طے ہو گیا اک وصل سفر اور مکمل
یہ چوٹی بھی اب ہو گئی سَر اور مکمل
خِیرہ ہوئی تھیں آنکھیں ، خزانے کی دَمک سے
جب کھل گئے اُس حُسن کے دَر اور مکمل
آسیب بنے بیٹھے تھے مدت سے جو دل میں
خود اُس نے نکالے وہی ڈر اور مکمل
تردیدِ شبِ ہجر میں روشن سی کوئی شب
پھیلی رہی تا حدّ سَحر اور مکمل
اب تجھ سے بھی ملنا نہ میسر رہا اے دل
تجھ میں تو وہی کر گیا گھر اور مکمل
جتنے بھی تری ذات سے وابستہ ہیں پیارے
الزام لگا دے مِرے سَر اور مکمل
ہو جائے نہ مغرور کہیں اور وہ حیدر
اب اُس سے کرو صَرفِ نظر اور مکمل
٭٭٭