باقی سب کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اس کا خود اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ضروری تھا
جانے کتنے دن گزرے تھے اس نے تو شمار کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس روز الماری صاف کرتے ہوئے کچھ پیپر ہاتھ لگے تھے۔ اس نے کھول کر دیکھا تو ساکت رہ گئی تھی۔ وہ طلاق کے پیپر تھے۔ جن پر ممی کے سائن ہونا باقی تھے۔ تو کیا یہ وجہ تھی ان کی موت کی۔ تو کیا پھوپھو اس بات پر امی سے الجھ رہی تھیں اور کیا یہی وہ بات تھی جو ان کے کوما میں جانے کا باعث بنی تھی اور ان کی موت کا سبب بھی؟ وہ کئی لمحوں تک سوچتی رہی تھی۔ ممی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔ اگر پھوپھو اور پاپا ممی کی موت کے ذمہ دار تھے تو وہ اس رشتے کو کیسے آگے بڑھا سکتی تھی جن رشتوں سے ممی کو اتنی تکلیف پہنچی وہ ان رشتوں کے ساتھ کیسے بندھ سکتی تھی؟ حمزہ کا لہجہ سماعتوں میں گھوما تھا۔
’’جانے کیوں لگتا ہے تم کیکٹس کے پھول جیسی ہو۔ جیسے دیکھو تو خوش نما لگتا ہے مگر جس سے محبت نہیں ہوسکتی۔‘‘ اس نے بہت آہستگی سے انگیجمنٹ رنگ انگلی سے اتاری اور دوسرے دن حمزہ کے آفس جا کر اس کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ وہ حیران سا اسے دیکھنے لگا تھا۔
’’مجھے شاید یہ بہت پہلے ہی کردینا چاہیے تھا۔ مگر حقائق کو جاننے میں بہت دیر لگی مگر اب جان گئی ہوں۔ اس رشتے کی کوئی حقیقت نہیں۔ مگر سہام میر سے یا اس سے وابستہ کسی بھی شخص سے کوئی رشتا باقی نہیں رکھنا چاہتی۔ اگر یہ رشتا باقی رہا تو شاید میرے اندر کی گھٹن بہت بڑھ جائے گی۔ میں ایک اور صائمہ افتخار کو جنم نہیں دے سکتی۔ جبکہ میں جانتی ہوں تم دوسرے سہام میر بننے میں ایک پل نہیں لو گے۔ جب سہام میر کے لیے میرے اندر ڈھیروں نفرت ہے تو میں اس سے وابستہ کسی رشتے کو محبت کیسے دے سکتی ہوں؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتی رہی پھر وہاں سے نکل آئی تھی۔ دوسال کھینچ تان کر کے نکالے تھے۔ ممی کی کچھ سیونگ تھی کچھ انشورنس تھی مگر وہ رقم ناکافی تھی۔ مگر اس سے اس نے نئی راہ ڈھونڈی ممی کی ایک دوست کی مدد سے اس نے دبئی میں جاب ڈھونڈ لی اور پھر وہاں منتقل ہوگئی تھی۔ حیرت کی بات تھی سہام میر نے اس کے بعد ان لوگوں سے کوئی رشتا باقی نہیں رکھا تھا اور وہ سوچتی رہی تھی کہ کوئی اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ ایک شوہر تھا۔ ایک مرد تھا اور ایک باپ بھی تھا۔ وہ اچھا مرد نہیں تھا۔اچھا شوہر نہیں بن پایا تھااور ایک اچھا باپ بھی نہیں بن پایا تھا اور اس پر اسے کوئی شرمندگی بھی نہیں تھی۔ وہ کتنا بے حس تھا۔ اس کا اندازہ اسے ہوگیا تھا۔ شاید وہ اس سطح سے بھی نیچے جا سکتا تھا۔ ممی کے جانے کے بعد ددھیال اور ددھیالی رشتے دار ان کی زندگی سے خارج ہوگئے تھے۔ بس ایک خالہ تھیں جو دوسرے شہر میں رہتی تھیں۔ جب ملنے آتی تو گھر میں ممی کا احساس جاگنے لگتا تھاماسو! جامی‘ ثناء اور تمنا کا خیال رکھا کریں ابھی بہت چھوٹے ہیں۔‘‘ وہ فون پر بولی تھی۔
’’چھوٹی تو تم بھی ہو ایلیاہ۔‘‘ ندا ماسو نے احساس دلایا تھا وہ مسکرا دی تھی۔
’’ہاں مگر میں سمجھ بوجھ رکھتی ہوں وہ نہیں رکھتے۔‘‘
’’تم فکر مت کرو۔ میں ان کا خیال رکھتی ہوں۔ تمہارے انکل سے کہہ کر اس شہر منتقل ہوجائوں گی تاکہ قریب رہوں تو ان کو بھی حوصلہ رہے۔ ماسو نے کہا۔
’’یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘ اس نے سراہا تھا۔
دبئی آکر زندگی میں کچھ خوشحالی آئی تھی اگرچہ جاب بہت ٹف تھی مگر وہ اب اپنی پروا نہیں کرتی تھی نا اپنے بارے میں سوچتی تھی۔ وہ صرف اپنے سے وابستہ رشتوں کے لیے سوچتی تھی۔ تین سال اس نے دبئی میں جاب کی تھی پھر جانے کیوں انگلینڈ جانے کا خیال آیا تھا اور غلطی کہاں ہوئی تھی۔ اس نے اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے اپلائی کیا تھا۔ یہی اس کی زندگی کا بد ترین فیصلہ تھا جس کے باعث آج اسے اور اس کی فیملی کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ را تھا اسے یہ رسک نہیں لینا چاہیے تھا۔ وہ اپنے آپ کو اس فیصلے کے لیے مورد الزام ٹھہرا رہی تھی۔ اس مہینے تو اس نے کچھ سیونگ نکال کر گھر بجھواد ی تھی اگلے مہینے کیا ہونا تھا؟ یہ سوالیہ نشان اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
وہ سو کر اٹھی تھی تو سر بری طرح بھاری ہو رہا تھا۔ جسم میں جیسے انرجی نام کو نہیں تھی۔ لینڈ لیڈی نے دروازہ اپنی مخصوص دستک کے ساتھ بجایا تھا۔ تو اسے علم ہوگیا تھا وہ روم کے رینٹ کے بارے میں پوچھے گی۔ اس نے بہ مشکل اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔
لینڈ لیڈی رینٹ مانگ رہی تھی۔ اس نے جیسے تیسے انہیں قائل کرلیا تھا کہ وہ ایک دو دن میں انہیں رینٹ ادا کردے گی۔ دروازہ بند کر کے وہ دوبارہ آکر بستر پر گر گئی تھی۔ یہاں کھانے کو نہیں تھا اور وہ رینٹ کہاں سے لاتی؟ ذہن بہت مائوف تھا۔ جب اس نے نمرہ سے فون کر کے اس ریسٹورنٹ کی جاب کے بارے میں پوچھا تھا۔
’’ہاں سوری میں بتا نہیں سکی کچھ بزی رہی تم شام میں جوائن کرسکتی ہو۔ تمہارے کام کی پیمنٹ تمہیں ملے گی۔‘‘ نمرہ نے ایک اچھی خبر دی تھی۔ اس کا جسم حرارت سے تپ رہا تھا۔ مگر ایک لمحے میں جیسے نئی جان بھر گئی تھی۔ وہ اٹھی اور تیار ہو کر نمرہ کی طرف کا سفر کرنے لگی۔ اس سے پتا لینا تھا اور روم کا رینٹ بھی کہ لینڈ لیڈی اس سے زیادہ انتظار نہیں کر سکتی تھی اور نہ وہ زیادہ بھوک برداشت کرسکتی تھی۔ اس دن اس نے کئی دنوں بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا۔ اب پیسے ملنے کی امید تھی تو وہ قرض بھی لے سکتی تھی۔ ورنہ مانگنا بھی عجیب لگ رہا تھا۔ شام میں وہ ریسٹورنٹ گئی تھی۔ بہت بڑا ریسٹورنٹ نہیں تھا مگر اسے صرف پیسوں سے مطلب تھا۔ اس کے ہاتھ 25 پائونڈز ہی سہی کچھ تو آنے والا تھا رات وہ کام ختم کر کے ریسٹورنٹ سے نکلی تھی جب ایسٹ لندن کی گلیوں سے گزرتے ہوئے کچھ سیاہ فام گروہ کے بندوں نے اسے آن لیا تھا۔ وہ لڑکی تھی رات کا اندھیرا تھا اس پر اتنی بڑی مصیبت کہ اس کی جیب میں پیسے تھے جو اسے آج ہی ملے تھے اور وہ انہیں گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ کوئی بد مزگی نہیں چاہتی تھی تبھی موبائل فون نکال کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا۔ مگر وہ مزید کی ڈیمانڈ کرنے لگے تھے۔ وہ الجھنا نہیں چاہتی تھی مگر اس وقت چارہ نہیںرہا تھا۔ اگرچہ ان کے ہاتھ میں چاقو تھے وہ تین تھے اور وہ تنہا۔ اس نے گھوم کر ایک فلائنگ کک ایک کو رسید کی تھی مگر تبھی دوسرے دو نے اسے دبوچ لیا تھا۔ وہ ہٹے کٹے تھے وہ بے بس ہوگئی تھی۔
اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں اس نے نگاہ سے کچھ پرے دیکھا تھا۔
دور سے کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس دکھائی دی تھی۔ ایک لمحے میں وہ روشنی آنکھیں چندھاتی ہوئی قریب پہنچی تھی۔ گاڑی کے ٹائر چرچرائے تھے۔ وہ آنکھوں پر کلائی رکھ کر آنکھوں کو روشنی کے اثر سے بچانے لگی تھی۔ جب اسے کسی کے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی تھی۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا وہ نائجرین گروہ کے لوگ اس سے دور نکل چکے تھے اور ایسا کیسے اور کس باعث ممکن ہوا تھا؟ اس نے اپنے سامنے نگاہ کی تھی اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہوا تھا۔ کوئی اس کی مدد کو پہنچ چکا تھا اور وہ کوئی اور نہیں ریان حق تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر لمحہ بھر کو یقین نہیں ہوا تھا۔ وہ جھک کر اس کا گرا ہوا موبائل فون اٹھانے لگا تھا۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
’’اس وقت مٹر گشت کا شوق اچھا نہیں۔ رت جگوں اور آوارہ گردی کا اتنا ہی شوق ہے تو دن کافی لمبا ہوتا ہے۔‘‘ وہ انگارے چباتا ہوا بولا تھا۔ اس شخص سے اس کی کسی قسم کی دشمنی تھی وہ جان نہیں پائی تھی۔ مگر یہ غصہ اگر ٹائرز کی ہوا نکالے جانے کا ری ایکشن تھا تو اسے جھیلناچاہیے تھا۔
’’مجھے راتوں کو سڑک پر گھومنے کا کوئی خاص شوق نہیں ہے آپ…!‘‘ اس نے کچھ کہنے کی ہمت کی ہی تھی کہ ریان حق نے اس کے لبوں پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’کوئی نئی کہانی نہیں سننا ہے مجھے گاڑی میں بیٹھو۔‘‘ وہ تحکم بھرے انداز میں بولا تھا اور وہ حیران رہ گئی تھی۔ وہ اس پر اس طرح رعب جما رہا تھا جیسے اس سے گہرا تعلق ہو۔ وہ اس شخص کو گھورتی ہوئی اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹا کر یکدم آگے بڑھی تھی اور گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ وہ دوسری طرف سے گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھا تھا۔ ایلیاہ میر اس کی سمت دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
’’اس روز آفس بلایا تھا تو آئیں کیوں نہیں آپ؟‘‘ وہ بنا اس کی سمت دیکھے بولا تھا۔ وہ سبب جانتی تھی تبھی بولی تھی۔
’’کیوں آتی تاکہ آپ اپنا بدلہ پورا کرسکتے؟‘‘
’’بدلہ؟‘‘ وہ چونکا۔ ایلیاہ میر نے اس شخص کی سمت نگاہ کی خاموشی سے دیکھا پھر بولی تھی۔
’’آپ کے ٹائرز کی ہوا…!‘‘ وہ جذباتی انداز میں بولتے بولتے رہ گئی تھی۔
’’اوہ‘ تو وہ آپ تھیں؟ مجھے بھی لگا اچانک سے اس شہر میں کون دشمن آگیا۔‘‘ وہ سرسری انداز بولا۔ ایلیاہ نے اپنا سچ اپنے منہ سے بتا کر غلطی کی تھی۔ اگر اسے پتا نہیں تھا تو کیا ضرورت تھی بتانے کی کتنی بے وقوف تھی نا؟ اس نے خود کو ڈپٹاتھا۔
’’ویسے مجھے سمجھ جانا چاہیے تھا کہ ایسی کوئی حرکت آپ ہی کرسکتی ہیں۔‘‘ وہ اس کی سمت دیکھے بنا بولا تھا۔ وہ اس کی سمت سے اپنی نظریں ہٹا گئی تھی۔
’’مجھے ایسا کوئی شوق تو نہیں ہے بس اس رات غصہ تھا اور آپ کو بھلا کیا فرق پڑا ہوگا ایک ذرا سی ہوا ہی تو نکالی تھی نا ٹائرز کی۔ ٹائرزیا گاڑی تو نہیں چرائی۔ اتنا کمایا ہے ٹائرز کی ہوا بھروانے میں کیا گیا ہوگا آپ کا؟‘‘ وہ ازلی خود اعتمادی سے بولی۔ وہ جانے کیوں بغور دیکھنے لگا تھا اس کی سمت۔
’’تمہیں دنیا کے سارے امیروں سے اتنی ہی نفرت ہے؟‘‘
’’سبھی امیروں سے نہیں۔‘‘ وہ اس کی سمت بنا دیکھے بولی تھی۔
’’اوہ تو پھر عتاب کا نشانہ مجھے کیوں بنا دیا؟‘‘ وہ جاننے پر بضد ہوا۔
’’اچھا ہوتا میں آپ کو نہ بتاتی آپ کو تو شاید قیامت تک پتا نہ چلتا کہ یہ میںنے کیا ہے۔ بے وقوف ہوں نا اپنے ہاتھوں بھانڈا پھوڑ دیا۔ کیا کروں جھوٹ بولا ہی نہیں جاتا۔ انسان ہوں نا‘ وہ بھی سینسسٹیو اگر کوئی کارپوریٹ روبوٹ ہوتی تو شاید…!‘‘وہ پورے اعتماد سے اس کی سمت دیکھنے لگی تھی۔
’’آہ‘ آپ کو میں روبوٹ لگتا ہوں؟ اچھا خاصا آدمی ہوں اگر اس روز آپ کو اپنی کمپنی میں جاب نہیں دے سکا تو اس کا مطلب یہ نہیں میں ان سینسیٹیو ہوں۔‘‘ وہ جتاتے ہوئے بولا تھا۔ ایلیاہ میر نے اس کی سمت دیکھا تھا۔ اچھا خاصا ہینڈ سم بندہ تھا۔ اس نے پہلی دو چارملاقاتوں میں تو اس بات کا نوٹس بھی نہیں لیا تھا۔ اب دیکھا تھا تو کچھ امپریسڈ ہو ہی گئی تھی۔ نک سک سے تیار‘ رات کے اس پہر بھی فریش دکھائی دیتا بندہ‘ کاش اسے جاب بھی دے دیتا تو کیا بگڑ جاتا…!دل سے آہ نکلی تھی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا۔
’’مجھے فرق نہیں پڑتا اس بات سے۔‘‘ وہ شانے اچکا کر بولی تھی۔
’’مگر مجھے فرق پڑا‘ اس رات آپ نے مسٹر حیات کو وہ زور دار پنج مارا۔ کیونکہ اس کے بعد انہیں مجھے اسپتال لے جانا پڑا تھا۔ بے چارے کی ناک کی ہڈی ٹوٹتے ٹوٹتے بچی تھی۔ پورا منہ سوج گیا تھا۔ یہ تو شکر کرو انہوں نے جھوٹ کہہ دیا کہ واش روم میں گر گیا ہوں۔ ورنہ پولیس کیس بن جاتا اور اگر اس بات کی بھنک ان کی وائف کو پڑ جاتی تو خوامخواہ بے چارے کا بسا بسایا گھر اجڑ جاتا۔‘‘ وہ اس کی سمت دیکھے بنا بولا تھا۔ وہ چونکتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔ اس پنچ کے بارے میں اسے کیسے پتا چلا تھا؟ وہ حیران تھی۔
’’حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے شہر بڑا ہے مگر بات پتا چل ہی جاتی ہے اگر میں اس پارٹی میں نہ بھی ہوتا تو مجھے خبر ہوجاتی۔ اس رات تو پھر اس جگہ موجود تھا اور کچھ فاصلے پر بھی۔‘‘ وہ جتا رہا تھا۔
’’اوہ‘ بہت بری بات ہے اس طرح دوسروں کی خبر لینے کی‘ ویسے آپ یہ ہاتھ دھو کر میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں کوئی SPY تو نہیں اور آپ لوگوں کی عادت ہے نا ہر دوسرے پاکستانی پر شک کرنے کی؟‘‘ وہ تپ کر بولی تھی۔
’’عجیب خاتون ہیں آپ بجائے تھینکس کہنے کے الٹا مجھے لتاڑ رہی ہیں۔ مجھے آپ کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں اس کے لیے شہر کی پولیس ہے۔‘‘ وہ لا تعلق لہجے میں بولا تھا۔
’’اوہ تو پھر آپ کو صرف یہ قلق ہے کہ میں نے تھینکس کیوں نہیں کہا۔ اوکے تھینکس اگر آپ اس رات جھوٹ نہیں بولتے تو میں جیل میں ہوتی نا اور مسٹر حیات کو کیا سزا ملتی؟‘‘
’’آپ جو نہیں ہوا اس کے بارے میں کیوں سوچ کر جان جلاتی ہیں؟ مسٹر حیات با اثر وبا رسوخ شخصیت ہیں۔ ان کا ایک بیان کافی ہے۔ آپ یہ سوچ رہی ہیں کہ انہوں نے آپ کو کوئی غلط پروپوزل دیا مگر وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ نے ان کو آسورٹ کرنے کی کوشش کی اور آپ اس سے کبھی باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ وہ یہاں کے سٹیزن ہیں۔ کئی گنا کما کر دیتے ہیں‘ ٹیکس پے کرتے ہیں‘ آپ کیا کرتی ہیں؟‘‘
’’اوہ…!‘‘ وہ حقائق بتائے جانے پر اس کی سمت خاموشی سے دیکھنے لگی تھی۔ یہ سب تو اس نے سوچا نہیں تھا۔ اسے تو بس غصہ آیا تھا اور اس نے پنچ کھینچ مارا تھا۔
’’ہر بات کا علاج یا حل صرف غصہ نہیں ہوتا خاتون۔‘‘ مشورہ دیتے ہوئے بولا تھا۔
’’ایلیاہ میر۔‘‘ وہ اسے خاتون بلاتے دیکھ کر بولی تھی۔ ’’آپ مجھے مس میر بلاسکتے ہیں۔‘‘ وہ ہنوز اپنے فطری ایٹی ٹیوڈ سے بولی تھی۔ ریان حق نے لمحہ بھر کو اسے دیکھا تھا پھر گردن گھما کر ونڈ اسکرین کی سمت دیکھنے لگا تھا۔
’’اوکے ایلیاہ…!‘‘ وہ شخص شاید نشاندہی کیے گئے راستوں پر چلنا مناسب خیال نہیں کرتا تھا۔ اسے اپنی راہ بنانے کی عادت تھی شاید اسے خود کو صرف ایلیاہ بلائے جانے پر کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔
’’آپ اپنے طور پر کچھ بھی اخذ کرلیتے ہیں۔ میں اس وقت جاب ختم کر کے واپس آئی ہوں جب راستے میں اس گروہ نے گھیر لیا۔ آپ پتا نہیں کیا سمجھ بیٹھے اور…!‘‘ وہ مطلع کرتے ہوئے بولی تھی۔ حالانکہ وہ اسے کوئی صفائی دینے پر مجبور نہیں تھی۔ پھر بھی جانے کیوں بتانا ضروری خیال کیا تھا۔ وہ شخص ونڈ اسکرین سے گردن ہٹا کر اس کی سمت دیکھنے لگا تھا۔ شاید یہ بات اس کے لیے سرسری اور انتہائی غیر اہم تھی۔
’’اینی وے تھینکس اس رات مسٹر حیات کے معاملے میں جھوٹ بولنے کے لیے اور آج کی شب اس گروہ سے جان بچانے کے لیے۔ میری پاکٹ میں صرف 175پائونڈ تھے جو میرے کام کی ویکلی پے منٹ تھے۔ اگر یہ چلے جاتے تو میری کئی امیدیں بھی چلی جاتیں۔ کہنے کو یہ بہت معمولی رقم ہے مگر میرے لیے یہ بہت بڑی رقم ہے۔‘‘ وہ سر جھکا کر کہہ رہی تھی۔ وہ لڑکی بلاکی پر اعتماد تھی۔ خود اعتماد اور خوددار بھی۔ اس کے چہرے میں کچھ تو تھا کہ وہ لیا دیا رہنے والا شخص بھی اسے ایک پل کو دیکھتا رہا تھا۔ تبھی ایلیاہ میر نے نگاہ اٹھائی تھی۔ اس کی سمت دیکھا تھا۔ نگاہ ایک پل کو ملی تھی۔ وہ جانے کیوں جھجک کر نگاہ پھیر گئی۔ گاڑی اس کے گھر کے سامنے رکی تھی تو وہ چونکی تھی۔
’’آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں یہاں رہتی ہوں؟‘وہ چونکی۔ وہ دیکھتا رہ گیا۔ کوئی جواب نہ پا کر وہ خاموشی سے گاڑی سے اتر گئی۔ ریان تب تک کھڑا رہا جب تک وہ دروازے تک نہیں گئی۔ ایلیاہ میر نے جانے کیوں دروازے کا ہینڈل گھمانے سے پہلے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ وہ شخص اس کی سمت دیکھ رہا تھا۔ کیا وہ صرف اس کے خیال سے رکاہوا تھا؟ ایلیاہ کے پلٹ کے دیکھنے پر وہ قطعاً اجنبی بن کر نگاہ پھیر گیا اور گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا تھا۔ ایلیاہ میر نے ایک گہری سانس خارج کی تھی اور اندر بڑھ گئی۔
…٭٭٭…