عروج کیا ہے، زوال کیا ہے
خوشی ہے کیا اور ملال کیا ہے
یہ گردشِ ماہ و سال کیا ہے
زمانے! تیری یہ چال کیا ہے
بھلے ہو وقتی اُبال چاہت
مگر یہ وقتی اُبال کیا ہے
ہوس تو بے شک ہوس ہی ٹھہری
پہ جستجوئے وصال کیا ہے
ہے دل کوئی بے کنار صحرا
کہ آرزوؤں کا جال، کیا ہے
حقیقتیں تو فریب نکلیں
جہانِ خواب و خیال کیا ہے
سوال جو اتنے کر رہے ہو
تمہارا اصلی سوال کیا ہے
ہر ایک رنجش بھلا چکے ہو
تو دل کے شیشے میں بال کیا ہے
خدا ہے مشکل کُشا تو حیدر
کوئی بھی کارِ محال کیا ہے
٭٭٭