کیا مطلب ؟ آپ کچھ چھپا رہے ہیں مجھ سے بتائیں ناں ، اماں کو کیا ہوا ہے؟ وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے خوفزدہ لہجے میں بولی۔
آرام سے ناشتہ کرو پھر ہسپتال اماں کا ناشتہ لے کر بھی جانا ہے اور تم کیا ساری رات جاگتی رہی ہو؟ مامون نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں بچھے سرخ لکیروں کے جال کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
جی!
مجھے تو کوئی فائدہ نہیں ہوا نا تمہارے جاگنے کا۔ مامون کا معنی خیز جملہ اسے حیا آمیز کوفت میں مبتلا کر گیا۔
میں خالہ جان سے تمہاری شکائت کروں گا کہ آپ نے اپنی بیٹی کو میرے ساتھ رخصت کر دیا تھا لیکن آپ کی بیٹی تو مجھے اپنے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیتی ۔ وہ شریر لہجے میں بولا۔
یہ بات آپ اماں سے کہیں گے؟ رانیہ نے شرم سےپانی پانی ہو کر کہا۔
بالکل !اس نے پراٹھے اور انڈے سے انصاف کرتے ہوئے کہا۔
شرم کریں !
میں بھی اگر تمہاری طرح شرم کرتا رہا ناں تو بے اولاد رہ جاؤں گا میرا خاندان میری نسل کیسے آگے بڑھے گی؟ وہ مزید شریر ہوا تھا۔
فضول باتیں کرنے کے علاوہ بھی کچھ آتا ہےآپ کو ؟ وہ غصے اور شرم سے کھڑی ہو گئی اور تیز لہجے میں بولی۔
آتا ہے بہت کچھ آتا ہے تم اگر پاس آنے کی اجازت دو تو میں عملی ثبوت پیش کر سکتا ہوں۔ مامون نے اس کے غصے اور حیا سے لال ہوتے چہرے کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
مجھے کسے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ غصے سے جواب دیتی کمرے سے باہر نکل گئی ۔ مامون کا شوخ و شریر قہقہ اسے مزید تپا گیا تھا۔
_______________________
وہ دونوں ہسپتال پہنچے تو رضیہ بیگم ان کی منتظر تھیں ۔ انہیں دیکھ کر خوشی سے مسکرا دیں ۔ رانیہ نے بے اختیار نگاہ اٹھا کر مامون کو دیکھا تھا اور نگاہ جھکا لی ۔ مامون نے اس کی خاموشی دیکھ کر انہیں جواب دیا۔
خالہ جان یہ میرے ساتھ خوش نہیں ہے۔
کیا؟ رضیہ بیگم کے ساتھ رانیہ نے بھی بوکھلا کر اسے دیکھا۔
جی ہاں ! یہ میرے ساتھ خوش نہیں ہے بلکہ بہت خوش ہے ۔ مامون نے بڑی خوبصورتی سے بات بنائی تو رانیہ کی جان میں جان آئی۔ رضیہ بیگم بھی خوش ہوئیں ۔
یا الله تیرا شکر ہے اب میں سکون سے مر سکوں گی ، الله تم دونوں کو ہمیشہ شاد وآباد رکھے تندرست رکھے۔ رضیہ بیگم نے دل سے انہیں دعا دی ۔ مامون نے اس بار بھی دل سے آمین کہا تھا۔
تم نے اپنی ماں کی وصیت اور خواہش پر مجھ سے یہ پیپر میرج کر ہی لی ہے تو چند روز ان کے سامنے اس شادی سے خوش ہونے کی ایکٹینگ تو تمہیں کرنا ہو گی ورنہ انہیں تمہارے محفوظ مستقبل کی فکر پر پریشان کیے رکھو گی۔ مامون نے کمرے سے باہر آکر رانیہ سے نہایت ہی سنجیدہ لہجے میں کہا اور رضیہ بیگم کے کسی کام سے چلا گیا۔
چند روز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رانیہ اس کے اس لفظ پر اٹک کر رہ گئی تھی۔ رضیئہ بیگم کی طبیعت سنبھل نہیں رہی تھی وہ تو بس رانیہ کی شادی کی خوشی میں خود کو سنبھالے ہوئے تھیں ۔
رضیہ بیگم نے وکیل کے زریعے اپنی وصیت لکھوئی تھی، امجد ہاؤس رضیہ بیگم کے نام تھا جو انہوں نے قانونی طور پر رانیہ کے نام کر دیا تھا۔ اور امجد علی مرحوم کا اسٹر بیچ کر اس کی رقم رانیہ کے نام بینک میں جمع کرانے کی قانونی طور پر وصیت کر دی تھی۔
رضیہ بیگم کی بیٹی ہونے کے ناطے وہ ان ان کی قانونی وارث تھی اس لیے یہ پراپرٹی تانیہ کو ہی ملنی تھی ۔ اسجد کی نافرمانیاور بے رخی کی بدولت اسے جائداد میں سے کچھ نہیں دیا گیا ۔ ویسے بھی وہ بہت دولت مند بن گیا تھا ۔ اس نے تو ماں باہ اور بہن سے ہر تعلق اور رابطہ توڑ لیا تھا۔ اس لیے رضیہ بیگم نے اسے اس مختصر جائداد میں سے حصہ دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔
________________________
مجید ماموں اور حمید نے اگلے روز رخسانہ مجید کو رانیہ اور مامون کی نکاح کی اطلاع دی تھی۔ جسے سن کر پہلے تو انہیں یقین نہ آیا اور جب دونوں نے رانیہ کے نکاح میں بطور گواہ شریک ہونے کا بتایا تو وہ آگ بگولا ہو گئیں ۔ کیونکہ اب وہ رانیہ کو اپنی بہو بنا کر گھر اور سٹور اپنے نام کرنے کے خواب دیکھ رہیں تھیں ۔ پل پل نئی نئی سازشیں ان کے دماغ میں پلتی رہتی۔تھیں ۔ اپنی سازش سے ناکامی پر وہ تلملا رہی تھیں سیدھی ہسپتال جا پہنچیں ۔
تمہیں کچھ خبر بھی ہے مامون کے گھر والوں نے تمہیں تمہارے گھر اور دکان کی وجئ سے قبول کرنے کی حامی بھرے تھی۔وہ تمہارے زریعے تمہارا گھر مامون کے نام کرا کے تمہیں چلتا کریں گے۔ رخسانہ مجید نے رانیہ کو باہر لان میں لے جا کر راز داری سے بتایا۔
لیکن ان کے پاس کس چیز کی کمی ہے جو وہ میری جائیداد لیں گے؟
ہوس ، لالچمیری بچی ، لالچ یہ دولت مندوں کو بھی جائز ناجوئز ذریعے سے مال بنانے پر اکسائے رکھتی ہے ۔ میرا نام مت لینا کہ میں تمہیں اندر کی بات بتا دی ہے اور ظاہر ہے تم خود سوچو کہ تم جس الزام اور تہمت کے تحت محلے ، خاندان اور شہر بھر میں بدنام ہو چکی ہو اس کے بعد بھلا مامون کے ماں باہ تمہیں اپنی بہو کیوں بنانے لگے۔وہ تو تمہاری جائداد کا لاکچ ہے انہیں وہ ہتھیا کر وہ لوگ تمہیں دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکیں گے۔ ہائے میرےی یتیم رانیہ میرے بسس میں ہو تو میں تجھے ہو دکھ سے بچا لوں۔ ۔ رخسانہ مجید نے سنجیدگی سے کہا آخر میں باقاعدہ آنسو لا کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔ رانیہ کے وجود میں نفرت کی چنگاریاں پھر سے بھڑک اٹھیں تھیں ۔
رانیہ! جلدی آؤ خالہ جان کی حالت بگڑ رہی ہے ۔ مامون کی آواز پر وہ چونک کر پلٹی اور تیزی سے بھاگتی ہوئی وارڈ میں داخل ہوئی ۔ رضیہ بیگم کی سانسیں اکھڑ رہیں تھیں ۔ ڈاکٹر وزیر علی انہیں آکسیجن لگا رہے تھے ۔مامون اور رانیہ ساتھ کھڑے تھے۔ مامون کو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلا لیا ۔
جی خالہ جان !مامون فورًا قریب آ گیا۔ رضیہ بیگم نے نجانے ٹوٹتی سانسوں کے بیچ اس سے کیا کہا تھا کہ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور رانیہ کا ہاتھ تھام کر ا کے قریب کھڑا ہو گیا ۔ رضیہ بیگم نے مسکرا کر ان دونوں کو الوداعی نظروں سے دیکھا اور پھر دھیرے دھیرے آنکھیں موند لیں ۔ وہ ابدی نیند سو گئی تھیں لیکن ہونٹوں پر ایک آسودہ مسکراہٹ تھی جو کسی یقین اور اطمینان کے بعد ہی انسان کو میسر آتی ہے۔
اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رانیہ نے تڑپ کر انہیں پکارا اور صدمے سے بے ہوش ہو کر مامون کی بانہوں میں جھول گئی ۔
_______________
رضیہ بیگم بھی اپنی اکلوتی بیٹی کو روتا ، تڑپتا، بلکتا چھوڑ کر ملکِ عدم سدھار گئیں اور وہ لاکھ رونے تڑپنے اور چاہنے کے باوجود بھی روک نہیں سکی تھی۔ رخسانہ مجید نے ایسے میں رانیہ کو بہت سنبھالا تھا ۔ ان کی تینوں بیٹیاں بھی اس کی دلجوئی کر رہی تھیں ۔ مامون تو اس کی حالت دیکھ دیکھ کر تڑپ رہا تھا۔ محلے اور خاندان والوں نے رانیہ کو ہی اس کے ماں باپ کی کی موت کا زمہ دار ٹھہرا لیا تھا۔
سب اس کے خراب کردار کے انکشاف پر اس کی منگنی ٹوٹنے سے امجد علی اور رضیہ بیگم کی صدماتی موت کو تعبیر کر رہے تھے اور وہ لوگوں کی زہریلی باتیں سن کر مزید ہلکان ہو رہی تھی۔ وقت رکتا نہیں ہے ، صدمہ کتنا ہی بڑا درد و غم کتنا گہرا اور کڑا کیوں نہ ہو گزرتے وقت کی حکمرانی اسے دھیرے دھیسرے کم کرتی جاتی ہے۔ غم دل میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں غم ختم ہو گیا ۔ رانیہ نے بھی خود کو ایک بار پھر سنبھال لیا تھا۔ اب وہ اکیلے میں روتی تھی سب کے سامنے خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے رکھتی تھی۔ مجید ماموں کی اس کے پاس آ کر رہ جاتیں دو ہفتے رضیہ بیگم کو رخصت ہوئے بھی گزر گئے تھے۔
ٹرن۔۔۔۔ٹرن۔۔۔۔ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو رانیہ نے اٹھ کر ریسیو ر اٹھا لیا ۔
ہیلو!
رانیہ۔۔۔۔۔!
جی!میں مامون کی ممی بات کر رہی ہوں ۔۔۔دوسری جانب سلمیٰ بیگم بول رہیں تھیں ۔
السّلام و علیکم آنٹی!
وعلیکم السلام ! کیسی ہو؟
جی ٹھیک ہوں۔ ۔
مامون تمہاری طرف تو نہیں آیاہوا؟
جی نہیں ۔
ہوں یہ بتاؤ اب تمہارے کیا ارادے ہیں ؟
میں سمجھی نہیں آنٹی۔
تو میں تمہیں سمجھا دیتی ہوں ، سنو لڑکی میرے بیٹے کا پیچھا چھوڑ دو اسے تمہارے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں ہے ، میں تم جیسی لڑکی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتی ۔ ایک عزت ہی تو ہوتی ہے لڑکی کے پاس تمہارے پاس تو وہ بھی نہیں ہے ۔ مجھے کوئی شوق نہیں زمانے بھر میں بدنام ہونے والی لڑکی کو اپنے گھر کی زینت بنانے کا ۔ میرے بیٹے کو اپنی محبت کے جال میں چھنسا کر تم کیا سمجھتی ہو ۔
میں کچھ نہیں سمجھتی ، اپنے بیٹے کو سنبھال کر رکھیں اپنے پاس ۔ رانیہ نے غصے سے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور ریسیور پٹخ دیا۔ ائسٹینیشن پر رخسانہ مجید ان کی گفتگو سن چکی تھیں اور دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھیں کہ ان کا کام آسان ہو رہا ہے۔
____________
رانیہ بیٹی اب میں چلتی ہوں گھر میں سو کام ہیں کرنے والے۔ رخسانہ مجید نے کمرے میں آآکر پیار سے کہا۔
ٹھیک ہے ممانی ! آپ جائیں ، آپ بھی کب تک میری میری وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کے یہاں بیٹھی رہیں گی۔ رانیہ مدھم آواز میں کہا۔
کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا ۔ اب تو تم مامون کی بیوی ہو ۔ یہ پابندی نہ ہوتی تو میں تمہیں اپنے گھر لے جاتی ، اب۔ تو مامون ہی تمہارا زمیدار اور سر پرست ہے اس چائیے کہ تمہیں رخصت کرا کے لے جائے یوں بھی تمہارا اکیلے رہنا ٹھیک نہیں ہے لوگ الگ الٹی سیدھی باتیں بناتے ہیں ۔ اچھا اپنا خیال رکھنا میں پھر آؤں گی ۔ خدا حافظ۔ رخسانہ مجید اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر ملائمت سے بولیں اور وہاں سے چلی گئیں ۔ رانیہ گم صم سی بیٹھی سلمٰی بیگم کی باتوں ہپر کڑھ رہی تھی۔
رانیہ ۔۔۔۔۔! مامون کی آواز پر اس نے چونک کر سر اٹھا کے دیکھا ۔
دروازہ کیوں کھلا تھا؟؟
ممانی ابھی واپس گئی ہیں اپنے گھر ۔ رانیہ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
تو ان کے جانے کے بعد تمہیں دروازہ بند کر دینا چاہیے تھا۔
ہاں ! مجھے دروازہ بند کر دینا چاہئیے اب۔ وہ معنی خیز جملہ بولی۔
کیا بات ہے کوئی نیا شاک پہنچا ہے بہت دکھی لگ رہی ہو ۔مامون اس کے چہرے سے اس کی کیفیت و حالت محسوس کرتے ہوئے بے چینی سے پوچھ رہا تھا ۔ اس نے نہایت بے مروتی سے جواب دیا۔
آپ میرے دکھوں کی فکر مت کیجئیے ۔۔۔۔فرمائیے کیسے آنا ہوا؟
تم مجھ سے اجنبی کی طرح کیوں بات۔ کر رہی ہو اس قدر غیریت کیوں ہے تمہارے لہجے میں ؟ وہ بے قرار ہو کر سوال کر رہا تھا ۔
اپنائیت کا کوئی تعلق ، کوئی رشتہ ہمارے بیچ بنا ہی کب تھا؟
میری طرف سے تو شروع دن سے یہ رشتہ تھا تمہیں محسوس نہیں ہو تو اب ہو جائے گا تم میری بیوی ہو ، شوہر ہوں ، میں۔ تمہارا ۔ ماومن نے اس کے صاف ستھرے مگر افسردہ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
یہ مجبوری کا رشتہ ہے اور مجبوری کے رشتے بہت ناپائیدار ہوتے ہیں مسٹر مامون ۔
رانیہ نے کھڑے ہو کر کہا اس کا یہ جملہ ، یہ لہجہ ، ہر انداز مامون کو دکھ سے دوچار کر رہا تھا مگر وہ ضبط پر ضبط کیے جا رہا تھا۔
میں تمہیں اس رشتے کی پائیداری ثابت کر کے دکھاؤں گا ان شاء الله یہ رکھو شائد کھبی تمہارے کام آ سکیں ۔ مامون نے سنجیدہ مگر پر یقین لہجے میں کہا اور اپنے ہاتھ میں پکڑا ایک خاکی لفافہ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
کیا ہے اس میں ؟
ہماری تقریب کی تصاویر اور نکاح نامے کی فوٹو کاپیاں ہیں ۔ اصل نکاح نامہ میرے پاس ہے کیونکہ تم سے کچھ بھی بعید نہیں ہے غصے میں آکر نکاح نامہ ہی پھاڑ ڈالا تو میں تو بے موت مارا جاؤں گا نا، تمہیں اپنے ساتھ رکھنے کا ثبوت بھی اپنے پاس رکھنا ضروری ہے ۔ مامون نے مسکراتے ہوئے کہا تو رانیہ نے نفرت سے لفافہ بیڈ پر پھینک دیا۔ مامون کو بہت دکھ پہنچا تھا اس کی اس حرکت سے۔
یہ تمہاری امانت تھی میرے پاس اسے سنبھال کر رکھنا ۔ ماومون نے ایک نیلے رنگ کی فائل اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
اب یہ کیا ہے؟ وہ فائل لے کر بدتمیزی سے پوچھ رہی تھی۔
اس گھر کے کاغذات ہیں جو خالہ نے تمہارے نام کر دیا تھا۔ خالہ جان کی وصیت کی کاپی بھی اس میں موجود ہے اور جنرل سٹور میں نے ان کی وصیت کے مطابق فروخت کر دیا ہے اور اس کی تمام رقم تمہارے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا دی ہے ۔ تم چاہو تو بینک جا کر تصدیق کر سکتی ہو اس میں رجسٹری اور رسیدیں بھی موجود ہیں دیکھ لو۔
آپ نے یہ پراپرٹی اپنے نام کوں نہیں کروائی ؟ وہ شک بھرے لہجے میں بولی۔
میں یہ بے ایمانی کیوں کرتا بھئی ، میرا تمہاری پراپرٹی پر کوئی حق نہیں ہے۔ میرا حق صرف تم ہے رانیہ ۔ مامون نے نرمی سے کہتے ہوئے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے جو اس نے نفرت سے جھٹک سئیے۔
مجھ پر بھی آپ کا کوئی حق نہیں ہے اگر آپ کو یہ پراپرٹی چاہئے تو لے لیں اور جان چھوڑ دیان میری۔
کیسے چھوڑ دوں تمہاری جان ! تم میری جان ہو ۔ بیوی ہو میری ، ذمےدار ہوں میں اب تمہارا۔ وہ اب بھی پیار سے سمجھا رہا تھا۔
تم صرف میری ذلت و رسوائی اور جگ ہنسائی کے ذمےدار ہو تم میرے اماں ابا کی موت کے ذمےدار ہو ۔ تم قاتل ہو میرے ماں باپ کے تم نے میری بے رخی اور انکار کا بدلہ لیا ہے نا، مجھے اس طرح سے رسوا اور اکیلا کر کے۔ بہت گھٹیا انسان ہو تم، وہ نفرت اور غصے سے چیخ کر بول رہی تھی اور مامون کی دھجیاں بکھیر رہی تھی۔ اس نے بمشکل دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرانے سے بچایا تھا۔ کتنی دیر تک وہ صدمے اور دکھ کے باعث کچھ بول ہی نہ سکا پھر بولا تو لہجہ نہایت نرم تھا۔
تم ہمیشہ مجھ سے نالاں رہی ہو کیوں؟ میں نہیں جانتا لیکن رانیہ علی تم سے اتنا ضرور کہوں گا کہ تم بدگمانی کے کوہ ہمالیہ پر کھڑی ہو جہاں سے تمہیں میری ذات بہت چھوٹی اور حقیر دکھائی دے رہی ہے۔ ٹھیک ہے تم مجھ سے نفرت کرو نہ رہو میرے ساتھ لیکن تمہاری ماں نے مرتے وقت مجھ سے منت کی تھی کہ مامون بیٹا رانیہ بہت جذباتی اور نادان لڑکی ہے اس کی کسی نادانی کی وجہ سے نکاح کا یہ بندھن کبھی مت توڑنا ۔ یہ ان کی ان وصیت اور محبت کا تقاضہ ہے رانیہ مامون ضیاء کہ میں۔ تمہیاں اس رشتے سے جوڑے رکھوں میں تمہیں اس بندھن سے کبھی آزاد نہیں کروں گا ۔ ہاں اگر تمہیں آزادی چاہیے تو پھر میری موت کی دعا کرو،جونکہ موت ہی اب اس بندھن سے تمہیں رہائی دلا سکتی ہے ۔ مامون نے اپنی بات مکمل کی اور بہز سے امجد ہاؤس کی دہلیز عبور کر گیا۔
مامون کو رانیہ کے رویے جملے اور لہجے نے اس کی نفرت نے اندر سے چکنا چور کر دیا تھا وہ بہت رویا تھا گھر جا کر رب سے اپنی محبت کی بھیگ مانگی تھی ۔ درد اتنا تھا کہ وہ ہفتہ بھر بیمار پڑا رہا۔ آفس میں اس کی ذہانت صلاحیت اور قابلیت کے سبب جاب پکی ہو چکی تھی اس لئے اسے بیماری کی حالت میں چھٹی بھی بآسانی مل سکتی تھی مگر وہ آدھے دن کے لیے آفس جاتا رہا ۔ رانیہ کی طرف جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی پھر جب بخار اترا گیا طبیعت سنبھل گئی تو وہ نفرت میں ڈوبے لفظوں کی مار کھانے کے لئے پھر سے امجد ہاؤس کی طرف چل دیا ، لیکن وہاں پہنچ کر اسے ایک اور صدمہ سے دوچار ہونا پڑا ، رانیہ امجد ہاؤس دو سال کے لیے کرائے پر دے کر شہر چھوڑ کر جا چکی تھی۔ کہاں یہ کسی کو معلوم نہیں تھا حتٰی کہ کرائے داروں کو بھی معلوم نہیں تھا کیونکہ دوسال کی پیشگی رقم کی ادائگی انہوں نے کسی وکیل کے زریعے معاہدے کے تحت کر دی تھی ۔ مامون گرنتا پڑتا مجید ماموں کے گھر پہنچا تو انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا ۔ وہ خود بھی رانیہ کے اس طرح اچانک بن بتائے گھر سے اور شہر چھوڑ کر چلے جانے پر خاصے پریشان تھے۔