ڈاکٹر صاحب ! آپ پلیز رانیہ کے سامنے یہ سب باتیں مت کیجئیے گا ۔ ورنہ وہ ان سے پہلے مر جائگی۔ مامون نے ملتجی لہجے میں کہا۔
آپ اطمینان رکھیں ، مجھے اندازہ ہے اس بات کا اسی لئے میں نے آپ کو علیحدہ بلا کر یہ بات بتائی ہے۔ ڈاکٹر وزیر علی نے سنجیدگی سے کہا ۔
تھینک یو ڈاکٹر ۔ مامون نے اٹھرتے ہوئے کہا اور واپس رانیہ کے پاس آگیا۔
کیا کہا ڈاکٹر نے ؟ رانیہ نے بے قراری سے پوچھا۔
کچھ نہیں وہ ہسپتال کے بل وغیرہ کی بات کر رہے تھے کہ کمرہ بک کرانا ہو گا خالہ جان کے لئے ۔ مامون نے فورًا بہانا بنایا۔
کتنا خرچہ ہو گا؟ رانیہ نے سوال کیا۔
جتنا خرچہ ہو گا بل میں پے کروں تم فکر نہ کرو۔
آپ کیوں پے کریں گے؟
کیونکہ وہ میری خالہ ہیں اور وہ مجھے اپنا بیٹا کہتی ہیں اور سمجھتی ہیں اور ایک بیٹے کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ماں کے علاج پر خرچ کرے یہ میرا اور خالہ جان کا معاملہ ہے تمہیں اس معاملے میں گلے شکوے کرنے کا کوئی حق نہیں۔
وہ لاجواب ہو گئی ۔
____________------------
رانیہ نے مجید ماومں کو فون کر کے رضیہ بیگم کی حالت سے آگاہ کر دیا تھا وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ کچھ دیر کے لیے انہیں دیکھنے آئے تھے۔ رضیہ بیگم کو ریکوری روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔
رانیہ تُو ڈائن ہے ڈائن ۔ پہلے اپنے باپ کو کھا گئی اور اب ماں کو موت کے دہانے پہ لے آئی ہے۔ ہائے ہائے ابھی تو امجد بھائی کا کفن میلا نہیں ہوا اور ان کی بیوہ بھی مرنے کو پڑی ہے۔ رخسانہ مجید نے دہائی دیتے ہوئے کہا رانیہ کا دل پاش پاش ہو گیا۔ مامون کمرے میں آتے آتے ان کی باتیں۔ سن کر دروازے پر ہی رک گیا تھا۔
رخسانہ ! چپ کرو بچی پہلے ہی بہت پرشان ہے تم مزید پریشان مت کرو اسے ، اس کا کیا قصور ہے اس میں ؟ مجید ماموں نے کہا۔
تو اور کس کا قصور ہے اس سے پوچھیں ذرا اپنی سے کہ بیگم صغیر نے اسے آوارہ اور بدکردار کہتے ہوئے آدھے گھنٹے کے اندر اندر منگنی کس کے کہنے پر توڑ دی تھی ۔ ایک دم سے ان پر اس کی اصلیت کیسے ظاہر ہو گئی تھی ؟ رخسانہ مجید نے تلخ لہجے میں کہا۔
یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے دعا کرو کہ رضیہ بہن تندرست ہو جائے۔ مجید ماموں نے سخستی سے انہیں ٹوک کر کہا۔ رضیہ بیگم بظاہر سو رہی تھیں مگر ان کی باتیں سن رہیں تھیں ۔ جان۔ بوجھ کر سوتی بن گئی تھیں۔ انہیں رانیہ کی فکر کھائے جا رہی تھی۔
تندرست ہو کر بھی کونسی خوشی ملنی ہے اس بے چاری کو، بیٹی نے سہاگ بھی چھین لیا اور ان کی آبرو بھی خاک میملا دی ، ایسے میں بھلا کون ماں تندرست ہو سکتی ہے۔ یہ تو آزاد ہو جائگی کہ ماں باپ کوئی روکنے ٹوکنے کو موجود نہیں پھر جہاں چاہے گی اور جس کے ساتھ چاہے گی آوازہ پھرے گی۔
بس کریں مامی ! آپ بھی بیٹیوں والی ہیں ، کیوں کسی کی بیٹی کو الزام دے رہیں یں ، اس کی ساری زندگی آپ کے سامنے گزری ہے ، پھر بھی آپ اس کے کردار کو داغدار کر رہی ہیں ، بڑے افسوس کی بات ہے۔ مامون سے جب ضبط نہ ہوا تو اندر داخل ہو تے ہوئے تیز لہجے میان کہا ۔ رانیہ نے نفرت سے اسے دیکھا تھا اور دل میں کہا تھا۔
خود ہی مجھے بدنام اور رسوا کیا ہے اور اب خود ہی میرے حق میان بول کر میری نظروں میں معتبر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
مامون بیٹا سارا شہر یہی بات کہہ رہا ہے اس میں کوئی نہ کوئی صداقت تو ہو گی ناں ۔ڑخسانہ مجید نے اپنی شرمندگی مٹانے کو نرمی سے کہا تو وہ غصے سے بولا۔
کیا ثبات ہے آپ کے پاس ، یا شہر کے پاس رانیہ کی آوارگی اور بے حیا ئی کا بتائیں مجھے دکھائیں مجھے؟
خاموش ہو جائیں ، آپ لوگ رانیہ چیخ اٹھی۔ آپ میری ماں کی تیمارداری اور عیادت کے لیے آئے یا ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے اور نئے زخم لگانے آئے ہیں ؟ میرے کردار پو انگلی اٹھانے والے اور بات کرنے والے اپنے کردار کا جائزہ تو لے لیں ۔ مجھے کسی کے سامنے اپنی صفائی پیش نہیں کرنی اور مسٹر مامون مجھے آپ کی گواہی کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ میں جانتی ہوں کہ میں کس کردار کی مالک ہوں ، اس لئے مجھے کسی کی رائے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کوئی ضرورت نہیں ہے ، آپ کو میری پاکبازی کی گواہی دینے یا میرے حق میں بولنے کی اور ماموں آپ ! مجیس ماموں کیسے بھائی ہیں آپ کہ اپنی بہن سے دو بول تسلی کے بھی ڈھنگ سے نہ بول سکے ۔ آپ کی بھانجی آپ پر بوجھ بنے گی ماموں ، بے فکر ہو جائیے ۔ مجھے اپنا بوجھ اٹھانا آتا ہے ۔
رانیہ کو سب کو باری باری دیکھتے ہوئے کہا تو وہ شرمندہ سے ایک ایک کر کے کمرے سے باہر چلے گئے۔
_________________
مامون وہیں کھڑا رہا اور رانیہ کا چہرہ تکتا رہا جو غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ حالات و واقعات اور پے در پے ملنے والے صدمات نے اسے غصیلا ، چڑ چڑا اور گستاخ بنا دیا ہے۔ اسی لئے وہ اس کی کسی بات کا برا نہیں مناتا تھا۔ الٹا اس کے لیے پریشان رہتا تھا۔
آپ بھی چلے جائیے۔رانیہ نے مامون کو کھڑے دیکھ کر سختی سے کہا۔
میرے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں رانی۔ وہ بے بسی سے بولا ۔ اس کے لہجے میں کچھ تھا جس نے رانیہ دل میں طوفان بہا کر دیا تھا۔
رانیہ ۔۔۔۔۔رضیہ بیگم نے آنکھیں کھول کے اسے پکارا۔
جی اماں ! کیسی طبیعت ہے آپ کی وہ دوڑ کو ان کے قریب چلی آئی ۔
رانی میری بچی مجھے ایسا لگتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے پاس۔۔۔۔۔ وقت نہیں ہے۔
اماں ! مت کریں ایسی باتیں ، مجھے کس کے سہارے چھوڑ کر جائیں۔ گی؟ وہ روتے ہوئے بولی اور ان کا ہاتھ تھام کر چہرے سے لگایا۔
میری آخری بات مانے گی رانی؟
اماں حکم کریں ۔۔۔۔جو کہیں گی میں مانوں گی بس مجھ سے مرنے کی باتیں مت کریں ۔ وہ روتے ہوئے تڑپ کر بالی۔مجھے تیری فکر ہے رانی تُو۔۔۔۔اکیلی کیسے جئے گی، دیکھ یہ میری وصیت بھی ہے ۔۔۔۔اور آخری خواہش بھی ۔۔۔۔وعدہ کر میری وصیت، میری خواہش ، پوری کرے گی ۔۔۔ کرے گی ناں ؟رضیہ بیگم نے ٹھہر ٹھہر کر اور اٹک اٹک کر اپنی بات مکمل کی۔
ہاں اماں میں وعدہ کرتی ہوں آپ جو کہیں گی، میں پورا کروں گی آپ کی بات ، آپ کی خواہش میں پوری کروں گی اماں ۔ وہ روتے ہوئے بولتی مامون کے دل پر خنجر چلا رہی تھی۔
چاند بیٹا۔ رضیہ بیگم نے مامون کی طرف دیکھا ۔
جی خالہ جان ! مامون نے ان کے بیڈ کے قریب آکر ان کا ہاتھ تھام لیا۔
بیٹا اپنی مرتی ہوئی خالہ کی ایک بات مانو گے؟
آپ کہں تو خالہ جان ! وہ خلوص سے بول؟
مون میرے چاند ، میری رانیہ کو اپنا لو اسے اپنا نام دے دو۔ یہ تمہارا بہت احسان ہو گا اپنی خالہ پر۔ رضیہ بیگم نے پھولی ہوئی سانسوں کے بیچ اپنی خواہش بیان کی تو مامون پر تو جیسے شادی مرگ طاری ہو گئی اور رانیہ وہ حیرت اور بے بسی سے بولی۔
اماں یہ اپ کیا کہہ رہیں ہیں ؟
دیکھ تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اب۔ مکرنا نہینمجھے چین۔ سے مرنے دے میری بچی ۔ رضیہ بیگم نے دکھ سے کہا۔
اماں ! وہ رونے لگی ۔
مون بیٹا کیا سوچنے لگے کہیں تم بھی رانیہ کے نام سے منسوبرسوائی سے خوفزدہ تو نہیں ہو گئے اسے۔۔۔۔۔۔۔
نہیں خالہ جان ! رانیہ میرے لیے بہت مقدس معصوم اور معتبر ہستی ہے میں اسے بہت خوش رکھوں۔ گاان شاء الله وہ ان کی بات کاٹ کر نرمی سے بول تو انہوں ن ے سکون کا سانس لیا۔
جیتے رہو بیٹا ، الله تمہیں ہر سکھ اور خوشی نصیب کرے ۔ بیٹا مون مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معاف کر دینا ۔
چان! کیا سوچتے ہو گے کہ کیسی خود غرض اور مطلبی خالہ ہے اپنا مطلب پڑا تو تمہیں رانیہ کا بھائی بنا دیا۔۔۔۔ اور اب مطلب پڑا تو شوہر بننے کا کہہ رہی ہے۔ رضیہ بیگم خوشی سے روتے ہوئے بولیں ۔
خالہ جان۔ کیسی باتیں کر رہیں ہیآپ، آپ نے تو مجھ پر احسان کیا ہے ، میں تو خود رانیہ کا ہاتھ مانگنا چاہتا تھا لیکن آپ لوگوں نے جب منگنی طے کر دی تو مجبورًا مجھے خاموش رہنا پڑا ورنہ میں نے امی سے بات کر لی تھی۔ ہماری قسمت ئد اسی طرح ملنا لکھا تھا،
آپ کی رانیہ کو میں بہت خوش رکھوں گا بس آپ بتائیں کیا کرنا ہے کب۔ کرنا ہے ۔ مامون نے ان کے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا تو وہ نہال ہو گئیں ۔
بیٹا کیا تم آج ہی رانیہ سے نکاح کر سکتے ہو ۔ یہاں میرے سامنے ؟ انہوں نے اس کے سہارے سے اٹھتے ہوئے پوچھا تو مامونے پیار بھری نظروں سے رانیہ کو دیکھا جو آنسو پونچھ رہی تھی۔
خالہ جان اطمینان رکھیں میں تھوڑی دیر میں سارا انتظام کر کے آتا ہوں ۔ خوشی سے مسکراتے ہوئے بولا
رانیہ ادھر دیکھ میری رانی ۔ رضیہ بیگم نے اسے پیار سے بلایا۔
جی اماں ! وہ ان کے قریب آگئی۔
وہ جو صندوق ہے جامنی کور والا ۔ اس میں تیرے کچھ جوڑے رکھے ہیں تیرے جہیز کے لیے بنوا کے رکھے تھے ۔ اس میں میرون اور سنہری سوٹ نکال کر نہا کے پہن لینا ، میں تجھے پوری دلہن بنے نہیں دیکھ سکوں لیکن آدھی تیاری تو اتنی جلدی ہو ہی جائے گی اور مون بیٹا اس کے ہاتھ پہ مہندی ضرور لگوانا۔۔۔۔۔ اسے ابھی اپنیے ساتھ لے جاؤ بازار سے مٹھائی وغیرہ خرید لینا پیسے رانیہ دے دے گی۔ رضیہ بیگم نے خوشی خوشی ہدایات دیں ۔
خالہ جان پیسے ہیں میرے پاس ، آپ بس اپنا خیال رکھیں میں دو ادھائی گھنٹے میں سارا انتظام کر لوں گا اور نرس یہاں آپ کے پاس آن ڈیوٹی ہو گی ، کسی چیز کی ضرورت ہ، کوئی مسئلہ ہو تو فورًا نرس کو بتا دیجئیے گا۔ چلیں رانیہ ۔ مامون نے رضیہ بیگم کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا اور جانے کے لیے کھڑا ہو گیا ۔ رانیہ نے رضیہ بیگم کی طرف دیکھا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلا کر گویا اسے جانے کی اجازت دے دی ۔ وہ اپنی چادر اوڑھ کر آنسو صاف کرتی ہوئی اس کے ساتھ چلتی ہو ئی باہر اس کی گاڑی میں آ بیٹھی ۔ وہ اس وقت صرف اپنی ماں کی آخری خواہش اور آخری وصیت پر سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی ۔ وہ اپنی زندگی سے اس قدر مایوس لگ رہی تھی۔ ، وہ پھر سے رو پڑی۔
رانیہ ! سنبھالو خود کو ۔ مامون نے گاڑی چلاتے ہوئے اسے فکر مندی سے دیکھ کر کہا تو وہ روتے ہوئے آنسو پونچھنے لگے۔
کیا ہوا ہے اماں کو ، وہ ایسی مایوسی کی باتیں کیوں کر رہی ہیں ، آپ مجھے بتاتے کیوں نہیں ہیں ؟؟
جس لڑکی کے سر پر باپ بھائی موجود نہ ہوں اس کی بیمار ماں کو اس کی فکر تو ہوتی ہی ہے ناں ۔ ان شاء الله تندرست ہو جائیں گی۔ مامون نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔ اسے اصل بات بتا کر مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
_________ _________
پھر اسی شام عصر کے بعد رانیہ اور مامون کا نکاح ہسپتال کے اس پرئیویٹ روم میں ہو گیا جس میں مجید ماموں ، ان کا بیٹا حمید اور مامون ک ے دو قریبی دوست یاسر اور سلمان بطور گواہان شریک ہوئے۔ رضیہ بیگم نے خوشی سے رانیہ اور مامون کا ماتھا چوم لیا ۔ مہمانوں کو مٹھائی اور چائے پیش کی گئی ۔ سبھی انہیں مبارک باد دینے کے بعد چلے گئے ۔ مامون سفید شرٹ اور براؤن رنگ کے پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا اور رانیہ میرون کامدار شلوار قمیض دوپٹے میں میچینگ چوڑیاں اور مہندی سے سجے ہاتھوں میں گجرے پہنے بے حد حسین لگ رہی تھی۔ مامون نے اس کی اور اپنی کئی تصاویر کھینچ لیں تھیں ۔ رانیہ قدرت کے اس کھیل پر حیران و پریشان بیٹھی تھی کہ جس شخص سے وہ نفرت کرتی تھی ، جس کی محبت کو روز اول سے ٹھکراتی آئی تھی ۔ آج تقدیر نے ، حالات کی سنگینی اور مجبوری نے اسی شخص کو اس کی زندگی کا ساتھی ، جملہ حقوق کا مالک بنا دیا تھا۔ وہ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد خالی دل اور خالی آنکھوں کے ساتھ سر جھکائے بیٹھی تھی اور مامون اسے پیار سے دیکھ رہا تھا۔ وہ پر یقین تھا کہ وہ اپنی محبت سے رانیہ کی نفرت اور بے رخی کو ختم کر دے گا اور اس کی محبت اس کا نصیب ضرور بن جائے گی۔
رانیہ بیٹی! مامون ادھر آؤ چندا میرے پاس ۔ رضیہ بیگم نے دونوں کو اپنے پاس بلایا تو وہ ان کے سامنے دائیں بائیں آ بیٹھے ۔ راضیہ بیگم نے دونوں کے ھاتھ پکڑ لئے اور رانیہ سے کہنے لگیں ۔
رانیہ بیٹی ! مامون اس چودھویں کے چاند کو خوش رکھنا ، بیٹی ، یہ بہت محبت کرنے والا بچہ ہے اس کی قدر کرنا۔
کتنی پیاری بات کہی ہے خالہ جان نے اسے گرہ سے باندھ لو رانیہ مامون ۔
مامون نے شوخ لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا تو اس نے غصے سے منہ پھیر لیا ۔
دیکھ لیجئیے خالہ جان ! آپ کے سامنے ہی یہ مجھ سے منہ پھیر رہی ہے ۔ بعد میں پیچھے نجانے کیا کرے گی ؟؟ مامون نے معصوم سا شکوہ کیا ۔
رانیہ تم نے سنا ! میں نے کیا کہا ہے ! ابھی ؟؟ رضیہ بیگم نے اس سے کہا ۔
اماں ! کچھ نہیں ہوتا آپ کے اس چاند کو ۔۔۔۔ایک دم سے شکائیتیں لگانی شروع کر دی ہیں ۔ رانیہ نے غصے سے مامون کو دیکھ کر کہا تو وہ ہنس پڑا۔
رانی بیٹی ! یہ تو پیار میں کہہ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ایک دوسرے کی قدر کرنا ۔۔۔۔۔ میں بہت خوش ہو آج ۔۔۔۔۔۔اب مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔مجھے یقین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اطمینان ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کا ہاتھ ایک مخلص اور محبت کرنے والے شخص کے ہاتھ میں دیا ہے ۔۔۔۔۔۔الله تم دونوں کو ایک دوسرے کی راحت اور مسرت کا باعث بنائے ۔ سدا شاد و آباد رکھے میرے بچوں کو۔ رضیہ بیگم نے رانیہ کا ہاتھ مامون کے ہاتھ میں دیتے ہوئے دل سے دعا دی۔
آمین ۔! مامون نے دل سے کہا اور رانیہ کا ہاتھ مظبوطی سے تھام لیا جو اس نے بمشکل چھڑایا اور رخ پھیر کر وہاں سے اٹھ گئی ۔ مامون کو ہنسی آگئی۔
مامون بیٹا ۔۔۔۔۔میرے پاس نرس موجود ہو گی ۔۔۔۔تم رانیہ کو گھر لے جاؤ صبح آ جانا ۔ راضیہ بیگم نے جانے کس خیال سے اسے دیکھتے ہو ئے کہا تو رانیہ سٹپٹا گئی ، وہ تو پہلے ہی اتنا بے باک تھا اب تو نکاح ہو گیا تھا، بھلا اب وہ کیسے باز رہ سکتا تھا اپنی محبت کے عملی اظہار سے ۔
اماں ! میں آپ کے پاس رہوں گی ۔ رانیہ نے فورً کہا ۔
آج نہیں ۔۔۔۔۔۔آج رات تمہیں مامون کے ساتھ رہنا ہے اپنے شوہر کے پاس جاؤ شاباش۔۔۔۔۔!
رضیہ بیگم کا لہجہ اور جملہ معنی خیز تھا وہ بلش ہو گئی ۔ مامون مسکراتے ہوئے شوخ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
مگر اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
رانی اپنی ماں کی بات ماننے کا وعدہ کیا تھا تو نے اتنی جلدی بھول گئی ۔ راضیہ بیگم نے یاد دلایا ۔
ٹھیک ہے اماں جیسے آپ کی مرضی ۔ اس نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
خوش رہ میری بچی سدا سہاگن رہ۔ رضیہ بیگم نے محبت سے اس کی پیشانی چوم لی اور وہ مامون کے ساتھ باہر نکل آئی ۔
________________________
مامون بہت خوش تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اسے اس کی محبت مل گئی ہے اس کے برابر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ برجمان ہے ، اس نے راستے میں ہوٹل سے کھانا پیک کروایا اور امجد ہوؤس آگئے دونوں ۔ رانیہ کو اس وقت بھائی اور باپ بے طرح یاد آ رہے تھے۔ وہ قدرت کی ستم ظریفی پر اشک بہا رہی تھی ۔ اس کی شادی کیسے حالات میں ہوئی تھی اور وہ بھی اس شخص کے ساتھ جسے وہ انکار کر چکی تھی ۔ وہ جتنی ناخوش تھی مامون اتنا ہی خوش تھا
آپ رات یہیں رہیں گے کیا؟؟ رانیہ نے اپنے ساتھ آتی دیکھ کر پوچھا۔
ظاہر ہے یہ ہماری شادی کی پہلی رات ہے ، جو شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ گزارنی چاہئیے ۔ خالہ جان نے کچھ سوچ کر ہی تمہیں میرے ساتھ بھیجا ہے ناں ۔ یقین جانو رانیہ آج میں بہت خوش ہوں میری محبت مجھے مل گئی ہے ۔ وہ شوخ و شریر لہجے میں جواب دیتا اس کے قریب آگیا ۔
لیکن مین خوش نہیں ہوں ۔ وہ بے رحمی سے بولی۔
تم نے یہ شادی اپنی مرضی سے کی ہے ۔
میں آپ کی مرضی او محبت ہو سکتی ہوں لیکن آپ میری مرضی اور محبت نہیں ہیں ۔ آہ صرف میری اماں کی وصیت اور خواہش ہیں بسس! رانیہ نے سنگدلی سے اس کے جذبات کا خون کرتے ہوئے کہا۔
ادھر آؤ ۔۔۔۔۔ذرا دیکھوں تو سہی تمہارے سینے میں دل کی جگی کہیں پتھر تو نہیں جڑا ہوا۔
مامون نے اسے بازو سے پکڑ کر قریب کرتے ہوئے کہا اور اس کے دل پر ہاتھ رکھ دیا تو وہ بری طرح سٹپٹا گئی ۔
____________ ___________________
کیا ہے! وہ اس کا ہاتھ ہٹاتے کی کوشش میں بچوں کی طرح چڑ کر بولی تو وہ مسکراتے ہوئے گنگنایا۔
پیار ہی یہی تو پیار ہے۔
لیکن مجھے کوئی پیار نہیں ہے آپ سے۔ وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر غصے سے بولی۔
تو ہو جائے گا میری جان! تمہارا یہ دل جو نفرت سے بھرا ہے ناں ایک دن مامون ضیاء کی محبت اور چاہت سے اس کے پیار سے پیار بھرا ہو گا اور تم اس کے ساتھ اس کے قرب کی تمنا میں بے قرار ہونے لگو گی۔ وہ اس کے کانوں میں پیار بھری باتیں کس یقین سے کہہ رہا تھا اس نے حیرت سے اس کا وجیہہ چہرہ دیکھا۔
تم کو آتا ہے پیار پہ غصی ، مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے ۔ بیٹھ جاؤ ۔ مامون نے مسکراتے ہوئے اسے بیڈ کے کنارے پر بٹھایا اور خود بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور اپنے کوٹ کی جیب میں سے سونے کے دو گنگن نکال کر اس کے دائیں ہاتھ میں پہنا دئیے۔
یہ تمہاری رونمائی کا تحفہ ہے۔ تم اصلی دلہن کی طرح تیار تو نہیں ہوئیں لیکن تمہارا یہ سادہ سا روپ بھی بہت دلنشین ہے ۔ میرے نام کی مہندی کا رنگ کتنا گہرا اور سرخ ہے ناں رانیہ ۔ جو میرے پیار کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ آئی لو یو رانیہ آئی رئیلی لو یو ۔ مامون بے خودی کے عالم میں کہتا ہوا اس کے مہندی سے رچے ہاتھوں کو سونگھ رہا تھا۔
آپ جائیں یہاں سے ۔ رانیہ کھڑی ہو کر بولی۔
آج کی رات تو میں کہیں نہیں جانے والا ، اوپر کمرے میں میرے شلوا سوٹ ہوں گی وارڈ روب میں ایک نکال کر لا دو میں چینج کر کے یہیں سوؤں گا۔ وہ اس کی بے حسی پر بھی مسکرا تے ہوئے کہہ رہا تھا۔
خود ہی جا کر لے آئیں میں اتنی رات کو اندھیرے میں اوپر نہیں جاؤں گی۔ رانیہ نے فورًا جواب دیا تو وہ ہنس پڑا ۔
ابھی تو تم مجھے یہاں سے جانے کا کہہ رہی تھی اور اب خود اپنے گھر کے حصے میں جاتے ہوئے ڈر رہی ہو ۔
آپ کو کیا تکلیف ہے ؟؟ وہ جھلا کر بولی۔
مجھے تکلیف یہ ہے کہ تم اتنی حسین رات ضائع کر رہی ہو ، کتنے خواب دیکھے تھے میں نے اس رات کے دیکھو باہر چاند نکلا ہوا ہے ساری دنیا کے لیے اور اندر یہ چاند صرف تمہارے لیے نکلا ہے تمہیں اپنی چاندنی میں نہلانا چاہتا ہے اور تم۔
وہ کہتے کہتے خاموش ہو گیا اور حسرت و یاس سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا ۔ وہ سٹپٹا گئی اور نظریں چرا کے کمرے سے باہر نکل آئی ۔
وہ جو کھانا لایا تھا رانیہ نے برتنوں میں نکال کر ٹرے میں سجایا اور اپنے کمرے میں لے گئی جہاں مامون برجمان تھا رانیہ نے ٹرے میز پر رکھ دی۔
کھانا کھا لیجئیے ۔
تم بھی میرے ساتھ بیٹھ کر کھاؤ۔
مجھے بھوک نہیں ہے ۔
کھانے کی بھوک بھی نہیں ہے۔ مامون کا جملہ اور لہجہ معنی خیز تھا ۔ وہ شرم سے کٹ کر رہ گئی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔
رانیہ ۔۔۔۔۔۔۔ایسا مت کرو ورنہ میرے ساتھ تم خود کو بھی اذیت میں مبتلا کئیے رکھو گی۔
مامون نے ایسے کہا جیسے وہ اس کے سامنے موجود ہو اور پھر بے دلی سے کھانا کھانے لگا ۔ رانیہ رضیہ بیگم کے کمرے میں سونے کے لیے آگئی تھی مگر اسے ایک پل کو بھی نیند نہیں۔ آئی تھی۔ وہ اسجد کے لیے اماں اور ابا کے لیے روتی رہی تھی ۔ مامون کی محبت کی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس نے بدگمانیوں اور نفرتوں کے جالے اپنے اردگرد بن لیے تھے، جہاں مامون کی بے لوث و بے تیا محبت میں پھنس کر الجھ کر رہ گئی تھی۔
________ _______ _________
فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ تیور ہو کر کچن میں آگئی ۔ رضیہ بیگم کے لیے دلیہ اور چائے بنا کر فلاسک میں ڈالی ۔ خود حسب معمول دودھ کا ایک گلاس نیم گرم کر کے پیا اور مامون کے لیے اس کا مرغوب ناشتہ پراٹھا اور مرائی انڈےبنا کر چائے کے ساتھ ٹرے میں رکھ کر اس کے کمرے میں لے آئی ۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا بال سنوار رہا تھا ۔ رانیہ ٹرے میز پر رکھ کر جانے لگی تو مامون نے کہا۔
تمنے ناشتہ کر لیا رانیہ
جی میں نے دودھ کا گلاس پی لیا ہے۔
دودھ کے گلاس سے بھوک نہیں مٹے گی ، آؤ بیٹھ کر ناشتہ کرو تم رات بھی کھانا نہیں کھایا تھا۔ اپنی صحت خراب کر کے تم اماں کا خیال کیسے رکھ پاؤ گی؟؟
مجھے جب بھوک ہو گی میں کھا لوں گی آپ میری فکر نہ کریں ۔
تمہاری فکر اب مجھے کو کرنی ہے بیٹھو شاباش بسم الله کرو ۔ کھانے پینے کے معاملے میں تمہاری کوئی مرضی نہیں سنوں گا۔ لو منہ کھولو۔ مامون نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ کے کنارے پر بٹھا دیا اور زبردستی نوالہ بنا کر اس کے منہ میں دے دیا ۔ وہ جانے کیوں رو نے لگی ۔ مامون نے اس کے آنچل سے اس کے آنسو صاف کیے۔
یہ آنسو بہت قیمتی ہیں رانی! انہیں بچا کر رکھو ابھی انہیں بہانے کا وقت نہیں آیا۔
___________________________________________________