مامون کراچی پہنچ گیا تھا، پہلی فرصت میں اس نے سلمٰی بیگم سے اپنی اور رانیہ کی شادی کی بات کی تو سلمٰی بیگم نے نرم اور سنجیدہ لہجے میں کہا۔
چھوڑو رانیہ کو میں نے تمہارے لیے جو لڑکی پسند کی ہے اسے دیکھو گے تو وہی تمہیں اپنے سپنوں کی رانی اور شہزادی لگے گی۔
ممی! میری زندگی صرف رانیہ ہے میں کسی دوسری لڑکی کو اس نظر سے دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ہوں ۔ مامون نے نہایت سنجیدہ اور اٹل لہجے میں ایمانداری سے کہا۔
اور رانیہ جو گناہ کا کھیل کھیلتی رہی ہے وہ تمہیں نظر نہیں آیا۔
ممی ! آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ وہ سناٹے میں آگیا۔
میں نے تمہیں وہاں بھیج کر ہی غلطی کی، مجھے کیا پتہ تھا کہ رانیہ بیگم میرے بیٹے پر ڈورے ڈالے گی۔ اسے اپنی اداؤں سے اپنی محبت کے جال میں پھنسا لے گی ۔ بڑا لمبا اور اونچا ہاتھ مارنے کی کوشش ہے اس نے ۔
ممی ! اسٹاپ اٹ پلیز ! وہ غصے سے چلا اٹھا۔ آپ کو اس معصوم اور باکردار لڑکی کے متعلق ایسی نازیبا گفتگو کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ وہ معصوم تو کئی کئی دن میرے سامنے بھی نہیں آتی۔ میں ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے اس کی صورت دیکھنے کو ترس جاتا ہوں اور نہ ہی اس نے اس ڈیڑھ ماہ کے دوران مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی ہے۔ وہ تو صرف کھانے کے لیےمجھے بلانے آتی تھی، میں اسے روک کر بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔وہ امیرزادوں سے نفرت کرتی ہے کیونکہ اس کا بھائی بھی دولت کمانے دبئ گیا تھا اور پھر ان لوگوں کو بھول گیا ، اسے تو میرا اپنے گھر میں آنا اور رہنا بھی سخت نا پسند ہے، وہ بھلا مجھے کیوں ادائیں دکھائے گی۔ وہ تو اتنی معصوم اور من موہنی ہے کہ دل و روخ خودبخود اس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں ۔ وہ مجھ سے گریز کرتی ہے۔ مجھے نظرانداز کرتی ہے میری صورت سے بھی بیزار رہتی ہے ممی اور اس لئے تو وہ مجھے اور زیادہ اچھی لگتی ہے، کیونکہ اس میں لالچ نہیں ہے خود غرضی اور بناوٹ نہیں ہے ۔ میں اسے اپنی محبت سے جیت لوں گا۔ آپ میرے ساتھ اس کے گھر تو چلیں ، بات تو کریں خالہ خالو سے ۔ وہ سنجیدگی سے رانیہ کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بول؟
یہی معصومیت تو اس کا ہتھیار ہے خوب اُلو بنایا ہے اس نے تمہیں ۔ میں تمہیں ایسی چلتر لڑکی سے کبھی نہیں بیاہوں گی، محلے بھر کے لڑکوں سے تو اس کی دوستی اور دل لگی رہ چکی ہے۔
سلمٰی بیگم نے غصے سے کہا۔
جھوٹ ہے یہ بکواس ہے سب ، نجانے کس نے آپ کو اس معصوم کے خلاف بھڑکایا ہے۔ پہلے جب میں نے بات کی تھی تب تو آپ راضی ہو گئی تھیں ، پھر دس بارہ دن کی بجائے بیس دن ہو گئے آپ نے خا موشی اختیار کر رکھی تھی یا تو آپ پہلے ہی رانیہ کو اپنی بہو نہیں بنانا چاہتی تھیں اورمجھے ٹال رہیں تھیں یا پھر ضرور کسی کی باتوں میں آکر آپ اس باکردار اور بہادر لڑکی کی کردار کشی پر اتر آئی ہیں ۔معاملہ جو بھی ہےمیں کسی صورت رانیہ سے دستبردار نہیں ہونگا، یہ میرا آخریی اور اٹل فیصلہ ہے۔ وہ غصے اور جوش سے بولا۔
دیکھا کیسا بہکایا ہے میرے بیٹے کو اس کلموہی نے ۔ اب ماں کے سامنے زبان چلا رہا ہے، ماں کو جھوٹا کہہ رہا ہے اور جب اس کی منگنی طے ہو چکی ہے تو ہم کیوں بات کریں جا کر ، بھول جاؤ اسے۔ سلمٰی بیگم نے غصے سے کہا تو اس نے دلگیر لہجے میں سوال کیا۔
آپ بھول سکتی ہیں مجھے؟؟
کیسی بات کر رہے ہو تم میرے جگر کا ٹکڑا ہو، میں کیسے بھول سکتی ہوں تمہیں ۔ سلمٰی بیگم نے بے قرار ہو کر جواب دیا۔
تو رانیہ بھی میرے دل کا ٹکڑا ہے، میری محبت ہے میں کیسے بھول سکتا ہوں اسے۔ مامون نے بہت جذب سے کہا ۔
اس جیسی ہزاروں مل جائیں گی تمہیں ۔
ہزار ضرور مل جائیں گی مگر اس جیسی کوئی ندوسری نہیں ملے گی۔
دیوانے ہو گئے ہو تم تو۔ سلمٰی بیگم مزید برہم ہو کر بولیں ۔
ہاں میں مانتا ہوں ، بس آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ اور ڈیڈی میرا رشتہ لے کر رانیہ کے گھر جا رہے ہیں یا نہیں ؟؟
نہیں ! سلمٰی بیگم نے فورًا صاف انکار کر دیا۔
ٹھیک ہے ممی ، میرا فیصلہ بھی دوبارہ سن لیجئے ، رانیہ نہیں تو کوئی دوسری بھی نہیں ، اب میں جانوں اور میری قسمت آپ سے کچھ نہیں کہوں گامیں ۔ مامون نے نرم مگر سنجیدہ لہجے میں کہا اور باہر جانے لگا تو ضیاءالدین کو دروازے میں کھڑے پایا، وہ ان دونوں کی ساری باتیں سن چکے تھے۔ انہیں مامون کی خوشی عزیز تھی مگر جو کچھ وہ اپنی بیوی کی زبان سے چکے تھے اس نے انہیں بھی الجھن میں مبتلا کر دیا تھا۔
خدا حافظ ڈیڈی ! مامون نے انہیں دیکھ کر کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
___*____*____*___
___*____*____*___
سلمٰی بیگم آپ اس بچی رانیہ سے نہ ملی ہیں نہ اس کو قریب سے دیکھا ہے پھر آپ کیسے اسے بدکردار کہہ سکتی ہیں اور مامون گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ان کے ہاں مقیم ہے ، اس نے رانیہ کو قریب سے رکھا ہے ، وہ اسے جانتا ہے جھبی تو وہ اس سے شادی کا خواہش مند ہے۔ ضیاءالدین نے اندر آ کر سلمٰی بیگم کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تو وہ بولیں ۔
وہ تو باؤلا ہو گیا ہے ، اسے ہر لڑکی سے پیار ہو جاتا ہے۔
غلط ، بلکل غلط اگر ایسا ہوتا تو وہ اب تک آپ کی پسن کی جانے والی لڑکیوں سے بھی عشق فرما چکا ہوتا اور کسی سے بھی شادی کر چکا ہوتا مگر اس نے تو انہیں بغور دیکھنا بھی پسند نہیں کیا ۔
مامون نے رانیہ سے محبت کا دعوٰی کیا ہے اس لڑکی میں کچھ تو ایسا ہو گا جو ہمارے بیٹے کے من کو بھا گئی ہے۔
سلمٰی بیگم ! بڑے بیٹے کی شادی میرے بھتیجی سے ہوئی ہے اور چھوٹے بیٹے کی شادی آپ اپنی بھانجی سے کرا دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اس طرح دونوں خاندانوں سے مستقبل میں رشتہ جڑا رہے گا۔ ضیاءالدین نے نرمی سے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
لیکن میں رانیہ کو اپنی بہو نہیں بناؤں گی، مامون جذباتی ہو رہا ہے جب اس کی اصلیت جان جاءے گا تو خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا اور رانیہ کی منگنی ہو رہی ہے ، جمعے کو، ہم کیوں وہاں جا کر رنگ میں بھنگ ڈالیں ۔ سلمٰی بیگم نے سنجیدہ اور سپاٹ لہجے میں کہا۔
سلمٰی بیگم سوچ لیں جو آپ رانیہ کے متعلق کہہ رہی ہیں اگر وہ جھوٹ اور الزام ہوا تو آپ اپنے بیٹے کو کھو دیں گی۔ جانتی ہیں ناں مامون کو، اس نے آج تک ہمیں کسی معاملے میں پریشان اور شرمسار نہیں ہونے دیا کوئی ایسا کام یا فیصلہ نہیں کیا جس سے ہمارا سر جُھک گیا ہو۔ وہ بہت سمجھدار اور دھن کا پکا ہے ۔ اگر اس نے کہا ہے کہ وہ رانیہ کے سوا کسی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا تو لکھ لیجیے کہ وہ اپنے کہے پر عمل کر کے دکھائے گا تب کیا آپ اپنے بیٹے کو تنہا اور آزردہ دیکھ کر خوش رہ سکیں گی؟ ضیاء الدین نے سنجیدگی سے کہا تو وہ لاجواب ہو کر وہاں سے اٹھ گئیں ۔
_________________________
مامون کو اپنی کمپنی کی طرف سے گھر کی سہولت ملی تھی مگر وہ رانیہ کو دیکھنے کی چاہ میں امجد ہاؤس میں رکا ہوا تھا۔ اب جبکہ رانیہ کسی اور کے نام سے منسوب ہونے جا رہی تھی تو اس نے کمپنی کے گھر میں شفٹ ہو نے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ کراچی سے سیدھا لاہور ہوٹل آیا تھا اور اگلے روز اپنے گھر کی چابیاں لے کر اپنا سامان وہیں لے گیا تھا۔ امجد ہاؤس میں اس کا کچھ سامان موجود تھالیکن وہ اس قدر دکھی اور دلگیر تھا کہ وہاں جانے کا فیصلہ نہیں کر سکا اس کو اپنی ماں کی بد گمانی اور رانیہ کے متعلق رائے اور رویے نے بہت مایوس اور دل برداشتہ کر دیا تھا رانیہ کو تو وہ اپنی محبت سے اپنا اسیر بنا لینے کا یقین رکھے ہوئے تھا لیکن ماں کو کیسے مناتا کس طرح سمجھاتا کہ رانیہ کے متعلق ان کی سوچ غلط ہے ۔ وہ خود سے رانیہ کے والدین سے اپنے رشتے کی بات نہیں کر سکتا تھااور نہ اس کے والدین اس کے ساتھ تھے اور اب جبکہ اس کی منگنی طے ہو چکی تھی تو رانیہ کے والدین مامونکے پرپوزل کو اس کے ممی ڈیڈی کی رضا مندی کے بغیر کسی صورت قبول نا کرتے۔ یہی بے بسی کا احساس مامون کو رُلا رہا تھا۔ وہ رانیہ کو کسی اور کی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ بے قراری سی بے قراری تھی چین سکون نیند آرام کھانا پینا سب ختم ہو گیا تھا۔
مامون اگر رانیہ اس رشتے سے خوش ہے تو تمہیں بھی اس کی خوشی میں خوش ہونا چاہیے
اس کے دماغ نے اسے سمجھایا۔
کہاں سے لاؤں میں اتنا حوصلہ اپنی محبت کو گنوا کر کیسے خوش رہ سکتا ہوں میں ۔
________________________
آج جمعہ تھا ، رانیہ کی منگنی انور صغیر سے ہو رہی تھی۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا، مامون آج اپنی محبت کو دیکھنے نہیں آیا تھا ، کیسے وہ رانیہ کے سامنے آکر کہتا کہ وہ اکیلا رہ گیا ہے ۔ اس کے ماں باپ نے اس کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار دیا ہے ۔ وہ تو بڑے مان اور یقین سے رانیہ کو بتا کر گیا تھا کہ وہ اپنے ڈیڈی اور ممی کو لینے جا رہا ہے وہ اسے اس کے والدین سے ہمیشہ کے لیے مانگ لیں گے لیکن اس کا یقین اور مان تو اس کی پیاری ماں نے ہی توڑ دیا ۔ وہ اپنے کمرے میں اندھیرا کیے تنہائی میں تڑپ رہا تھا۔
مامون سنبھالو خود کو جو لڑکی تم سے نفرت کرتی ہے تم اس کے لیے خود کو روگ کیوں لگا رہے ہو؟ دماغ نے سمجھایا۔
نہیں وہ مجھ سے نفرت نہیں کر سکتی وہ تو کسی سے بھی نفرت نہیں کر سکتی ۔ بس چڑتی ہے ، میں نے بھی تو اسے خوب تنگ کیا تھا مگر اب کیا ہو سکتا ہے میں تو ہمیشہ محبت کرتا رہوں گا ۔
_____________________
امجد ہاؤس میں خاندان اور محلے کی عورتوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ رخسانہ مجید بھی ان اپنی تینوں بیٹیوں کے ہمراہ آئی ہوئی تھیں ۔ مجید ماموں بھی بھانجی کی منگنی میں خوشی خوشی شریک تھے۔
رخسانہ مجید کو آگ لگ رہی تھی کہ ان کی بیٹیاں بیٹھی ہوئی ہیں اور رانیہ ان سے چھوٹی ہونے کے باوجود منگنی شدہ ہو گئی ہے اور بھی پچیس ہزار کی تنخواہ والے اکلوتے بیٹے کا رشتہ ملا تھا اسے ۔ ج۔ سے ابہوں نے رانیہ کی منگنی طے ہو نے کا سنا تھا تب سے وہ انگاروں پر لوٹ رہی تھیں اور ایک تیر سے دو شکار کرنے کا سوچ رہیں تھیں ۔ منگنی کی رسم دھوم دھام سے ادا ہوئی تھی۔ رانیہ گلابی شرارہ سوٹ میں بہت ہی حسین لگ رہی تھی ۔ مامون کو موجود نہ پا کر اور اس کے رضیہ بیگم کی زبانی کراچی جانے کا سن کر رخسانہ بیگم کو دلی مسرت ہوئی تھی۔ سب مہمان کھانا کھا رہے تھے جب رخسانہ مجید ، رانیہ کی ہونے والی ساس بیگم صغیر کے قریب چلی آئیں جو بڑی رغبت سے بریانی اور چکن قورمہ کھا رہیں تھیں ۔رخسانہ مجید سے ان کا تعارف ہو ہی چکا تھا۔
مجھے تو رانیہ کی قسمت پر رشک آرہا ہے بہن ، ورنہ ایسی لڑکی کو کوئی شریف خاندان کیوں قبول کرنے لگا۔ سچ کہتی ہوں بہن بڑا دل ہے آپ کا جو رانیہ کی لغزشوں پر پردہ ڈال کر اسے اپنی بہو بنانے جا رہے ہیں اور وہ بھی اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے ۔ آپ نے ایسی چلاک لڑکی پسند کی ہے خیال رکھیے گا کہیں رانیہ آپ کے بیٹے کو ہی نہ لے اڑے۔
رخسانہ مجید بیگم صغیر کے قریب ہو کر بہت آہستگی سے زہر اُگلا۔
کیا مطلب آپ کا کیسی لڑکی ہے رانیہ ؟ بیگم صغیر کھانا بھول گئیں اور پریشان ہو کر پوچھنے لگیں ۔
میں تو آپ کے بھلے کو بتا رہی ہوں وعدہ کریں میرا نام بیچ میں نا آئگا۔ سمجھا کریں ناں رشتے داری کا معاملہ ہے۔ رخسانہ مجید نے آہستگی سے کہا تو وہ تیزی سے بولیں ۔
آپ بے فکر ہو کر بتائیں آپ کا نام نہیں آئگا۔
دراصل رانیہ کا کردار اچھا نہیں ہے ، محلے کے ہر لڑکے سے تو اس کا چکر چل چکا ہے ۔ اب آپ جانتی ہیں ناں کہ یہ آج کل کے لڑکے ایسی لڑکیوں سے صرف دل لگی کرتے ہیں شادی وہ کسی نیک پروین سی ہی کرتے ہیں ۔ رانیہ جیسی لڑکی سے سب اپنا مطلب پورا کرنے کے بعد اپنا راستہ بدل گئے۔ رخسانہ مجید نے سازشی لہجے میں کہا۔
آپ سچ کہہ رہی ہیں ؟؟ بیگم صغیر کے تو پسینے چھوٹ گئے تھے۔ ان کی باتیں سن کر مرے مرے لہجے میں تصدیق چاہی۔
خدا کو منہ دکھانا ہے بہن میں کیوں جھوٹ بولوں گی۔۔ آپ سے مجھے مل کر بے حد خوشی ہوئی تھی اسی لیے بتا رہی ہوں کہ کل کلاں کو جب رانیہ کے عاشق نے رانیہ سے رابطہ کر لیا تو آپ ہی کی بدنامی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔اور اگر رانیہ اتنی ہی باکردار اور نیک ہوتی تو میں اسے اپنی بہو بنا لیتی ، خیر سے میرے دو بیٹے ہیں میرے مجھے رانیہ پسند بھی تھی لیکن جب اس کی حرکتیں سامنے آئیں اور تصویریں دیکھیں تو میں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ میں آنکھوں دیکھی مکھی کیسے نگل سکتی ہوں ۔ میرے لڑکوں کے لیے رشتوں کی کمی تھوڑی ہے جو میں گناہ کی اس پوٹ کو اپنے بیٹے کے سر منڈھ دیتی۔اسی لئے خاموش ہو گئی۔ یہ دیکھو یہ تصویر الله جانے کس لڑکے ساتھ دلہن بنی کھڑی ہے۔
رخسانہ مجید نے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت جلدی جلدی بتایا اور اپنے پرس میں سے ایک تصویر نکال کر ان کے سامنے کر دی ۔ تصویر رانیہ کی ہی تھی جس میں وہ دلہن بنی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ایک دلہا بھی مونچھوں والا کھڑا مسکرا رہا تھا۔ یہ تصویر دراصل رانیہ کے کالج کے ورائٹی پروگرام کی تھی جس میں اس نے فنسی ڈریس شو میں حصئ لیا تھا ۔ رخسانہ مجید کی چھوٹی بیٹی شاہانہ، رانیہ سے ایک سال سینئر تھی اور کالج کی فیئر ویل پارٹی میں اس نے یہ تصویر اتاری تھی ۔ رانیہ کے ساتھ جو دلہا تھا دراصل رومانہ تھی جو مردانہ لباس اور گیٹ اپ کی بدولت پہچانی نہیں جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔رخسانہ مجید اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی تھیں ۔ بیگم صغیر نے اپنی بیٹیوں اور بیٹے انور صغیر کو بلا کر تصویر بھی دکھائی اور ساری بات بتانے کے علاوہ منگنی اسی وقت ختم کرنے کا فیصلہ سنا دیا جو ان تینوں نے بلا تامل قبول کر لیا ۔
____________________
بیگم صغیر رانیہ کے بپاس گئیں جو ڈرائنگ روم میں شاہانہ اور شبانہ کے بیچ شرمیلے پن سے مسکرا رہی تھی۔
لڑکی ہاتھ ادھر لاؤ۔ بیگم صغیر نے غصے سے کہا تو وہ تینوں حیرانگی دیکھنے لگیں ۔ رضیہ بیگم بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئیں ۔
رانیہ بیگم ! میں یہ منگنی ابھی اور اسی وقت ختم کر رہی ہوں ۔
یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں بہن؟ رضیہ بیگم نے دل تھام کر حیرت و صدمے سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تو رانیہ نے بھی جھٹکے سے سر اٹھایا۔
اپنی اس بدکردار اور آوارہ لڑکی کو کسی بےوقوف کے سر منڈھنا ، مجھے نہیں لے جانی یہ گناہ کی گھٹھڑی اپنے گھر ،منگنی ختم ہوگئی۔بیگم صغیر نے سفاکی سے کہتے ہوئے رانیہ کے ہاتھ سے منگنی کی انگھوٹھی اتار لی۔ تمام مہمان خواتین حیرت اور افسوس سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں ۔رانیہ کے متعلق جو کچھ انہوں نے سنا تھا اس پر کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا اور رانیہ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی گناہ گار قرار دے دی گئی تھی۔ رضیہ بیگم اور امجد علی کے لاکھ سمجھانے ، روکنے اور منت و فریاد کے بیگم صغیر رکی نہیں تھیں اور اپنے بیٹے بیٹیوں اور دیگر رشتے داروں سمیتوہاں سے چلی گئیں تھیں ۔
ہنستے بستے گھر میں پل بھر میں صف متم بچھ گئی تھی۔ امجد علی یہ ذلت و رسوائی بیٹی کی بدنامی اور جگ ہنسائی کا صدمہ برداشت نہ کر سکے تھے اور لڑکے والوں کے اپنے گھر پہچنے سے پہلے ہی دل کا دورہ
پڑنے سے موت کی وادی میں جا پہنچے تھے۔
رانیہ نے سیا ہ ماتمی لباس زیب تن کر لیا تھا ۔ اسے تو جیسے سکتہ ہو گیا تھا۔ رضیہ بیگم کا رو رو کر برا حال تھا۔سبھی رشتہ دار جو منگنی میں شریک تھے ۔ اب امجد علی کی موت کے غم میں شریک تھے۔ رانیہ کو ہر کوئی حسب ِ توفیق برا کہہ رہا تھا اور سب کی زہر آلود دل انگار باتیں سن رہی تھی۔
توبہ توبہ ایسی بے حیا لڑکی جسے ماں باپ کی عزت کا بھی خیال نہ آیا باپ کی غیرت کا جنازہ نکال دیا ، رانیہ نے ۔ باپ بے چارہ صدمے سے ہی مر گیا ۔ ایک اور محلے دار عورت کہہ رہی تھی۔
شکل اور عمل سے تو بڑی معصوم لگتی تھی ہمیں کیا خبر تھی کہ اندر یہ گل کھلا رہی ہے۔ دوسری عورت نے کہا۔
ارے یہ اچھی شکل ہی برے عمل کراتی ہے۔ لڑکے والوں کا دماغ تھوڑی خراب تھا جو منگنی کرتے ہی توڑ ڈالی۔ آخر انہیں بھی تو اپنے خاندان میں منہ دکھانا تھا ۔ ان کی عزت بھی تو مٹی میں مل گئی ایسی لڑکیوں کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے۔تیسری عورت نے رائے دی۔
ماں باپ کا قصور تا نہیں تھا۔ اتنے نیک ماں باپ کی اتنی بدکردار اولاد ۔ چہ چہ چہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے رضیہ بہن اکیلی رہ گئی امجد بھائی تو بیٹی سے پیار بھی بہت کرتے تھے اور پیار کا یہ نتیجہ دیا ہے بیٹی نے کہ ذلیل کرا کے مار دیا باپ کو ہاۓ ہاۓ۔
ایک اور آواز رانیہ کی روح چھلنی کرگئی۔ کتنی ہی لفظوں کی ایاں باتوں کے خنجر اور لہجوں نے نشتر اس کی روح میں پیوست ہو گئے تھے اور اسے لہو لہو کر گئے تھے۔
اگر یہ منگنی ہو گئی تو ختم کرا دوں گا۔ تمہارے ہاتھوں پر صرف میرے نام کی مہندی سجے گی سنا تم نے ۔ تم صرف میری دلہن بنو گی ۔ رانیہ کی سماعتوں میں مامون کی کہی بات گونجی تھی۔اور وہ چونک کر حوسوں کی دنیا میں لوٹ آئی تھی۔ مامون ضیاء تم نے میرے انکار کا بدلہ لے لیا ناں تم نے منگنی ختم کرانے کی دھمکی دی تھی ناں اور اپنے گھٹیا منصوبے پر عمل بھی دکھایا۔ رانیہ نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا تھا ، اس کے قریب بیٹھی رخسانہ مجید نے اس کی بات سن لی تھی اور فاتخانہ انداز میں دل ہی دل میں مسکرا رہی؟ اب مامون ضیاء اور آنور صغیر دونوں، رانیہ کی بدنامی کے سبب اس سے دور ہو گئے تھے اور اب رخسانہ مجید کو انہیں۔ اپنا داماد بنانے کا مرحلہ آسان نظر آ رہا تھا ، دونوں اتنے اچھے رشتے تھے وہ ہر صورت انہیں حاصل کرلینا چاہتیں تھیں ۔
______________________________