طفیل یہ لڑکا کیا کہہ رہا ہے تم باہر کسی لڑکی کے ساتھ پھرتے ہو؟؟ مسز طفیل نے اپنے شوہر کو کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے پوچھا۔
میں بتاتا ہوں یہ اپنی کولیگ کو محبت کے جال میں پھنسا رہے ہیں اس سے کہتے ہیں کہ میری پاگل ہے موٹی ہے اور اس کی عقل بھی موٹی ہے اور وہ نفسیاتی مریضہ ہے میں نے خدا ترسی کے لیے اسے اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے کیوں طفیل صاحب یہی کہتے ہیں ناں آپ اپنی کولیگ نائلہ سے؟ مامون نے سب کے متعلق معلومات اکٹھی کر لی تھیں اب سب کے کارنامے ان کے سامنے پیش کر رہا تھا۔
جھوٹا ہے یہ ۔ مسٹر طفیل سٹپٹا کر بولے۔
تو نائلہ سے بات کر لیتے ہیں۔ مامون نے کہا ۔
تم تو گھر چلو زرا گھٹیا آدمی تم نے مجھے پاگل اور نفسیاتی مریضہ کہا میرے بھائی تمہارا قیمہ بنا دینگے ۔ چلو تم۔ مسز طفیلغصے سے لال پیلی ہوتی مسٹر طفیل کو کھینچتی ہوئی لے گئیں تو مسسٹر اسلم بھی کھسیا کر نکلنے لگے ۔
مصٹر اسلم ، آپ نے تو اپنی ساتھی ورکرز کو یہ بتا رکھا ہے کہ آپ کنوارے ہیں۔ اور افشاں کو آپ شیشے میں اتارنے میں بھی کامیاب بھی ہو گئے تھے مگر آپ کو یہ سن کر افسوس ہو گا کہ میں نے اس آپ کی اصلیت بتا دی ہے ۔ مامون نے مسکراتے ہوئے اسلم سے کہا ۔
بھیا! معاف کرنا میں ان کمینوں کی باتوں میں آ گئی تھی یہ ٹونی اور خالد تو نرے شیطان ہیں مجھے بھی بہکا دیا اور اسلم تم تو گھر چلا ذرا تمہارے تین بچے میں تمہاری محبوباؤں کو منہ دکھائی میں۔ دوں گی اب چلو بے ایمان آدمی ۔ مسز اسلم نے مامون سے معذرت کرنے کے بعد اپنے شوہر کو باہر دھکیلا تو مامون نے ٹونی اور خالد کو گھورا ۔
تم دونوں نے اپنے ایکسیڈنٹ سے کوئی سبق نہیں سیکھا نئی زندگی الله نے دی ہے تو اسے اچھے اور نیک کاموں میں صرف کرنے کی بجائے تم اب بھی اپنی آوارگی کا ثبوت دے رہے ہو۔ شرم سے ڈوب مرو تمہارا ایک ایک کرتوت پولیس ریکارڈ میں محفوظ ہو گیا ہے۔ سدھر جاؤ ورنہ پولیس تم جیسوں کو سدھارنا خوب جانتی ہے اور تم دونوں کے لیے میںاکیلا ہی کافی ہوں ۔ دفعہ ہو جاؤ یہاں آئندہ اگر میری بیوی یا کسی بھی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو تم دونوں کی آنکھیں نکال کر کتوں کو کھلا دوں گا ۔ تم ہر وقت پولیس کی نظروں میں رہو گے ۔ بولو یہ عید حوالات میں گزارنا پسند کرو گے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں معاف کر دیں ۔ دونوں نے ڈر کر ایک ساتھ کہا۔
دفعہ ہو جاؤ یہاں سے تمہارے ماں باپ کے پاس پولیس موجود ہے ان کے سامنے جا کر اپنی حرکتوں سے توبہ کرنے کا عہد کرو ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مامون کی بات پوری نہیں تھی کہ وہ دونوں ٹھیک ہے کہہ کر تیزی سے وہاں سے بھاگ نکلے ۔ مامون نے رانیہ کی طرف دیکھا جو اسی حالت میں کھڑی تھی جو تین سال پہلے مامون کی ہو گئی تھی ۔ مامون کو اپنی جانب دیکھتا پا کر مارے شرمندگی کے وہ رُخ پھیر گئی کر کھڑی ہو گئی ۔ مامون نے گہرا سانس لبوں سے خارج کیا اور دروازہ لاک کر دیا ۔
رانیہ !! مامون نے اس کے قریب آ کر اس کے شانوں پر ہاتھ کھ کر مدھم آواز میں پکارا اور پھر اس کا رخ اپنی جانب موڑ لیا ۔ رانیہ کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ۔ وہ بے قرار ہو گیا ۔ رانیہ نے اشک بہاتی آنکھوں سے اپنے خلوص بے ریا اور محبوب شوہر کا چہرہ دیکھا اور پھر ضبط ہار گئی اور اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا کر بلک بلک کر رونے لگی ۔ مامون تو اس کی اس حرکت پر حران ہوا تھا بھلا وہ کب اسے اپنے قرب کے قابل سمجھتی تھی اور اب خود ہی اس کی پناہوں میں آ گئی تھی ۔ اس نے بھی اسے اپنی بانہوں کے حلقے میں لے کر اپنی محبت اور حفاظت کا احساس دلایا۔
وہ بری طرح رو رہی تھی جیسے تین برس کے آنسو اس نے بچا کے رکھے ہو اور آج انہیں اس کے دامن میں سمونے کی ٹھانی ہو ۔
بس رانیہ کچھ نہیں ہو گا تمہیں میں ہو ں ناں ۔ خدا کے بعد تمہارا محافظ تمہارا حصار ۔۔۔۔۔ہوں ۔۔۔۔۔۔۔بس شاباش حوصلہ کرو۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بزدل اور چھوٹے لوگ تھے تم ان سے ڈر گئی ، تم تو بہت بہادر ہو بڑی ہمت والی ہو ۔ پگلی میرے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا ۔ میں تم سے بے خبر تھوڑی تھا ان لوگوں کے متعلق انفارمیشن اکٹھی کر رہا تھا ۔ یہ جاننے کے لیے کہ میری محبت کے آس پاس کس قسم کے لوگ رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اب میں تمہیں یہاں رہنے نہیں دونگا لگتا ہے تین سال سے میرے انتظار میں تم نے یہ آنسو سنبھال کر رکھے ہوئے تھے ۔ چلو آج کھل کر رو لو لیکن دھیان رہے ان آنسوؤں میں تمہارا مامون نہ بہہ جائے ۔ مامون نے اس کے سر پر بوسہ دیا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر تے ہوئے پیار بھرے لہجے میں بولا تو اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔
مامون!
کہو میری جان ۔ اس نے پیار سے اس کے آنچل سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
تو وہ بھیگتی آواز میں ندامت سے بولی
مامون ! مجھے معاف کر دیجئے۔
رانیہ ! مامون حیرت سے اس کی صورت تکنے لگا ،اس نے کب چاہا تھا کہ رانیہ یوں اس سے معافی مانگے وہ تو اس کی زبان سے اپنے لیے محبت کا اقرار سننے کا متمنی تھا وہ اسے جھکانا نہیں چاہتا تھا ۔
میں تو کچھ اور سننے کے لیے بے تاب ہوں معافی نہیں رانیہ ۔
پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔رانیہ نے اس کی محبت کی شدت سے مزید شرمندہ ہو کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے گویا مامون کی روح کو ہلا کر رکھ دیا ۔
یہ کیا کر رہی ہو رانیہ م ایسا تو کبھی نہیں چاہا میں نے کیوں مجھے گناہگار کرتی ہو ایسا کیا کیا ہے تم نے جو یوں معافی مانگ رہی ہو ؟
مامون سے اس کے ہاتھ علیحدہ کر کے باری باری چوم کر بے قراری سے کہا ۔
میں نے آج تک آپ کو بہت دکھی ، آزردہ اور پریشان کیا ہے ناں ۔۔۔۔۔ہمیشہ آپ کو برا کہا۔۔۔۔برا سمجھا ۔۔۔ آپ کو اپنا قصور وار سمجھتی رہی ۔۔۔۔مگر میں غلط تھی ، مجھے تو رخسانہ ممانی نے بدنام کیا تھا ۔۔۔۔۔ رانیہ نے روتے ہوئے اٹک اٹک کر اپنا جرم قبول کرتے ہوئے کہا تو مامون نے نرم لہجے میں کہا ۔
میں۔ جانتا ہوں مدحت آپی سے دوپہر بات ہوئی تھی ۔ انہوں نے مجھے ساری حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے ۔ رانیہ تم اگر میری بات سن لیتیں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچتیں تو جان لیتی کہ مامون ضیاء اتنا گھٹیا شخص نہیں ہے کہ اپنی محبت کو رسوا کرے اسے دکھوں اور آنسوؤں کے حوالے کر دے۔ اسے اپنے سامنے جھکانے نیچا دکھاۓ یا اپنے روکے جانے پر بدنام کر دے ۔ نہیں
رانیہ جان ! میں مامون ضیاء تمہارے متعلق ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تم اپنی منگنی سے خوش تھی تو میں بھی تمہاری خوشی میں خوش تھا ۔ جسے دل میں بہت بلند مقام دے دیا جائے اسے محفل میں پستی میں نہیں گرایا جاتا تم آج بھی میرے دل میں بہت بلند مقام رکھتی ہو آئی لو یو رانیہ آئی لو یو ویری مچ۔
پلیز اپنی محبت کو معاف کر دیں ۔ وہ پھر سے رو پڑی ۔
جس سے محبت ہو اس سے معافی کا تقاضا کرنا یا اس کی خواہش رکھنا کم از کم میں تو جائز نہیں سمجھتا ۔ تمہاری میرے متعلق بدگمانیا ختم ہو گئیں ہیں مجھے اور کیا چاہئیے ؟؟؟ وہ خوشی سے بھیگتی آواز میں بولا۔
۔۔۔
میرا پیار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
وہ اپنے آنسو صاف کر کے بولی ۔
دو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامون کی روح تک اس کی بات پر جھوم اٹھی تھی ۔
ہوں ! وہ شرما گئی ۔
لاؤو دو۔۔۔۔۔۔ وہ شرارت سے مسرت سے بولا ۔
ابھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں ابھی کیوں نہیں ؟؟
آج تو چاند رات ہے ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے ذومعنی بات کہہ گئی ۔
ارے واقعی آج تو چاند رات ہے مون نائٹ ہے آج میری رات ہے کل عید کا دن اور عید کی شب ۔ؤہ ہنس پڑی مامون نے پہلی بار اسے ہنستے ہوئے دیکھا تھا تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا ۔
او گاڈ ! پہلی بار تمہیں ہنستے ہوئے دیکھا ہے ظالم لڑکی اتنی پیاری ہنسی مجھ سے چھپائے رکھی ۔
اس نے اس کی کنگن والی کلائی تھام کر پیار بھرا شکواہ کیا ۔
اب نہیں چھپاؤں گی ۔
اب تو مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپا پاؤ گی ۔وہ شریر اور معنی خیز لہجے میں۔ بولا ۔
ایک اچھی خبر سن لو ! تمہارے اسجد بھائی ایک سال پہلے پاکستان آئے تھے سارے حالات جاننے کے بعد بہت شرمسار ہو رہے تھے اپنے رویے پر تمہارے لیے فکر مند تھے میں نے انہیں تسلی دے دی تھی کہ میں اپنی رانیہ کو تلاش کر لوں گا ۔ وہ واپس دبئی چلے گئے تھے میرا ان سے فون پر رابطہ رہتا ہے ۔ کل میں ان سے تمہاری بات کراؤں گا اور ممی ڈیڈی بھی تمہارے شدت سے منتظر ہیں ۔ ہم کل عید پڑھ کر سام کی فلائٹ سے کراچی ان کے ساتھ عید منانے جائیں گے بولو منظور ہے ۔ مامون نے نرمی سے انکشام کرنے کے بعد اس کی رائے چاہی ۔
جی ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پرسکون ہو کر بولی
تھینکس رانیہ ! ےم نے مجھے اپنی محبت کا تحفہ دے کر مالا مال کر دیا ہے ۔ خوشی سے مامون کی آنکھیں۔ چھلک پڑیں رانیہ اس کی محبت پر فخر کر رہی تھی اور اس کے ہمیشہ ابدی محبت بھرے ساتھ کی دعا منگ رہی تھی ۔
اسی وقت مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے عید کی نماز کا اعلان ہونے لگا تو رانیہ اور مامون نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی ۔
چاند رات مبارک ہو ۔
اور چند منٹ بعد رانیہ مامون کے ساتھ اس کی گاڑی میں اس کے برابر بیٹھی اس کے گھر جا رہی تھی جہاں محبتوں بھری چاند رات اور چاہتوں میں نکھرا عید کا دن اس کا منتظر تھا۔ وہ دونوں بہت زیادہ خوش تھے مامون نے ہاتھ بڑھا کر گاڑی میں سیٹ ٹیپ ریکارڈ آن کر دیا اور ایک خوبصرت نغمہ گاڑی میں گونجنے لگا۔
تم کیا ملے زندگی ملی
چاند رات کو چاندنی ملی
مجھ کو ساری زندگی کا پیار مل گیا۔
نغمے کے بول سن کر رانیہ اور مامون نے ایک دوسرے کو پیار سے دیکھا اور دونوں خوش دلی سے ہنس پڑے ، افق پر عید کا چاند بھی ان دونوں کے پیار بھرے سنگم پر مسکرا رہا تھا۔
______________ختم شد_________