اس نے تو اپنا سارا کچھ میرے ہی نام لکھ دیا
کیسے سیاہ بخت کو ، ماہِ تمام لکھ دیا
اندر کی جانب اور بھی اندر سفر کیا شروع
ازلی مسافروں کو جب اس نے قیام لکھ دیا
دل یہ سمجھ کے خوش ہوا،مزدوری ختم ہو چکی
قسمت نے عشق کا اسے،ایک اور کام لکھ دیا
آوارگی کو میری قید اُس نے کچھ ایسے کر لیا
ہونٹوں سے مہر ثبت کی،دل میں مقام لکھ دیا
حیدر ہمارے عہد میں ،اکیسویں صدی میں بھی
میرا نے اپنے ہاتھ سے رادھا کو شام لکھ دیا
٭٭٭