خود اپنے واسطے آزارِ جاں ہونے لگا ہوں
کسی نا مہرباں پر مہرباں ہونے لگا ہوں
غزل کے روپ میں جو قصہ خواں ہونے لگا ہوں
تو یوں لگتا ہے تیری داستاں ہونے لگا ہوں
کچھ عرصہ خوش گمانی بھی رہی ہے اس سے بے شک
مگر اس شوخ سے اب بد گماں ہونے لگا ہوں
مجھے معلوم ہے سلطان جابر کیا کرے گا
مگر میں کلمۂ حق ہوں ،بیاں ہونے لگا ہوں
کسی کی ناروا پابندیوں کو توڑ کر اب
دلوں میں گونجنے والی اذاں ہونے لگا ہوں
گھٹن کب دیر تک رستہ ہوا کا روک پائی
اسے کہہ دو کہ میں پھر سے رواں ہونے لگا ہوں
مجھے دھرتی پہ ہی رہنا تھا ہر حالت میں حیدر
مگر یہ کیا ہوا کہ آسماں ہونے لگا ہوں
٭٭٭