کون انگڑائی سی لیتا ہے نفس کے اندر
لذتِ وصل مہکتی ہے ہوس کے اندر
پھر سے در پیش ہوا لگتا ہے باہر کا سفر
لہر سی اُٹھنے لگی ہے کوئی نَس کے اندر
رَس بنایا گیا اس زندگی کو پہلے، پھر
موت کا زہر ملایا گیا رَس کے اندر
پھول نے صرف بکھیری ہے مہک بھینی سی
اصل خوشبو تو وگرنہ ہے سِرَس کے اندر
قافلے والے بہت خوش تھے دَمِ رخصت تو
سسکیاں کس کی تھیں آوازِ جرس کے اندر
کُن کا اک لفظ اسیروں پہ کہیں سے اترا
آسماں ہو گئے تخلیق قفس کے اندر
حیدر اک اور ہی دنیا ہے یہ انٹر نیٹ کی
کیا سے کیا ہو گیا ہوں سات برس کے اندر
٭٭٭