رخسانہ مجید اپنی بیٹی شبانہ کے ساتھ امجد ہاؤس آئیں تھیں۔
بھابھی ! خیریت ہے نا آج اتنے مہینوں بعد ہمارے گھر کا رستہ کیسے بھول گئیں، آپ اور وہ بھی اتنی صبح صبح ۔ بیگم رضیہ نے انہیں بٹھانے کے بعد مسکراتے ہوئے پوچھا تو رخسانہ مجید کہنے لگیں۔
بھئ ہم نے سنا ہے کہ سلمٰی کا بیٹا تمہارے ہاں آیا ہوا ہے اور تم لوگوں نے ہمیں بھنک تک نہیں پڑنے دی کہاں ہےوہ؟
اوپر ہے زرا طبیعت ٹھیک نہیں اسی لئے آج آفس بھی نہیں گیا۔
رضیہ بیگم نے مسکرا کر بتای تو رخسانہ مجید تیز لہجے میں بولیں ۔
طبعیت کیوں خراب ہو گئی اس کی کیا کھلا پلا دیا بچے کو وہ یہاں آتے ہی بیمار پڑ گیا۔
انہیں سردی لگی ہے۔ رانیہ نے اپنا غصہ ضبط کر کے کہا۔
سردی تو لگے گی ہی اوپر چھت پر پہنچا دیا اسے نیچے بندوبست کر دیتے ورنہ ہمارے ہاں بھیج دیتے، آخر ہمارا گھر بھی تو اس کے ماموں کا گھر ہے اس کا حق ہے ماموں پر اور ہمارا حق ہے اس پر۔ نام کیا ہے اس کا مامون ہے نا! رخسانہ مجید تیزی سے بولتی چلی گئیں ۔
دراصل وہ اپنی بیٹی کے لیے مامون کو رام کرنے کے ارادے سے یہاں آئی تھیں، مامون کو اپنا داماد بنانا چاہتی تھیں ۔ رضیئ اور رانیہ ان کی آمد کا سبب خوب سمجھتی تھیں۔
آئے تو بلاؤ نا اسے کیا ہم سے بھی پردہ کرے گا وہ؟
رانیہ جاؤ بھائی کو بلا لاؤ، کہنا رخسانہ ممانی آئیں اور ساتھ شبانہ بھی ہے وہ بہتخوش ہو گا ان سے مل کے۔ رضیہ بیگم نے رانیہ کو دیکھتے ہوئے کہا تو رخسانہ مجید فورًا بول پڑیں۔
ہم اس سے اوپر جا کر ہی مل لیتی ہیں ۔
ممانی وہ سو رہے تھے، ویسے بھی وہ مہمانوں سے اپنے کمرے میں نہیں ملتے ۔ میں جا کر دیکھتی ہوں اگر جاگ رہے ہوں گے تو انہیں آپ کی آمد کی اطلاع کر دونگی۔ رانیہ نےج سنجیدگی سے کہا اور ان کا بگڑتا ہوا من دیکھ کر دل ہی دل میں مسکراتی ہوئی اوپر مامون کے کمرے میں چلی آئی تو اسے موجود نہ پا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔
مامون کہاں چلے گئے؟ وہ بآواز بولی تھی اور جواب بھی فورًا ملا تھا۔
مامون کہاں جا سکتا ہے اب تم نے اس کے جانے کے تمام رستے بند کر دیے ہیں ۔ مومون نے اسے اپنے کمرے میں جاتا دیکھ لیا تھا جبلہ رانیہ اپنی دھن میں چلتی صحن میں دھوپ والی جگہ پر نگاہ دوڑائے بغیر ہی سیدھی کمرے میں چلی آئی تھی۔
نیچے مجید ماموں کی بیگم اور بیٹی آئی ہیں آپ سے ملنے یہی بتانے آئی تھی۔ اماں نے بلانے کے لیے کہا ہے۔ رانیہ اس کی بات دانستی نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بیان کیآ۔
ٹھیک ہے تم چلو میں آتا ہوں۔مامون نے جواب دیا تو وہ سر ہلا کر واپس جانے لگی ۔ ماومون دروازے کی چوکھٹ لر کھڑا تھا۔
رانیہ کے قریب آنے پر ایک طرف ہو گیا مگر جونہی رانیہ گزرنے لگی اس نے اس کے آگے پیچھے اپنے ہاتھ چوکھٹ پر رکھ کر اس کا رستہ مسدود کر دیا اور پھر اس کی بے باک اور شرارت بھری جسارت پر رانیہ کے رخسار دہک اٹھے ۔ یہ کیا بدتمیزی ہے؟ وہ کسمسا کر غصے سے بولی۔
یہ اس تپھڑ کا کفارہ ہے اور اس مسیحائی کا شکریہ ہے جو تم نے دن بھر کی تھی، آئی لو یو رانیہ ، آئی رئیلی لو یو، تم میری زندگی ہو ، روح ہو راحت ہو ، اب کوئی دوسرا تمہیں مجھ سے نہیں چھین سکتا ، تم صرف میری ہو ، صرف میری۔ مامون نے اس کی حیا کی لالی اور غصے کی حدت سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھتے ہوئے محبت پاش لہجے میں کہا اور اس پہلے خود ہی نیچے چلا گیا اور رانیہ وہیں حیران و پریشان اور غصے سے بھری کھڑی رہ گئی۔
_____________________
مامون بیٹا ! کچھ دن اپنے ماموں کے گھر بھی آکر رہ لو ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے ؟ رخسانہ مجید نے اسے دیکھتے ہوئے لگاوٹ سے کہا۔
آنٹی ایسی بات نہیں ہے دراصل میں یہاں کام کے سلسلے میں آیا ہوں ۔ صبح گھر سے نکلتا ہوں تو شام کو لوٹتا ہوں ، ان شاء الله کسی روز آؤں گا آپ کی طرف بھی۔ مومون نے نرمی سے جواب دیا۔
یعنی آپ ہمارے گھر رہنے کے لیے نہیں آئیں گے۔ شبانہ نے بڑی ادا سے کہا۔
فل میک اپ اسٹائلش لباس میں وہ اسے مرعوب و مائل کرنے کے ارادے سے آئی تھی۔ رخسانہ مجید بھی یہی چاہتی تھیں کہ ان کی تینوں بیٹیوں میں سے کسی ایک کو تو مامون پسند کر ہی لے تو مزے آجائیں گے وہ بھی اونچے گھر کا داماد ملنے پر اترایا کریں گی۔
میں آپ لوکوں کو زحمت نہیں دینا چاہتا یہاں آرام ہے تنہائی ہے، خاموشی ہے میں سکون سے اپنا کام کر سکتا ہوں۔ آپ کو ناحق میری وجہ سے بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔
جو میں نہیں چاہتا۔ مامون نے مہذب لہجے میں طریقے سے جواب دیا اور کھڑا ہو گیا۔
ارے بیٹھو نا بیٹا کہاں چل دئیے ؟ رخسانہ مجید نے فورًا کہا۔
آنٹی پلیز آپ مائنڈ مت کیجئیے کا میری طبعیت خراب ہو رہی ہے میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں ، ان شاء الله سنڈے کو آپ کی طرف ضرور آؤں گا ۔ مامون نے نرمی اور مہذب لہجے میں جواب دیا۔
ضرور آنا ہم انتظار کریں گے۔ رخسانہ مجید نے تائید کی۔
جی ضرور ۔ اچھا خدا حافظ ! وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
پھر رخسانہ مجید اور شبانہ بھی مزید نہیں رکیں اپنے آنے کا مقصد پورا ہوتے ہی واپس چلی گئیں۔
مجھے لگتا ہے اس کلموہی ، رانیہ نے مامون کو قابو میں کر لیا ہے جھبی وہ تمہاری طرف دیکھنے سے بھی کترا رہا تھا۔ حالانکہ تم رانیہ سے حسین ہو گوری چٹی ہو اس کا تو رنگ ہی کالا ہے، گھر آتے ہی رخسانہ مجید نے اپنی بھڑاس نکالتے ہوئے شبانہ سے کہا۔
توبہ کریں امی، رانیہ کا رنگ کھلتا ہوا گندمی سا ہے ، اتنی اٹریکشن ہے اس کے چہرے میں کہ سچ اگر میں لڑکا ہوتی تو رانیہ کو اپنی دلہن بناتی۔ سب سے چھوٹی رانیہ کی ہم عمر رومانہ نے مسکرا کہا تو ڈپٹ کر بولیں۔
چپ کر بے شرم ، میں اپنے گھر میں کسی غریب سی لڑکی کو دلہن بنا کر نہیں لانے والی ہاں ، اور تُو تو ہمیشہ رانیہ کی حمایت میں بولا کر ۔ اپنی فکر کرو تم تینوں ، مامون سنڈے کو آنے کا کہہ رہا تھا، زرا ڈھنگ سے تیار ہونا ، کسی ایک کو تو وہ پسند کر ہی لے گا۔
رانیہ نے کوئی بناؤ سنگھار نہیں کر رکھا تھا ، عام سے کپڑے پہن رکھے تھے، بھلا مامون جیسا امیر گھر کا لڑکا ایسی لڑکی کو کیوں پسند کرے گا اور پھوپھی بھی تو رانیہ سے کہہ رہیں تھیں کہ بھائی کو بلا لاؤ ، وہ بھی بھائی ہی کہتی ہے اور سمجھتی ہو گی مامون کو، شبانہ نے کہا۔
جو بھی سمجھتی ہے سمجھا کرے مامون یہاں سے ہو کر چلا جائے پھر میں اس کی ماں کو فون کروں گی اور طریقے سے بات اس کے کان میں ڈال دونگی۔ رخسانہ مجید نے بیزاری سے کہا تو وہ تینوں مسکرا نے لگیں ۔
_________________________
سنڈے کو مامون مجید غفار اور رخسانہ مجید کے گھر پہنچا تو اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا تھا۔ رخسانہ مجید تو اس پر صدقے واری جارہی تھیں اور وہ حیران حیران سا انہیں دیکھا اور سن رہا تھا۔ مجید ماموں بہت کم ہی بولتے تھے ۔ ان کی کمی بھی رخسانہ بیگم ہی پوری کر رہی تھیں ۔ شبانہ ، شاہانہ اور رومانہ بہت اہتمام سے تیار ہوئی تھیں ۔ جیسے کسی منکشن شو میں شرکت کے لیے جا رہی ہوں ، ان کے دونوں بھائی حمید اور نوید بھی مامون کو کمپنی دے رہے تھے۔ مامون کو اپنی اس قدر پذیرائی کی وجہ بھی جلد ہی معلوم ہو گئی کیونکہ رخسانہ مجید اپنی پیٹیوں کے سلیقے کی ان کی خوبیوں کی کہانی بار بار سنا رہیں تھیں۔اور کھانے کی میز پر انواع و اقسام کے کھانے دیکھ کر مامون حیران رہ گیا
مامون بیٹا یہ کباب لو نا،یہ شبانہ نے خاص ترکیب سے تمہارے لیے بنائے ہیں ۔
رخسانہ مجید نے کبابوں کی پلیٹ ان کی جانب بڑھا کر کہا تو شبانہ نے بڑی ادا سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔
شکریہ آنٹی! مامون نے ایک کباب اٹھا لیا۔
یہ چکن قورمہ
میری شاہانہ نے بنایا لو کھا کر دیکھو بہت ذائقہ ہے میری شاہانہ کے ہاتھ میں ۔ دوسری ڈش اس کی جانب بڑھا کر اب کی بار شاہانہ کو سراہا گیا، حالانکہ ماسوائے بریانی اور روٹی سلاد وغیرہ کے تمام لوازمات ہوٹل سے پکے پکائے منگواۓ تھے۔
بس آنٹی بہت کھا لیا ، آپ نے ناحق اتنا تکلف کیا، میں تو ابھی تازہ تازہ بیماری سے اٹھا ہوں اور پر ہیزی کھانا کھا رہا ہوں ، اتنی مرغن اور مصالحے دار چیزیں کھا کر تو میں پھر سے بیمار پڑ جاؤں گا۔ مامون نے ان کی نیت کو بھانپتے ہوئے ایک دم سے بیزار ہوتے ہوئے بمشکل نرم اور مہذب لہ۔جے میں کہا۔
لو بھلا کھانے سے بھی کوئی بیمار پڑتا ہے، صبح سے شام تک کام کرتے ہو اور کھاؤ گے نہیں تو طاقت کیسے آئے گی۔ اچھا لو یہ فرنی کھاؤ اس سے تمہاری صحت پر برا اٽر نہیں پڑے گا۔
یہ رومانہ نے بڑے شوق سے بنائی ہے تنہارے لیے۔ رخسانہ مجید نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا اور فرنی کا ڈھونگہ اس کے سامنے رکھ دیا ۔ مجبورًا دو چمچ فرنی چکھ ہی لی۔آنٹی تمام چیزیں تمام ڈشز بہت مزیدار تھیں ۔
تو بیٹا لو نا تم نے تو کچھ کھایا ہی نہیں ۔ وہ خوش ہو کر بولیں ۔
شکریہ آنٹی میراآپ سے وعدہ تھا اس لیے چلا آیا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ اتنا اہتمام کر لیں گی تو میں آپ کو پہلے ہی منع کر دیتا بہر حال بہت بہت شکریہ۔ مامون نے مسکراتے ہوئے کہا۔
آپ کو سب سے زیادہ کون سی ڈش پسند آئی ہے۔ شبانہ نے پوچھا۔
بھئ تمام ڈشز ہی بہہت مزیدار تھیں کسی ایک کی تعریف کر کے باقی دو بہنوں کی دل آزاری نہیں کر سکتا۔ میری تینوں بہنوں نے ہی بہت مزیدار پکوان تیار کیے شاباش۔ مامون نے دانستہ بہنوں کا لفظ استعمال کر کرتے ہوئے کہا تو جہاں رومانہ کی ہنسی بے ساختہ نکلی تھی، وہاں رخسانہ مجید ، شبانہ اور شاہانہ کے چہروں پر اترنے والی بیزاری اور شرمساری بھی برمحل تھی۔ مامون نے ان سب کی صورتوں کو بغور دیکھا تھا اور حظ آٹھایا تھا بلکہ واپسی پر بطور خاص تینوں ، بہنوں کی سر پر دست شفقت پھیرتے ہوئے دعا دی تھی اور رخسانہ مجید کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔
بیٹھے بھٹھائے دو ہزار کی چوٹ لگ گئی اور مامون میاں دو تین سو روپے کا کیک لا کر دو چار نوالے کھا کے جاتے ہوئے لڑکیوں کو بہنیں کہہ کر ان کے سر پر دست شفقت دھر گئے۔ خیر میں بھی ہار ماننے والی نہیں ، رانیہ کا جادو نہین چلنے دونگی اس پر ۔ رخسانہ مجید غصے سے بولتے ہوئے کبابوں پر ہاتھ صاف کر رنے لگیں ۔
__________________________
مامون خاصہ بیزار ہوا تھا مجید ماموں کے گھر جا کر امجد ہاؤس واپسی پر اس کی ساری بیزاری دور ہو گئی چونکہ اسے وہاں اپنی اولین محبت و چاہت ، رانیہ کی معصوم اور دلکش صورت زندگی کا احساس دلانے کے لیے موجود تھی۔ عصر کا وقت ہو رہا تھا ، جس وقات وہ گھر میں داخل ہوا ۔ رانیہ صحن میں رکھے گملوں کو پانی دے رہی تھی۔
ایک کپ چائے مل سکتی ہے ، مامون نے اپنے دونوں ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ڈالتے ہوئے اس کے پاس آہستگی سے کہا۔
دعوت پر گئے تھے انہوں نے چائے نہیں پلائی کیا؟ وہ شاور بند کر کے رکھتے ہوئے بولی۔
انہوں نے تو میز پر انواع و اقسام کے کھانے چن رکھے تھے مگر سچ پوچھو تو میں ڈھنگ سے کھانا کھا بھی نہیں سکا کچھ عجیب نہیں ہیں یہ رخسانہ آنٹی؟۔ مامون نے سنجیدگی سے بتایا۔
پتا نہیں ۔ رانیہ نے یہ کہتے ہوئے کچن کی چوکھٹ پر ہاتھ تھا عین اسی وقت اس نے رانیہ کا ہاتھ تھام لیا۔
یہ کیا حرکت ہے؟ رانیہ ایک دم سے جیسے ہوش میں آ گئی۔
یہ محبت ہے جس کی مسحائی کا لمس ہر تکلیف مٹا دیتا ہے ۔ وہ محبت سے بولا۔
چھوڑا میرا ہاتھ بدتمیز آدمی
یہ ہوتھ تو میں نے اب زندگی بھر تھامے رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یک طرفہ فیصلہ ۔ وہ سلگ کر بولی۔
ان شاء الله یہ دو طرفہ فیصلہ ہو گا رانی جان ۔ میری ٹریننگ مکمل ہوتے ہی جاب ہو جائے گی ، زبردست سیلری دو گھر اور گاڑی بھی ملے گی۔ یہ جاب نہ بھی رہے گی تو بھی میرے نام فیکٹری ہے گاڑی ہے میں تمہیں بہت آرام اور راحت سے رکھوں گا۔ وہ نرم اور دھیمے لہجے میں بولتا اسے نروس کر رہا تھا۔
مجھے اپنی دولت سے مرعوب کرنے کی کوشش مت کرو۔
تو اپنی محبت سے مرعوب کرنے کی کوشش کروں ۔ شرارت سے کہتے ہوئے بولا۔
پیچھے ہوٹ۔
میں پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔
ہونہ ، بہت دیکھے ہیں تم جیسے دعوےدار۔ رانیہ نے مذاق اُڑایا۔
میری بات سچی ہے ایک دن تم جان لو گی ، تم پر ٽابت ہو جائگا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں ۔
لیکن میں تم سے محبت نہیں کرتی ، میں صرف اس شخص سے محبت کروں جس سے شادی ہو گی اور وہ تم نہیں ہو گے۔ اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔
وہ شخص میرے سوا کوئی اور بھی ہر گز نہیں ہو گا، میں تمہیں کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا۔
تمہاری نفرت کو میں محبت میں بدل کر رہوں گا۔ وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے یقین اور اٹل لہجے میں بولا۔
ایسا اظہار نکاح کے بعد ہی اچھا لگتا ہے مامون ضیاء۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔
تو تم نکاح کے لیے تیار ہو ۔ وہ شریر ہوا
شٹ اپ۔ وہ جھلا کر بولی اور وہاں سے چلی گئی۔
_________________________
رات کو مامون نے اپنے موبائل فون سے گھر فون کیا اور اپنی ممی کو رانیہ کے لیے اپنی پسندیدگی کا احوال سنایا، انہیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ سوائے اس کے کہ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔
ممی آپ کا تعلق بھی تو مڈل کلاس سے تھا نا ڈیڈی سے شادی کے بعد آپ کا اسٹیٹس ہائی ہوا ہے۔ رانیہ کے معملے میں آپ ایسا کیوں سوچ رہی ہیں۔ وہ بہت شاندار اور باوقار لڑکی ہے۔خالہ جان اور انکل بھی بہت ناہئس ہیں کوئی بناوٹ دکھاوا اور غرض شامل نہیں ہے ان کے خلوص میں ، بس میں نے کہ دیا ہے کہ میری شریکِ حیات صرف رانیہ ہی بنے گی اور کوئی نہیں ۔
آپ کو خالہ اور انکل سے میری رشتے کی بات کرنا ہوگی۔ مامون سے سنجیدگی سے کہا تو وہ ہار مانتے ہوئے بولیں ۔
اچھا بابا کر لیں گے تمہارے رشتے کی بات۔ لیکن دس بارہ روز تک ہم بلکل فارغ نہیں ہیں۔یہاں کئی شادیاں اٹینٹد کرنی ہیں ، اس کے بعد ان شاء الله شادی کی تیاری شروع کر دیں گے۔
او تھینک یو ممی آئی لو یو ممی ۔ وہ خوش ہو کر بولا تو وہ ہنس پڑیں ۔
آئی لو یو ٹو م مائی سن اوکے الله حافظ ۔ دوسری طرف سے فون بند ہو گیا تو مامون خوشی خوشی سونے کے لیے لیٹ گیا۔
___________※___________※___________※____________