جو میرے لکھے سے استفادہ بھی کر رہا ہے
خلاف باتیں وہی زیادہ بھی کر رہا ہے
کبھی نہ ہو تنگ حوصلہ اُس کا میرے مالک
جو زخم دے کر اسے کشادہ بھی کر رہا ہے
کبھی نہ ملنے کے فیصلے پر بھی ہے وہ قائم
دوبارہ ملنے کا کچھ ارادہ بھی کر رہا ہے
وہ جانتا ہے یقین مجھ کو نہیں ہے بالکل
تبھی تو اتنے یقیں سے وعدہ بھی کر رہا ہے
ضرور اس میں بھی پیچ حیدر کہیں پہ ہو گا
وہ ظاہراً چاہے بات سادہ بھی کر رہا ہے
٭٭٭