سر کو جھٹکا لگنے پر وہ جو بڑی پرسکون نیند کی آغوش میں جا سویا تھا ۔۔ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا ۔۔۔۔
تیز نظروں سے وہ میشا کو ہی گھور رہا تھا جو اس سے نظریں چراتی وہ چادر اٹھا رہی تھی جس پر وہ نماز پڑھ رہی تھی ۔۔۔۔
"نیند خراب کر دی میری ۔۔۔ بری بیوی ۔۔۔۔!!"
نیند سے اِدھر اُدھر بچوں کی طرح جھولتا وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا ۔۔۔ لیکن میشا نے اپنی مسکراہٹ اس سے چھپا لی تھی ۔۔۔
"سنو ۔۔۔۔!"
"ہاں ۔۔۔۔؟؟؟"
اس کی بھاری پکار پر اسے رکنا ہی پڑا کیونکہ وہ اس کا پلو تھام چکا تھا ۔۔۔
"سوئی نہیں ہو تم ساری رات ۔۔۔۔؟؟"
سرخ ہوتی گرے آنکھیں زرا سکیڑے وہ شائد اب بھی نیند میں ہی تھا ۔۔۔۔۔
ایک پل کو میشا حیران ہوئی تھی ۔۔ اس نے کیسے اندازہ لگا لیا تھا ۔۔۔۔؟
"ہاں ۔۔۔۔ اور اب سونا چاہتی ہوں ۔۔۔۔"
دوپٹہ جھٹکے سے چھڑوا کر وہ صوفوں کی طرف بڑھ گئی تھی جب پارس بھی کچھ ڈولتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
"یہاں کیوں سو رہے ہو تم سب ۔۔۔۔؟؟؟"
آنکھیں مسل کر اس نے خود کو ہوش دلانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔
"تو اور کہاں سوئیں ۔۔۔ ؟؟؟"
میشا کا سر اب نیند سے بھاری ہو رہا تھا ۔۔ بیزاری سے جواب دے کر وہ ایک صوفے پر ٹانگیں سکیڑ کر بیٹھ گئی اور سر صوفے کی پشت سے لگا لیا ۔۔۔۔۔
وہ آنکھیں بند نہیں کر رہی تھی مگر وہ خود بہ خود بند ہوتی جا رہی تھیں ۔۔۔۔
"اتنے سارے کمرے ہیں ۔۔۔ کہیں بھی آرام سے جا کر سو جائو ۔۔۔!"
جواب دے کر اس نے کچھ پل انتظار کیا تھا میشا کے جواب کا ۔۔ لیکن اس کی طرف سے مسلسل خاموشی پر وہ رکوع کے انداز میں جھکا تھا ۔۔۔۔ گھٹنوں پر ہاتھوں کا دبائو ڈال کر وہ کچھ دیر تک اس کا سویا ہوا چہرہ تکتا رہا ۔۔۔ تکتا رہا ۔۔۔ تکتا رہا ۔۔ یہاں تک کہ اس کی نظروں کی تپش محسوس کرتی میشا خود کو بمشکل نیند کی پیاری وادی سے کھینچ کھانچ کر باہر نکال لائی اور پٹ سے آنکھیں کھول دیں ۔۔۔۔
اپنے عین سامنے ، قدرے نزدیک پارس کا چہرہ دیکھ کر اس کی پیشانی پر ایک لکیر ابھری تھی ۔۔
"مصیبت ۔۔۔ ؟؟؟"
کوفت ہی کوفت تھی اس کے لہجے میں ۔۔۔۔
"محبت ۔۔۔ !!!"
بےبسی سی بےبسی تھی پارس کے انداز میں ۔۔
اچانک ہی جزبات سے بوجھل ہوتا وہ اس کی پیشانی پہ لب رکھ کر اگلے ہی پل ہٹاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔۔ اور صوفے پر بیٹھی میشا خواب کی سی کیفیت میں بیٹھی رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔
اور اس لمس کو خواب ہی سمجھتی آنکھیں پھر سے موند گئی تھی۔۔
*****************
کمرے میں آکر اس نے دو تین گہری گہری سانسیں لی تھیں ۔۔۔ وہ اپنی کیفیت پر جتنا حیران ہوتا کم تھا ۔۔۔۔!
وہ اس وقت صرف اتنا چاہتا تھا کہ پھر سے میشا کی گود میں سر رکھ کر سوجائے ۔۔۔۔ چاہے ہمیشہ کی نیند ہی سہی ۔۔۔۔۔!!
آنکھ سے بہتے آنسو کو اس نے گھبرا کر صاف کیا تھا ۔۔۔
وہ کمزور ہونے سے ڈر رہا تھا ۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا کوئی اس کی کمزوری بنے ۔۔۔۔۔
وہ مضبوط ہی رہنا چاہتا تھا ۔۔۔ لیکن اس وقت ۔۔۔!!!!
کم از کم اس وقت وہ خود کو بہت بےیار و مددگا سا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ !
تیز تیز یہاں سے وہاں چکراتے ہوئے وہ فون کے چمکتے سکرین پر تیزی سے اس پر جھپٹا تھا ۔۔۔ اس وقت اسے راہ فرار چاہیے تھی ۔۔ وہ راہ اس کا اگلا شکار ہی صحیح ۔۔۔!!!
"گڈ مارننگ پاری ۔۔۔۔!"
بہت سارے کسنگ ایموجیز کے ساتھ لکھا یہ میسج اس نے بہت ساری تیوریوں کے ساتھ پڑھا تھا اور پھر میسج کرنے والے کو کال کر دی تھی ۔۔۔۔
"اوہو ۔۔۔ صبح صبح کال کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ جناب اٹھ بھی گئے ۔۔؟؟"
دوسری طرف سے بلاوجہ کا لاڈ دکھایا جا رہا تھا ۔۔ پارس پل میں اچھا خاصہ بیزار ہوگیا تھا ۔۔۔
"جاگ رہا ہوں تب ہی تو کال کی ہے ۔۔۔۔"
"اتنے غصے میں کیوں لگ رہے ہیں آپ ۔۔۔؟؟ لڑائی کی ہے کسی سے جانو نے ؟؟ میرے سوا کس سے لڑے آپ ۔۔۔۔؟؟؟"
آنکھیں گھما کر پارس نے فون کان سے ہٹا کر ایک بار گھورا تھا ۔۔۔۔۔
"کسی سے نہیں ۔۔ پلیز اچھی اچھی باتیں کرو ۔۔۔ طبیعت خراب ہو رہی ہے میری ۔۔۔۔"
"آوو۔۔۔۔ کیا ہوا بےبی ۔۔؟ ڈاکٹر کو دکھائو نا۔۔۔"
اس شوخی لڑکی کی بناوٹی سی باتوں سے اسے الٹی آنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
کمبخت خوبصورت بہت تھی ۔۔ ورنہ پارس اتنی بونگی اور بقول اس کے خود کے "ترسی ہوئی لڑکی" سے دس منٹ بھی بات نہ کرتا ۔۔
"ہاں میں دکھادوں گا ۔۔۔ فلحال کچھ اچھی باتیں کرو ۔۔۔۔"
"میں باتیں ضرور کرتی جان جی ۔۔۔! لیکن مجھے نیند آ رہی ہے ۔۔ میں سونے جا رہی ہوں ۔۔۔"
"یہ سونے کا کون سا وقت ہے "جان جی" ۔۔؟" ابھی تو تم نے مجھے گڈمارننگ میسج کیا ہے۔۔۔"
چبا چبا کر کہتا وہ اپنا سر کسی چیز سے دے مارنا چاہتا تھا ۔۔۔۔
"گڈمارننگ میسج اس لیئے کیا ہے کیونکہ مارننگ ہو چکی ہے ۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔۔!"
اس کے "ادا" سے ہنسنے پر پارس رونے کو ہوگیا ۔۔۔۔
"ہا ۔۔! ہا ۔۔۔! ہا ۔۔!"
سپاٹ چہرے کے ساتھ تین بار "قہقہ" لگا کر اس نے فون بند کر دیا اور درد سے پھٹتے ہوئے سر کو ہاتھوں سے تھامے بستر پر گر گیا ۔۔
"اس سے تو پہلے بہتر تھا ۔۔۔ درد سری کہیں کی ۔۔۔۔!!"
*******************
ناشتے کا دور چل رہا تھا ۔۔۔۔ ڈائننگ ٹیبل کی کرسیوں پر علیشہ اور وریشہ آلتی پالتی مارے بیٹھی تھیں اور میشا امریکن اسٹائل کچن میں پراٹھے بناتے ہوئے خود کو بہت بڑی شیف محسوس کر رہی تھی ۔۔
"تو ناظیرین اب ہم پراٹھے کو توے پر ڈالیں گے ۔۔۔۔۔
چھس۔۔۔۔۔۔!!"
گھی لگانے پر تیز آواز اٹھی تھی ۔۔ اس وقت یہ آواز بھی میشا کو سرگم لگ رہی تھی ۔۔۔
جبکہ ساشہ انڈوں کا آمیزہ تیار کر کے بھائیوں کو اٹھانے ان کے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔
خنکی بھرے اندھیر کمرے نے اسے چونکا دیا تھا ۔۔
اس کے بھائیوں کو تو لائٹ بند کر کے بلکل نیند نہیں آتی تھی ۔۔۔۔
اسی الجھن میں ساشہ نے لائٹ کھولی تو سامنے کا منظر اسے حیران کرنے کے ساتھ ساتھ ہنسنے پر بھی مجبور کر گیا ۔۔
آڑھے ترچھے لیٹے اس کے بھائیوں کے درمیان منان بھی چت پڑا تھا ۔۔ کسی کی ٹانگ اس کے پیٹ پر تھی تو کسی کا بازو اس کی گردن سے لپٹا تھا ۔۔۔۔
"یہ کب آیا ۔۔ ؟ اور یہاں کیوں ہے ۔۔۔۔؟؟"
سر جھٹک کر اس نے گویا الجھن بھی جھٹک دی اور آگے بڑھ کر کریم کا شانہ ہلانے لگی جو "اونہوں" کرتا لحاف کے اندر سر چھپانے لگا ۔۔۔ جو درحقیقت لحاف نہیں بلکہ منان کی جیکٹ تھی جو وہ پہنے پہنے ہی سو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
سینے میں گھسے آتے کریم کے سر کو پیچھے جھٹک کر اس نے مندی مندی آنکھیں مسلتے ہوئے ساشہ کو دیکھا تھا جو اسے جاگتا دیکھ کر بیڈ سے قدرے پیچھے ہوگئی تھی ۔۔
"آ۔۔ اب! اٹھ بھی جائو تم لوگ ۔۔!"
ڈپٹنے والے انداز میں جلدی جلدی بول کر وہ لمحہ سے پہلے باہر بھاگ نکلی تھی اور کہنی کے بل لیٹا آنکھیں سکیڑے اسے تکتا منان اداسی سے مسکرا کر پھر سے سونے کی تیاری میں لگ گیا تھا لیکن "آہا یہ پراٹھوں کی خوشبو ۔۔۔"
بھوک اچانک ہی جاگی تھی ۔۔ گرڑ گرڑ کرتا پیٹ پکڑے وہ بھی واشروم بھاگ نکلا تھا ۔۔۔۔!
******************
ایک ہفتہ ہوگیا تھا وہ سب گھر میں ہی محصور تھے ۔۔۔
لیکن جب گھر میں ہر چیز میسر تھی تو انہیں بھی کوئی ضرورت نہیں محسوس ہو رہی تھی باہر جانے کی ۔۔۔۔!
تینوں بھائیوں کی اپنی ہی خوشی تھی کہ اسکول نہیں جانا پڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وریشہ نے ان کی یہ خوشی غارت کردی تھی ۔۔ انہیں یہ بتا کر کہہ فلحال ساشہ اور میشا انہیں پڑھایا کریں گی ۔۔۔ اور اس وقت برے برے منہ بنائے وہ ساشہ سے پڑھ کم اسے زچ زیادہ کر رہے تھے ۔۔۔۔!!!
اور دوسری طرف میشا پارس سے پوچھ رہی تھی کہ ان کے گھر میں موجود سامان کا کیا بنا ۔۔۔۔؟
"یہاں کس چیز کی کمی ہے جو تمہیں اس قیمتی سامان کی یاد ستا رہی ہے ۔۔۔ ؟؟"
"ہمارے لیئے قیمتی ہی ہے ۔۔۔ محنت کر کے ۔۔ خون پسینے کی کمائی سے بنایا ہے وہ سامان ۔۔۔۔ !! تمہاری طرح حرام کے پیسوں سے نہیں حاصل کیا تھا ۔۔"
ہونٹ سکیڑے وہ میشا کو کوئی جواب دینے ہی لگا تھا جب گنگناتے فون نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔۔۔ فون کرنے والے کا نام دیکھ کر وہ یشا سے کافی فاصلے پر جا کھڑا ہوا تھا ۔۔ میشا نے اس کا نظریں چرانا محسوس کر لیا تھا جب ہی ہنکار بھرتی وہاں سے جانے لگی لیکن پھر کچھ سوچ کر دبے قدموں پارس کی طرف بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔
"ہاں ہاں پارس کی جان میں سمجھ گیا ۔۔۔۔۔ اب جلدی سے یہ بتائو تمہیں برتھڈے گفٹ میں کیا چاہیے ۔۔؟؟؟ پھر میں بتائوں گا کہ مجھے کیا چاہیے ۔۔۔۔!"
اس کے انداز سے ظاہر تھا اس کا شکار پوری طرح اس کے بچھائے جال میں پھنس چکا تھا ۔۔۔
میشا کو نہ جانے کیوں ہنسی آگئی تھی ۔۔۔۔
"لڑکیاں کیسے ایسی چیپ باتوں میں آجاتی ہیں ۔۔۔۔؟؟ مجھ سے ایسے بات کرتا تو میں پہلی فرصت میں اس کا منہ توڑ دیتی ۔۔ لیکن منحوس انسان نے ٹارگٹ بھی تو میری مجبوریوں کو کیا تھا ۔۔۔"
ناگواری سے سوچتی وہ زرا آگے کو ہوئی تھی ۔۔۔ لان میں کھلنے والی کھڑکی میں کھڑا وہ کسی احساس سے چونک کر مڑا تھا لیکن اسے کچھ دیر ہوگئی تھی ۔۔۔۔ اس کے کان میں بن بن کر "پارس جانو کھانا کھا لیں " کہتی میشا وہاں سے پوری رفتار سے دوڑتی ہوئی بھاگ نکلی تھی ۔۔ حیران حیران سا پارس اس لڑکی کو سمجھاتے ہوئے ہنس بھی رہا تھا ۔۔۔ اسے میشا سے ایسے بچپنے کی ہرگز امید نہیں تھی ۔۔ وہ اسے کافی میچیور لگتی تھی ۔۔۔ اب اسے اندازہ ہوا تھا میشا نے اپنی اصل شخصیت کو ایک خول میں چھپا رکھا یے ۔۔۔۔۔
"ہاں جان ۔۔۔۔ یہ کزنز کی شرارت ہے ۔۔۔۔"
مسکراتی آنکھیں لیئے وہ پھر کھڑکی کی طرف پلٹا تھا ۔۔۔
"تو آپ نے میرے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتادیا ۔۔۔؟"
ایک سرخوشی کے عالم میں دوسری طرف سے چیخ کر پوچھا گیا تھا ۔۔۔۔
"ہاں"
چڑیا دام میں پھنس چکی تھی ۔۔ مگر پہلی بار پارس کی آنکھوں میں کوئی خوشی نہیں تھی ۔۔۔۔
اپنے اس بدلائو کا اسے بھی ٹھیک اندازہ نہیں تھا ۔۔۔۔
*******************