۔"
یکدم ہی کرسی سے اٹھ کر میشا کے سر پر چلاتے ہوئے وہ نہ جانے کس بات پر خفا لگ رہا تھا ۔۔۔
میشا کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا ۔۔۔۔ پھیلی آنکھوں سے اسے دیکھتی وہ کچھ کہہ نہیں پائی تھی ۔۔۔
"پارس آرام سے ۔۔۔ کیا ہوگیا ۔۔۔؟؟ "
اسے پکڑ کر پیچھے کرتے ہوئے منان نے اسے واپس کرسی پر بٹھا دیا تھا ۔۔ بیٹھنے کے بعد بھی اس کی سرد نظریں میشا کے چہرے پر جمی رہی تھیں ۔۔۔ حلق تر کرکے میشا نے اپنا چہرہ پھیر لیا تھا ۔۔۔۔۔
"تم سب ترکی جارہے ہو۔۔۔۔ فکر مت کرو ۔۔ میں ساتھ ہوں گا ۔۔۔۔
پاکستان میں رہنا خطرے سے خالی نہیں یے ۔۔۔ تم لوگوں کو اندازہ نہیں ہے وہ لوگ کتنے خطرناک ہیں ۔۔۔۔ کل بھی ہماری غیر موجودگی میں ہمدانی کا ایک بندہ یہاں آگیا تھا ۔۔۔۔۔!
وہ تو شکر تھا عین وقت پر ہم پہنچ گئے تھے ورنہ جو ہوتا اس کا تم لوگوں وہم و گمان بھی نہیں کرسکتے ۔۔۔۔ اپنے ایک ایک بندے پر نظر رکھتا ہے وہ ۔۔ اس کی پہنچ بہت اوپر تک ہے ۔۔۔۔
پاکستان میں رہ کر اس سے بچے رہنا ممکن نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
بات ختم کر کے منان نے بغور سب کے چہروں کو دیکھا تھا جہاں ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔۔۔۔
"تم لوگ ڈرو نہیں ۔۔۔ ہم ہیں نہ ساتھ ۔۔۔۔۔۔"
" ہم خود کو پولیس کے حوالے کر کے ہمدانی کا نام لے لیتے اگر ہماری پولیس مخلص ہوتی ۔۔۔۔۔ لیکن پولیس کے بیشتر بڑے افسر خود ہمدانی کے بڑے پارٹنرز میں شامل ہیں ۔۔
ہمیں تو قید کرلیا جائے گا مگر ہمدانی کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا ۔۔۔ سو اب ہم دونوں نے ایک پلاننگ کی ہے ۔۔۔ جس کے مطابق مون کو ہمدانی کے سامنے "مار" دیا جائے گا ۔۔۔۔ جبکہ درحقیقت مون تم لوگوں کو لے کر ترکی چلا جائے گا۔۔۔۔ یہاں کے معاملات سیٹ کرنے کے بعد اگر زندگی رہی تو میں بھی آجائوں گا ۔۔۔۔ حالانکہ مجھے معلوم ہے میرا انتظار کسی کو نہیں ہوگا ۔۔۔۔ "
بات کے اختتام پہ پارس میشا کی طرف دیکھ کر خود اذیتی سے ہنسا تھا ۔۔۔
"اتنی ڈرامائی پلاننگ ۔۔۔۔"
علیشہ حیران سی گویا ہوئی تھی ۔۔۔۔ باقی سب اب بھی الجھن میں لگتے تھے ۔۔۔ کچھ کہنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔
"جس دلدل میں ہم دھنسے ہیں یہاں سے یونہی نکلنا ممکن ہے ۔۔۔۔۔!!! ہم کہیں کہ ہمیں جانے دو ۔۔ ہم اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں تو وہ ہمیں جینے نہیں دے گا ۔۔۔۔۔"
منان کے لہجے میں بیچارگی ہی بیچارگی تھی ۔۔۔۔
"آپ لوگ ہماری جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے ۔۔؟
آئی مین ۔۔۔ ہمدانی کا تعلق آپ لوگوں سے ہے ۔۔ ہم سے تو نہیں ۔۔۔۔ وہ آپ لوگوں کو سکون سے جینے دیتا ہے یا نہیں یہ آپ لوگوں کا اور ان کا معاملہ ہے ۔۔۔ آپ لوگوں کی وجہ سے ہم ساری زندگی چھپتے چھپاتے تو نہیں گزار سکتے ۔۔۔۔۔"
میشا کے سنجیدگی سے کہنے پر پارس دھیرے سے ہنس دیا تھا ۔۔۔۔
"کچھ زیادہ ہی خودغرض ہو تم ۔۔۔! لیکن مجھے افسوس سے بتانا پڑ رہا ہے کہ ساشہ اور تم بھی ہمدانی کے ٹارگٹ پر ہو ۔۔۔۔۔"
اور یہاں میشا چپ رہ گئی تھی ۔۔۔
*******************