اوول آفس کی سامراجی اونچائی پر براجمان بش چینی ٹیم نے 2001ء کے اواخر میں کرۂ ارض پر نظر دوڑائی تو وہ بااعتماد تھے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ دنیا کو نئی شکل دیدیں گے۔ پینٹا گون کے وائس ایڈمرل سبراوسکی نے سرمایہ داری اور جنگ کے باہمی تعلق کو اختصار سے بیان کرتے ہوئے کہا:’جن خطرات کے خلاف امریکی فوجوں کو صف آراء ہونا چاہئے وہ خطرات ایسے ممالک کی جانب سے لاحق ہیں جو عالمگیریت کے رائج الوقت تقاضوں سے’’کٹے‘‘ ہوئے ہیں‘۔
آج پانچ سال بعد میزان کیسا دکھائی دیتا ہے؟
نفع کے خانے میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ روس، چین اور بھارت کے ساتھ ساتھ مشرقی یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا کا سرنگوں ہے۔ ان خطوں میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اگر واشنگٹن کے طے کردہ طریقہ کار پر عمل درآمد ہوتا رہے تو سامراج کو سب منظور ہے اور مغربی جامعات کے شعبہ سیاسیات بے کار میں امریکی پالیسی کی پردہ پوشی کے لئے ’’محدود جمہوریت‘‘، ’’سرپرستانہ جمہوریت‘‘، ’’غیر لبرل جمہوریت‘‘، ’’استبدادیت‘‘ یا ’’غیر لبرل استبدادیت‘‘ ایسی اصطلاحات گھڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ مغربی یورپ میں عراق کے مسئلے پر ہلکی پھلکی اوں آں کرنے کے بعد ای یوپوری طرح واپس آچکا ہے۔ شیراک تو مشرقِ وسطی کے مسئلے پر بش سے بھی زیادہ جارحانہ دکھائی دیتے ہیں جبکہ جرمن اشرافیہ واشنگٹن کو خوش کرنے کے لئے بے تاب ہورہی ہے۔
نقصان کے خانے پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ وینزویلا کی وباپھیل رہی ہے۔ عرصہ سے طاری کیوبا کی تنہائی ختم ہورہی ہے۔ بولیویا کے حکمران ٹولے نے لاپاز میں ہتھیار ڈال دئیے ہیں جبکہ بولیوارین جمہوریہ وینزویلا لاطینی امریکہ کے ہر ملک اندر نئیولبرل ازم کے خلاف عوام کو متحرک کرنے کے لئے مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ پر امریکی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ گوکوئی بہت بڑا دھچکا تو نہیں لگا مگر گزشتہ سال کے دوران امریکہ کی حیثیت اس خطے میں کمزور ہوئی ہے۔ گویہ رجحان سب جگہ دیکھنے میں نہیں آیا، کم از کم ایک محاذ پر یعنی لبنان میں صورتحال نے مخالف سمت میں سفر کیا اور یہاں مداخلت کامیاب رہی، ہاں البتہ باقی مقامات پر واقعات کا رخ واشنگٹن کے خلاف رہا۔ ایران اور فلسطین میں ہونیوالے انتخابات میں ان قوتوں کو مزید ہزیمت اٹھانا پڑی جنہیں امریکہ آلہ کار یا گماشتے کا کردار عنایت کرنا چاہتا تھا جبکہ زیادہ ریڈیکل قوتیں انتخاب جیت گئیں۔ عراق میں مزاحمت کے ہاتھوں امریکی قبضے کو مسلسل ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے اور امریکی گماشتہ حکومت مستحکم نہیں ہوسکی جبکہ خود امریکہ اندر جنگ کی حمایت میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ چینی اور ولف وٹز کا یہ منصوبہ فالوجہ کے کھنڈرات میں دفن ہو کر رہ گیا ہے کہ اس خطے کے لئے کوئی ماڈل ریاست تشکیل دی جائے۔ افغانستان میں گوریلا قوتیں پھر سے متحرک ہیں جبکہ واشنگٹن پاکستان کے فوجی انٹیلی جنس سے قریبی تعلق رکھنے والے طالبان کو بہلانے پھسلانے کی کوشش میں ہے۔ امریکی اور برطانوی سپاہیوں کے ہاتھوں تشدد بننے والے لوگوں کی کہانیاں جوں جوں منظر عام پر آرہی ہیں توں توں عرب دنیا کے طول و عرض میں مغرب کے خلاف عوامی نفرت شدید ہورہی ہے۔ امریکی فوجیں اپنی بساط سے زیادہ اپنا دائرہ کار بڑھا چکی ہیں جبکہ امریکی سپاہی اس نصب العین میں یقین کھورہے ہیں جس کی تکمیل کے لئے وہ متعین کئے گئے تھے۔ امریکہ میں اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اس نوع کے خدشوں کا اظہار ہونے لگا ہے کہ ویت نام ایسی یا اس سے بھی بری شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس سارے تنازعے کا انجام ابھی معلوم نہیں مگر اس کھیل کا انجام اچھا دکھائی نہیں دیتا۔
فلسطین:
رنگ برنگے انقلابات کے لئے مغربی جوش و خروش حسب توقع اس لمحے مانند پڑ جاتا ہے جب انقلاب سبز رنگ ہو۔ بحراوقیانوس کے کنارے بسی دنیا کے طول و عرض میں حکمرانوں اور صحافیوں نے فلسطینی آئین ساز قونصل کے انتخابات میں حماس کی کامیابی کو بنیاد پرستی کے ابھار کی منحوس علامت قرار دیتے ہوئے اسے اسرائیل سے امن کے قیام کے لئے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔ حماس پر سفارتی اور مالی ذرائع سے یہ دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ وہی حکمتِ عملی اپنائے جس کی مخالفت کرتے ہوئے اس نے انتخاب جیتا ہے۔ اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو حماس کی انتخابی فتح ایسی ہمہ گیر نہیں۔ 78فیصد ووٹوں کی شرح رہی جبکہ حماس کو 45فیصد ووٹ اور ایوان کی 54فیصد نشستیں حاصل ہوئیں۔ لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ اسرائیل، امریکہ اور ای یو نے الفتح کو کامیابی دلوانے کے لئے کھلم کھلا مداخلت کی، یوں لگتا ہے گویا حماس نے بڑے بڑے برج الٹ دئیے۔ انتخابی مہم کے دوران حماس اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے دیگر گروہوں کے ارکان کو ہراساں کیاجاتا رہا،اسرائیلی افواج نے ان پر حملے کئے ان کے پوسٹر ضبط کئے گئے یا بعض اوقات تباہ کر دئیے گئے۔ یورپی یونین اور امریکہ نے الفتح کو انتخابی مہم چلانے کے لئے فنڈ فراہم کئے جبکہ امریکی اراکین کانگرس یہ اعلان کرتے رہے کہ حماس کو انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا جائے مگر رائے دہندگان نے عالمی برادری کی ان دھمکیوں اور رشوتوں کو درخورِ اعتناء نہ سمجھا۔ انتخابات کے وقت کا تعین بھی دھاندلی ذہن میں رکھتے ہوئے کیا گیا۔ انتخابات 2005ء کے موسم گرما میں ہونا تھے مگر جنوری 2006میں ہوئے تاکہ محمود عباس کو یہ مہلت مل سکے کہ وہ غزہ میں اثاثہ جات بانٹ سکیں اور یوں ایک مصری انٹیلی جنس کے افسر کے بقول ’’لوگ حماس کے مقابلے پر فلسطینی انتظامیہ کو ووٹ دیں گے۔‘‘ الفتح حکومت کی دس سالہ بدعنوانی، دھونس اور ہنگامہ آرائی سے لوگ اس قدر تنگ تھے کہ کچھ نہ دوانے کام کیا۔
فلسطینی انتظامیہ لالچ اور ماتحتی کا مرکب تھی، اس کے فرومایہ ترجمان اور پولیس والے جیبیں بھر رہے تھے جبکہ ’’امن کے عمل‘‘ میں ان کی شمولیت کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ فلسطینی عوام کے دکھوں میں اضافہ اور ارضِ فلسطین میں مزید کمی واقع ہوگئی تھی۔ اس کے مقابلے پر حماس نے ایک سیدھا سادہ متبادل پیش کیا۔ حماس کے پاس اپنے حریف کے مقابلے پر ذرائع تو نہ تھے مگر اس نے کلینک کھولے، ہسپتال بنائے اور غریبوں کی فلاح وبہبود کے منصوبے چلانے کے علاوہ لوگوں کے لئے ووکیشنل ٹریننگ کا بندوبست کیا، اس کے رہنما اور کارکن سادہ زندگی گزارتے اور عام لوگوں کی پہنچ میں رہتے۔ یہ قرآنی آیات کی تلاوت نہیں بلکہ عام لوگوں کی روزمرہ ضروریات کا خیال رکھنے کا نتیجہ ہے کہ حماس کو بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہوسکی ہے۔
یہ بات واضح نہیں کہ دوسری انتفادہ میں حماس کے کردار کا اسے کتنا فائدہ ہوا۔ اسلامی جہاد یا الاقصیٰ بریگیڈ کی طرح حماس نے اسرائیل پر جوابی حملے کئے ان کا مقابلہ قابض اسرائیل کے کہیں زیادہ خطرناک حملوں سے نہیں کیاجاسکتا۔ اگر اسرائیلی فوج کے حملوں سے موازنہ کیا جائے تو فلسطینی حملے بہت کم ہیں اس بات کا واضح ثبوت جون2003ء میں حماس کے یک طرفہ اعلانِ جنگ بندی کے بعد سامنے آیا۔ اس سال سارے موسم گرما کے دوران حماس نے جنگ بندی پر عمل کیا گو اسرائیل نے حملے جاری رکھے اور پھر بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں جن میں مغربی کنارے سے حماس کے لگ بھگ تین سو کارکن گرفتار ہوئے۔ 19اگست2003ء کو ہیبرون سے تعلق رکھنے والے حماس کی ایک خود ساختہ شاخ جسے حماس کی مسلمہ قیادت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، مغربی یروشلم میں ایک بس دھماکے سے اڑا دی جس کو بہانہ بناتے ہوئے اسرائیل نے جنگ بندی کے مذاکرات کرنے والے حماس کے نمائندے اسمعٰیل ابوشہاب کو مار ڈالا۔ اس کے بعد فلسطینی انتظامیہ اور عرب ریاستوں نے حماس کے خیراتی اداروں کی امداد بند کر دی اور پھر ستمبر 2003ء میں یورپی یونین نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیدیا، جو تل ابیب کا دیرینہ مطالبہ تھا۔
اپنے سے کہیں بڑے حریف کے ساتھ مقابلے میں حماس کا امتیازیہ نہ تھا کہ اس نے خود کش حملہ آور بھیجے، یہ کام تو بہت سے دیگرحریف گروہ بھی کر رہے تھے۔ حماس کا امتیازی وصف اس کی یہ اہلیت تھی کہ اس نے گزشتہ سال جو جنگ بندی کا اعلان کیا، اس پر عمل درآمد بھی کروایا۔ عام شہریوں کی ہلاکتیں بلاشبہ قابل مذمت ہیں مگر یہ کام سب سے زیادہ چونکہ اسرائیل کرتا ہے لہٰذا یوروامریکی گفت و شنید میں صرف اسرائیلی ہلاکتوں کا ذکر ملتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو خونریزی میں برتری حاصل ہے۔ جنگی طیاروں ٹینکوں میزائلوں سے لیس اسرائیلی فوج کا فلسطین پر قبضہ جدید تاریخ میں سب سے لمبا عرصہ جاری رہنے والا مسلح جبر ہے۔ یہ بیان جنرل شولرموگزٹ نے 1993ء میں دیا تھا: ’’قابض فوجوں کے خلاف ایسے لوگوں کی بغاوت پر کوئی شخص بھی تنقید نہیں کر سکتا جو پینتالیس سال سے فوجی قبضے کا عذاب سہہ رہے ہوں‘‘۔
یورپی یونین اور امریکہ کو حماس پر اصل میں غصہ اس بات پر ہے کہ اس نے اوسلو معاہدے کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا اور بعد میں تابا سے لیکر جینوا تک جتنی بھی اس قسم کی کوششیں ہوئیں حماس نے ان کے برے اثرات سے فلسطینی عوام کو محفوظ رکھا۔ مغرب کی اب یہ کوشش ہے کہ اس مزاحمت کا خاتمہ کیاجائے۔ فلسطینی انتظامیہ کی امداد بند کرنا ایک ایسا ہتھکنڈہ ہے جس سے حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ محمود عباس، جنہیں واشنگٹن نے اسی طرح علیٰ الاعلان چنا جس طرح بغداد کے لئے پال بریمر کو چنا گیا تھا، کے صدارتی اختیارات میں آئین ساز اسمبلی کی قیمت پر اضافہ دوسرا ہتھکنڈا ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ یہ تدبیر الٹی بھی پڑ سکتی ہے لہٰذا زیادہ توقع اس بات کی ہے کہ حماس کو سدھانے کی کوشش اس امید کے ساتھ کی جائے گی کہ حکومت میں آنے کے بعد حماس کے ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑ جائیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنے پیش رو کی طرح بھی عملی سیاست کرنے لگے گی۔ حماس تاریخی طور پر مصر کی اخوان المسلمین کی شاخ ہے مگر اخوان المسلمین اب اتنی ہی ریڈیکل ہے جس قدر ترکی کی حکمران جماعت۔ ہر مذہب کی طرح اسلام میں بھی یہ گنجائش موجود ہے کہ مختلف نظریاتی مؤقف اپنائے جاسکتے ہیں۔ چاہیں تو سرمایہ داری اور(امریکی) سلطنت کے ساتھ ساز باز کر یں اور چاہیں تو اس کے کٹر مخالف بن جائیں جبکہ ان دو انتہائوں کے درمیان بھی بہت سے راستے موجود ہیں۔
یہ بات تو تھوڑی مشکل نظر آتی ہے کہ حماس بہت جلد اسرائیلی اور مغربی مفادات کی رکھوالی شروع کر دے ہاں البتہ ایسا ہوا تو یہ بات ایسی بے مثل بھی نہ ہو گی۔ حماس کی دستوری وراثت فلسطینی قوم پرستی کی خطرناک ترین کمزوری کے ہاں گروی پڑی ہے:حماس کے پاس دوہی راستے ہیں، یا تو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار کر دے یا ٹکڑوں میں بٹے، اصل ملک کے پانچویں حصے کو قبول کر لے، الفتح کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے خیال پرستانہ مؤقف سے پانچویں حصے کو تسلیم کرنے والے دوسرے مؤقف تک زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ حماس کا اصل امتحان یہ نہیں کہ کیا وہ مغربی رائے عامہ کے مطابق خود کو ڈھال پاتی ہے یا نہیں۔ اصل امتحان یہ ہے کہ کیا وہ اس نقصان دہ روایت سے بغاوت کر پائے گی یا نہیں۔ ایسا اسی صورت ممکن ہے اگر فلسطینی قومی مقصد کو صحیح بنیادوں پر پیش کیاجائے اور یہ مطالبہ کیاجائے کہ ملک اور ملکی وسائل برابری کی بنیاد پر دونوں آبادیوں میں برابر تقسیم کئے جائیں کہ دونوں آبادیاں برابر ہیں نہ کہ یہ تقسیم اسی فیصد اور بیس فیصد کے تناسب سے ہو۔ اس قسم کی عدم مساوات کوئی بھی غیرت مند قوم لمبا عرصہ برداشت نہیں کر سکتی۔ اس ضمن میں واحد قابل قبول متبادل وہ ہے جس کا خاکہ ورجینا ٹلی نے پیش کیا: یہودیوں اور فلسطینیوں کی مشترکہ ریاست جس میں صیہونت کے لگائے ہوئے زخموں کا مداوا کیاجاسکے۔
لبنان اور شام:
شمال کی اوٹ شام کی نسبتاً خود مختار حکومت اور وہاں موجود اداروں کا استحکام تل ابیب اور واشنگٹن کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں کیونکہ شام کی حکومت اس وجہ سے خطے میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر کردار ادا کرتی رہی ہے۔ دمشق کی سیاسی موقع پرستی اپنی جگہ لیکن اس نے قاہرہ کی طرح نہ تو علیحدہ سے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر کے فلسطین سے غداری کی نہ ہی عراق میں امریکی قبضے کا ساتھ دیا۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ عراق میں سرکشی ان صوبوں میں پھیلی جو شام کی سرحد کے ساتھ ہیں(یوں مزاحمت کو ایک دوستانہ داخلی علاقہ بھی میسر آگیا ہے)امریکی ایجنڈے پر یہ نکتہ اب سر فہرست آگیا ہے کہ نوجوان اسد کو یا تو غیر جانبدار بنا دیا جائے یا ہٹا دیا جائے۔ امریکی فوجوں کے لئے ایک نیا محاذ کھولنا چونکہ ممکن نہ تھا لہٰذا شام کی حکومت گرانے کا جو واضح راستہ تھا وہ لبنان سے ہو کر جاتا تھاجہاں مغربی طاقتیں مرضی سے گل کھلا سکتی تھیں۔لبنان میں شام کے فوجی دستے جو 1976ء سے تعینات تھے، بے نقاب ہو چکے تھے اور عوام میں بھی پذیرائی کھوچکے تھے۔ ان دستوں کو واپسی پر مجبور کر کے شام کے اندر بھی بے چینی پھیلائی جاسکتی تھی جو حکومت کی تبدیلی کا باعث بن سکتی تھی۔
عہد حاضر کا لبنان فرانسیسی سامراج کی پیداوار ہے۔ یہ درحقیقت گریٹر شام کا ساحلی علاقہ تھا۔ جب شام کی آزادی حقیقی خطرہ بن گئی تو پیرس نے ساحلی پٹی کو کاٹ کر ایک باجگزار ریاست تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس کی باگ ڈور مارونی اقلیت کو دیدی گئی جو بحیرہ روم کے مشرقی ساحل میں ہمیشہ سے فرانسیسی سامراج کی آلہ کار رہی ہے۔ مذاہب کے اس بوقلموں میں کس فرقے کی آبادی کتنی ہے؟ اس بات کا تعین مردم شماری سے ہی ہوسکتا ہے مگر صحیح معنوں میں مردم شماری کبھی ہونے ہی نہ دی گئی۔ مبادا مسلم……آج کے حالات میں شائد شیعہ … اکثریت کی سیاسی نظام میں نامناسب نمائندگی کا بھرم کھل جائے۔ فرقہ وارانہ تنائو میں فلسطینی مہاجرین کی آمد سے مزید اضافہ ہوا تاآنکہ ستر کی دہائی کے وسط میں یہ تنائو خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گیا اور شام کو موقع ملا کہ وہ اپنی افواج لبنان میں اتار دے۔ شام کے اس اقدام کو امریکی حمایت حاصل تھی اور یوں لبنان اندر شامی فوجوں کی طویل المدت تعیناتی کا جواز بنا۔ یہ افواج متحارب گروہوں کے درمیان ٹکر روک کا کام بھی دے رہی تھیں اور اور مکمل اسرائیلی قبضے کے رستے میں رکاوٹ بھی ڈالے ہوئے تھیں کہ1978ء اور 1982ء میں اسرائیلی افواج قبضے کا منصوبہ بنائے بیٹھی تھیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لبنان کے سیاسی معاملات پر شام کا اثر گہرا ہونے لگا۔ شام کی فوج اور خفیہ ادارے لبنانی ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر تعیناتی کے لئے افراد کا چنائو کرنے لگے۔ کابینہ میں مداخلت اور مختلف دھڑوں کے مابین جھگڑے نپٹانے کے علاوہ سرکش سیاستدانوں کا خون بہانے کا کام بھی سرانجام دیتے اور اس سارے عمل میں شامی فوج اور خفیہ اداروں کے اہل کاروں نے خوب پیسہ بنایا۔
1994ء میں جائداد کی خریدوفروخت کرنے والے ارب پتی رفیق ہریری جو آلِ سعود کا مہرہ تھے وزارتِ عظمیٰ کے حق دار قرار پائے۔
اقتدار میں آنے کے بعد وہ اٹلی کے برلسکونی یا یوں کہئے تھائی لینڈ کے تھاکسن بن گئے۔ انہوں نے وسطی بیروت کی تعمیر نو کے ٹھیکے اپنی ہی کمپنیوں کو دئیے۔ جب انہیں اقتدار سے وقتی طور پر علیحدہ ہونا پڑا تو انہوں نے شرحِ تبادلہ کا ایسا بحران پیدا کیا کہ مجبوراً انہیں واپس لانا پڑا کہ اس بحران سے نپٹنے کے لئے ان کی جیب میں ہی مناسب رقم موجود تھی۔ دولت کے بل بوتے پر وہ اثرونفوذ کے حامل افراد کو خرید لیتے اور یوں دمشق سے سودے بازی کے لئے پہلے سے بھی زیادہ بہتر حیثیت حاصل کر لیتے۔ اس دور میں ان کی ایک اور ضمیر فروش سیاستدانوں سے دوستی ہوئی۔ یہ سیاستدان جیکس شیراک تھے جن کی انتخابی مہم کے لئے رفیق ہریری نے دل کھول کر چندہ دیا۔ اپنی سابقہ نوآبادیاتی میں فرانس کی دلچسپی ہنوز باقی ہے۔ 2004ء کے آتے آتے شیراک اس کوشش میں تھے کہ ملکی رائے عامہ کے پیش نظر عراق کے مسئلے پر امریکہ سے مول لی مخالفت کا ازالہ کریں لہٰذا ہیٹی میں امریکہ کے ساتھ مل کر بغاوت منظم کرنے کے بعد وہ پوری طرح تیار تھے کہ شام کو لبنان سے نکالنے میں بش اور ہریری کی مدد کریں۔اگست میں بشرالاسد نے رفیق ہریری کو ان کے اپنے بیٹے کے بقول بلوا کر کہا:’’اگر تمہارا خیال ہے کہ تم اور شیراک لبنان کے معاملات سنبھال لو گے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ (صدر لاہود کی) صدارتی مدت میں توسیع ہو کر رہے گی ورنہ میں لبنا ن تمہارے اور ولید جمبلات کے سر پر مار کر توڑ دوں گا‘‘۔
اگلے ہی ہفتے فرانس اور امریکہ نے سلامتی کونسل سے یہ قرار داد منظور کروائی کہ شام کی افواج لبنان خالی کر دیں اور حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جائے۔ ردعمل جلد ہی سامنے آگیا۔ فروری میں لبنانی انتخابات کے لئے انتخابی مہم شروع ہوئی تو بیروت کے سینٹ جارجس ہوٹل کے سامنے ہونے والے کاربم دھماکے میں رفیق ہریری ہلاک ہوگئے۔ اس انجام سے دوچار ہونے والے وہ پہلے لبنانی سیاستدان نہیں تھے۔ سابق صدر بشیر جمائل 1982ء میں اور مواود1989ء میں اسی انجام سے دور چارہوئے تھے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی تھی۔ اس مرتبہ البتہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے فوراً تحقیقاتی کمیشن بٹھا دیا۔ پورے اختیارات کے ساتھ ایک جرمن سفارتکار کو جرم کی تفتیش کے لئے روانہ کیا گیا جس نے شام کو مجرم قرار دیدیا۔ یہ سب تو شروع سے ہی متوقع تھا البتہ کمیشن نے یہ بات ثابت کر دی کہ کوفی عنان کی قیادت میں اقوام متحدہ مغرب کی من مرضی کو عملی جامہ پہنانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ جب اسرائیل حزب اللہ،حماس یا الفتح کے رہنمائوں کو قتل کرتی ہے تو سیکرٹریٹ کی طرف سے کسی تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل تو ایک طرف،اسے کبھی مذمت کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ لوممبا، بن بارکہ، گویرا، الاندے اور ماشل کا انجام اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مغربی روایات میں تسلسل بہر حال پایا جاتا ہے۔
خود لبنان کے اندر جہاں رفیق ہریری نے دولت کے بل بوتے پر حامیوں کا وسیع حلقہ تشکیل دے رکھا تھا، زیادہ حقیقی ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ لبنان کے متوسط طبقے نے عوامی مظاہرے منظم کئے، شامی افواج اور پولیس کے انخلاء کا مطالبہ کیا گیا جبکہ مغربی ادارے بڑی تعداد میں لبنان کے صنوبری انقلاب کی مدد کے لئے آن پہنچے۔
واشنگٹن اور پیرس کی دھمکیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا یوں انخلاء اور بیروت میں ایک موافق حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی۔ مختلف لبنانی گروہ البتہ آج بھی بری طرح تقسیم کا شکار ہیں جبکہ حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جاسکا ہے نہ بشر الاسد کا تختہ الٹا جاسکا ہے۔ امریکہ نے ایک چوکی تو فتح کر لی ہے مگر قلعہ ابھی محفوظ ہے۔
جہنم کی تصویر عراق:
اگر امریکہ اس کارن شام سے نالاں ہے کہ عراقی مزاحمت کاروں کے لئے مشرقی سرحد کمین گاہ کا کام دے رہی ہے تو امریکہ کا غصہ ایسا بے جابھی نہیں، عراق اندر امریکی جنگی منصوبے بد سے بدتر شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔
قابض امریکہ کو عراق اندر مسلسل مزاحمت کا سامنا ہے اور تین سال گزر جانے کے باوجود___ اس پر مستزاد یہ کہ دوسو ارب کے اخراجات ہو چکے ہیں___ عراق کے ان لوگوں کو امریکہ پانی اور بجلی ایسی سہولیات بھی فراہم نہیں کر پایا جنہیں اس نے غلام بنایا تھا۔ کارخانے بند پڑے ہیں۔ ہسپتال اور سکول کم کم ہی خدمات سرانجام دے پاتے ہیں۔تیل سے حاصل ہونے والی آمدن کو امریکی گماشتے ہڑپ کر چکے ہیں اور ہاں ان امریکی کمپنیوں کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے جو ٹھیکوں کے نام پر لوٹ مار کر رہی ہیں۔ زندگی تو اقوامِ متحدہ کی نافذ کی ہوئی پابندیوں کے دور میں بھی آسان نہ تھی لیکن امریکی قبضے کے بعد تو جینا بالکل عذاب بن گیا ہے اور جوں جوں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہورہا ہے توں توں رہی سہی سیکورٹی بھی غائب ہوتی جاتی ہے۔
جہنم کے ان مناظر کے درمیان قابض فوجوں کے اپنے سپاہی شکستہ دلی کا شکار ہورہے ہیں۔ ان سپاہیوں کو اب یہ عیاشی میسر نہیں رہی کہ 30,000فٹ کی بلندی سے کوئی خطرہ مول لئے بغیر بم برسائیں۔ امریکی فوجی دستے زچ ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنی بیرکوں تک محدود ہو چکے ہیں۔اگر کبھی کسی فوجی مہم پر نکلتے ہیں تو فضائیہ کی مدد حاصل ہوتی ہے یا بے شمار حفاظتی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں مگر پھر بھی ہر روز امریکی فوجی موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ فروری 2006ء میں عراق اندر خدمات سر انجام دینے والے امریکی دستوں بارے زوگبی نے رائے عامہ کا جو جائزہ لیا اس کے مطابق72فیصد کا خیال تھا کہ امریکہ کو ایک سال کے اندر اندر عراق سے نکل جانا چاہئے جبکہ باقی29فیصد کا خیال تھا کہ فوراً عراق خالی کر دینا چاہئے۔ ایک چوتھائی سے بھی کم، 23فیصد ایسے تھے جو اس سرکاری مؤقف کے حامی تھے جس کا اعادہ امریکی صدر اور سرکار کرتے رہے ہیں یعنی امریکہ کو اپنا کام جاری رکھنا چاہئے۔ ملٹری ریزرو کی اس قدر قلت ہے کہ پینٹا گون نے قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے نئے بھرتی ہونیوالوں کو ماضی میں بعض جرائم کے ارتکاب پر چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ اس مقصد کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ منڈی کی معیشت سے استفادہ کرتے ہوئے نجی اداروں کو مہیا کردہ فوجیوں سے استفادہ کیا جارہا ہے۔
عراق پر جارحیت کے لئے جو سیاسی ڈھونگ رچایا تھا اب اس کی حقیقت آشکار ہو چکی ہے۔ کٹھ پتلی حکومت کے لئے جو انتخابات ہوئے اس کے پہلے مرحلے کا سنی آبادی نے مکمل بائیکاٹ کیا۔ میڈان امریکہ آئین کو بھی سبکدستی سے کرائے گئے استصواب رائے کے ذریعے منظور کروانا تھا۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف امریکی پٹھو آپس میں لڑ پڑے اور پارلیمانی بحران پیدا ہوگیا۔ تمام تر رشوت کے باوجود اور پسندیدہ عناصر پر بے شمار پیسہ لٹانے کے باوجود انتخابات میں سی آئی اے اور پینٹا گون کے ایاد علاوی اور احمد شلابی ایسے وظیفہ خوار بری طرح پٹ گئے۔ تادم تحریر امریکی سفیر کرد صدر کی مدد سے اس شیعہ وزیر اعظم کو ہٹانے میں مصروف ہیں جو کباب میں ہڈی بنتا جارہا ہے۔ ’’ارغوانی انقلاب‘‘ بارے لوگوں کے دلوں میں کوئی خوش فہمی نہیں اور حکومتی معالات چلانے والوں کی ساکھ مٹی میں مل چکی ہے۔
ایسا نہیں کہ آزادیٔ عراق کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ امریکی قبضے کے تسلسل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ فرقہ وارانہ تنائو میں اضافہ ہوگیا ہے کہ اس پر ہی تو قابض فوج کا انحصار رہا ہے۔ اہلِ تشیع کے سنی اور سنیوں کے اہلِ تشیع عوام پر جان لیوا حملے روز کا معمول بن چکے ہیں اور طرفین اس لڑائی میں بے شمار قیمتی جانیں کھوچکے ہیں۔ ابتداً اس باہمی لڑائی کی پہل سنی مزاحمت کاروں میں موجود بعض متعصب افراد نے کی۔ ہاں مگر اس فرقہ وارانہ جنگ، جو قابض فوجوں کے خلاف جاری مزاحمت کے ساتھ ساتھ جاری بھی ہے اور اس سے جڑی ہوئی بھی ہے، میں شدت کی ذمہ داری شیعہ ملائوں بالخصوص آیت اللہ سیستانی پر ہے کہ جنہوں نے عراق پر قبضہ کرنے والوں کا ساتھ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے ماننے والے جب تک ان ملائوں کی فرمانبرداری کرتے رہیں گے مزاحمت کاروں کی نظر میں ساز باز کرنے والے عناصر کے طور پر ایسا نشانہ بنے رہیں گے جن سے مزاحمت کار بدلا لینا چاہیں گے۔
پال بریمر، نیگروپونٹے اور زلمے خلیل زاد سے گٹھ جوڑ پر تعریف کے جو ڈونگرے اب سیستانی پر برسائے جارہے ہیں کبھی وہ اس بات پر برسائے جارہے تھے کہ اس کم گو بزرگ نے عمر کے آخری حصے میں قابض امریکی فوجوں سے سازباز کئے بغیر اپنے لوگوں کی حفاظت کی۔ امریکی مفادات کی حفاظت کے صلے میں عین ممکن ہے انہیں نوبل انعام برائے امن سے نوازا جائے کہ عراق پر امریکی جارحیت کے زبردست حامی تھامس فرائڈمین توسیستانی کو اس انعام کے لئے نامزد بھی کر چکے ہیں۔
اگر شیعہ قیادت بالخصوص سیستانی نے2004ء کے موسم بہار میں اس وقت امریکیوں سے بوریا بستر گول کرنے کا مطالبہ کیا ہوتا کہ جب شیعہ سنی ایک ساتھ عراق پر امریکی قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے تو آج عراق ایک آزاد ملک ہوتا جہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خاصے امکانات ہوتے اور اس آزادی کی بنیاد جارح کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہوتی۔ سیستانی اور ان کے گروہ نے البتہ یہ کیا کہ جنوب میں مقتدیٰ صدر کی بغاوت جبکہ شمال اور مغرب میں سنی مزاحمت کا سر کچلنے میں امریکہ کا اس نیت سے ساتھ دیا کہ امریکی چھتر چھایا تلے بغداد میں اقتدار حاصل کرتے ہوئے جغرافیائی ترجیحات اور غیر ملکی اسلحے کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت تشکیل دی جائے۔ اس نوع کی دھرم وادی پارلیمان ازم کا حسب توقع نتیجہ یہ نکلا ہے کہ فرقہ وارانہ نفرت میں اضافہ ہوا ہے اور جوں جوں سازباز کا یہ کھیل نچلی سطح پر آنا شروع ہوا ہے توں توں ایک طرف تو جہادیوں کے بلاامتیاز حملے اور دوسری طرف ڈیتھ اسکواڈز کے جوابی حملے تیز ہونے لگے۔
جولوگ اس صورتحال کے ذمہ دار تھے وہی لوگ اب اسے بہانہ بنا کر اپنے قبضے کو دوام دینا چاہتے ہیں۔ سنی سیاستدانوں کو رشوتیں دی جاتی ہیں کہ وہ امریکہ کو قیام میں توسیع کے لئے استدعا کریں گویا اس صورتحال کااصل ذمہ دار یعنی امریکہ مرض نہیں مرض کی دوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تشدد کے اس چکر سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے؛وہ راستہ جو 2004ء میں سیستانی نے ترک کر دیا اور مقتدیٰ الصدر اب جس پر چل پڑے ہیں یعنی شیعہ سنی رہنمائوں اور بغداد سے لیکر صوبوں میں موجود مزاحمت کاروں کے مابین یہ قومی اتفاق رائے کہ قابض فوجوں سے نجات حاصل کی جائے۔ جیسا کہ لبنان سے واپسی پر تباہ حال سمارہ اور بغداد کو دیکھتے ہوئے مقتدی الصدر نے کہا تھا: ’سانپ کا سر کچل ڈالو اور برائی کا خاتمہ کر دو‘ مقتدیٰ الصدر کی ملیشیا کے ارکان شہری علاقوں کے غریب محلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کبھی یہ آبادیاں کمیونسٹ پارٹی کا گڑھ تھیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی فوجیں ایک ماہ بھی عراق میں نہ ٹک پاتیں اگر شیعہ آبادی اپنے سنی ہم وطنوں کے نقش قدم پر چلتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر کٹھ پتلی پارلیمان میں یہ قرار داد ہی منظور کرالی جائے کہ غیر ملکی فوجیں واپس جائیں تو لندن اور واشنگٹن مصیبت میں پڑ جائیں گے۔ عراق کی جدید تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ دونوں فرقوں کے بیچ سنجیدہ نوعیت کا تنائو اس کے باوجود باقی رہے گا۔یہاں کردوں کا تو ذکر ہی فضول ہے کہ جنہوں نے حملہ آوروں کے لئے گورکھا سپاہیوں کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ جب تک امریکی مداخلت کا زہر پھیلتا رہے گا نئے پرانے زخم مندمل نہ ہوپائیں گے۔ عراق کے مستقبل کو بچانا ہے تو اینگلو امریکی فوجوں کو وہاں سے پوری طرح فارغ کرنا پڑے گا۔
ایران نشا نے پر:
عراق کے دور دراز جنوب مشرقی صوبوں، بصرہ اور میسان میں مقامی شیعہ قیادت اب برطانوی قابض فوجوں سے تعاون نہیں کررہی۔ان کے مؤقف میں اس تبدیلی کا کسی حد تک تعلق سرحد پار کے حالات سے بھی ہے۔ 2005ء کے انتخابات میں محمود احمدی نژاد کی جیت اس خطے میں نئی صدی کا سب سے بڑا دھچکا تھا۔ محنت کش گھرانے سے تعلق رکھنے والے اور جنگِ عراق میں حصہ لینے والے تہران کے سخت گیر ملاّ میئر نے مغربی میڈیا اور میڈیا مالکان کے پسندیدہ امیدوار کو شکست دیدی۔ 80ء کی دہائی کے اواخر اور نوے کی دہائی کے اوائل میں برسرِ اقتدار رہنے والے ارب پتی ملا اور سیاسی کھلاڑی ہاشمی رفسنجانی نے اپنی انتخابی مہم میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جدید انداز کے جلوس، گاڑیوں کے لئے بمپراسٹکر اور حجاب پہنے ہوئے گیت گاتی لڑکیاں، مگر محروم عوام کے احتجاجی ووٹ کے آگے یہ سب بیکار ثابت ہوا۔ اس کے برعکس احمدی نژاد کا نعرہ تھا کہ وہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کریں گے۔ان کا نعرہ تھا’’تیل کی دولت غریب کے دسترخوان تک پہنچے گی‘‘ان کی جاری کردہ سی ڈی میں ان کے ارب پتی حریف کارہن سہن دکھایا گیا تھا جبکہ وہ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ مستحق افراد میں بانٹ دیتے تھے۔ احمدی نژاد واحد ایسے امیدوار تھے کہ جو اصولوں کی خاطر صفائی مزدور کی وردی پہن کر تہران کے گٹر صاف کرنے جاسکتے تھے۔ رفسنجانی کی اسٹبلشمنٹ نواز نعرہ بازی کے مقابلے پر انہوں نے رہائش، بیروزگاری اور شادی کے خواہاں نوجوان جوڑوں کو درپیش مسائل کے ٹھوس حل پیش کرنے کے علاوہ بدعنوانی کے خاتمے اور توانائی کے مسئلے پر امریکہ کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنے کی بھی بات کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 2004ء میں ہونے والے امریکی یا 2005ء میں ہونے والے برطانوی انتخابات کی نسبت ایرانی انتخابی مہم کا انداز جارحانہ تھا اور ڈالے گئے ووٹوں کی شرح خاصی زیادہ تھی کہ اس مہم میں سماجی پالیسی کے حوالے سے سنجیدہ چنائو کا موقع موجود تھا۔
احمدی نژاد کو نہ صرف رفسنجانی کے بدعنوان اور ظالمانہ دور بلکہ اپنے بے ضرر پیش رو کے دورِ حکومت کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا ثمر بھی ملا۔ اصلاح پسند خاتمی کے دورِ حکومت میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود معاشی حالات بگڑتے گئے جبکہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے گوربا چوف طرز کی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح روس کو ریگن سے ایول ایمپائر کا لقب ملا تھا اسی طرح ایران کو برائی کی مثلث میں شامل کر لیاگیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حقوق کی حفاظت کے دعویٰ کرتے ہوئے صدر خاتمی آزاد اخبارات یا طلباء کے مظاہروں پر پابندی کے خلاف آواز نہ اٹھا پائے۔ اسی طرح پوپ کے ساتھ روحانی اقدار پر مکالمہ کرنے والے صدر خاتمی شہری حقوق کی حفاظت میں ناکام رہے،وہ مختلف قسم کے دبائو میں آکر کبھی اس اوٹ جھکتے کبھی دوسری تاآنکہ اپنی اخلاقی اہمیت ہی کھو بیٹھے۔ احمدی نژاد کی عوام میں مقبولیت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نئی حکومت سماجی ذمہ داری کا احساس رکھتی ہے مگر لازمی نہیں کہ عملی طور پر بھی نتیجہ مثبت نکلے۔ کروڑوں نوجوان، بے روزگار محنت کش اور برے حالات کا شکار لوگوں کی ضرورت ہے کہ قومی تعمیر و ترقی کی کوئی جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔ اسلامی نظامِ خیرات بہرحال اس نیؤلبرل ازم کا کوئی مستحکم متبادل نہیں ہے جو آہستہ آہستہ ایران میں گھس بیٹھ کر رہی ہے جبکہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ معاشی بے اطمینانی کو کچلنے کے لئے ثقافتی جبر کا سہارا لینے کی خواہش دبانا ممکن نہیں ہوتا۔
ایران کے پائوں پسارتے ہوئے اور مبہم سیاسی نظام میں ایرانی صدارت طاقت کے کتنے ہی مراکز کے گھیرے میں ہوتی ہے اور یہ سارے مراکز موجودہ صدر سے زیادہ رجعتی ہیں۔ رہبر اعلیٰ علی خامنائی ہرگز یہ نہ چاہیں گے کہ کوئی شعلہ بیان نوخاستہ ان کا تختہ الٹ دے۔
ملاّں اور بازار کا گٹھ جوڑ پہلے ہی وزارتِ تیل کو بدعنوانی سے پاک کرنے کی اس کوشش کو ناکام بنا چکا ہے جو صدر احمدی نژاد نے کی تھی اور اس ٹولے کا شوریٰ اندر بھی گہرا اثر ہے۔وہ مغرب نوازمتوسط طبقہ جو خاتمی کا حامی تھا اپنے زخم چاٹ رہا ہے اور موقع کی تاک میں ہے۔ سب اس گھات میں بیٹھے ہیں کہ کہیں کوئی غلطی سرزد ہو اور اس ضمن میں انہیں بے شمار مواقع ملیں گے۔
ان جھگڑوں کا سماجی پس منظر اپنے ہی انداز میں تنائو کا شکار ہے۔شاہ ایران سے وراثت میں ملنے والے عمودی ترقیاتی ماڈل، دس سال جاری رہنے والی جنگ کے ہاتھوں زخم کھانے، ہاشمی رفسنجانی کے افراط زر اور خاتمی کی نجکاری کا شکار رہنے کے بعد یہ نظام ایک بہت بڑی چور بازاری کا باعث بنا ہے۔ بے روزگاری کی غیر سرکاری شرح 25فیصد ہے جبکہ زراعت کے سر پر بحران منڈلا رہا ہے۔ طلباء میں بے چینی پائی جاتی ہے، مزدور بغاوت پر اترے ہوئے ہیں۔
جنوب مغرب میں عرب، شمال میں کرد اور آذری جبکہ جنوب مشرقی میں بلوچ علاقوں اندر لاوا پک رہا ہے۔ اس ہماہمی میں ہر قسم کی اندرونی اور سامراجی سازش کے لئے یہ موقع موجود ہے کہ عوامی مقابلے میں جیتے ہوئے ناپسندیدہ امیدوار کا تختہ الٹ دیا جائے۔ دریں اثناء وہ عناصر جو امریکی مداخلت کے نتیجے میں ’’آزادی‘‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں، انہیں عراق سے سبق حاصل کرنا چاہے۔
فی الحال جس چیز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ ایران کا عالمی کردار ہے۔اس محاذ پر بھی شتربے مہار دھرم وادی ریاست نے گومگو کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ ایران عراق جنگ کے خاتمے سے لیکر آج تک ایرانی قیادت کی خارجہ پالیسی سے عاری موقع پرستی کا بھدا نمونہ بنی رہی ہے۔ ایک طرف تو روایتی اور محتاط انداز میں ساز باز جاری ہے جبکہ دوسری جانب دوسرے ممالک میں مقیم شیعہ آبادیوں سے بے ضرر یکجہتی جس کی ایک مثال لبنان کی حزب اللہ ہے اور ہاں تھوڑا بہت شور فلسطین کے لئے بھی مچادیا جاتا ہے۔ 1991ء کی جنگ خلیج کے دوران تہران نے انتہائی ہوشیاری سے چپ سادھے رکھی اور جب مقامات مقدسہ میں امریکی افواج پڑائو ڈال رہی تھیں ایران کی زبان سے اف تک نہ نکلی۔
شمالی اتحاد میں موجود اپنے آلہ کاروں کو ایران نے ہدایت جاری کی کہ افغانستان پر امریکی جارحیت کا راستہ ہموار کرو۔ عراق پر قبضے کے لئے ایران نے سی آئی اے سے ساز باز کی جبکہ سپریم اسلامک کونسل فار ریولوشن ان عراق اور عراق میں موجود دیگر سیاسی گماشتوں کو ہدایت کی گئی کہ بغداد میں امریکی اقتدار قائم کرنے میں مدد دی جائے۔ شیطان اعظم کو ان مراعات کے بدلے ایران نے کیا حاصل کیا؟ اس کے مشرق اور مغرب میں امریکی افواج نے پڑائو ڈال لیا ہے اور اس کے ایٹمی ری ایکٹر ختم کرنے کے لئے امریکی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
عہد حاضر کی ’’عالمی برداری‘‘ کے اپنے معیار کے مطابق مغرب کی یہ مہم کہ ایران ایٹمی توانائی کے شعبے میں تحقیق کے اس حق سے دستبردار ہوجائے جو اسے این پی ٹی کے تحت حاصل ہے، کافی حد تک حیرت انگیز ہے۔ ایران ایٹمی ریاستوں بھارت، پاکستان، چین، روس، اسرائیل کے گھیرے میں ہے جبکہ امریکی ایٹمی آبدوزیں اس کے جنوبی ساحل پرمنڈلا رہی ہیں۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو ایران کو لاحق بیرونی حملے کا خدشہ ایسا بے جا نہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران غیر جانبداری کے باوجود اس پر برطانیہ اور سوویت روس کی افواج نے قبضہ کر لیاتھا۔ 1953ء میں اینگلو امریکی بغاوت کے نتیجے میں اس کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا جبکہ سیکولرحزب اختلاف کا سرکچل دیا گیا۔ 1980-88ء کے عرصے میں مغربی طاقتوں نے صدام حسین کی جارحیت کی پشت پناہی کی جس کے نتیجے میں ہزاروں ایرانی موت کے گھاٹ اتر گئے۔ جنگ کے اختتامی مراحل میں امریکہ نے خلیج کے اندر لگ بھگ آدھی ایرانی بحریہ کا قلع قمع کر دیا جبکہ مسافروں سے بھرا ایرانی مسافر طیارہ تھا جو امریکہ نے مار گرایا۔
ایران کے پاس اس وقت ایٹمی دفاع کی صلاحیت حاصل کرنے کے لئے جو تکنیکی مہارت حاصل ہے وہ محض ابتدائی نوعیت کی ہے اسی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے بش، بلیئر، شیراک اور اولمرٹ شور مچارہے ہیں حالانکہ ان کے اپنے ملکوں کے پاس سینکڑوں __امریکہ کے پاس تو ہزاروں__ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ویانا پروٹو کول کتنے ہی جائز کیوں نہ ہوں، ان کا حوالہ دینا یا ان کی تشریح کرنا ایران کے کسی کام نہ آئے گا۔ ایران کے لئے بہتر یہی ہو گا کہ مناسب موقع دیکھ کر این پی ٹی سے ہی دستبردار ہو جائے۔ فرسودہ بادشاہوں میں سے جو سب سے زیادہ ننگا ہے وہ یہی بادشاہ ہے۔موجود ایٹمی قوتوں کی اجارہ داری کا کوئی جواز سرے سے نہیں ہے مگر منافقت کا عالم دیکھیں کہ اسرائیل بارے کبھی مذمت کا ایک لفظ بھی ادا نہیں ہوا جس کے پاس 200ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس اجارہ داری کا خاتمہ نہیں ہوتا۔
ان تمام دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایران کو تنظیم اور یگانگت کی ضرورت ہے مگر اس کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔ اپنی عسکری عادات اور عقائد کے مطابق ایرانی ملائوں نے سیستانی…عراقی شطرنج کی باریش ایرانی ملکہ … اور دیگر شیعہ جماعتوں کو مزاحمتی قوتوں کے خلاف صف آراء کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ تہران سے دمشق تک، براستہ بصرہ و بغداد،ایک ایسا اتحاد جو فرقہ وارانہ بنیاد پر نہ ہو، دراصل فرقہ وارانہ تضاد میں بھی کمی کا باعث بنے گا اور ایران کی حیثیت بھی مستحکم ہوگی۔ ایران کا حالیہ ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے کہ جب اس کا واسطہ سامراجی تکبر سے ہوتا ہے تو اس کے حکمران ادارے نا اہلی کے علاوہ کسی بھی چیز کا ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ہاں البتہ حالات ممکن ہے ایرانی قیادت کو ایسے فیصلے لینے پر مجبور کر دیں جن سے وہ ہنوز دامن بچاتے رہتے ہیں۔ مغربی دھمکیوں کے نتیجے میں ہتھیار ڈال دینا باوقار قومی شعور کے پیش نظر اتنا آسان نہ ہوگا۔ سرحد پار شیعہ ہجوم اور ملیشیا کو مغربی قابض فوجوں کے خلاف لڑانا ایسا مشکل ثابت نہیں ہوگا۔ آج سفارتی عملے کے مقابلے پر ایران کے پاس کہیں زیادہ اہم مغوی موجود ہیں۔ اگر ایران نے حوصلہ نہ ہارا تو پینٹاگون اور اس کے آلہ کاروں کا حملہ ممکن نہیں ہے۔
منظر نامہ:
مشرقِ وسطیٰ میں جو بحران 2001ء میں شروع ہوا تھا اس کا اختتام ابھی نظر نہیں آرہا، ہم شاید زیادہ سے زیادہ اس بحران کے خاتمے کی طرف جاتے ہوئے راستے کے وسط میں ہیں۔ نئی قوتیں اور نئے چہرے سامنے آرہے ہیں۔ ان سب میں ایک چیز مشترک ہے۔ مقتدیٰ،ہانیہ، نصراللہ، احمدی نژاد: ان سب نے اپنے اپنے علاقوں میں بغداد اور بصرہ، غزہ اور جنین، بیروت اور سیدون،تہران اورشیزار میں شہر کے غریب لوگوں کو منظم کیا۔ یہ شہر کے مضافات تھے کہ جہاں حماس، حزب اللہ، الصدر بریگیڈ اور بزج کی بنیادیں موجود ہیں۔ ان کا موازنہ اگر ہریری، شلابی، کرزئی اور علاوی ایسے لوگوں سے کیا جائے__ سب کے سب بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے ارب پتی، بد عنوان، بینکار، سی آئی اے کے آلہ کار جن پر مغرب انحصار کرتا ہے__ تو فرق بہت واضح ہے۔ تیل کی دولت سے گھری عہد حاضرکے افتاد گان خاک کی غریب بستیوں اور کچی گلیوں میں نئی ہوا چل رہی ہے۔ یہ ریڈیکل ازم جب تک مذہب کے اثر میں رہے گی تب تک محدود رہے گی، سامراجی گماشتگی اور لالچ کے مقابلے پر خیرات اور یکجہتی کے جذبات یقینا افضل ہیں لیکن صرف اس وقت تک جب ان کا مقصد سماجی ضروریات کی تکمیل ہو نہ کہ تعمیر نو۔ جلد یا بدیر یہ موجودہ نظام کا شکار بن جائیں گے۔ شاویز یا مورالس ایسے رہنما ابھی سامنے نہیں آئے جو قومی اور فرقہ وارانہ تضادات سے ماورا تصورات پیش کرتے ہوئے ایک ایسی علاقائی یکجہتی کو جنم دیں جو اعتماد سے اپنا اظہار کر سکے، تہران کے سابق میئر کے باعث اس وقت تہران میں بولیوار کا مجسمہ نصب ہو چکا ہے۔ پورے خطے کو ایسے ہی جذبے کی ضرورت ہے۔
دریں اثناء اجارہ دار کا بنایا نظام اپنی جگہ موجود ہے۔ موجودہ شورش مشرقِ وسطیٰ کے ان علاقوں میں بپاہے جہاں گزشتہ تقریبا بیس سال سے امریکہ گھس بیٹھ کر نے میں ناکام رہا: مغربی کنارہ،بعث وادی عراق، خمینی کا ایران۔ امریکہ کے اصل قلعے کہیں اور واقع ہیں:مصر،سعودی عرب، خلیجی ریاستیں اور اردن۔ان ممالک میں امریکی آلۂ کار کسی بھی مسئلے پر امریکہ سے تعاون پر تیار ہیں ادھر یورپ اور جاپان ایران اور فلسطین کے مسئلے پر پوری طرح امریکہ کے ساتھ ہیں جبکہ روس، چین اور بھارت زیادہ مسائل پیدا نہیں کرتے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ سامراج کے دن گنے جاچکے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں ہیوگو شاویز نے ہر براعظم کے اہم ملک کادورہ کیا۔ بعض مقامات پر تو انہوں نے اپنے میزبانو ں کو اپنے اس مطالبے سے شرمندہ بھی کیا کہ سامراج کے خلاف عالمگیر محاذ بنایا جائے۔ الجزیرہ ٹی وی پر ان کے گھنٹہ بھر لمبے انٹرویو کا 26ملین ناظرین پر زبردست اثر ہوا، الجزیرہ کو اتنے ای میل آئے کہ کبھی نہ آئے تھے__ ہزاروں کی تعداد میں__ اور اکثر ای میل کرنے والے ایک سادہ سا سوال پوچھ رہے تھے:عرب دنیا اندرکوئی شاویز کیوں پیدا نہیں ہوتا؟
Graham Usher The New Hamas MERIP 21 Aug2005.
2004ء کے اختتام تک اسرائیلی ڈیتھ اسکواڈ اور گن شپ ہیلی کاپٹر حماس کی قیادت کرنے والے اکثر رہنمائوں ___شیخ یٰسین، عبدالعزیز رنتیسی، ابراہیم مقدمے، عدنان خول، شیخ خلیل__ کو ہلاک کر چکی تھی جبکہ محمد دیف،محمد ظاہر کے علاوہ غالباً خالد مشعل اور موسیٰ ابومرزک پر بھی دمشق پر جان لیوا حملے ہوئے۔
Yediot Aharonot,12 August 1993’ cited in Khaled Hrouv, Hamas;Political Thought and Practice, Washington the 2000.
امید افزا امکانات کے لئے دیکھئے حسین آغا اور رابرٹ کے مالے: اب جب کہ بوجھ حماس کے کندھوں پر آن پڑا ہے امریکہ اور اسرائیل اپنے مقاصد اس سے کہیں کم قیمت پر حاصل کر سکتے ہیں جو گزشتہ حکومت کی صورت چکانی پڑتی……اس صورتحال سے جس رہنما کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہو گا وہ ہیں صدر عباس… وہ ایسی مرکزی شخصیت بن گئے ہیں جن پر ہر بات کا دارومدار ہے:اسلام پرستوں کو بیرونی دنیا سے رابطے کے لئے ان کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کی نظروں میں وہ فلسطینی منظر نامے پر مذاکرات کے لئے قابل بھروسہ اور بہتر شخصیت ہوں گے، امریکہ اور یورپ ان کے ذریعے فلسطینیوں سے قطع تعلق کئے بغیر حماس سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ بحوالہ:
Hamas: The Perils of Power
از: نیویارک ریویو آف بکس9مارچ2006ء
ریاض میں شاہ فہد کی تجہیزوتکفین کے موقع پر لی گئی ایک تصویر میں عباس،علاوی اور کرزئی بعض معزز غمگساروں کے قدموں میں یوں بیٹھے ہیں گویا ہالی وڈ کی فلم تھری سٹوجز کی ری میک کے لئے آڈیشن دینے آئے ہوں۔
70-60ء کی دہائیوں میں جب فلسطینی اخوان المسلمین کی سیکولر حریف پی ایل او کو اردن میں کچلا جارہا تھا اور پی ایل او بیروت کی طرف ہجرت پر مجبور ہورہی تھی ان دنوں اخوان المسلمین خاموش کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی اور جواز اس کا یہ تھا کہ وہ لادین سیکولر کارکنوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ جب نوے کی دہائی میں سیکولر قیادت غیر مقبول ہو کر رہ گئی تو حماس نے اسلام کا چوغہ اتارے بغیر قوم پرستی کا ورد تیز کر دیا۔
دیکھئے
Virginia Tilley,The One State Solution, Ann Arbor and Manchester 2005
نیو لیفٹ ریویو کے خیال میںپائیدار دو ریاستی حل کس طرح ممکن ہے یہ جاننے کے لئے دیکھئے:
''Scurrying Towards Bethlehem'' by Perry Anderson
''Redividing Palestine" by Guy Mandron
''Redividing Palestine'' by Gabriel Piterberg
"Errasures," by Yitzhak Loar
Tears of Zion, NLR no 10 July-aug 2001
بشر الاسد نے برطانوی میڈیکل سکول میں تربیت حاصل کی تھی۔ توقع یہ تھی کہ وہ بھی مبارک اور قذافی کے بیٹوں کی طرح آسانی سے رام ہو جائیں گے دونوں اس وقت مغرب کی مٹھی میں ہیں مگر اسد نے اپنے والد کی روایات کو دامن سے لگایا تو مغرب کو سخت مایوس ہوئی۔
تفصیلات کے لئے دیکھئے:
Flynt Leverett, Inheriting Syria
تفصیلات کے لئے اکتوبر2005ء میں آنے والی رفیق ہریری کے قتل بارے اقوام متحدہ کی رپورٹ جسے دیتلیو مہلی نے مرتب کیا۔ جمبلات__ جوآج کل خوب مغرب نوازی پر اترے ہوئے ہیں__ دروز قبائل کے رہنما ہیں۔
ساچی اینڈ ساچی نے ’فریڈم اسکوائر‘ ریلیاں منظم کرنے میں مدد دی، ’’اسپرٹ آف امریکہ‘‘ نے جہاں سینڈوچ اور جھنڈے مہیا کئے وہاں ڈرامائی تاثر پیدا کرنے میں بھی مدد دی۔ اس مقصد کے لئے علاوہ اور چیزوں کے ایک بہت بڑا فریڈم کلاک بھی شامل تھا۔ اس فریڈم کلاک پر ’’کاونٹ ڈاون ٹو لبرٹی‘‘ جاری تھا۔ تاش کے ایسے پیکٹ بانٹے گئے جن میں پتوں پر مطلوب افراد کی تصاویر ہوتیں۔ یہ افراد یقیناً شام کے مختلف اہل کار تھے۔ پتوں پر مطلوب افراد کی تصاویر کا کھیل اسرائیلی اخبار ماریو(Maariv)نے فلسطینی افراد کی تصاویر سے شروع کیا تھا۔ بعد ازاں امریکی افواج نے عراق میں جب یہ حرکت کی تو اس کام کو پوری دنیا میں شہرت حاصل ہوئی۔
حالیہ بحران کے دوران حزب اختلاف کے مختلف گروہوں نے اسد حکومت کو یہ پیشکش کی تھی مغرب کا مقابلہ کرنے کے لئے ملکی دفاع کے پیش نظر قومی حکومت تشکیل دی جائے جس کے بعد انتخابات ہوں جبکہ انتخابات میں بعث پارٹی کو ہی برتر حیثیت حاصل رہے گی۔ بعث قیادت نے یہ پیشکش مسترد کرتے ہوئے اندرونی محاذ پر جبر اور بیرونی محاذ پر چالبازی سے کام چلانے کا فیصلہ کیا۔
مشرقِ وسطیٰ کے لئے سی آئی اے کے سابق چیف رئیول مارک گریشت بھی اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون کا آغاز وہ یوں کرتے ہیں ’1967ء میںچھ روزہ جنگ میں جمال عبدالناصر کے اتحاد کی اسرائیل کے ہاتھوں شکست کے بعد عرب تاریخ کا اہم ترین واقعہ 30جنوری کو ہونیوالے عراقی انتخابات ہیں‘۔ اس کے بعد وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:۔ ’آیت اللہ سیستانی کی صحت، اثرورسوخ اور بھلائی کے لئے روزانہ دعا مانگیں۔ یہ بات انتہائی مبارک ہے کہ سیستانی اور ان کے ماننے والے جدید مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا بہت سے امریکی اور یورپی لبرل حضرات سے بہتر ادراک رکھتے ہیں‘۔ بحوالہ:
''Birth of a democracy,'' in Gary Rosen, ed.
The Right War: The Conservative Debate on Iraq Cambridge 2005,p237-243
بائیں بازو کا تنقیدی نقطہ نظر جانتا چاہتے ہیں تو دیکھئے:
Iran Bulletin, series ii.no.3
ایران میں طبقاتی تفریق کو فلمی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو جعفر پناہی کی فلم Crimson Gold (2003ء) دیکھئے۔ اس کا سکرپٹ عباس قیارستمی نے تحریر کیا ہے۔ یہ فلم خاتمی دور حکومت میں پابندی کا شکار تھی۔ کیا خاتمی کے جانشین کے دور میں پناہی کی نئی فلم’’ آف سائیڈ‘‘ جو خواتین اور فٹ بال بارے ہے، کا مقدر بھی یہی ہوگا؟
یہودیوں کے قتل عام کا انکار جو بنیاد پرستانہ ثقافت کا مروجہ اظہار، جہالت اور حماقت کی نشانی ہے، اس کی پہلی مثال ہے۔ یوروامریکی غضب__ فرانس کی سوشلسٹ پارٹی کے فابیاس تو اس حد تک گئے کہ احمدی نژاد کی نقل و حمل پر عالمی پابندی کا مطالبہ کر ڈالا__ محض دیگ کا ایک دانہ ہے۔ ایران نے کسی قتل عام میں حصہ نہیں لیا۔ ترکی البتہ اس قتل عام کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں جو اس نے کیاتھا مگر یورپ کی مہربان آنکھ مجال ہے جو پھڑک جائے، سچ تو یہ ہے کہ ملٹی کلچرل ازم کے نام پر یورپ میں ترکی کی جلد شمولیت ایک اہم مقصد بن گیا ہے۔ کیا ہے کہ آرمینا اسرائیل نہیں لہٰذا کسے پروا ہے؟
لندن
مارچ 2006ء