عراق پر امریکی قبضہ اس ملک کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ اور اکسویں صدی کیلئے منحوس آغاز ہے۔
ادھر مغرب میں اس کے باعث ایسی بحثوں کا آغاز ہوگیا ہے، جو کسی شائستہ معاشرے میں کرنا ناممکن ہو چکا تھا۔ یہ بحثیں ہیں: سلطنت اور سامراج، تہذیبیں اور بے چینی، سرمایہ داری اور اس کے مختلف مراحل، یورپ بمقابلہ امریکہ۔ اور ہاں! ایک بات ایسی ہے جس کا اندازہ شائد کسی کو بھی نہیں کہ امریکی ورجل، جس کی اس عیسائی معاشرے میں گہری ’جڑیں ہیں‘ اس وقت پوری جانفشانی سے سامراجی بادشاہ (جارجیکس دوبیا؟) کی شان میں پڑھی جا رہی ہے۔ اس حمد کا خاتمہ ان الفاظ پر ہو سکتا ہے:
عظیم سیرز نے توپ چلائی اور فرات کو دور تک فتح کر لیا۔
لٹل سیزر بھی فرات کو دور تک فتح کر چکا ہے مگر سرمایہ داری کے عہد میں۔ سرمایہ داری اپنا اصل کھو چکی ہے۔ اس کے مقدر میں لکھا ہے کہ ماضی ایک بار پھر سے دہرایا جائے مگر نئے انداز میں۔ یہ کوئی بات نہیں کہ امریکہ کی شکل میں کوئی سلطنت موجود ہے۔ نئی بات یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہی سلطنت کا دنیا پر غلبہ ہو گیا ہے۔ ایسی صورت حال تو 1990ء میں ہی سامنے آگئی تھی البتہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کیلئے خوب صورت اصلاحات استعمال کی جارہی تھیں:’ینو ورلڈ آرڈر‘، ’پیس ڈیویڈنڈ‘٭
’بحرِاوقیانوس سے لیکر ارالز تک ایٹمی ہتھیاروں سے پاک یورپ‘، وغیرہ وغیرہ۔ یہ خوش کن نعرے امریکی یورپین اتحاد کیلئے خوش گوار بنیاد فراہم کرتے تھے۔ چند سال بعد جب ایک مرتبہ پھر ’تمام ظالموں کے خاتمے‘ کی ضرورت پڑی تو امریکی یورپین اتحاد پر، جو ’عالمی برادری‘کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے، کوئی آنچ نہ آئی۔ جنگ یوگو سلاویہ سے قبل اور بعد میں بھی اختلافات ابھرے مگر یہ اختلافات نجی محفلوں تک محدود رہے۔ عراق پر قبضے کا فیصلہ ہوا تو ویت نام جنگ (1960-75ء) کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ حکمرانوں اورمحکوموں، شمال اور جنوب کے مابین اس قدر شدید تنائو پیدا ہوا، اس قدر شدید غصے کا اظہار ہوا۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ مغربی یورپ کی حکومتوں کو اب یہ احساس ہوا ہو کہ منرو ڈاکٹرائن کا دائرہ کار پوری دنیا تک وسیع کر دیا گیا ہے۔103
موجودہ امریکی پالیسیوں کے اکیڈیمک اور اخباری عذر خواہ (جو عموماً ایک ہی ہوتے ہیں) یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ دنیا میں استحکام کا یہی واحد راستہ ہے اور آمریت کو اگر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر نا ہے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کسی مقامی آمر کی آمریت سے بہتر ہے کہ امریکی عملداری قبول کرلی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عمل داری قبول کرنے کے نتیجے میں اگر کہیں نوازشات کی بارش ہوئی ہے تو اس کی مثال صرف مغربی یورپ میں ملتی ہے۔ باقی کہیں نہیں۔ اس حقیقت سے انکار دراصل بیسویں صدی کی تاریخ سے انکار کے مترادف ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے یہ کہتے ہوئے پوری دنیا کی نمائندگی کی تھی کہ ’دنیا میں تشدد کا سب سے بڑا ٹھیکیدار میرا اپنا ملک ہے‘۔104یہ تشدد انقلاب روس سے قبل شروع ہوا، انقلاب روس کے دورِ عروج کے دوران جاری رہا اور انقلاب کی زوال پزیری کے بعد بھی پوری بیسویں صدی کے دوران جاری رہا۔ اس تشدد کو عراق پر قبضے کے ذریعے بپتسمہدیا گیا ہے۔ امریکہ میں چونکہ سرکاری سطح پر اس بات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ تاریخ کو فراموش کیا جائے لہٰذا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پالیسی سازوں نے عراق کے ماضی پر بھی دھیان نہ دیا اور یہ تصور کر لیا کہ ان کو عراق پہنچنے پر ’آزادی بخش‘ دستوں کے طورپر خوش آمدید کہاجائے گا۔ یہاں یہ مناسب رہے گا اگر گزشتہ صدی کے دوسرے نصف میں ہونے والی امریکی جارحیت کی مثالوں کا حساب کتاب پیش کیا جائے۔ اس قتل وغارت کا آغاز تو جاپان کے شہروں پر ایٹمی ہتھیار گرانے سے ہوا جس کا مقصد سوویت شہروں پر روس کو تنبیہ کرنا بھی تھا۔
٭ہیروشیما اور ناگاسا کی پرایٹم بم گرائے گئے۔ جانی نقصان: 2,00,000۔ بعد میں مرتب ہونے والے اثرات سے اموات: اعداد وشمار مرتب نہیں کئے گئے۔
٭جنگ کوریا (1950-53) کے دوران شمالی کوریا کی ہر عمارت گرا دی گئی تاکہ اس خطے کا انفرا سٹرکچر تباہ کر دیا جائے۔ کوریا (جنوبی وشمالی) کاجانی نقصان :900,000
٭1965ء اندر انڈونیشیا میں قتلِ عام جسے امریکی خفیہ اداروں کی حمایت حاصل تھی جبکہ قتل عام امریکہ نواز فوجی جرنیلوں نے کیا: جانی نقصان: دس لاکھ سے زائد
٭1960-75ء جنگ ویت نام جس کے دوران کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے جبکہ ایجنٹ اورنج کے اثرات اس ملک میں آج بھی پائے جاتے ہیں جانی نقصان: 50,000امریکی فوجی، بیس لاکھ ویت نامی
٭1990ء تیل کی تیسری جنگ، جانی نقصان: 50,000تا100,000 عراقی فوجی ہلاک ہوئے
٭عراق پر پابندیوں کے اثرات۔ جانی نقصان:لگ بھگ دس لاکھ اموات
٭2003ء میں عراق کے خلاف جنگ۔ جانی نقصان تادمِ تحریر جاری ہے۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے دوران امریکی عمل داری میں چلنے والی ریاستیں وہ تھیں جہاں بدترین آمریتیں مسلط تھیں۔ آمریتوں کی سرپرستی محض سرد جنگ کی بری عادت نہیں جیسا کہ بعض عذر خواہ کہتے سنائی دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ لینن کے بالشویکوں کی کامیابی سے کہیں پہلے منرو ڈاکٹرائن کے مطابق امریکہ بہادر وسطی امریکی ریاستوں میں مداخلت کر رہا تھا اور ان ممالک کو امریکی کارپوریٹ مفادات کیلئے محفوظ مقام بنا رہا تھا۔
1953: تیل کو قومی ملکیت میں لینے کی سزا دینے کیلئے سی آئی اے نے ایران کے جمہوری صدر محمد مصدق کوسی آئی اے کی مدد سے اقتدار سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ شاہ ایران کو بحال کر دیا جاتا ہے۔ حزب مخالف پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں البتہ مساجد کو بند کرنا ممکن نہیں۔ مساجد کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ نتیجتاً مساجد حکومت مخالف مزاحمت کا گڑھ بن جاتی ہیں۔
1958: اس خدشے کے پیش نظر کہ عام انتخابات کے نتیجے میں قوم پرست حکومت برسراقتدار آسکتی ہے، سی آئی اے/ ڈی آئی اے پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت کی منظوری دیتے ہیں۔ ایک دہائی پر مشتمل فوجی حکومت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ملک 1971ء میں دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔
1964: امریکی سفیر لنکن گورڈن برازیل میں اقتدار پر فوج کے قبضے کا منصوبہ تشکیل دیتے ہیں۔ صدر خائو گولارت جلاوطنی میں چلے جاتے ہیں۔ رئیوڈی جنیرو کی دیواروں پر ایک نعرہ نمودار ہوتا ہے: ’مزید گماشتے نامنظور، لنکن گورڈن برائے صدر‘۔ بائیں بازو کے کارکنوں اور ٹریڈ یونین والوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور جبروتشدد۔
1967: سی آئی اے کے کل پرزوں کی زیر نگرانی ایک قیدی کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ قیدی کا نام چے گویرا ہے۔
1973: امریکہ چلی میں جنرل پنوشے کی بغاوت کی منظوری دیتا ہے۔ منتخب جمہوری صدر سلوا دور الاندے لڑتے ہوئے جان دے دیتے ہیں۔ وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اورقتل وغارت۔ کمیونسٹ پارٹیوں، کسان تنظیموں اور بائیں بازو کے دیگر گروہوں سے تعلق رکھنے والے 6000سے 10,000 کارکن ’لاپتہ‘ ہو جاتے ہیں۔
1975: اس خدشے کے پیش نظر کہ پرتگال کی واپسی کے بعد مشرقی تیمور کو قومی آزادی حاصل ہو جائے گی، امریکہ بہادر مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کے قبضے کی منظور دیتا ہے۔ 1989ء تک 200,000شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ ہزاروں جیل میں بیٹھے ہیں۔ غلام داری نظام تشکیل دیکر ملک کو لوٹ کر برباد کر دیا جاتا ہے۔
1975: امریکہ ارجنٹینا میں فوجی بغاوت کی منظوری دیتا ہے۔ جنرل ودیلا اعلان کرتا ہے کہ اصل دشمن گھر کے اندر ہے اور اندرونی تطہیر ضروری ہے۔
1977: ڈی آئی اے پاکستان میں ایک نئی فوجی بغاوت کی منظوری دیتا ہے۔ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم پر قتل کا مقدمہ چلا کر پھانسی دیدی جاتی ہے۔ سرعام پھانسیاں اور کوڑے ملکی کلچر کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں جبکہ نئے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو خوب اہمیت دی جاتی ہے کہ افغان جنگ کے لئے جنرل ضیاء کی خدمات ضروری ہیں۔ آج اس خطے کو تباہ کرتے ہوئے بنیاد پرست گروہ اور القاعدہ کی بنیاد انہی دنوں رکھی گئی۔
1979: عراقی رہنما صدام حسین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کئے جاتے ہیں۔ ایران سے جنگ کے دوران صدام حسین کو اسلحہ بھی فراہم کیاجاتا ہے اور حمایت بھی۔ اس دوران صدام حسین ایک کرد گائوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ قریبی تعلقات 1990ء میں کویت پر عراقی چڑھائی تک قائم رہتے ہیں۔
1987: امریکی چھوٹے سے کیئربین جزیرے گریناڈا پر قبضہ کر لیتے ہیں جبکہ گریناڈا حکومت کی سربراہ (ملکۂ برطانیہ) اس بات پر خفا ہیں کہ انہیں بتایا تک نہیں گیا۔ ریگن کے سیکرٹری آف اسٹیٹ جارج شلز گریناڈا پہنچ کر بیان دیتے ہیں: ’پہلی ہی نظر میں مجھے سمجھ آگئی کہ یہ جزیرہ شاندار رئیل اسٹیٹ پراجیکٹ ثابت ہو سکتا ہے‘۔
1984: جمہوری طور پر منتخب ہونیوالی ساندانستا حکومت کوگرانے کیلئے امریکی حکومت، بغیر کانگرس کو اعتماد میں لئے، کانٹرا باغیوں کو مسلح کرنا شروع کردیتی ہے تاکہ خانہ جنگی شروع کرائی جاسکے۔ رونالڈ ریگن سینٹ لیوک (14:31) کا حوالہ دیتے ہوئے ’برائی کی سلطنت‘ سے جنگ کے لئے پیسہ طلب کرتے ہیں۔
1990: جنگ خلیج، ’پرندے کا شکار‘ کرتے ہوئے پسپا ہوتی عراقی فوج کا قتلِ عام، عراق کے سماجی ڈھانچے کی مکمل تباہی، اقوام متحدہ کی مجرمانہ پابندیوں کے ذریعے عراقی عوام پر منصوبہ بندی کے تحت حملے ۔
1999: یوگوسلاویہ کے خلاف ناٹو جنگ
2002: وینزویلا میں ہیوگوشاویز کی حکومت گرانے کیلئے ہسپانوی امریکی پشت پناہی سے بغاوت، تمام ٹی وی نیٹ ورکس اور پریس کے بڑے حصے کی مخالفت کے باوجود شاویز سات مختلف انتخابات اور ریفرنڈم جیت چکے ہیں۔ سپاہیوں اور غریبوں کی مخالفت کے باعث بغاوت ناکام ہو جاتی ہے۔
2003: عراق پر اینگلو امریکی جارحیت اورقبضہ
1944ء کے بعد ہونیوالی امریکی سامراجی مداخلتوں کا یہ ادھورا سا جدول ہے۔ اس سے سرمایہ دار دنیا کے رہنما کے روپ میں بغیر جدوجہد کے امریکی عروج کا پتہ بھی چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کمیونسٹ مخالفین سمیت ایسی حکومتوںکو بھی کمزور اور تباہ کرنے پر تلا ہوا تھا جو سرد جنگ کے دوران امریکہ کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ ایسی قوم پرست شخصیات میں ہم نہرو، ناصر، نکرومہ، لوممبا، سائیکارنویا لاطینی امریکہ سے پیرون، گولارت، الاندے اور تازہ مثال ہیوگو شاویز کی دے سکتے ہیں۔105
انیسویں صدی کے آخری پچیس سال اوربیسویں صدی کا پہلا نصف، یورپی اور جاپانی سلطنتوں کا دور تھا۔ ان سلطنتوں میں اولیت برطانیہ کو حاصل تھی۔ اس کے بعد فرانس اور ہالینڈ کا نمبر تھا جبکہ بعدازاں یہ جگہ جاپان اور جرمنی نے لے لی۔106
پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی منطق اس وقت تک سمجھ نہیں آسکتی جب تک سامراج کی تاریخ اور اس عہد کی سامراجی تضادات کو نہ سمجھ لیا جائے۔ تمام تر نعرہ بازی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ دونوں جنگیں نہ تو ’جمہوریت‘ کے دفاع میں لڑی گئیں تھیں نہ ہی ’آمریت‘ کے خلاف۔ پہلی عالمی جنگ میں تو جمہوریت کو کوئی عمل دخل ہی نہیں ہو سکتا کہ جنگ میں شریک اکثر ممالک میں تو بالغ رائے دہی کا اصول ہی لاگو نہ تھا جبکہ زار شاہی روس اور سلطنتِ عثمانیہ میں تو جمہوریت تھی ہی نہیں۔ پہلی عالمی جنگ سامراجی طاقتوں کے مابین جنگ تھی جس کا مقصد یہ طے کرنا تھا کہ کس یورپی طاقت کو دنیا پر بالا دستی حاصل ہوگی۔ اس جنگ کی وجہ سامراجی دنیا کے باہمی تضادات تھے۔ اس جنگ کی بنیاد لالچ تھا۔ تمام سامراجی طاقتیں اس بات پر تو متفق تھیں کہ یورپ کو مزید ’جگہ‘ کی ضرورت ہے مگر یہ طے نہ ہو رہا تھا کہ کون کتنی جگہ اور کس براعظم پر تسلط جمائے گا۔
جنگ سے کئی دہائیاں قبل ’نوآبادیاتی مسئلہ‘ یورپی سوشلسٹ جماعتوں کے اندر ز یر بحث رہا۔ اس سوال پر ابتدائی موقف تو کسی ابہام کا شکار نہ تھا۔ 1896ء میں ہونے والی دوسری انٹرنیشنل کی کانگرس میں برطانوی انڈیپنڈینٹ لیبر پارٹی کے جارج لانزبری کی یہ قرار داد منظور کی گئی کہ ’تمام محکوم قوموں کو حق آزادی دیا جائے‘ اور کانگرس نے استعماری نظام کی ایسے بے باک الفاظ میں مخالفت کی گئی کہ اس کی مثال نہیں ملتی: ’استعماری پالیسی کو مذہب کا نقاب پہنایا جائے یا تہذیب کا، اس کا مقصد بہرحال یہی ہے کہ سرمایہ دار طبقے کی سرمایہ دارانہ لوٹ مار کو توسیع دی جائے‘۔ قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔
تین سال بعد سلطنت برطانیہ نے جنوبی افریقہ میں جمہوریہ بائیر کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ جنگ کا انعام تھا اس خطے میں موجود سونے کی کانیں۔ یہ جنگ ایک طرح سے پہلی عالمی جنگ کی نقیب تھی۔ بائیر کے باسی ولندیزی آباد کار تھے اور علاقے پر ان کا اتنا ہی استعماری ’حق‘ تھا جتنا کسی اور استعماری طاقت کا۔ طرفین نے مقامی آبادی کے مفادات پر کوئی توجہ نہ دی۔ برطانوی سوشلسٹ ان اطلاعات پر حیران پریشان رہ گئے کہ کس طرح بائیر قیدیوں کو برطانوی عقوبت خانوں میں رکھا گیا۔ ان لوگوں نے مظاہرے کئے اوراپنے اخبار میں جنگ کی پر زور مذمت کی۔
یہ نقطۂ نظر بہرحال متفقہ نقطۂ نظر نہ تھا۔ فیبین سوسائٹی نے جنگ کی حمایت بھی کی اور قبضے کی بھی۔ اس سوسائٹی کے سرکردہ رہنما ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شا تھے۔ برنارڈ شا نے جنگ کے حق میں بڑے بڑے دعوئے کئے۔ برنارڈ شا کا کہنا تھا کہ جنگ کا مقصد غلاحی کاخاتمہ اور ممکنہ قتلِ عام کو روکنا تھا، اس کا مقصد مقامی ٹرانسوال آبادی کا تحفظ تھا، برطانیہ کا دفاع ضروری ہے کیونکہ ’ایک عظیم سلطنت کو شعوری یا لاشعوری طورپر تہذیب کے عمومی مفاد میں حکومت کرنا ہی پڑتی ہے‘ اور ہر وہ ریاست، چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی، ’جوعالمی تہذیب کے پھیلائو میں رکاوٹ بن رہی ہو، اس کا خاتمہ ضوری ہے‘۔107
یہ فیبین روایت نئی تشکیل دی جانے والی لیبر پارٹی کوتفویض کر دی گئی۔ لیبر پارٹی جب بھی برسرِ اقتدار آئی، اس نے سلطنت برطانیہ کو محفوظ نبانے کیلئے خدمات سرانجام دیں۔
اسی قسم کی صورتِ حال جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی جنم لے رہی تھی۔ اس پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما ایڈورڈ برنسٹائن نے ایک کتاب لکھی جس میں پارٹی کی اس حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ سامراج اور استعمار کا ہر عمل ’سوشل ڈیموکریسی کے اجتماعی اصولوں‘ کی نفی ہے۔108 برطانوی فیبین وادیوں کی طرح برنسٹائن نے بھی دلیل دی کہ ’جب ہم فصل کھا رہے ہیں تو فصل کے بونے میں کیا مضائقہ ہے‘۔ جہاں تک وحشیوں کا اپنی زمین پر حق کا تعلق ہے تو یہ ’حق بلا شرائط‘ نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ’افضل ثقافت کا حق ہی افضل ہوتا ہے۔ اہمیت زمین پر قبضے کی نہیں بلکہ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ زمین کو جوت کون رہا ہے۔ اسی عمل سے زمین کے مالک کو تاریخی و قانونی جواز حاصل ہوتا ہے، یہ نقطۂ نظر خاصا مقبول تھا۔ برنسٹائن کو گستاف نوسکی، ماکس شپل، لُڈوِگ قُسل اور دیگر بہت سے ایسے جرمنوں کی حمایت حاصل ہوئی جو برطانوی فیبین وادیوں کی جرمن شکل تھے۔ کارل کاٹسکی اور دیگر ساتھیوں نے البتہ اس نظرئیے کو 1900ء میں مینز کانگرس کے موقع پر ردکیا۔ کانگرس میں شریک مندوبین کی اکثریت کا خیال تھا کہ ’سرمایہ کاری کے لئے نئے مواقع کی نہ ختم ہونے والی تلاش جہاں بورژوازی اپنے جمع ہوتے سرمائے کو لگا سکے اور نئی منڈیوں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ، کے نتیجے میں سامراج جنم لیتا ہے‘ مندوبین کا خیال تھا کہ وحشی درحقیقت استعماری لٹیرے ہیں جو مزید دولت کے لالچ میں اورمقامی آبادیوں پر ظلم و ستم توڑنے میں انسانیت کے ہر تقاضے کو بھلا کر وحشی بن جاتے ہیں۔
اسی سال پیرس میں دوسری انٹرنیشنل کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے روزالگسمبرگ نے ایک قرار داد پیش کی۔ اس قرار داد کو متفقہ طورپر منظور کرلیا گیا۔ روزا کی دلیل تھی کہ ملٹری ازم اور استعماریت عالمی سیاست اور معیشت میں ایک نئی صورتحال کا عکس تھے، ایک ایسے مظہر کا عکس ’جوگذشتہ چھ سالوں میں چارجنگوں کاباعث بنے ہیں اور یہ مظہر مستقل جنگ کا باعث بن سکتا ہے‘۔ روزا لگسمبرگ کی قرار داد میں ’بورژوازی اور حکومتوں کے اتحاد‘ کے خلاف ’مزدوروں اور محکوموں کے عالمگیر اتحاد‘ پر زور دیا گیا۔ ’دائمی امن‘ کے لئے لوگوں کو متحد کرنے کا فریضہ انٹرنیشنل سرانجام دے گی۔
یہ سب خوب صورت اصلاحات تھیں لیکن استعاریت کا شکار عوام کی مدد کے لئے عملی طورپر انٹرنیشنل کیا کرے گی؟ اس بابت اتفاق رائے موجود نہ تھا۔ اسے مسئلے پر قائم ہونے والا سپیشل کمیشن بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ کچھ کاخیال تھا کہ ’کسی ملک پر استعاری قبضہ لازمی طورپر برا نہیں ہوتا‘۔ چند لوگوں کا خیال تھا کہ ایسی نو آبادیات جو قبل از سرمایہ داری عہد میں (یعنی ساری نو آبادیات) زندہ ہیں، وہاں سرمایہ داری کی مقامی شکلوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ایک ’سوشلسٹ کلونیل پالیسی‘ کی وکالت کر رہے تھے۔ ایمسٹرڈیم میں ہونے والی ایک کانگرس میں برطانوی مندوب نے قرار داد پیش کی جس کا پہلا جملہ تھا: ’یہ کانگرس مہذب ممالک کے باسیوں کے اس حق کی حمایت کرتی ہے کہ وہ اُن ممالک میں آباد ہو سکتے ہیں جہاں عوام ابھی ارتقاء کے پست درجے پر ہیں۔ یہ کانگرس البتہ بات کی شدید مذمت کرتی ہے کہ …‘ وغیرہ وغیرہ۔
بہرحال کانگرس کے تمام مندوبین اس بات پر متفق تھے کہ نو آبادیات میں کسی حد تک سیلف گورنمنٹ ہونی چاہیے جبکہ ساری کانگرس نے کھڑے ہو کر، تالیاں بجاتے ہوئے اسی سالہ دادا بھائی نوروجی کا استقبال کیا جو حال ہی میں تشکیل دی گئی انڈین نیشنل کانگرس کے صدر تھے۔
اگر انٹرنیشنل کی قیادت کا یہ حال تھا تو یورپی مزدور تحریک کے عام کارکنوں سے کیا توقع کی جاسکتی تھی؟ نسل پرستی ہر سلطنت کا خاص ہتھیار ہوتا ہے۔ یہ زہر سامراجی ممالک میں دورتک پھیل چکا تھا اور دوسری انٹرنیشنل کانفرنس میں پیش کی گئی قرار دادوں میں تہذیب کے حوالے اس بات کا ثبوت ہیں۔ اس نسل پرستی کی بنیاد قبضے میں پنہاں ہے: ہم اس لئے نہیں جیتے کہ ہمارے پاس گیٹ لنگ گن تھی جبکہ اس کے پاس نہیں تھی بلکہ ہم اس لئے جیتے تھے/ ہیں کہ ہمارا تعلق برترنسل سے ہے۔ استعماری لمحے نے تاریخ کے باقی سارے وقت پر پردہ ڈال دیا۔ متحارب سلطنتوں کی پیش قدمی ہی زبانِ زدِعام کہانی بن کر رہ گئی۔ غیر ملکی سرزمین پر جھنڈا لہرانے کی دوڑ میں چینی، ہندوستانی اور اسلامی تہذیب کا ذکرہی فراموش کر دیا گیا۔ یہ وہ تہذیبیں تھیں جو یورپ میں سرمایہ داری کے جنم سے قبل معلوم دنیا کے بڑے حصے پر حکمران تھیں۔ سامراجی فتوحات جن میں کسانوں اورمزدوروں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا، پورا معاشرہ ان سے متاثرہوئے بنا بھلا کیسے رہ سکتا تھا؟
اس کا ایک ابتدائی اظہار 1907ء میں جرمنی میں ہونے والے ہوٹین ٹاٹ انتخابات تھے۔ رائستاخ میں موجود سوشلسٹ ارکان نے جنوب مغربی افریقہ میں جاری اس استعماری جنگ کے لئے بجٹ منظور کرنے سے انکار کر دیا جس کی قیادت جنرل وان ٹروتھا کر رہے تھے۔ مقامی ہیر یروز کی مزاحمت کو کچلنے کے لئے جنرل وان ٹرو تھانے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دئیے تھے۔109 قیصر کی جماعتوں نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے خلاف قومی شاونزم کا وہ طوفان کھڑا کیا کہ انتخابات میں وہ آدھی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھی (81سے کم ہو کر اس کی نشستیں 38 رہ گئیں) اور بہتر ٹرن آئوٹ کے باوجود اس کے ووٹوں کا تناسب تین فیصد کم ہوگیا۔ برنسٹائن، نوسکی اور ان کے دوستوں نے درست طور پر اس نقصان کی ذمہ داری افریقہ میں جاری جنگ سے متعلق موقف پر ڈالی۔ ان لوگوں نے ’منفی کلونیل پالیسی‘ کی مذمت کی اور حقیقت پسندانہ اور مثبت‘ رویئے کی وکالت کی۔ یہ اسی ’حقیقت پسندانہ اورمثبت‘ روئیے کا اظہار تھا کہ پارٹی نے اگست 1914ء میں جنگی کریڈٹ کے حق میں ووٹ دیا۔
جنگ میں شکست کے باعث جرمنی افریقی نو آبادیات سے ہاتھ دھو بیٹھا: تنزانیہ برطانیہ کا ’مینڈیٹ‘ قرار پایا جبکہ جنوب مغربی افریقہ کو یونین آف سائوتھ افریقہ کے حوالے کردیا گیا۔ امریکی مداخلت کے باعث سلطنت برطانیہ پہلی عالمی جنگ میں فاتح بن کر ابھری۔ اس کے شرق العرب میں اثرات کاجائزہ گذشتہ ابواب میں لیاجاچکا ہے۔
دوسری عالمی جنگ ایک طرح سے پہلی عالمی جنگ کا تسلسل تھا، یہ تو بالکل واضح تھا۔ ہٹلر مزید ’جگہ‘ کی بات کر رہاتھا اور مسلسل سلطنت برطانیہ پرلعن طعن کر رہا تھا۔ یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جنگ کا مقصد یہودیوں کو ’آزاد‘ کرانا ہر گز نہ تھا۔ اگر یہ مقصد تھا تو پھر ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ جنگ ہاری گئی تھی۔ اس جنگ میں فتح حاصل نہ ہوسکی تھی۔ جرمن فاشسٹ جنہیں کاہل بورژوازی اور زوال پذیر اشرافیہ نے بالشوزم کے خوف سے جرمن ریاست عطا کر دی تھی، مطالبہ کر رہے تھے کہ جرمنی کو عظیم طاقت تسلیم کیا جائے۔ ہٹلر برطانیہ اور فرانس کی مذمت کر رہا تھا کہ ان دونوں نے ’طاقت اور ڈاکہ زنی کے ذریعے ایک پوری دنیا ہتھیالی تھی‘ مگر وہ تیسری رائخ کو یہ حق دینے پر تیار نہ تھے۔
یہ بات برداشت نہیں کی جاسکتی ہے کہ 44,000,000 نفوس پر مشتمل برطانوی قوم اس کرہ ارض کے ساڑھے پندرہ ملین مربع میل کی مالک بن جائے۔ وہ یوں ظاہرکرتے ہیں گویا یہ زمین انہیں اللہ نے عطا کی ہے اور وہ اس سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں۔ اسی طرح 37,000,000نفوس پر مشتمل فرانسیسی قوم ساڑھے تین ملین مربع میل کی مالک ہے جبکہ 80,000,000افراد پر مبنی جرمن قوم صرف 230,000 مربع میل کی مالک ہے۔110
لہٰذا سامراج کے باہمی تضادات دوسری عالمی جنگ کے محرکات میں شامل تھے۔ ہٹلر کا اس بات پر اصرار کہ فرانس اسی جگہ ہتھیار ڈالے گا جہاں 1918ء میں جرمن ہائی کمانڈ کو ذلت سے دوچار ہونا پڑا تھا گویا ایک علامتی بدلہ تھا مگر اس بدلے کا مقصد یہ بھی تھاکہ فوج کے روایتی حلقے سے نازی حکومت کا رابطہ مربوط کیا جاسکے۔
سامراج کے مابین دوسری چپقلش نے نو آبادیاتی دنیا اندر انقلاب کے دروازے واکر دئیے۔
نو آبادیاتی نظام اگر اپنے انجام کو پہنچا تو اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ ساری نو آبادیاتی دنیا اندر مزاحمت بڑھ گئی تھی۔ اس مزاحمت کی مختلف شکلیں تھیں: مسلح جدوجہد ، عدم تشدد پر مبنی سول نافرمانی، ان دونوں طریقۂ کار کامرکب، قوم پرست سیاسی جماعتوں کا ظہور، وغیرہ وغیرہ۔ اس مزاحمت میں شدت کی ایک وجہ سماجی انقلابات تھے جن کا آغاز 1917ء میں روس سے ہوا اور آنے والی دہائیوں میں چین، کوریا، ویت نام اور کیوبا میں بھی انقلابات آئے۔ سرمایہ داری مخالف ان ریاستوں کا یہ بلاک وجود میں آنے سے ایک ایسا بلاک وجود میں آگیا جس کے کارن قوم پرست تحریکوں کو کچلنا آسان نہ رہا۔ چند استثنائوں کے سوا نو آبادیاتی دنیا کے قوم پرست رہنما معاشرے کی تعلیم یافتہ پرت سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ نے تو بیرون ملک برطانیہ، فرانس، پرتگال یا نیدرلینڈ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ جب یہ رہنما واپس لوٹے تو لبرل اور ترقی پسند خیالات بھی ساتھ لائے۔ سامراجی حکمرانوں کو بھی یہ احساس ہو گیا کہ اگر انہوں نے نسبتاً کم ترقی پسند قوم پرست رہنمائوں سے سمجھوتے بازی نہ کی تو اشتراکیوں کو کامیابی سے کوئی نہ روک پائے گا۔
جب ہوچی منہہ اورگاندھی میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنا پڑا تو برطانیہ نے گاندھی کا انتخاب کیا۔ فرانس آخری دم تک لڑتا رہا۔ ہندچینی اور بعد ازاں الجزائر میں فرانس کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا اس نے فرانسیسی معاشرے کو خوفزدہ کردیا۔ ولندیزی بھی انڈونیشیا چھوڑنے پر یا آسانی تیار نہ تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جب جاپان نے مغرب کی اوٹ پیش قدمی کی تو جنوب مشرقی ایشیا سے فرانس اور ہالینڈ کو نکلنا پڑا جبکہ قوم پرست مزاحمت کو تحریک ملی۔ جنگ کے بعد برطانیہ کی مدد سے ان دونوں طاقتوں نے واپس آنے کی کوشش کی مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ دنیا آگے نکل چکی تھی۔ یہ تھے وہ محرکات جن کے باعث نو آبادیاتی دور 1960ء کی دہائی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ سرمایہ دارانہ دنیا کے رہنما کے طورپر اس موقع پر امریکہ بہادر نے مداخلت کی تاکہ اس نظام کو مکمل تباہی سے بچایا جاسکے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں فوجی آمریتوں کا ایک جال بنا گیا جبکہ ناٹو کے دوسرے چشمے (یونان اورترکی) بھی فوجی جنتا کے ذریعے محفوظ بنائے گئے۔ ان آمریتوں کے خونی نمائندوں میں پنوشے، ویڈالا، سہارتو اورموبوتو کا نام آتا ہے مگر اس مختصر فہرست کا مقصد دیگر آمروں کی دل آزاری ہر گز بھی نہیں جنہوں نے امن برقرار رکھنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ان آمروں نے مزاحمت کو جبر کے ذریعے کچل ڈالا۔
مجھے امید ہے قارئین اس طویل تمہید کا برا نہیں منائیں گے۔ اس کا مقصد سیدھا سادہ تھا۔ عراق پر قبضہ نئی نسل کیلئے نئی بات ہے کیونکہ اس نسل کی اکثریت ایسے ممالک میں بسنے کی عادی نہیں جو دوسروں پر بزور بازو غلبہ جماتے ہیں۔ عراق پر قبضہ تو ایک لمبے تاریخی عمل کا حصہ ہے۔ یہ عمل بیسویں صدی کے ہاتھوں متاثر ہوا مگر اب یہ عمل پھر سے جاری ہو گیا ہے۔ بش نے شام اور ایران پر نظریں جما رکھی ہیں جبکہ لندن میں بش کے ڈپٹی شیرف کی رال زمبابوے اور برما (دوسابقہ برطانوی نو آبادیات) کو دیکھ کر ٹپک رہی ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں عراق پر حکومت کیسے کی جائے گی۔ سامراجی غلبے کے طریقہ ہائے کار خاصے محدود ہیں۔ لمبی تاریخ کے حامل مقامی لوگوں کی موجودگی مواقع اور بھی محدود کر دیتی ہے۔ عراق کے معاملے میں تاریخ کا دورانیہ تین ہزار سال پر مشتمل ہے۔ امریکہ یا آسٹریلیا کی طرز پر قتل عام ممکن نہیں گو ایسے میڈیا پنڈتوں کی کمی نہیں جو ایسے کسی بھی قتلِ عام کا جواز ڈھونڈ نکالیں گے۔111 انیسویں اور بیسویں صدی کے یورپی اور امریکی سامراج میں فرق یہ ہے کہ ثانی الذکر بلاواسطہ حکومت کو ترجیح دیتا تھا۔ حتیٰ کہ جہاں اس نے بڑی جنگیں لڑی، کوریا، ویت نام، انگولا، افغانستان، وہاں بھی براہ راست حکومت کرنے کی بجائے امریکی سامراج نے انقلاب کے خطرے سے دوچار مقامی حکومت کا دفاع کیا۔ جس طرز کا سول نظام برطانیہ نے ہندوستان میں تشکیل دیکر اسے پروان چڑھایا، واشنگٹن نے اس طرز کو نہیں اپنایا۔ اگر کبھی انہوں نے کسی ملک پر قبضہ جمایا تو پھر بے رحمی میں امریکی کسی طورپر فرانسیسی یا ولندیزی قابضین سے کم ثابت نہ ہوئے۔ کیوبا اور فلپائن کی مثال اس ضمن میں کافی ہے۔
کیوبا میں امریکہ نے اہل ہسپانیہ کو شکست دینے میں مدد دی، چار سال وہاںرہا، اس جزیرے کی معیشت کو اپنی مٹھی میں لیا اور واپس چلا آیا۔ اپنے پیچھے امریکہ ایک نیم آزاد جمہوریہ اور گوانتا نامو میں فوجی اڈہ چھوڑ آیا۔ یہ اڈہ آج کل امریکی جیل اور عقوبت خانے کے طورپر استعمال ہو رہاہے۔
فلپائن پر امریکی قبضے اور اسے نو آبادی بنانے کے جو اثرات فلپائنی معاشرے پر مرتب ہوئے، بینیڈکٹ اینڈرسن نے اس کی دل دہلا دینے والی تفصیلات پیش کی ہیں۔112 1898ء میں میڈیا باس ہرسٹ کی ایما پر صدر میکنلی نے کیوبا اور بحرالکاہل میں سپین کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔
ناتواں اہل ہسپانیہ نے بحرالکاہل میں اپنی جائیداد امریکہ کے ہاتھوں بیچ ڈالی اور جب بیسویں صدی کا ظہور ہوا تو فلپائن کو ’ٹھنڈا‘ کرنے کا عمل صحیح معنوں میں شروع ہوا۔ مقامی مزاحمت خاصی شدید تھی۔ امریکہ کو قبضے کی قیمت 5,000 امریکی جانوں کی صورت ادا کرنی پڑی۔ یہ قیمت اس لئے بھی زیادہ تھی کہ اکثر سفید فام سپاہی کام آئے تھے۔ جہاں تک اہل فلپائن کا تعلق ہے تو 20,000 جانیں جنگ میں کام آئیں جبکہ 200,000لوگ قحط اور طاعون کا شکار ہوئے۔ جنرل جیک اسمتھ نے جو حکم نامہ ’سمار‘ کو ’ٹھنڈا‘کرنے کے لئے جاری کیا اس پر یقینا جنرل وان ٹروتھا بھی فخر محسوس کرتے: ’مجھے قیدی نہیں چاہیں۔ مار ڈالو اور جلا ڈالو۔ تم جتنی آگ لگائو گے اور جتنا خون بہائو گے مجھے اتنی ہی خوشی ہوگی‘۔ جیک اسمتھ کے ایک سپاہی، سارجنٹ ہاورڈ میک فرلین نے فیئر فیلڈ مین سے شائع ہونے والے جرنل میں لکھا: ’جمعرات‘29مارچ 1900ء کو میری کمپنی کے اٹھارہ لوگوں نے پچھتر برچھی بردار دس کالے بندوق بردار موت کے گھاٹ اتارے۔ اگر ہمیں کوئی زندہ حالت میں ملتا ہے تو پھر ہم اپنی برچھیوں کا استعمال کرتے ہیں‘۔113
فلپائن کے نو آبادی بن جانے کانتیجہ یہ نکلا کہ بحرالکاہل کے بہت سے نیم خودمختار جزائر اپنی خود مختاری کھو بیٹھے۔ مسلم آبادی والا جزیرہ منڈا نائو بھی منیلا کی عمل داری میں آگیا جس کے دیر پا اثرات مرتب ہوئے۔ سیاسی محاذ پر امریکہ نے یہ کیا کہ ’ٹھگ بازوں کا ٹولہ‘ تشکیل دیا جو جاگیرداروں پر مبنیتھا۔ اس ٹولے کو یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ کیتھولک چرچ کی 400,000ایکڑ ضبط شدہ زمین خرید سکے۔ جی ہاں! جب یہ بات استعمار کے مفاد میں ہو تو زمین ضبط کی جاسکتی ہے۔ یہ کام وسیع تر مفاد میں کیا گیا تھا۔ محدود حقِ رائے دہی کے ذریعے عدیدیہ کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ مقامی کانگرس میں اکثریت حاصل کرلیں جبکہ فلپائنی برآمدات کو یہ سہولت فراہم کی گئی کہ وہ بغیر کسی ٹیکس یا ٹیرف کے امریکہ پہنچ سکتی تھیں۔ ٹھگ باز ٹولے نے خوب ترقی کی جبکہ مقامی آبادی مزید غربت کا شکار ہوگئی۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بے شمار ایسے لوگ جن کا گزارہ کرنا ممکن نہیں تھا یا جو چند سری حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، وہ امریکہ یا دیگر ملکوں کی طرف ہجرت کر گئے۔
کئی دہائیاں بعد، فرڈینینڈ مارکوس نے چند سری حکومت کی سیاسی طاقت کا خاتمہ کرتے ہوئے، امریکی پشت پناہی سے، مالک کل بن بیٹھا۔ فلپائن ایک ایسی کلیپٹو کریسی بن کر رہ گیا جس پر خود پرست، من موجی اور ظالم حکمران جوڑا حکومت کررہا تھا۔ دیہی علاقوں میں نیو پیپلز آرمی کی قیادت میں سیمی مائو گوریلا تحریک زور پکڑنے لگی جس کے نتیجے میں شہری علاقوں اندر بھی بے چینی پھیلنے لگی۔ جدوجہد کے نتیجے میں قومی شعور بیدار ہوا۔ منیلا سمیت پورے ملک میں جگہ جگہ ایسے پوسٹر دیواروں پر چسپاں ہونے لگے جس میں مارکوس کو امریکی کتا بنا کر پیش کیا جاتا۔ بے پناہ بدعنوانی اور جبر کے نتیجے میں نیچے سے ایک بغاوت نے جنم لیا۔ اس بغاوت کو قابو میںرکھنے کیلئے جلدی میں اس کی قیادت فوج اور چند سری حکومت سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کوسونپ دی گئی۔ کوری اکینو ’پیپلز پاور‘ کی بات کرتی تھیں مگر وہ ملک کے ایک بڑے سرمایہ دار کی بیٹی تھیں۔ کوری اکینو کودائیں بازو اور بائیں بازو کے ایک بودے اتحاد کی حمایت حاصل تھی۔ یہ اتحاد دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوگیا۔ 1990ء کے آتے آتے قبل از مارکوس عہد کی چند سری حکومت دوبارہ اقتدار میں تھی۔ فلپائن ڈیلی انکوائر نے 1987ء میں ہونیوالے انتخابات کے بعد ایک جائزہ لیا جس کے مطابق :’200کے ایوان میں 130ارکان ایسے ہیں جن کا تعلق روایتی سیاسی گھرانوں سے ہے جبکہ دیگر 39ان خاندانوں کے رشتہ دار ہیں۔ صرف 31ارکانِ کانگرس ایسے ہیں جو 1971ء سے قبل کسی سیاسی ریکارڈ کے حامل نہیں۔ 24منتخب سینٹرز کی اکثریت قبل از 1972ء دور کے ممتاز سیاسی خاندانوں سے تعق رکھتی ہے‘۔114 جب مئی 2003ء میں پینٹا گون نے اعلان کیا کہ فلپائنی عراق میں امریکی اڈوں پر پست نوعیت کے کام کریں گے تو گویا یہ لاشعوری طور پر ہی سہی، ان جزائر کے مرتبے بارے علامتی حوالہ تھا۔ مقامی لوگوں نے ہنوز ان کا اعتبار حاصل نہیں کیا۔
عراق کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟ اس کی حالت کیوبا ایسی ہوگی یا فلپائن والی؟ ویسے یہ دونوں ماڈل ہی عراق کے لئے نامناسب رہیں گے۔ اگر عراق کو جاپان والی حیثیت دیدی جائے تو کیسا رہے گا؟ گیدڑ یہ بات کہتے ہوئے جہالت اور لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کو جو حیثیت حاصل تھی وہی عراق کو بھی مل جائے۔ اس وقت عالم حضرات اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ شہنشاہ ہیرو ہیٹو جنگی جرائم کا مجرم تھا یا نہیں؟ اگر وہ مجرم تھا تو پھر امریکی وائسرائے جنرل ڈگلس میک آرتھر نے اس پر مقدمہ چلانے کی بجائے 1945ء کے بعد بادشاہت کا خاتمہ کیوں نہ کردیا؟ یاد رہے کہ عام طورپر پائے جانے والے تاثر کے برعکس 1920ء کی پوری دہائی میں جاپان اندر شہنشاہی نظام کی خاصی مخالفت موجود تھی۔ سوتوزین فرقے کے نوجوان پیشوا اُچی یاما گوڈو نے شہنشاہیت کی جو مذمت کی، امریکیوں کو یقینا اس سے کوئی سبق سیکھنا چاہیے تھا:
اس حکومت کا بڑا بیل یعنی شہنشاہ دیوتائوں کی اولاد نہیں جیسا کہ پرائمری سکول کے اساتذہ اور دیگر تم لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ شہنشاہ کے پرُکھ کیوشو سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے خون بھی بہایا اورلوٹ مار بھی کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ہی چورساتھیوں کا خاتمہ کیا۔ گویہ حقائق کسی سے ڈھکے چھپے نہیں مگر یونیورسٹی پروفیسر اور طلباء ایسے بزدل ہیں کہ یہ بات ان کی زبان سے ادا ہوتی ہے نہ قلم سے۔ اس کی بجائے وہ خودکو بھی دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکا دینے میں مصروف ہیں حالانکہ انہیں خوب علم ہے کہ یہ سب باتیں جھوٹ کا پلندہ ہیں۔115
ہربرٹ بِکس کاکہنا ہے کہ جاپانی جنگی ڈھانچے میں ہیروہیٹو کا عمل دخل اور سامراجی توسیع کی خواہش کا علم سارے جاپان کو تھا۔ حقائق کی پردہ پوشی اورصفائی کا عمل بادشاہت کو دوام بخشنے کیلئے ضروری تھا۔ ہیرو ہیٹوتو وار کرائمز ٹربیونل میں پیشی کی تیاری کر رہا تھا جب اسے یہ خبر دی گئی کہ اِس کی ضرورت نہیں۔116
عراق پر از سر نو قبضے کیلئے ان میں سے کوئی مثال بھی قابل عمل نہیں۔ کسی قسم کے مارشل پلان کی شکل میں کچھ وقت ضرور حاصل کیا جاسکتا ہے۔اس وقت کو استعال کرتے ہوئے تباہ شدہ ڈھانچے کی تعمیر، کم قیمت گھر اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے علاوہ عراقی عوام کو یہ موقع فراہم کیاجاسکتا ہے کہ وہ اپنی پارلیمان کا چنائو کر سکیں لیکن جو نظام اس وقت عراقی میں لاگو ہے وہ نیو ڈیل کم اور نیئو لبرل معیشت زیادہ ہے۔ اس قسم کا معاشی نظام تو قابض قوتیں اپنے ممالک میں بھی لاگو نہ کریں کہ یہ تو ڈبلیو ٹی او/ آئی ایم ایف کے اصولوں کی نفی ہے جبکہ یہ اصول دیگر جگہوں پر سرمایہ داری کی آہنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے ناگزیر ہیں۔جمہوریت مزید مسائل کھڑے کرتی ہے جیسا کہ 1953ء میں ایران اندر ہوا۔ ایسی صورت میں کیا ہو گا اگر عراقی ایک ایسی حکومت منتخب کرتے ہیں جو تیل کو عراقی کنٹرول میں رکھنا چاہے اور قابض فوجوں کی واپسی اور امریکی اڈوں کے خاتمے کا مطالبہ کردے۔ فوری طور پر تو شائد ایسا نہ ہوگا مگر کچھ عرصے بعد اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت میں ایک بار پھر حکومت بدلی کرنی پڑے گی۔
سلطنت کو اس وقت ان مسائل کا سامنا ہے اور اگر امریکہ نے ایران کا رخ کیا تو یہ مسائل مزید گھمبیر ہو جائیں گے۔ امریکہ کے اپنے مین سٹریم تجزیہ نگار جو ذرا عقل مند ہیں وہ شتر مرغ ایسے لبرل تجزیہ نگاروں کی نسبت کہیں زیادہ باخبر ہیں جو حقیقت کا سامنا کرنے پر تیار نہیں۔
سابق فوجی افسر اینڈریو جے بیسوچ آج کل بوسٹن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلشنز کے پروفیسر ہیں۔ اپنی حالیہ کتاب میں انہوں نے جہاں یہ دعوی کیا ہے کہ موجو دہ بش انتظامیہ کلنٹن حکومت اور بش سینئر کی حکومت کا ہی تسلسل ہے وہاں کئی اور اہم سوال بھی اٹھائے ہیں۔ بش، کلنٹن، بش انتظامیہ کا ڈرٹی لٹل سیکرٹ یہ ہے کہ یہ سامراجی مسئلے کے پیمانے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں:
جغرافیائی وسیاسی اہمیت کے ایک نہیں بلکہ کئی خطوں پر بالادستی، اپنے ہی وضع کردہ سیاسی معاشی اصولوں کے علاوہ کسی اصول کو نہ ماننا، موجودہ نظام کو مقدس قرار دینا، عالمی سطح پر متعین فوج کے ذریعے بلا اشتراک غیرے فوجی بالادستی کا اظہار جبکہ اس فوج متعین کرنے کا مقصد دفاع نہیں زور زبردستی ہے: کوئی قوم اگر ایسے اقدامات کررہی ہو تو گویا وہ ایک سلطنت کا نظام چلارہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار__ رین ہولڈ نیبو ہر کے الفاظ میں ’شدت سے اس سامراجی کردار کی تردید جس کا ہم عملی طورپر اظہار کرتے ہیں‘ __نہ تو امریکہ کے سامراجی مسئلے کو کم کرے گا نہ ہی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے یہ مسئلہ غائب ہوگا۔117
ہر سلطنت کے خلاف جلد یا بدیر ردِ عمل ہوا ہے۔ جب کوئی آمر__وہ مقامی ہو یا باہر سے آیا ہو __ یہ محسوس کرے کہ کوئی تدبیر کارگر نہیں رہی اور رعایا پر جبر بھی اس کی حفاظت کی ضمانت نہیں رہا تو وہ سنکی بنتا چلا جاتا ہے۔ وہ مشیروں کے چہرے پر بناوٹی ہنسی سے مزید دھوکا نہیں کھاتا۔ ہر نقاب نیچے اس کی نظریہ دیکھ سکتی ہے کہ نقاب میں چھپے چہرے پر اس کی شکست اور اس کا زوال تحریرہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق میں دست شناسوں نے مطلق العنان حکمرانوں کے درباریوں کو ہمیشہ برے انجام کی پیش گوئیاں کیں۔ عراق میں مسلح بغاوت بارے تو بات ہو چکی ہے مگر سلطنت کی سیاسی مخالفت بارے کیا خیال ہے؟
پوری ایک دہائی اور لیفٹ آف سنٹر حکومتوں نے امریکی طاقت کی حقیقت سے آنکھیں چرانے کیلئے اقوامِ متحدہ کی گود میں پناہ تلاش کی۔ سلطنت کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا بشرطیکہ وہ سلامتی کونسل یا کم از کم ناٹو سے صلاح مشورہ کرلے۔ اگر کوئی بات ناقابل قبول تھی تو وہ سامراجی یک رخی تھی۔ یا معتبر جرمن فلسفی یورگن ہیبرماس کے الفاظ میں جو انہوں نے بغداد کی فتح بعد تحریر کئے: ’عالمی تعلقات میں آنے والے انقلاب کو دیکھ کر ہمیں کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیں: امریکہ کی نارمیٹو اتھارٹی تباہ ہو چکی ہے‘۔118
ہیبرماس اور ان ایسے دیگر لوگوں کے دلائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی رائے دراصل کافی حد تک مغربی یورپ کی عوامی رائے کا پَر تو ہے۔ ان کا نقطہ نظر مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
مغربی لبرل اجارہ داری کو زبردستی ٹھوسنے کا جواز اسی صورت مہیا کیاجاسکتا ہے اگر یہ عمل عالمی قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے۔ حقیقت پسند اور موقع پرست جو تکمیل شدہ حقائق کے سامنے سر جھکاتے ہوئے اب جنگِ عراق کی حمایت کر رہے ہیں، درحقیقت غلطی پر ہیں۔ جمہوریت کی روح اوراس کی اقدار سامراجی مطالبوں سے میل نہیں کھاتے کہ سامراج یکسانیت کا قائل ہے اور جمہوریت تنوع کی۔ یک رخی حکمتِ عملی کی زیادتی سے بچنے کا واحد طریقہ اس وقت موجودواحد عالمی تنظیم ہے اور عالمی قانون کی توسیع ہے کہ جس کے سامنے سب برابر ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو عالمی سطح پر قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچے گا۔ جبکہ امریکہ اندر تو سیکورٹی سروسز کو تفویض کئے جانے والے اختیارات کے باعث پہلے ہی قانون کی حکمرانی کو زک پہنچ رہی ہے۔جنگ یوگوسلاویہ کے ساتھ پیشگی موازنہ کرتے ہوئے ہیبرماس لکھتے ہیں:
کوسوو میں مداخلت سے موازنہ بھی کسی قسم کی معافیت مہیا نہیں کرتا۔ یہ درست ہے کہ کوسوو کے معاملے میں بھی سلامتی کونسل سے کسی قسم کی اجازت طلب نہیں کی گئی تھی۔ بنگاہ بگذشتہ حاصل کئے جانے والے جواز کو تین حوالوں سے جائز قرار دیا جاسکتاتھا: نسلی صفائی__جو اس وقت جاری تھی __ کا عمل روکنے کیلئے،کوسوو میں درپیش صورتحال کی ہنگامی نوعیت __ جیسا کہ عالمی قانون اس کی اجازت دیتا ہے__ کے پیش نظر، اور عارضی فوجی اتحاد میں شامل تمام ریاستوں کے ناقابل تردید جمہوری اور آئینی کردار کے پیش نظر۔119
گویا عراقی جنگ اپنے کردار کے لحاظ سے قطعی مختلف تھی۔ یورگن ہیبرماس کے جواب میں انسان کچھ متبادل سوالات بھی اٹھا سکتا ہے۔ یہ حقیقت کہ امریکہ اقوام متحدہ کو خاطر میں نہیں لایا، جنگ کے خلاف ایک اہم دلیل تھی (یہ دلیل یورپی امن تحریک کیلئے حساس معاملہ تھا) اور یہ کہ سلامتی کونسل کی مہر تصدیق گویا عالمی قانون کی حیثیت رکھتی ہے۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کیا اس الجھن کو سلجھایا جاسکتا ہے۔ کیا سلامتی کونسل عالمی قانون کی سپریم کورٹ ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں اقوامِ متحدہ کچھ قرار دادوں پر تو عمل کروا لیتی ہے مگر بعض دیگر قرار دادوں پر عمل در آمد کروانے میں ناکام رہتی ہے! اقوامِ متحدہ اور اس کی پیش رو لیگ آف نیشنز کا قیام دونوں تنازعات __پہلی اور دوسری عالمی جنگ __ کے بعد سامنے آنے والی صورتحال کو جوں کی توں صورت میں برقرار رکھنے کیلئے ایک منظم کوشش تھی۔ ان دونوں تنظیموں کا مقصد یہ تھا کہ یہ قوموں کے حق خود ارادیت کی حمایت کریں گی۔ دونوں کے میثاق میں یہ بات درج ہے کہ پیشگی حملے، دوسرے ملکوں پر قبضے یا حکومتوں کی تبدیلی غیر قانونی ہوگی۔ دونوں تنظیموں کی رائے یہ تھی کہ قومی ریاستوں نے سلطنتوں کی جگہ لے لی ہے۔120
اقوامِ متحدہ کی تخلیق کا مقصد تھا کہ فسطائیت کی شکست کے بعد ہونے والے یالٹا معاہدے کی نگرانی کی جاسکے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ بات واضح طورپر درج ہے کہ قومی خود مختاری کی خلاف ورزی صرف اور صرف اپنے ’دفاع‘ میں کی جاسکتی ہے۔ البتہ سوویت یونین کے ہوتے ہوئے بھی اقوام متحدہ 1960ء کی دہائی میں نو آزاد کانگو کے خلاف ہونیوالی بلجئین اور امریکی سازشوں کے سامنے بے بس تھی نہ ہی اقوام متحدہ کانگو کے رہنما پیٹرس لوممبا کو بچا سکی جبکہ 1950ء میں سوویت روس کے عارضی بائیکاٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے کوریا کے خلاف امریکی جنگ کو سند عطا کردی۔ اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے مغربی افواج نے عالمی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے شمالی کوریا اندر سماجی ڈھانچے کے تانے بانے، ڈیم اور بجلی گھروں کو تباہ کیا۔ اقوام متحدہ ویت نام اندر جنگ رکوانے میں بھی ناکام رہی۔ فلسطین کے معاملے میں اس کی نااہلی تو کئی دہائیوں سے واضح ہے۔ اقوامِ متحدہ مغرب کی زیادتیاں روکنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ ہنگری پر سوویت یلغار (1956ء) بھی اقوام متحدہ نہ روک پائی اور چیکوسلاوکیہ میں وارساپیکٹ نے حکومت بدلنے کا فیصلہ کیا (1968ء) تو بھی اقوام متحدہ نااہل ثابت ہوئی۔ باالفاظِ دیگر دونوں بڑی طاقتیں عالمی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے رہے مگر ان پر کبھی پابندیاں نہیں لگیں۔
آج جب امریکہ واحد فوجی وسامراجی طاقت ہے، اقوامِ متحدہ ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کیلئے مختص پلیٹ فارم کی بجائے لوٹ مار کی بندرباٹ کا ادارہ بن چکا ہے۔ گذشتہ صدی کے فسطائی جس مفکر سے سب سے زیادہ خائف تھے، اس نے اسی بابت نہایت درست پیشنگوئی کی تھی۔ انٹوینو گرامچی لکھتا ہے: ’اجارہ داری کے ’’عمومی‘‘ عمل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ طاقت اور رضا مندی کا مرکب ہوتی ہے۔ دونوں کے مابین توازن مختلف نوعیت کا ہوتا ہے البتہ طاقت رضا مندی پر بہت زیادہ حاوی نہیں ہوتی‘۔ گرامچی کے بقول ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب اجارہ داری کی تیسری قسم کا استعمال زیادہ موزوں رہتا ہے کیونکہ ’طاقت اوررضا مندی کے درمیان بدعنوانی _دھوکہ دہی کھڑی ہوتی ہے، یعنی مخالف یا مخالفین کو کمزور یا مفلوج بنا دینا۔121 آئیے ذرا اس عمل کی مثال دیکھتے ہیں جو اقوام متحدہ میں روس کی حمایت حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور جس کا انکشاف فنانشل ٹائمز (4اکتوبر 2002ء)نے صفحہ اول پر شائع ہونے والی ایک شہ سرخی میں کیا: ’عراقی تیل پر پوٹن کی امریکہ سے زبردست سودے بازی: ماسکو اپنی حمایت کی بھاری کمرشل قیمت چاہتا ہے‘۔
یورپی اتحادی امریکہ کی حد سے بڑھی ہوئی ’یونی لیٹرل ازم‘ پر چیں بہ جبیں ہوتے ہیں __لازماً یہ مشورہ کرنے میں ناکامی ہے جو یورپی ماتحتی کیلئے پردے کا کام دیتی ہے۔ چین اورروس سلامتی کونسل میںتعاون کے بدلے نحیف سی سودے بازی کرتے ہیں۔ اگر ان کی شرائط نہ بھی مانی جائیں تو بھی ہونی ہو کر رہتی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں دنیا ایسی بدلی ہے کہ اقوامِ متحدہ اپنی اہمیت ہی کھو بیٹی ہے۔ اس کی حیثیت سامراجی مہم جوئی میں مدددگار کے سوا کچھ نہیں رہ گئی۔ اگر یہ موجودہ عالمی نظام کی حقیقی نمائندہ ہوتی تو سلامتی کونسل میں صرف ایک ملک، امریکہ، کو ویٹو کی طاقت حاصل ہوتی۔ بطروس بطروس میڈلین البرائٹ کے کہنے پراس لئے برطرف کر دئیے گئے کہ انہوں نے سامراجی حکم کی مزاحمت کی تھی: ان کا کہنا تھا کہ روانڈا میں ہونے والے قتل عام کا تقاضا ہے کہ مداخلت کرنی ہے تو وہاں کی جائے۔ امریکی مفادات کا تقاضا تھا کہ مداخلت بلقان میں کی جائے۔ ان کی جگہ موجودہ سیکرٹری جنرل کو لایا گیا۔ کوفی عنان ایک کمزور آدمی ہیں۔ ان کی زاہدِ پرفریب والی تقاریر یورپی سامعین کو تو بے وقوف بنا سکتی ہیں مگر وہ بذاتِ خود ان سے دھوکا نہیں کھاتے۔ انہیں معلوم ہے کہ طاقت کاسرچشمہ کون ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ڈور کہاں سے ہلتی ہے۔ اسی اقوامِ متحدہ نے عراق پر قبضے کے بعد اس قبضے کو سندِ قبولیت بخشی۔122 یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ (بشمول مصنف) یہ سمجھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی آشیر باد سے لڑی جانے والی جنگ بھی اتنی ہی غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی ہوتی جتنی پینٹاگون کے منصوبے کے تحت لڑی جانے والی جنگ کہ آخر یہ وہی جنگ ہوتی جو پینٹا گون نے لڑنی تھی۔ اسی طرح، اینگلو امریکی قبضے کا کردار محض اس کارن مختلف روپ نہ دھار لیتا کہ جنگ پر اقوامِ متحدہ نے مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ فرق صرف اتنا پڑنا تھا کہ یورپی یونین اور بعض دیگر (برازیل کے لولا، پاکستان کے مشرف، بھارت کے واجپائی وغیرہ) واپس راہ پر آجاتے۔
یورپی رائے عامہ اور یورگن ہیبر ماس پوری طرح یہ تسلیم کرنے پر تیار تھے کہ اقوامِ متحدہ کو یوگوسلاویہ کے معاملے میں نظر انداز کیاجاسکتا ہے کیونکہ جنگ شروع کرنے والے عارضی فوجی اتحاد میں سب ’جمہوری ریاستیں‘ شامل تھیں۔ عراق پر قبضہ کرنے والا اینگلو امریکی اتحاد بھی اتنا ہی جمہوری ہے۔بش اور بلئیر منتخب رہنما ہیں۔ اگر بش کے انتخاب پر انگلی بھی اٹھائی جائے تو یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ انہیں کانگرس اورسینٹ کی حمایت کے ساتھ ساتھ ڈیمو کریٹک پارٹی کی بھی حمایت حاصل تھی جس کے دو بڑے یعنی مسٹر اور مسز کلنٹن نے جنگ کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر یورپ کی اہم جمہوری ریاستوں (جرمنی، فرانس اوربلجیئم) نے جنگ کی مخالفت بھی کی تو اس کارن پیمانہ کیوں بدل دیا جائے۔
یوگوسلاویہ سے موازانہ اس قدر مختلف نہیں جتنا ہیبرماس کا خیال ہے۔ وہ جو ’انسانی ہمدردی‘ کا حوالہ دیتے ہیں دراصل کہہ سکتے تھے کہ صدام حکومت بعد از 1990ء کسی بھی بلقان گروہ سے زیادہ جابر تھی۔ یہ درست ہے کہ ٹی وی اسکرین پر دکھانے یا عوام کو متحرک کرنے کیلئے بری بری شبیہات میسر نہ تھیں مگر اس باعث انسانی ہمدردی والی دلیل تو بے کار نہیں ہوجاتی۔ یوگوسلاویہ میں کی جانے والی جس ’بے کم وکاست نشانہ بازی‘کی تعریف کی گئی، اس کا اظہار عراق میں بھی ہوا۔ سول اموات نسبتاًکم ہوئیں اور اس کیلئے اسی طرح کانٹ کے انداز میں منطق پیش کی گئی۔ یہ بات تو اب واضح ہے کہ سلامتی کونسل اور ناٹو کی عدم منظوری کے بعد صدربش اس مہم پر بغیر ٹونی بلیئر کے بھی نکل کھڑے ہوتے۔123 حال ہی میں ہیبرماس اور جیکس دیرادا نے آزادانہ یورپی خارجہ پالیسی کیلئے مشترکہ اپیل جاری کی ہے۔ کیسی پالیسی؟ کون سا یورپ؟ جب تک امریکی سامراجی طاقت کو نہ سمجھ لیا جائے، کسی قسم کا سیاسی چیلنج دینا ممکن نہیں۔ امریکہ کے اپنے اندر سلطنت کے ایسے وفادار موجود ہیں جو دوسروں کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں اقوامِ متحدہ اور ناٹو ایسے ادارے ہم آہنگی سے مغربی بالادستی قائم رکھنے کیلئے خاصے سود مند ہیں اور ان اداروں کی طرف غیر سنجیدہ رویہ مناسب نہیں۔124 یہ ادارے ماضی میں بھی کام آئے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے۔
اگر اس کے باوجود یورپ کے لیفٹ لبرل دانشور اور فلسفی اس بارے کسی غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس پر ایک سلطنت کا غلبہ ہے یا اس سلطنت کی ضرورتوں کو ترجیح حاصل ہے، تو انہیں چاہیے کہ وہ فلپ بوبٹ کو پڑھیں جس نے انتہائی دلسوزی سے امریکی سلطنت کا دفاع کیا ہے۔ بوبٹ ڈیموکریٹ ہیں اور بحرِاوقیانوس کے دونوں جانب بطور اکیڈیمک جانے جاتے ہیں۔ آسٹن (ٹیکساس)، آکسفورڈ اور کنگز کالج لندن میںپڑھاتے ہیں۔ وہ چار مختلف امریکی صدور کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ان صدور میں کارٹر، ریگن، اباجی بش اور کلنٹن شامل ہیں۔ کلنٹن کے عہد میںبوبٹ قومی سلامتی کونسل کے ڈائریکٹر تھے۔ جنگ عراق سے قبل اور دوران بوبٹ بلئیر کے برطانیہ میں ایک جانی پہچانی شخصیت بن کر ابھرے۔ میڈیا میںانہیں خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور وہ 10ڈائوننگ سٹریٹ کے مستقل مہمان بنے رہتے۔ اُن کی تازہ تصنیف ہمیں کس بارے میں آگاہ کرتی ہے؟
کتاب کاپیغام بالکل کھرا ہے۔ عالمی تعلقات عامہ میں بسمارکین انقلاب برپا ہو چکا ہے اور یہ انقلاب بش سینئر نے نہیں بلکہ بلقان میں مداخلت کے ذریعے کلنٹن نے برپا کیا تھا۔ بلقان میں مداخلت کے عیوب و قیود پر بحث کی جاسکتی ہے البتہ یہ بات طے ہے کہ انسانیت کے نام پر اس مداخلت کے نتیجے میں قومی سلامتی کے بارے میں روایتی روئیے تبدیل ہوگئے۔ گارڈین کے ساتھ ایک انٹرویو میں بوبٹ نے بڑے فخر سے بتایا کہ سوویت روس کے بعد ظہورمیں آنے والی دنیا کیلئے ایک نئے سامراجی نظریے کے لئے کلنٹن کو انہوں نے قائل کیا تھا، ایک ایسا نظریہ جو بدلی ہوئی دنیا میں سامراجی پالیسیوں کا جواز بن سکے۔ بوبٹ کا کہنا ہے:’امریکہ اس وقت مداخلت کرے گا جب ہمارے سٹریٹیجک مفادات کو واضح خطرہ لاحق ہوگا، یا جب واضح سٹریٹیجک مفادات اور انسانی مسئلہ بیک وقت درپیش ہوں گے، یا جب…‘125
اس جارحانہ منصوبے پر عمل درآمد جاری ہے اور امریکہ کی ’غیر متوازن طاقت‘ کو تسلیم کرنا سیاسی مزاحمت اورمناسب متبادل تعمیر کرنے کیلئے ضروری ہے۔ جس تحریک کی اس وقت ضرورت ہے، اس کا عالمگیر ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس تحریک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جن ٹانگوں پر سامراجی دیو کھڑا ہے وہ اتنی مضبوط نہیں جتنی سرمایہ دار جادو گر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔