مامون کے موبائل کی بیل بج رہی تھی، اس نے تھکے تھکے انداز میں موبائل اٹھا کر دیکھا ، ہارون بھائی کا موبائل نمبر تھا۔ اس نے موبائل آن کر کے کان سے لگالیا۔
ہیلو!
مامون کیا بات ہے یار کب سے ممی ڈیڈی تمہیں فون کر رہے ہیں تم فون کیوں نہیں ریسیو کر رہے ؟ہارون بھائی نے اس کی آواز سنتے ہی پوچھا۔
خیریت ہے بھائی ؟
خیریت نہیں لو ممی سے بات کرو۔
ہیلو مون چندا کہاں ہو تم؟ سلمٰی بیگم کی آواز اس کے کان میںپڑی۔
میں ادھر ہی ہوں ممی اپنے گھر میں ۔
کچھ خبر بھی ہے تمہیں امجد بھائی کا انتقال ہو گیا ہے۔
کیا؟ مامون ایک دم سے اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ کک کون ممی ! رانیہ کے ابا؟
ہاں ! ان کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے ، ابھی ان کے گھر سے فون آیا تھا میں اور تمہارے ڈیڈی کل صبح تک پہنچ جائیں گے ، جنازہ کل صبح دس بجے ہے۔ تم وہاں جاؤ رضیہ اکیلی ہو گی، سو کام ہوں گے کرنے والے۔ سلمٰی بیگم نے جلدی جلدی بتایا وہ صدمے سے نڈھال ہو گیا۔
اسے رانیہ کا خیال آ رہا تھا۔ رضیہ بیگم کی شفیق صورت نگاہوں گھوم رہی تھی۔ امجد علی کی بے ریا محبت و عنایت دل دُکھا رہی تھی ۔ ممی یہ سب کیسے ہو گیا آج تو رانیہ کی منگنی تھی؟
منگنی ہو نے کے تھوڑی دیر پہلے ہی توڑ دی گئی تھی کہ لڑکی یعنی رانیہ بد کردار ہے آوارہ ہے بس اسی صدمے سے امجد بھائی چل بسے ۔ رضیہ کی نجانے کیا حالت ہو گی، بہت زلت اور رسوائی ہوئی ہے رانیہ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اس لڑکی کے گُن گاتے تھے ناں دیکھ لئے اس لچھن ، منگنی ہوتے ہی ٹوٹ گئی۔اور باپ موت کی ذمےدار بھی وہی رانیہ ہے لعنت ہو ایسی بیٹی پر۔ سلمٰی بیگم طنزیہ اور تلخ لہجے میں بولیں ۔
میرا دل نہیں مانتا ممی ، رانیہ ایسی نہیں ہے۔ وہ اگر کمزور کردار کی مالک ہوتی تو میری بار بار کی جانے والی پیش قدمی پر نفرت اور غصے کا اظہار نہ کرتی۔۔۔۔۔نہیں وہ ایسی نہیں ہے۔ مامون نے پُر یقین لہجے میں کہا اور موبائل آف کر دیا۔ دوسری جانب سلمٰی بیگم رانیہ کو کوس رہیں تھیں جس نے ان کے بیٹے پر بقول ان کے جادو کر دیا ہےتھا جو اس کی اس قدر زلت و رسوائی کے باوجود اسے نیک پارسا اور باکردار سمجھے ہوئے تھا۔
_A___s__h__K__h__a__n__n
امجد علی کو منوں مٹی تلے دفنا دیا گیا تھا۔ رضیہ بیگم اور رانیہ کا رو رو کر بُرا حال تھا۔ مامون نے تانیہ کو بس دور سے ہی دیکھا تھا اور اس کی حالت پر تڑپ کر رہ گیا تھا۔ اس کا بسس چلتا تو وہ اس کے سارے غم اپنے دامن میں جذب کر لیتا۔ اس نے بھی لوگوں کی زبانی رانیہ کی منگنی ٹوٹنے اور امجد علی کو دل کا دورہ پڑنے کی کہانی سنی تھی۔ یہی نہیں ہر زبان پر رانیہ کے لئے لعنت ملامت کے کلمات تھے۔ جنہیں سن سن کر مامون کا دل چھلنی ہو رہا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی یہ حالت ہے تو رانیہ کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی۔
خدا غارت کرے جس نے میری معصم بچی پر الزام لگایا ہے ۔ الله کی لاٹھی بے آواز ہے، وہ ضرور بچی کے مجرم کو سزا دے گا۔ رضیہ بیگم روتے ہوئے بولیں تا رخسانہ مجید نظریں چرا کر وہاں سے اُٹھ گئیں ۔ سلمٰی بیگم اور ضیاء الدین سوئم کے بعد واپس چلے گئے تھے
دس دن ہو گئے تھے امجد علی کو رخصت ہوئے اور رضیہ بیگم رو رو کر بیمار پڑ گئی تھیں ۔ نزلہ ، زکام ، کھانسی ، بخار انہیںگھیرے ہوئے تھا۔ اسجد علی باپ کی موت پر بھی نہیں آیا تھا، اس کا صدمہ الگ تھا۔ رضیہ بیگم کو رانیہ کے تاریک مستقبل کے خیال نے بے موت مار دیا تھا۔ شوہر ابدی جدائی دے گیا تھا۔ بیٹا جیتے جی منہ موڑ گیا تھا اور بیٹی کا گھر آباد ہونے سے پہلے ہی برباد ہو گیا تھا۔ زلت و رسوائی اور بدنامی کا داغ اس کی پیشانی پر لگ گیا تھا۔ رضیہ بیگم یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہیں تھیں کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو رانیہ کا کیا بنے گا؟ اسے زلت و رسوائی کے بعد کون قبول کرے گا ؟ اور اکیلی لڑکی کو کون چین سے جینے دے گا؟ ان کے سگے بھائی تک نے رانیہ کے کردار کی اس رونمائی کے سبب اسے اپنی زمہداری سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔رانیہ کے سامنے سب کے رویے تھے۔ اس نے ماں کو حوصلہ دینے اور دنیا کو دکھانے کے لئے خود کو سنبھال لیا تھا۔ مضبوط بنا لیا تھا۔ اسے احساس تھا کہ اب اسے اکیلے ہی زندگی کی گاڑی کو کھینچنا ہے۔ لہذا اپنے دل اور اعصاب کو اپنے ارادوں کو مضبوط تور بنانا ہو گا۔ وہ الله سے مدد مانگ رہی تھی اور رضیہ بیگم بھی دن رات روتے ہوئے اللہ سے گڑ گڑا کر رانیہ کے بہتر و خوشحال اور محفوظ مستقبل کی دعائیں مانگا کرتی تھیں ۔
______ _________
رانیہ کا بی ایس سی کا رزلٹ آؤٹ ہو گیا تھا اور اس نے پورے کالج میں ٹاپ کیا تھا۔ رضیہ بیگم یہ خوشخبری سن کر رو دیں اسے گلے لگا کر خوب پیار کیا ، رانیہ اپنی سند لینے کالج جا رہی تھی ، جانے سے پہلے دوپہر کے لئے کھچڑی پکا کر ہاٹ پاٹ میں رکھ دی تھی کیونکہ رضیہ بیگم بیماری کی وجہ سے پرہیزی کھانا کھا رہیں تھیں ۔ رانیہ بھی وہی کھا لیتی تھی۔ اپنے لیے علیحدہ سے کچھ نہیں پکاتی تھی۔
رانیہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ کالج جانے کے لیے چادر اوڑھ رہی تھی کہ مامون کی آواز پر چونک کت پلٹی ، سیاہ پنٹ شرٹ اور کوٹ میں ہلکی سی شیو بڑھائے وہ کچھ غمزدہ سا دکھئی دے رہا تھا۔
رانیہ جو کچھ بھی ہوا ہے مجھے اس کا بہت افسوس ہے۔
کیو آپ کو تو خوش ہو نا چاہئیے کہ جو کچھ بھی آپ نے چاہا وہ آپ کی پلاننگ کے تحت کامیابی سے ہو گیا۔نوہ تلخی سے بولی۔
تم غلط سمجھ رہی ہو ۔ وہ تڑپ کر بولا۔
میں تو ہوں ہی غلط ، پوچھ لیجئیے محلے میں کسی سے بھی ، بلکہ شہر بھر آپ کو میرے غلط ہو نے کی گواہی دے گا۔ وہ تلخ لہجے میں بولتی اس کی بے چینی بڑھا رہی تھی ۔
مجھے کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ، میں جانتا ہوں کہ تم بہت معصوم اور باکردار ہو۔ وہ دل سے کہہ رہا تھا،
ظاہر ہے آپ جانتے تھے جھبی تو آپ نے مجھے بدنام کیا۔ ایک سوچی سمجھی۔ سازش کے تحت آپ نے مجھے رسوا کیا ۔ آپ کو خود تو معلوم ہی نا تھا کہ رانیہ ایک باکردار لڑکی ہے۔ وہ اسی لہجے میں بولی۔
تم کہیں جا رہی تھی شائد ۔؟ وہ اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
کہاں جانا ہے آؤ میں چھوڑ دوں ۔آپ مجھے چھوڑ ہی دیں تو اچھا ہے مسٹر مامون ضیاء۔
___________ ___________
رانیہ ہمیں آپ پر فخر ہے آپ نے پورے سائنس گروپ میں ٹاپ کیا ہے، اب آگے کیا ارادے ہیں آپ کے؟
رانیہ کالج کی پرنسپل فرحت نسیم کے آفس میں ان کے روبرو بیٹھی تھی اور وہ اسے سراہتے ہوئے پوچھ رہیں تھیں ۔
میڈم میں۔ کیمسٹری میں ایم ایس سی کرنا چاہتی ہوں ۔ رانیہ نے جواب دیا۔
ہوں ویری گڈ۔۔۔لیکن میں تو سنا ہے کہ آپ کی منگنی ہوتے ہوئے ٹوٹ گئی تھی ۔
پرنسپل فرحت نسیم نے کہاںکی بات کہاں جوڑی تھی۔ رانیہ کو اندازہ تھا کہ یہ قصیہ اب ہر جگہ اس کی زندگی کو متاثر کرے گا اور وہ خود کو اس قسم کے سوالات کے لئے تیار کر چکی تھی۔
میڈم ! منگنی ختم ہوئی ہے میری زندگی تو ختم نہیں ہو گئی ۔ مجھے اپنے حصے کی سانسیں اسی عزم و ہمت کے ساتھ پوری کرنی ہیں جس طرح کہ جینے کا حق ہے زندگی پر۔ رانیہ نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔
دیٹس لائک از بریو گرل۔۔۔۔مجھے یقین تھا کہ تم پر تہمت لگائی گئی ہے تم ایک مضبوط کردار اور پاکیزہ اطوار کی لڑکی ہو ، تمہارے والد کی وفات کا مجھے بہت افسوس ہے لیکن تم ہمت مت ہارنا، میرے لائق کوئی کام ہو تو مجھے ضرور بتانا میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ مجھے اندازہ ہے کہ ایسے حالات میں ایک جوان اور اکیلی لڑکی کے لئے اس معاشرے میں سروائیو کرنا کس قدر مشکل ہو جاتا ہے، یہ معاشرہ قدم قدم پر ایسی لڑکیوں کو ہتک آمیز سلوک کا نشانہ بناتا ہے ان پر دروازے بند کر دیتا ہے ، مگر مجھے یقین ہے کہ تم ہمت ہارنے والی لڑکی نہیں ہو تم زندگی کو اس کے اصل رنگ میں جینے کے قابل ضرور بنا لو گی میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ۔ پرنسپل فرحت نسیم نے سنجیدہ اور پُر یقین لہجے میں اس کا حوصلہ بڑھاتے ہو ئے کہا تو رانیہ نے مسکرا کر دھیمے اور مہذب لہجے میں جواب دیا۔
تھینک یو میڈم !! آپ کی باتوں سے مجھے زلت و رسوائی کے اندھیرے میں امید اور آبرو کی کرن جگمگاتی دکھائی دے رہی ہے۔ شکر ہے کہ اس معاشرے میں سب عقل کے اندھے اور کانوں کے کچے نہیں ہیں ۔ آپ جیسے لوگوں کی موجودگی بھی غنیمت ہے اس معاشرے میں بلکہ نعمت ہے مجھ جیسے لوگوں کے لئیے تو ۔ تھینک یو میڈم تھینک یو ویری مچ۔
یو آر آلویز ویلکم موئی چائلڈ۔۔۔۔۔ اور ہاں یہ کارڈ رکھ لو۔ پرنسپل مرحت نسیم نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنے پرس میں سے نکال کر اس کی جانب بڑھا دیا جو اس نے لے لیا۔
یہ کس کا کارڈ ہے میڈم؟!
یہ میری چھوٹی بہن کا کارڈ ہے اس پر جس سکول کا ایڈریس اور فون نمبر درج ہیں وہ اسکول میری چھوٹی بہن مدحت نسیم چلا رہی ہے اسے ایک سائنس ٹیچر کی ضرورت ہے تم اگر انٹرسٹڈ ہو تو میں مدحت سے بات کر سکتی ہوں ، تمہارے لیے کسی سفارش کی ضرورت تو نہیں ہے تمہارا شاندار تعلیمی کیرئیر ہی تمہاری سفارش ہے۔ فرحت نسیم نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ تشکر اور خیرت سے بولی۔
تھینک یو میڈم! لیکن یہ سکول تو اسلام آباد میں ہے اور میں یہاں لاہور میں ہوں ۔
اوہ ! مجھے خیال ہی نہیں رہا نجانے میں نے یہ کارڈ تمہیں کیوں دے دیاہے ۔ خیر رکھ لو شاید کبھی تمہارے کام آجائے۔ وہ ہنس کر بولیں تو وہ ان کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے چلی آئی ۔
____ ________
گھر پہنچی تو رضیہ بیگم کو غائب پا کر پریشان ہو گئی ۔
اماں ،اماں کہاں ہیں آپ ؟؟ وہ چیخ رہی تھی۔
باجی ! مون بھائی آپ کی اماں کو ہسپتال لے کر گئے ہیں ان کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی ۔ محلے کے ایک بچے نے آکر اسے بتایا۔
یا الله خیر میری ماں کو کچھ نہ ہوں الله میاں ۔ رانیہ نے بے اختیار دعا مانگی ۔
کس ہسپتال لے کر گئے ہیں ؟ بھیائی جان کہہ رہے تھی کہ آپ کو بتا دوں ۔
اس بچے نے اسے ایک چٹ دیدتے ہو کے بتایا رانیہ چٹ لے کر پڑھی اور بچے کا شکریہ ادا کر کے اپنی چیزیں اپنے کمرے میں الماری میں رکھنے کے بعد شولڈر بیگ میں کچھ پیسے رکھے اور ہسپتال روانہ ہو گئی ۔ ہسپتال پہنچی تع مامون اسے ایمرجنسی کے باہر پریشان ٹہلتا ہوا مل گیا۔ رانیہ نے اس کے پاس پہنچتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔کیا ہوا ہے اماں کو ، کہاں ، میری اماں ؟
ایمرجنسی روم میں ہیں ، خالہ جان ، ڈاکٹر کے مطابق انہیں ٹائی فائڈ ، نمونیہ کا اٹیک ہو ہے۔مامون نے سنجیدہ اور نرم لہجے میں بتایا۔
اوہ نو۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک دم سے دیوار سے جا لگی ۔
ہمت سے کام لو ان شاء الله خالہ جان ٹھیک ہو جائیں گی ان کو سانس لینے میں پرابلم ہو رہی تھی پھر بھی وہ ہسپتال نہیں آنا چاہ رہیں تھیں مگر میں زبردستی لے کر آیا ہوں ، ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر زرا سی دیر ہو جاتی تو ۔۔۔۔۔۔
مامون اسے ساری تفصیل بتا رہا تھا کہ اچانک اس کے چہرے کا رنگ اڑتے دیکھا تو اپنی بے نیازی کا احساس ہوا اور اےک دم خاموش ہو گیا۔
اُففف میرے الله اگر آپ گھر میں نہ ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔رانیہ نے خوفزدہ لہجے میں کہا ، وہ کبھی اسے آپ کہتی تو کبھی تم ، مامون اس کی اس پل پل کی بدلتی عادت و کیفیت پر متخیر ہوا ۔
گھبراؤ نہیں الله بہتر کرے گا۔
تھینک یو ! رانیہ نے تشکر سے نظریں جھکا کر کہا۔
اسکی ضرورت نہیں۔ ہے ، وہ خالہ ہیں میری ، میرا فرض ہے ان کا خیال رکھنا ۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا تو وہ بس ایک نظر اس کے چہرے پر ڈال کر رہ گئی ۔
اس کا لہجہ اور انداز بے حد پُر خلوص تھا رانیہ کو شرمندگی ہو رہی تھی کہ اس نے چند گھنٹے پہلے اس کو بہت برا بھلا کہا تھا اور پھر بھی وہ اس کی ماں ہسپتال لے کر آیا تھا ۔ اس کے لئے پریشان ہو رہا تھا اسے تسلی دے رہا تھا۔
کہیں موصوف میری ہمدردی ، توجہ اور محبت حاصل کرنے کے لیے مجھے اپنا احسان مند بنا کر حاصل کرنے غرض سے تو یہ نیکی نہیں کر رہے ؟ رانیہ کے دماغ سوال اٹھایا۔
اسی وقت ڈاکٹر ایمرجنسی روم سے باہر نکلا ۔ مامون اور رانیہ اس جانت متوجہ ہو گئے ۔
ہمیں مریضئ کو ہسپتال ایڈمٹ کر نا پڑے گا۔ انہیں آکسیجن لگا دی گئی ہے ، آپ دعا کریں کہ وہ نارمل ہو جائیں فی الحال ہم انہیں آئی سی یو میں رکھیں گے ۔ ڈاکٹر وزیر علی نے انہیں رضیہ بیگم کی حالت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ۔
_____ _________
ڈاکٹر صاحب وہ تندرست تو ہو جائیں گی ناں ؟ رانیہ نے بے چینی سے پوچھا۔
ان شاء الله آپ دعا کیجئیے اور مسٹر مامون آپ میرے ساتھ آئیے ۔ ڈاکٹر وزیر علی نے رانیہ کو تسلی دینے کے بعد مامون سے کہا تو ، رانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا وہ اس کا شانا تھپکتے ہوئے اسے تسلی دیتا ڈاکٹر کے ساتھ چلا گیا اور وہ وہاں اماں کی صحت و سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔
ڈاکٹر صاحب کوئی خاص بات ہے کیا؟
مامون نے ڈاکٹر کے ساتھ ان کے کمرے میں آتے ہی سوال کیا۔
جی ہاں ! دراصل مریضہ کے پھیپھڑوں میں پانی چلا گیا ہے ان کو نمونیے کا بھی شدید اٹیک ہوا ہے ، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کی مریضہ زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکیں گی۔
اوہ مائی گاڈ ! یہ کیا ہو گیا ڈاکٹر صاحب ابھی تو ان کے شوہر کے انتقال کو بھی دس بارہ روز ہی ہوئے ہیں ۔ ان کی بیٹی وہ کیسے سہہ پائے گی یہ صدمہ ؟ مامون نے دکھ و پریشانی سے اپنا سر پکڑ کر کہا۔یقینًا یہ بہت دکھ کی خبر ہے لیکن ہم ڈاکٹرز کی بھی مجبوری ہے ، ہم اپنے مریض کے لواحقین کو اندھیرے میں نہیں رکھ سکتے ۔۔!