آنکھ سے گر کر ٹوٹے خواب کھلونے ہیں
اور اب دل کے ، بچوں جیسے رونے ہیں
عمرِ لا حاصل کا جو حاصل ٹھہرے
کس نے ایسے داغِ ملامت دھونے ہیں
درد ہمارے تو انمول نکل آئے
گرچہ خرید ے ہم نے اونے پونے ہیں
صرف گناہوں کا ہی بوجھ نہیں سر پر
اپنے نیک اعمال بھی ہم کو ڈھونے ہیں
رادھے،میٹھے رادھے! کچھ پہچان ذرا
دیکھ ہمیں ہم تیرے شام سلونے ہیں
زخموں کی خیرات بھی کب مل پائے گی
حُسن سے کچھ احسان ہی ایسے ہونے ہیں
راس زمینِ دل کو غم ایسے آئے
غم کی فصلیں کاٹ کے،پھر غم بونے ہیں
یادوں کے پھولوں سے،اپنی پلکوں نے
اُس کی جیت پہ حیدر ہار پرونے ہیں
عشق میں حیدر باون سال کا ہو کے بھی
بیس برس کی عمر کے رونے دھونے ہیں
٭٭٭