آج حسن نے بہت برا کیا بہت عجیب لگا مجھے نوال بیچاری تو پہلے ہی نہیں آ رھی تھی ہم اسے زبر دستی لائی تھی
وہ اس دن والے اپنے سلوک کی وجہ سے شرمندہ تھی وہ تو حسن سے معذرت کرنا چاہتی تھی لکن بد تمیز حسن کتنا اور ریکٹ کر گیا
زہرا کا
غصہ تو کسی صورت کم ہونے والا نہیں تھا
اور چپکنے والی جو بات کر رہا تھا نوال کب بیٹھی اسکے پاس
وہ تو ہادی سمجھ کے بیٹھ گئی تھی
سبین نے جواب دیا
میرا تو د ل چاہا منہ توڑ دوں حسن کا
رضا نے غصے سے کہا
اب تھوڑ لو
حسن جو موبائل بھول گیا تھا لینے آیا رضا کی بات سن کے بولا
حسن تیرے بھی پتہ نہیں کتنے چہرے
اک طرف عا شی تیرے ساتھ
ہر وقت رھی اسے چیپکنا کہتے اسے تو کچھ نہیں کہا
جب ہم لوگوں نے تم سے کہا اسے کچھ کہتے نہیں تب کہا میں کسی کا دل نہیں توڑنا چاہتا
اور بقول تمھارے نوال سے تمہیں بہت پیار اس کا دل توڑتے شرم نہیں ائی جھوٹے فریبی لوگ ڈبل فسیز ہوتے ہو تیرے پتہ نہیں کتنے روپ
میں تو کہتا نوال نے بہت اچھا کیا تم جیسے کو منہ نہیں لگایا ورنہ تم پتہ نہیں اسکا کیا کر دیتے
ہادی نے حسن کو اچھی خاصی سنا دی تھیبہت اچھا کیا نوال نے جو تم جیسے کمینے کو ٹھکرا دیا
تم عا شی جیسی لڑکی ڈیزرو کرتے ہو ڈالی ڈالی منڈلانے والی
سعد نے بھی حصہ ڈالا
میں تو تم دونوں کو ملوانے کا سوچ رہا تھا
لیکن آج والی تمہاری گھٹیا حرکت کے بعد مجھے اپنا فیصلہ غلط لگ رہا شکر ایسی کوئی کوشش ابھی نہیں کی تھی میں نے پیچھلی بار بھی تمہارا ساتھ دینے کی وجہ ناراض ہو گئی تھی بہت مشکل سے راضی ہو ئی تھی اب ایسا کوئی رسک نہیں لوں گا تم جیسے گرگٹ کے لیے
اب کے رضا نے کہا
او میرے خدا یا تم لوگ کتنے بد گمان ہو مجھ سے
یار وہ تو مجھے اس پے اس دن والی بے عز تی کا غصہ تھا
اور وہ تم لوگ سے کتنا فری ہوکے بات کرتی لیکن میرے دیکھ کے ایسے منہ بناتی جیسے کرڑ وا با دام منہ میں چلا گیا ہو
اس وجہ سے اسے سنا دی آج یار کچھ زیادہ بڑا کر دیا کیا
حسن نے ایسے کہا جیسے کچھ کیا ہی نا ہو
کر لو بات سب کر کے پوچھ رہے زیادہ تو نہیں کر دیا بیٹا کچھ نہیں بہت زیادہ برا کر دیا وہ تو تمہاری شکل نہیں کبھی دیکھے گی اب کبھی
سحرش نے
جل کے کہا
میں معافی مانگ لوں گا تم لوگ ہیلپ کر دینا اور پلیز میرے خلافبھڑکنا مت
حسن نے ان لوگوں کو وارن کیا
بیٹا آپ معافی کی بات کرتے ہیںں مجھے نہیں لگتا وہ کبھی آپکو ملے بھی بہت جلد اسکی شادی ہونے والی
ہادی نےا طلا ع دی
تو ہمیشہ بری بات کرنا وہ میری ہے میری رہے گی اسے حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا
حسن نے جذبات سے بھر پور لہجے میں کہا
بچو تو صرف باتوں کی حد تک کہتا کرے گا کچھ نہیں
سعد نے مذ اق بنایا
حسن تو میری بہن کی لائف میں کوئی مسلہ نہیں بنا ے گا خدا کا واسطہ بخش دے اسے
رضا نے ہاتھ جوڑے
اوکے میں کچھ نہیں کرتا
حسن رنجندگی سے کہا اور چل دیا
اٹھو سبین میں تمہیں ڈراپ کر دوں گا
رضا اجازت لیتے ہوۓ اسے ساتھ چلنے کا بولا
سحرش اب ہم لوگ بھی چلتے بہت تھک گئی ہوں مجھ سے اتنا بیٹھا نہیں جاتا اب
زہرا نے کہا کیوں کے اسکی حالت ہی ایسی تھی کے وہ زیادہ ٹائم بیٹھ سکے
اس دیں کے واقع کے بعد نوال کو رضا اور سبین نے راضی کر لیا تھا
نوال کا خیال تھا کے سب کیا حسن نے باقی سب کو کیوں تنگ کروں
ویسے ہی دنگزرنے لگے
زہرا کے ھاں بیٹی ہوئی سب اکٹھے ہوۓ سواۓ نوال کے اس نے کال پے ہی اسے مبا ر ک دے دی
زہرا ناراض تھی لیکن نوال نے مانا لیا
ڈگری مکمل ہوتے ہی نوال کی شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی تبی رضا کی وارننگ کی وجہ سے حسن نے کچھ نہیں کیا
وہ ٹریننگ کے لیے چین چلا گیا
....................
کمینے اتنی بھی کیا نار ضگی کیا کوئی بات نہیں سنو گا میری شادی پے ضرور او گے
رضا نے حسن کو کہا
یار پہنچ جاؤ گا
حسن نے تسلی دی
اوکے نا آیا تو تیری میری بس
رضا نے دھمکی دی اور کام کا که کے کال بند کر دی
واہ یار میری دھمکی کا اثر ہو گا تو اک دن پہلے آ گیا اب کچھ کام تو کرواؤ گے
رضا حسن کو دیکھ کے بہت خوش ہوا تھا
یار تو کرتا بھی تعلق ختم کرنے والی بات جو مجھ سے بردشت نہیں ھوتی رضا بھائی مجھ بازار کچھ کام اگر آپ فری ہوں تو ساتھ چلنے
نوال بنا دیکھے بولتی چلی ائی
حسن اپنی بات ادھوری چھوڑ کے موڑا
کسی ہو
حسن نے اسے گہری نظر سے دیکھتے ہوۓ کہا
فائن آپ کیسے
نوال نے لگے بندھے جواب دیا
ٹھیک ہوں
حسن نے اتنا ہی بولا تھا نوال چل دی
یہ اتنی جلدی آ گئی اور اسکا وہ کدھر جو تمہارا بہنوئی
حسن نے جل کے کہا
یار یہ ادھر ہی ھوتی اور نوال کی شادی نہیں ہوئی
رضا نے جان بوجھ بات ادھوری چھوڑی
اس وقت تم لوگوں نے خود کہا تھا کے ڈیٹ فکس ہو گئی پھر کیا ہوا
حسن نے حیر ا نی سے پوچھا
یار جس کے ساتھ انکل نے اسکی شادی کرنی چاہی تھی وہ اسمگلر نکلا شکر پہلے پتا چل گیا ورنہ اسکی زندگی برباد ہو جاتی
رضا نے افسردگی سے کہا
اچھا
حسن نے پر سوچ لہجے میں کھا
....................
آپکو
حسن عبّاس والد شہباز حسین کے ساتھ نکا ح قبول ہے
نوال کا دل زور سے د ہڑ کا جیسے پسلیا ں ٹار کے با ہر آ جاۓ گا
دھڑکنو ں کے شور میں نوال نے تینو ں بار ھا ں کر دی
وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کے ایسے حسن اسکی زندگی میں اے گا وہ حسن سے بہت ناراض تھی حسن اچھی طرح جنتا تھا لیکن اسے یقین تھا کے وہ اسے مانا کے گا
حسن کو جب رضا نے نوال کی شادی ٹوٹنے کا بتایا اس بے اسی وقت اسے سے شادی کا فیصلہ کر لیا اور رضاسے ہیلپ کی درخوست کی
رضا راضی ہو گیا وہ بھی نوال کو خوش دیکھنا چاہتا تھا پھر رضا کی مدد سے ہی حسن نے نوال کے والدین کو ما نا لیا رضا کی مہندی پے ہی دنوں کا نکا ح ہو گیا تھا رخصتی بعد میں رکھی گئی
نکا ح کے بعد رضا کی شادی کے سارے فنکشن میں نوال نے حسن کو بری طرح اگنور کیا
حسن نے برا نہیں مانا کیوں کے وہ اسکی ناراضگی کو ٹھیک سمجھ رہا تھا
..........
نوال بہت اچھی لگ رہی ہو حسن بھائی پہلے کم دیوانے تمہارے جو اور بنانا سبین نے کہا
سبین تو بھی رضا بھائی کے ساتھ شادی کے بعد کافی نکھر گئی ھو
زہرا نے اس پے بھر پور نظر ڈالتے کہا
بیگم صاحبہ آ جانے بیچارے حسن کو جانے دیں روم میں آپکی بیٹی نے رو رو کے برا حال کیا ہوا
ہادی نے انٹری کرتے کھا
پیچھے سعد اور رضا بھی آ گے سحرش اور سبین کو نہ نہ کرتے با ہر نکل کے لے گے کیوں کے وہ چاہتے تھے کے حسن نوال کو جلدی سے منع لے
کمرہ خالی ہوتے ہی نوال اٹھ کے چینج کرنے لگی تھی کیوں کے وہ حسن کے سامنے نہیں جانا چاہتی تھی لیکن نا کام رھی کیوں کے حسن اسی وقت روم میں آ گیا
کدھر جا رھی یقیناً تم ڈریس چینج کرنے لگی پہلے مجھے جی بھر کے دیکھ تو لینے دو تمہارے اس انوکھیے روپ کو
حسن نے جذبات سے چور انداز سے کہا
نوال کچھ بولنا چاہتی تھی لیکن حسن نے اسکے ہونٹوں پے انگلی رکھ کے خاموش کروا دیا
نوال تم پلیز میری بات سن لو میں معذ رت کرتا اپنے اس دن کے سلو ک کی مجھے پتا تمہیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑا میں سب کا ازالہ کر دو گا مجھ پے اک بار عتماد تو کرو
مجھے اک موقع دو پلیز
حسن نے پور امید انداز سے کہا
نوال نے بھی دشمن جاں کو اک موقع دینے کا فیصلہ کر لیا اور سر کو جونبش دے کا ھاں کی
شکریہ میری جاں میں تمہاری زندگی کو خوشیوں سے بھر دوں گا اسکے ما تھے پے اپنی محبت کا ثبوت دیا
کھڑکی سے پار چاند ان پیار کرنے والوں کا حسین ملاپ دیکھتا رہا
ختم شد