رات کے سوا نو بج رہے تھے۔ رانیہ کھانا مدحت نسیم اور ان کی فیملی کے ساتھ کھانے کے بعد اب گھر واپس جانا چاہ رہی تھی۔
رانیہ بیٹا ! رات یہیں رک جاتیں صبح تو چھٹی ہے نا۔ مدحت نسیم کے شوہر ذاکر صمدانی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ بولی
جی بھائی ، لیکن چھٹی والے دن مجھے گھر کے کام نپٹانا ہوتے ہیں اس لئے رک نہیں سکتی آپ پلیز مجھے گھر تک ڈراپ کر دیں۔ ۔
ہاں ذاکر آپ رانیہ کو چھوڑ آئیں اکیلی کیسے جائے گی یہ۔
ٹھیک ہے چلو بیٹا! ذاکر صمدانی گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے بولے اور رانیہ ان کے ساتھ چلی آئی جس وقت ذاکر صمدانی رانیہ کو فلیٹس کے احاطے میں ڈراپ کر کے جا رہے تھے ، وہاں وہی آوارہ لڑکا کھڑا تھا اپنے جیسے ہی ایک اور آوارہ لڑکے کے ساتھ وہ رانیہ کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر پیچھے چلا آیا اور حباثت سے بولا۔
یہ سواری بادِ بہاری کہاں سے آ رہی ہےحسینو! شام کو بھی یہاں ایک بندہ تمہارا پوچھ رہا تھا بڑا انتظار کیا بے چارے نے تمہارے گھر کے باہر ٹہل ٹہل کر۔۔۔۔۔۔اور تم اسے ٹائم دے کر اس گاڑی والے کے ساتھ ٹائم گزارنے چلی گی۔
بکواس بند کرو وہ بھائی ہیں میرے ۔ رانیہ غصے سے بولی تو وہ ہنستے ہوئے بولا
او کیسا بھائی ہے یہ جو اپنی حور جیسی بہن کو تنہا رہنے کے لیے فلیٹ میں چھوڑ گیا ہے۔ بھائی کے گھر میں بہن کے لیے ایک کمرہ ایک بستر تک نہیں ہے۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔کیوں بے وقوف بناتی ہو ۔ ایک رات ہمیں بھی دے دو۔
گھٹیا آدمی ہٹو میرے راستے سے ۔ رانیہ شرم اور غصے سے انگارہ ہو تے ہوئے بولی تو فلیٹوں میں رہنے والے ایک بزرگ کی آواز آئی۔
اوئے ٹونی کے بچے تو نے پھر کمنگی شروع کر دی ، ہٹ پرے جانے دے بچی کو ورنہ تیرا سر پھاڑ دوں گا۔
او بزرگو! الله الله کیا کرو ، ہر آنے جانے والے پر نظر نہ رکھا کرو۔ ٹونی جو رانیہ کو پریشان کر رہا تھا بزرگ کو دیکھتے ہوئے چڑ کر بولا اور رانیہ موقع غنیمت جانتے ہوئے تیزی سے اپنے فلیٹ کی طرف دوڑی ، لاک کھول کر اندر آتے ہی لاک اچھی طرح لگا دیا۔
یا الله ! مجھے اس شیطان کے شر سے محفوظ رکھنا۔
رانیہ نے بے اختیار یہ دعا مانگی اور چادر آتار کر صوفے پر رکھنے کے بعد کچن میں آکر پانی پیا ، وضو وہ مدحت نسیم کے گھر پر ہی کر چکی تھے اب عشاء کی نماز ادا کر کے سونا چاہتی تھی۔
کیونکہ آج سارا دن ادھر ادھر مٹر گشت کرتے کرتے وہ خاصی تھک چکی تھی اور اس وقت مامون کا خیال بھی اس کے ذہن سے نکل گیا تھا۔ اس نے اپنے بیڈ روم میں داخل ہو کر لائٹ آن کی تو کمرہ سفید روشنی سے بھر گیا اور اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئی ۔۔۔۔مامون ضیاء اس کے بیڈ پر۔ نیم دراز تھا آسمانی رنگ کے شلوار قمیض میں وہ بہت نکھرا نکھرا لگ رہا تھااور لائٹ آن ہوتے ہی اٹھ بیٹھا تھا۔
_____ _________
تم! رانیہ کو پہلے ہی غصہ چڑھا ہوا تھا مزید تپ گئی کر بولی ۔
ہاں میں ۔۔۔۔۔۔میں نے کہا تھا ناں کہ پھر بیڈ روم میں ہی ملوں گا ۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا نظریں اس کے دھلے دھلے میک اپ سے مبرا چہرے پر جمی تھےں ۔
تمہیں جرات کیسے ہوئی میرے بیڈ روم میں آنے کی اور میرے بیڈ پر لیٹنے کی ؟ وہ غصے سے بولی تو وہ اٹھ کر اس کے قریب چلا آیا۔
میں تمہارا شوہر ہوں ، میرا حق تمہاری ہر چیز پر اور تم پر۔ مامون نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کی تھڑی کو چھوا تو اس نے رخ پھیر لیا۔
تمہیں تو شام کو آنا تھا ۔ رانیہ نے کہا۔
شام کو ہی آیا تھا لیکن تم جان بھوجھ کر گھر کو لاک لگا کر غائب ہو گئی کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد میںنے مدحت آپی کو فون کیا ۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس بلا لیا وہاں چاۓ وغیرہ پینے کے بعد میں ان سے تمہارے فلیٹ کی ڈوپلی کیٹ چابی لے کے یہاں آ گیا ۔ ویسے گھر اچھا سجایا ہے تم نے اپنا اصل گھر یقینًا تم اس سے زیادہ خوبصورت سجاؤ گی ہے ناں ۔ مامون نے مسکراتے ہوئے انکشاف کیا وہ کچھ دیر بولی نہیں چند لحے اس کے بولنے کا انتظار کرنے کے بعد وہ خود ہی کہنے لگا۔
تم تو کھانا کھا کر آئی ہو ، میں نے بھی تمہارے کچن سے فریج سے ڈبل روٹی انڈے اور کباب نکال کر بھوک مٹا لی تھی اب اگر تم اپنے ہاتھ کی بنی چائے پلا دو مزا آ جائے۔
زہر نہ پلا دوں ۔وہ غصے سے بولی
جدائی کا زہر کیا کم تھا مجھے مارنے کے لیے ہوں۔ مامون نے سنجیدگی سے کہا تو وہ نظریں چرا کر جانے لگی
کہاں جا رہی ہو ؟
دوسرے بیڈ روم میں سونے جا رہی ہوں بہت تھک گئی ہوں میں۔
تو میں ہوں نا تمہاری تھکن دور کرنے کے لیے یہاں آؤ ۔ مامون نے شوخ و شریر لہجے میں کہتے ہوئے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ اس کے سینے سے آ ٹکرائی ۔
مون پلیز ! وہ بے ساختہ بولی اور اس کے دل کے تار ہلا گئی ۔
مامون کی نگاہ اس کی کلائی میں موجود اپنے اس پیار بھرے تحفے پر پڑی جو اس نے نکاح کے بعد رونمائی کے۔ طور پر اسے کنگن کی شکل میں پہنائے تھے۔ مامون نے دل و روح میں خوشی اور اطمینان کے پھول کھلنے لگے ۔ رانیہ کے دل میں اگر اس کے لیے گنجائش نہ ہوتی تو وہ اس اس تحفے کو اب تک اپنی کلائی سے کیوں لگائے رکھتی ؟
کب ختم ہو گی تمہاری یہ نفرت ؟ مامون نے نرمی سے پوچھا۔
کبھی نہیں ۔
بری بات ایسے نہیں کہتے ۔ مامون نے بہت محبت سے کہتے ہوئے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا ۔
چھوڑو مجھے !
اوں ہوں ، تین برس کی تشنگی مٹانی ہے کیسے چھوڑ دوں تمہیں ، ہوں ۔ وہ بہت بے خودی کے عالم میں بولتا اسے اپنی محبت کے حصار میں یوں لیتا چلا گیا اور اپنا حق استعمال کرتا چلا گیا کہ وہ ذرا سی مزاحمت نہ کر سکی اور رانیہ جو اب تک اس رشتے کو ہی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھی ، مامون نے اسے اس۔ رشتے کا حق استعمال کر کے ازدواجی تعلق استوار کر کے اسے بہت کچھ جتا دیا تھا ، سمجھا دیا تھا، باور کرا دیا تھا۔
________________
ناشتہ ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔رانیہ صبح کچن میں مصروف تھی کہ مامون مسرور سا آ کر کہنے لگا۔
نہیں ! رانیہ نے اس کی طرف دیکھے بنا خفگی سے جواب دیا۔
خفا کیوں ہو ؟ مامون نے پاس آ کر اس کے گیلے بالوں کو چھوا۔
زیادہ معصوم اور انجان بننے کی ضرورت نہیں ہے اچھا۔ رانیہ نے اسی لہجے میں کہتے ہوئے فریج میں سبزی کا شاپر نکالا وہ ہنس پڑا اور پھر پیار سے اسے سمجھانے لگا۔
پگلی ! اس میں خفا ہونے کی نہیں۔ ، خوش ہونے کی ضرورت ہے کہ ےمہارا شوہر تم سے کتنی شدید محبت کرتا ہے ۔ تمہاری تین برس کی بے رخی اور جدائی کے باوجود تمہیں اپنے دل کے قریب محسوس کرتا ہے ، تم پہ جان چھڑکتا ہے۔
آپ جائیں یہاں۔ سے ۔ وہ چولہا جلاتے ہوئے بولی ۔ وہ سچ ہی کہہ رہا تھا ، رانیہ کا دل مان رہا تھا مگر دماغ الجھ رہا تھا۔
میں اگر اب چلا گیا نا تو واپس کبھی نہیں آؤں گا ۔
سوچ لو رانیہ ، تم اگر ساری زندگی میرے نام سے جڑ کر رہنا چاہتی ہو تو دور کیوں رہو میرے ساتھ میرے پاس میرے قریب بھی رہ سکتی ہو نا۔۔۔۔کبھی اپنی آنکھیں بند کر کے محسوس کرنا تمہیں یہاں اس دل میں دھڑکتا ہوا محسوس ہو نگا۔
مامون نے پیار سے کہتے ہوئے اس کے دل پر ہاتھ رکھا تو اس نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ، دل جیسے پورے بدن مین دھک دھک کر رہا تھا۔
رانیہ نے پراٹھے کے لیے تو چولہے پر رکھ دیا۔
آپ نہیں بدل سکتے ۔رانیہ نے کہا۔
تمہارے ساتھ تو واقعی کبھی نہیں بدل سکتا۔ ہمیشہ ایسا ہی رہوں گا پیار کا بادل بن کر ۔ مامون نے اس کے شانے پر ٹھوڈی رکھ کر کہا۔
کیا کر رہے ہیں خود بھی جلیں گے اور مجھے بھی جلائیں گے۔ رانیہ نے بری طرح بوکھلا گئی چیخ کر بولی ۔
تم بھی تو تین سال سے یہی کر رہی ہو خود بھی جل رہی ہو اور مجھے بھی جلا رہی ہو۔مامون نے معنی خیز بات کہی وہ سلگ گئی ۔
ناشتہ کرنا ہے تو لاؤنج میں جا کر بیٹھیں اور اگر نہیں کرنا تو بھی جائیں مجھے بہت کام کرنا ہے ابھی ۔ وہ تیز لہجے میں بولی
تین سال بعد شوہر سے ملی ہو شوہر گھر آیا ہے اور تم یہ کام پھیلا کر یہاں مصروف ہو گئی۔ بڑے افسوس کی بات ہے اور جانتی ہو تین سال سے میں۔ نے انڈہ پراٹھا ناشتے میں۔ نہیں کھایا۔
______________
تمہارے ہاتھ کا ذائقہ نہیں۔ بھلانا چاہتا تھا میں اس لئے کسی اور کے ہاتھ کا بنا پراٹھا بھی نہیں کھایا آج اپنے ہاتھوں سے وہی ناشتہ بنا کر کھلاؤنا۔ مامون نے پیار بھرا شکوہ کرتے ہوئے کہا کوئی اور موقع ہو تو تو رانیہ اپنی خوش بختی پر رشک کرتی لیکن وہ مامون کو اپنی رسوائی کا ماں باپ کی موت کا ذمہ دار سمجھتی تھی ۔ اس لیے اس کی پیار بھری باتیں اسے سچی اور حقیقی خوشی نہیں۔ دے سکتی تھیں ۔
اچھا! تو آپ انڈہ پراٹھا نہ کھانے کے سبب سلم ہوئے ہیں میں سمجھتی تھی شائد ۔۔۔۔۔ وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر فریج میں سے آٹا جو اس نے گوندھ کر رکھا تھا نکالنے لگی۔
شائد نہیں ۔۔۔۔۔یقینًا تمہاری جدائی کے غم میں۔ گھل کر یہ حال ہوا ہے میرا ، خیر اب تو تم مل گئی ہو نا میں تو خوشی سے ہی پھول جاؤں گا ۔
ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔ رانیہ نے توجہ دلائی ۔
آؤ میرے ساتھ ناشتہ کرو ۔
میں نے کر لیا ہے ۔
ہمیشہ کی طرح دودھ کا ایک گلاس ہی پیا ہو گا ۔ مامون نے کہا تو اس نے حیرت سے اسے دیکھا جو تین سال کی جدائی کے باوجود اس کی عادت سے واقف تھا۔ اس کی حیرت کو مامون نے بھی محسوس کر لیا تھا مسکراتے ہوئے کہنے لگا ۔
تمہاری ہر عادات ، پسند و نا پسند مجھے آج بی ازبر ہے لیکن کبھی کبھار روٹین سے ہٹ کر بھر پور ناشتہ کر لینا چاہئیے اس سے کھوئی ہوئی توانائی بحال ہو تی ہے۔
آخر آپ چاہتے کیا ہیں ؟
تین سال میں سب بھول گئیں کہ میں کیا چاہتا ہوں رانیہ م تم اپنی مرضی سے نپمجھے چھوڑ کر گئی تھی ناں تم کیا جانو محبت کی جدائی کیسے جاں گسل اور قیامت خیز ہوتی ہے ۔ کیسا کرب جھیلا ہے میں نے تمہارے غم میں کتنا تڑپتا اور بلکتا رہا ہوں میں تمہاری اس نفرت انگیز لا تعلقی اور دوری کے سبب محبت تو میں نے کی تھی ناں تم سے اس لئی سزا بھی مجھ کو ہی ملی ہے تم نے مجھ سے کب محبت کی تھی کرتیں تو یوں جدا ہونے کا تصور بھی نہ کر سکتی ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہو کہ اگر تمہارے دل میں میرے لیے کوئی سفٹ کورنر نہیں تھا تو میرے نام پر ساری زندگی گزارنے کے لیے تم غائب ہو گئی تھی کیوں ؟ مجھ سے نکاح کا بندھن توڑ کیوں نہ لیا تم نے تا کہ کسی اور شخص سے شادی کر کے اپنا گھر بسا سکو بولو؟ مامون نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔ ناشتہ ختم کر لیا تھا اس نے ۔
_______ _______
میری زندگی میں ایک مرد نے کیا کم آفتیں نازل کی ہیں جو میں۔ کسی دوسرے مرد کو اپنی زندگی کا ختیار سونپنے کی حماقت کروں گی ۔
آفتیں ناور مصیبتیں نہیں ، چاہتیں اور محبتیں کہو۔ مامون نے مسکراتے ہوئے پیار سے کہا آپ جائیں یہاں سے ۔ وہ جھلا کر بولی ۔
اب چلا گیا تو واپس کبھی نہیں آوں گا ۔
کیا مصیبت ہے ؟
رانیہ الجھن امیز نظروں سے اسے دیکھا اور اپنے کمرے میں چلی آئی چادر اتار کر وارڈروب میں رکھی اور خود کمرے میں۔ ٹہلنے لگی۔
رانیہ ۔۔۔۔۔۔تم غلط کر رہی ہو مامون کو دل سے اپنا لو اس لئے کہ تم ہمیشہ سے اس کی منتظر رہی ہو ، جانے انجانے اس کا خیال تمہیں بے چین کرتا رہا ہے دل نے ہمیشہ اسے اپنے پاس دیکھنے کی خواہش کی ہے ۔ غصہ اور بدکمانی کا طوفان تھم گیا تو مامون اتنا بے ضرر معصوم اور مخلص لگنے لگتا کہ اس پر پیار آنے لگے۔ ہاں میں۔ نے ہمیشہ اس حقیقت کو اس احساس اور جذبے کی موجودگی کو جس کو میں کوئی نام نہیں دے سکتی اسے جھٹلایا ہے نظریں چرائی ہیں مگر نظروں میں بسی مامون کی صورت کو اپنی تمام تر نفرت کے باوجود کبھی مٹانہ سکی ۔ شائد اس کی محبت کی شدت نے میری نفرت
کی حدت کو ختم کر دیا ہے ۔ تو کیا مجھے مامون کے ساتھ چلے جانا چاہئیے مگر مامون کی ممی وہ مجھے قبول نہیں کریں گی اور اس کی وجہ بھی تو خود مامون ہے جس کی وجہ سے محلے ، خاندان اور شہر بھر میں آوارہ اور بدکردار کہلائی گئی بدنام اور رسوا ہوئی میں اپنی عزت کے اعتبار اور کردار کے قاتل کو کیسے معاف کر دوں ؟؟
کیسے قبول کر لوں اسے ؟؟ کیسے پنی زندگی اسے سونپ دوں ؟؟ نہیں میں اسے نعاف نہیں کر وں گی ۔ رانیہ خود سے سوال جواب کرتے ہوئے بولی اور مامون کو کھری کھری سنانے کے ارادے سے کمرے سے نکلی تو وہ جا چکا تھا۔
چلا گیا ناراض ہو کر گیا ہے شائد میں نے کتنا دھتکارا ہے اسے ذلیل کیا ہے اس کی محبت بھرے ہاتھوں کو نفرت سے جھٹکا ہے تین سال بعد وہ مجھے ڈھونڈتا ہوا آیا تو میں اب بھی اسے اپنی بے رخی اور بے حسی سے ہرٹ کیا ہے یہاں سے چلے جانے کے لیے کا کہا ہے اتنی ناقدری اور تذلیل کے بعد یقینًا اب وہ یہاں میرے پاس آنے کی ہمت بھی نہیں کر سکے گا ۔ لیکن میرا دل کیوں رو رہا ہے؟؟
وہ سوچتی بالکونی کی طرف آئی ، نیچے دیکھا مامون کہیں نظر نہیں آیا پھر دروازہ کھول کر باہر نکلی تو سیڑھیوں میں ٹونی اور اس کا دوست خالد کھڑا دیکھ کر رک گئی ۔ ان دونوں نے اسے دیکھ کر سیٹیاں بجائیں ۔
وہ ہیرو تو چلا گیا کہو تو ہم آ جائیں دل بہلانے کو ۔ ٹونی نے بے حیائی سے کہا تو وہ اس پر نفرت بھری نگاہ ڈال کر واپس اپنے فلیٹ میں۔ آگئی اور دروازہ لاک کر لیا ۔
یہ کمینے تو میرے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں میں کیا کروں کہاں جاؤں ؟ وہ پریشانی سے بآواز بول رہی تھی ۔
پنے حقیقی شوہر کے پاس جاؤ وہی تمہرا اصل محافظ اور حقیقی پناہ گا ہے عورت مرد کے بغیر اس معاشرے میں اکیلی نہیں جی سکتی ۔ ٹانی اور خالد جیسے مرد اکیلی عورت کا جینا حرام کر دیتے ہیں ۔ اور اکیلی عورت اور لڑکی تو کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوتی ہے جسے ہر کوئی لوٹنے کو دوڑتا ہے ۔ تم کب تک ان آوارہ لڑکوں سے بچ سکوں گی اگر کسی رات تمہارے گھر میں انہوں نے نقب لگائی تو جو عزت تم ابھی تک بچاتی آئی ہو وہ بھی رُلا بیٹھو گی، پھر تو تمہارے جینے کا بھی کوئی جواز کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا ۔ کب تک دوسروں کے رویوں کے سبب اپنی زیندگی زلت و رسوائی کے حوالے کرتی رہو گی ؟ رانیہ کے دماغ نے سمجھایا ، ضمیر نے حقیقت کا رنگ دکھایا تو وہ پریشان ہو گئی ۔
یا الله ! میں کیا کروں میری مدد اور رہنمائی فرما مجھے سیدھا اور صححیحراستہ دکھا ۔ رانیہ نے روتے ہوئے دعا مانگی ۔
____________________
اگلے دن پہلا روزہ تھا ، رانیہ نے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز روزے اور عبادت کا اہتمام کیا اور اپنے لیے اپنے بہتر اور خوشگوار مستقبل کے لیے دعائیں مانگیں ۔ رمضان کی وجہ سے اسکول میں ساڑھے بارہ بجے ہی چھٹی ہو جاتی تھی اسے مدحت نسیم ہی اسکول سے پک اور ڈراپ کرتی تھیں ۔ کئی روز سے ٹونی اور خالد بھی اسے کہیں نظر نہیں آئے تھے تو اس نے مطمئین ہو کر سوچا ۔
شکر ہے کہ رمضان میں شیطان باندھ دئیے جاتے ہیں ۔
پندرہ روز ے خیریت سے گزر گئے رانیہ کو محلے کے ان بزرگ صوفی صاحب سے معلوم ہوا کہ ٹونی اور خالد کا ون ویلنگ کرتے ہوئے ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا اور اب تک ہسپتال میں زیر علاج ہیں ۔ رانیہ نے یہ سن کر خدا سے ان کی ہدایت کی دعا کی تھی ۔
______________
آج بیسواں روزہ تھا۔ رانیہ اور مدحت نسیم شاپنگ کرنے نکلی تھیں ۔ مدحت نسیم تو کپڑے جوتے وغیرہ سب گھر والوں کے لیے خرید چکیں تھیں صرف جیولری وغیرہ خریدنے کا ارادہ تھا ۔ ان کا اصل مقصد تو رانیہ کو عید کی شاپنگ کے لیے لانا تھا جس نے ابھی تک کچھ نہیں خریدا تھا ۔ نجانے کیوں اس کا دل بجھا بجھا سا تھا ۔ اسے مامون رہ رہ کر یاد آ رہا تھا اور وہ یہ ماننے سے انکاری تھی کہ اسے مامون سے محبت ہو گئی ہے ۔
نے قراری سی تھی ۔ اسے آج کل یہ احساس شدت سے بے چین کیے رکھت اتھا کہ اس نے مامون ضیاء کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے اسے ہرٹ کیا ہے اس کی بہت ہتک کی ہے اور ناحق کی ہے غلط کیا ہے اس کے ساتھ ۔
رانیہ یہ تم ہی ہو ناں !! رانیہ اپنے لیے جوتے پسند کر رہی تھی تب ایک مانوس سی آواز اس کے کان میں پڑی تو اس نے سر اٹھا کر دیکھا وہ رومانہ تھی اس کی کزن دوست اور کلاس فیلو ، رخسانہ مجید کی چھوٹی بیٹی ۔
رومانہ تم ! رانیہ خوشی سے مسکراتے ہوئے اٹھ کر اس سے گلے لگ گئی ۔
کہاں چلی گئی تھی تم، مامون بھائی تمہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ، کتنے دکھی اور آرردہ ہو گئے تھے وہ تمہارے یوں چلے جانے سے ۔ رومانہ نے بھیگتی آواز میں کہا تو وہ اس سے الگ ہو کر سنجیدہ سے بولی ۔
مامون نے میرے لیے وہاںرہنے کے لیے چھوڑا ہی کیا تھا ؟؟
میرا خیال ہے کہ ہم سامنے اس پارک میں بیٹھ کر بات کریں تو زیادہ مناسب ہے ۔
مدحت نسیم نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا تو دونوں نے ان کی بات کی تائید کی اور ان کے ساتھ چلتی ہوئی پارک میں آگئیں ۔
رانیہ تم بہت بڑی سازش اور غلط فہمی کا شکار ہو گئی تھی اور مجھے شرمندگی اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ تم نے اپنی زندگی کے تین قیمتی اور خوبصورت برس ضائع کر دئیے ۔
کیا مطلب ہے تمہارا تا کیا مامون کو دل سے قبول کر لیتی جو میری عزت کا قاتل اور میرے ماں باپ کی موت کا زمہ دار ہے ؟ رانیہ نے رومانہ کی بات سن کر تلخی سے کہا مگر دل میں دہائی مچ گئی تھی وہ تو اب مامون کو مجرم ماننے کو تیار ہی نہ تھا۔
رانیہ ! تمہارا مجرم مامون ضیا ء نہیں ہے بلکہ تمہاری ممانی اور میری ماں ہے ۔
کیا؟ رانیہ کا سر چکرا گیا۔
ہاں رانیہ ! یہ سب امی نے تمہارے ساتھ کیا تھا مامون بھائی تو بہت معصون ہیں بے گناہ ہیں وہ تو بہت مخلص تھے تمہارے ساتھ امی نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
رومانہ اسے دھیرے دھیرے الف سے ی تک ساری حقیقت بتاتی چلی گئی جسے سننے کے بعد رانیہ اپنا دل تھام کر بینچ پر ڈھے گئی اور روتے ہوئے بولی ۔
او میرے الله! یہ میں نے کیا کیا ،ایک مخلص انسان کو ہرٹ کیا دکھی اور پریشان کیا آزردہ اور رد کیا۔ یا الله مجھ سے کیا ہو گیا۔ میں نے مامون کو ۔۔۔۔۔ اب بھی ٹھکرا دیا جب کہ وہ مجھ تک پہنچ گئے تھے ۔۔۔ وہ پھر نہیں آئے۔