پندرہ فروری2003ء :دنیا کے پانچ براعظموں کی سڑکوں پر اسی لاکھ لوگوںنے ایک ایسی جنگ کے خلاف مارچ کیا جو ہنوز شروع نہیں ہوئی تھی۔ یہ عالمگیر اجتماع جو تعداد، وسعت اور پہنچ کے اعتبار سے بے مثال تھا، پینٹاگون میں بنائے جارہے عراق پر قبضے کے منصوبے کو ناکام بنانا چاہتا تھا۔مغربی یورپ میں تو اس اجتماع نے سب ریکارڈ ہی توڑ ڈالے: روم میں تیس لاکھ، سپن میں بیس لاکھ، پندرہ لاکھ لندن میں، برلن میں پانچ لاکھ، لاکھ سے زائد پیرس، برسلز اور ایتھنز میں سڑکوں پر نکلے۔ استنبول میں مقامی انتظامیہ نے قومی سلامتی کے نام پر مظاہرے پر پابندی لگادی تھی البتہ امن تحریک کے قائدین نے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں دس ہزار ’صحافی‘ شرکت کے لئے آن پہنچے۔ امریکہ اندر نیویارک، سان فرانسکو، شکاگو اور لاس اینجلس میں عوامی اجتماع جبکہ ہر ریاست کے دارالحکومت میں چھوٹے چھوٹے اجتماع ہوئے۔ کل ملا کر دس لاکھ امریکی اس روز مظاہروں میں شامل ہوئے۔ مزید پانچ لاکھ لوگوں نے کینیڈا میں مارچ کیا۔ کرہ ّارض کی دوسری جانب موجود امن تحریک کے بازو نے سڈنی میں پانچ لاکھ اورملبورن میں ڈھائی لاکھ افراد کا اجتماع منعقد کیا۔ کلکتہ میں تین لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلے۔
جب 21مارچ کو برطانوی اور امریکی افواج نے عراقی سرحد پار کی تو عرب دنیا پر عرصے سے طاری خاموشی بھی پندرہ فروری کے عالمگیر مظاہروں کے باعث ٹوٹ گئی۔قاہرہ ،ثناء اور اومان میں خود بخود لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ مصر میں حسنی مبارک کی گماشتہ حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور آٹھ سو افراد کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور جیل میں ان لوگوں سے انتہائی ناروا سلوک روا رکھا گیا۔ یمن میں تیس ہزار افراد نے مظاہرہ کیا جبکہ مظاہرین کی ایک بھاری تعداد نے امریکی سفارتخانے کا رخ کر لیا۔ ان کا راستہ روکنے کے لئے گولی چلانی پڑی۔ دو افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ امریکہ واسرائیل کی محروس ریاست اردن کے سرحدی شہر میں سرکشی کچلنے کے بعد حکومت نے دارالحکومت میں جبر شروع کیا۔ عرب ممالک کی سڑکوں پر نکلے ہوئے مظاہرین قوم پرستی کے جذبے سے سرشار تھے۔ ’’ہماری فوج کہاں ہے‘‘ کا نعرہ قاہرہ کے مظاہرین کی زبان پر تھا۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے سیمی سیکولر مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امریکہ نواز نقطہ نظر کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور کراچی یا پشاور میں ہونے والے مظاہروں میں ان مذہبی جماعتوں کا رنگ نمایاں تھا۔ کینیا اور نائیجیریا میں بھی اسلام پرستوں نے یہی کیا البتہ زیادہ بھرپور انداز میں: دونوں ممالک میں امریکی سفارتی عملے کو سفارتخانے سے نکالنا پڑا۔ انڈونیشیا میں مختلف النوع سیاسی دھاروں سے تعلق رکھنے والے دو لاکھ سے زائد افراد نے جکارتہ میں مظاہرہ کیا۔
جنگ رکوانے کی مشترکہ جدوجہد کی ایسی مثال اگر ملتی ہے تو لگ بھگ سوسال پہلے دوسری انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والی یورپی سوشل ڈیمو کریٹک جماعتوں کو ملنے والا اسی لاکھ ووٹ ہے۔ اس ووٹ کا مقصد جنگ کا راستہ روکنا تھا۔ نومبر 1912ء میں انٹر نیشنل کی ایک ہنگامی کانفرنس کا انعقاد باسل کے پرانے کیتھڈرل کے گوتھک طرز کے میناروں تلے منعقد ہوئی۔ اس ہنگامی اجلاس کا مقصد تھا پہلی عالمی جنگ کی تباہیوں کا راستہ بند کرنا۔مندوبین شرکت کے لئے پہنچے تو٭ بی مائنز میں باخ ماس سے ان کی تواضع کی گئی۔ یہ اس اجتماع کا نقطہ عروج تھا۔ جرمنی، برطانیہ اور فرانس سے آئے ہوئے سوشلسٹ رہنمائوں نے عہد کیا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کی حکومت کی ہر جارحانہ حکمتِ عملی کی مخالفت کریں گے۔ یہ عہد کیا گیا کہ وقت آنے پر ان جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ جنگی بجٹ کے خلاف ووٹ دیں گے۔کیرہارڈی نے جب ’جنگ کے خلاف عالمی ہڑتال‘ کی بات کی تو مندوبین نے تالیاں بجائیں گو اس تجویز پر ووٹ نہیں لیاگیا۔ ژاں ژارز کو یہ بات کہنے پر خوب دادملی کہ’’انقلاب کے لئے قربانی اس قربانی کا عشر عشیر بھی نہیں جو اس جنگ کے لئے دینی پڑے گی جس کی تیاری میں حکمران لوگ لگے ہوئے ہیں‘۔ اس کے بعد وکٹر ایڈلر نے قرار داد پڑھ کر سنائی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ قرار داد کا اختتام ان الفاظ پر ہوا:
’استحصال اور اجتماعی قتل کی حامی سرمایہ دار دنیا کوامن اور عالمی یکجہتی کی پرولتاری دنیا سے ٹکرانے دو‘۔
14اگست1914ء تک یہ خوب صورت جذبات قوم پرستی کی رو میں بہہ چکے تھے۔ باسل میں جس دیدہ وری کا اظہار کیاگیا تھا اس وقت ہوا میں تحلیل ہوگئی جب خطرے کی گھنٹی بجنے پر ہر ملک کے شہری جنگ کے لئے جمع ہونے لگے۔ نہ تو جنگی بجٹ کے خلاف ووٹ ڈالا گیا نہ ہی عالمی ہڑتال کی اپیل کی گئی۔شائونسٹ جنون پھیلنے لگا تو جنگ نواز ایک جنونی نے ژاں ژارز کو قتل کر دیا ۔ادھر سوئٹزر لینڈ کے شہر زیمروالڈ میں ایک بہادر اقلیت جمع تھی جس کا کہنا تھا کہ سامراجی جنگ کو اپنے اپنے ملک میں جنونی قوتوں کے خلاف خانہ جنگی میں بدل دو جبکہ دوسری جانب سوشل ڈیموکریٹک رہنمائوں کی اکثریت خاموش کھڑی تھی اور ان کے حامی ایک دوسرے کو قتل کرنے محاذِ جنگ پر روانہ ہورہے تھے۔ یورپی میدانِ جنگ میں ایک کروڑ افراد اپنے اپنے ملک اندر سرمایہ داری نظام کی خاطر جان سے گئے اور اس تنازعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی منظر نامے پر ایک نئی طاقت کا ظہور ہوا۔ ایک صدی گزرنے کو ہے اور اس نئی طاقت ریاستہائے متحدہ امریکہ نے اپنے ہر حریف کو نیچا دکھانے کے بعد ہر عالمی ڈرامے میں مرکزی بلکہ بعض اوقات تو سولو پرفارمنس دی ہے۔
2003ء کو جو اسی لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر نکلے، کسی انٹرنیشنل کی اپیل پر نہیں نکلے تھے۔ نہ ہی ان افراد کا کسی مشترکہ سیاسی میثاق پر اتفاق رائے تھا۔ ان لوگوں کے سیاسی نظریات مختلف تھے، پس منظر مختلف تھے مگر ان سب کی خواہش تھی کہ تیل کی دولت سے مالا مال اس عرب دنیا پر سامراجی حملے کو روکا جائے جو پہلے ہی فلسطین میں جاری نوآبادیاتی جنگ کا شکار ہے، جبلی طور پر مارچ کرنے والے ان لاکھوں لوگوں نے اگر سڑکوں کا رخ کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خونریزی کے لئے پیش کئے جارہے ہیں سرکاری جواز سے متفق نہ تھے۔ ایسے لوگ جو خونریزی کے لئے پیش کئے گئے جواز کو جائز مانتے ہیں ان کی سمجھ میں نہ تو اس مزاحمت کی گہرائی آسکتی ہے جو ان لوگوں نے شروع کرائی ہے نہ ہی اس نفرت کی گہرائی جو بے شمار نوجوان جنگی جواز پیش کرنے والوں سے رکھتے ہیں۔ امریکہ سے باہر چند ہی لوگ ہوں گے جو اس بات پر یقین کرتے ہوں گے کہ سیکولر عراقی بعث پارٹی کا القاعدہ سے کوئی سمبندھ تھا۔ جہاں تک تعلق ہے عوامی تباہی کے ہتھیاروں کا تو اسلحے کا ایسا ذخیرہ اس خطے میں صرف اسرائیل اندر موجود ہے۔ کلنٹن دور کے آخری سال تو کنڈولیزا رائس نے خود اعتراف کیاتھا کہ اگر صدام کے پاس ایسے کوئی ہتھیار موجود بھی ہیں تو وہ ان کو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اگر وہ عوامی تباہی کے ہتھیار حاصل بھی کر لیتے تو وہ انہیں استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو استعمال کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہوگا 90 کہ پوری قوم کا نام و نشان مٹ کر رہ جائے گا ۔ صدام کے پاس اگرایسے کوئی ہتھیار ہوتے بھی تو 2000ء میں وہ انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت سے عاری تھے مگر پھر تین سال بعداور ان ہتھیاروں کے حصول سے قبلہی صدام کو ہٹانے کے لئے اینگلوامریکی جتھے عراق روانہ کئے گئے اور عراقی شہروں پر اندھا دہند بمباری کی گئی۔ جنگ کے لئے پیش کیاجانے والا جواز نہ صرف یہ کہ کسی کو قائل نہ کر سکا بلکہ اس جواز کے باعث کروڑوں لوگوں نے اس جنگ کی مخالفت کی کیونکہ ان کے نزدیک ان کو خطرہ گلی سڑی آمریت کی شکستہ دل سپاہ سے نہیں بلکہ امریکی سلطنت اور اس کی باجگزار ریاستوں اسرائیل اور برطانیہ سے ہے۔ ان حقائق کا ادراک ہی نئی نسل کے متحرک ہونے کا محرک بنا ہے۔
بہر حال بش انتظامیہ اور اس کی لندن پٹوار کی دلیل یہی تھی کہ عراقی حکومت کو غیر مسلح کیا جائے گا، صدر بش، ٹی وی نیٹ ورکس کی پشت پناہی کے ساتھ جنگ سے سات ماہ پہلے سے ہتھیاروں کے مسئلے پر زور دے رہے تھے۔ امریکی عوام پریہ پراپیگنڈہ کسی بلا کی طرح نازل ہوا البتہ اس ملک سے باہر شائر ہی کسی نے اس بے پرکے پراپیگنڈے پر یقین کیا ہو۔اس کے باوجود بش کے تقریر نگار اسی موضوع پر تقاریر لکھنے میں مصروف رہے۔ذرا ملاحظہ کیجئے:
’’عین اسی لمحے عراق ان تنصیبات کو توسیع دینے اور بہتر بنانے میں مصروف ہے جو حیاتیاتی ہتھیار بنانے میں کام آتی ہیں۔‘‘
(اقوام متحدہ سے خطاب2000ء)
’’ عراق نے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ کررکھا ہے اور ایسی تنصیبات کو از سر نو تعمیر کیا جارہا ہے جو ایسے ہتھیار بنانے کے کام آتی ہیں۔
’’ہمارے ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ صدام حسین نے حال ہی میں عراقی فیلڈ کمانڈروں کو کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ وہی کیمیائی ہتھیار جو اس آمر کے بقول اس کے پاس نہیں۔‘‘
(ریڈیو خطاب 5اکتوبر 2002ء)
’’عراقی حکومت کے پاس کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار موجود بھی ہیں اور وہ ایسے ہتھیار بناتی بھی ہے۔ اب وہ ایٹمی ہتھیار کے حصول میں مصروف ہے۔
ہمیں معلوم ہے اس حکومت نے ہزاروں ٹن کیمیائی ایجنٹ بشمول مسٹرڈ گیس، سارن نرو گیس٭ اور XVنرو گیس پیدا کررکھی ہے۔
ہمیں ہماری خفیہ نے یہ رپورٹ بھی دی ہے کہ عراق کے پاس ایسا بیڑاموجود ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے جو خود کار فضائی جہازوں یا انسان کے ذریعے اڑائے جانے والے ایسے جہازوں پر مبنی ہے جو ان کیمیائی وحیاتیاتی ہتھیاروں سے دور دور تک مارکر سکتے ہیں۔ ہمیں خطرہ ہے کہ عراق ان یو اے وی ایس (UAVS)کے ذریعے امریکہ کو نشانہ بناسکتا ہے۔‘‘
’’شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عراق اپنا ایٹمی پروگرام پھر سے تشکیل دے رہا ہے۔ صدام حسین نے اپنے ایٹمی سائنس دانوں سے متعدد اجلاس کئے ہیں۔ ان سائنس دانوں کو وہ اپنے نیوکلیئر مجاہد قرار دیتا ہے سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ عراق ان معاملات پر ایٹمی تنصیبات از سرِ نو تعمیر کرنے میں مصروف ہے جہاں ماضی میں اس کا ایٹمی پروگرام چل رہا تھا۔ عراق نے اعلیٰ صلاحیت کے حامل ایسے المونیم ٹیوب اور دیگر پرزہ جات خریدنے کی کوشش کی ہے جو گیس سنٹری فیوجز کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور یہ گیس سنٹری فیوجز ایٹمی ہتھیاروں کے لئے یورنیم کو افزدہ کرنے کے کام آتے ہیں۔‘‘
(سنسناٹی اوہیو میں خطاب ،7اکتوبر2002ء)
’’ہماری خفیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ صدام حسین کے پاس اتنا مواد موجود تھا کہ جس سے 500ٹن سارن مسٹرڈ اورVXنرو ایجنٹ تیار کیاجاسکتا تھا۔‘‘
(اسٹیٹ آف یونین خطاب، 20جنوری2003ء)
’’ہماری اور دیگر حکومتوں کو ملنے والی خفیہ اطلاعات کے مطابق اس بابت کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ عراقی حکومت کے پاس خفیہ طور پر ایسے خطرناک ہتھیار موجود ہیں کہ ایسے خفیہ ہتھیار شائد ہی کبھی بنائے گئے ہوں‘‘۔
(قوم سے خطاب 17مارچ2003ء)
لندن میں برطانوی وزیراعظم اچھے بچے کی طرح اس رٹے رٹائے سبق کو دہرارہے تھے انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی کہ وہ ایسی خفیہ فائل تیار کریں گے جس سے اس دعوے کی تصدیق ہو سکے گی۔ یہ فائل اور کمانڈر انچیف ان کے ہمراہ ٹیکساس میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں ساتھ جانے تھے مگر ایسا نہ ہوسکا کیونکہ برطانوی انٹیلی جنس نے مطلوبہ معلومات گھڑنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً السٹر کیمبل کی سربراہی میں 10 ڈاوننگ سٹریٹ میں چلنے والے پراپیگنڈا سیل نے جلدی میں ایک ایسی فائل تیار کی جس میں ادھورے سچ، اندازوں اور سفید جھوٹ کی مدد سے کچھ شواہد پیش کئے گئے تھے۔ جب محققین نے گوگل ڈاٹ کام پر سرچ کیا تو اس فائل کا پول کھل گیا۔ امریکہ اندر برطانیہ کے تیار کردہ ثبوت کو جو اہمیت دی گئی اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے اپنے پلے کچھ نہیں تھا۔ پلے تو برطانیہ کے بھی کچھ نہیں تھا لیکن برطانوی وزیراعظم کی ساکھ بش کی نسبت ایسی تھی کہ کسی کو تھوڑا بہت قائل کیاجاسکتا تھا۔ 18مارچ2003ء کو ٹونی بلئیر نے وہی سبق پھر دہرایا: ’ہم سے کہاجارہا ہے کہ اگر صدام ہتھیار تباہ کر دے تو اسے قبول کر لو۔ میرے نزدیک یہ بات بالکل لغو ہے‘۔ ہاں البتہ جب بغداد فتح کر لیاگیا تو عین یہی بات ڈونلڈ رمز فیلڈ نے دہرائی۔ اس کے باوجود برطانوی وزیراعظم اور ان کے خارجہ سیکرٹری وسیکرٹری دفاع مسلسل، عوامی تباہی کے ہتھیاروں کی رٹ لگاتے چلے جارہے تھے تاآنکہ تنگ آکر جوائنٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے سابق سربراہ اور 10ڈاونگ سٹریٹ میں بلیئر کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی سر راڈرک بریٹ ویٹ نے فنانشل ٹائمز کے نام ایک خط لکھا۔ 10جولائی 2003ء کو شائع ہونے والے اس خط میں انہوں نے لکھا:
’’اگر موجودہ بحث جاری رہی تو یہ مطالبہ زور پکڑے گا کہ عراق کے حوالے سے حکومت کی جمع کردہ خفیہ معلومات بارے عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔ دریں اثناء اس بارے کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ ایسی کسی عدالتی تحقیقات کا نتیجہ کیا ہوگا اور اس کا وزیر اعظم کے مستقبل پر کیااثر پڑ سکتا ہے۔
مگر گومگو عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے چلائی گئی مہم کی بنیاد خفیہ معلومات پر مبنیٰ کوئی فائل نہ تھی۔ اس سال کے آغاز میں ہم پر ایسی تنبیہوں کی بوچھاڑ کی گئی کہ برطانیہ کے شہروں پر کسی بھی وقت دہشت گردوں کے حملے ہوسکتے ہیں۔ گھریلو خواتین سے کہا گیا کہ وہ خوراک اور پانی کا ذخیرہ جمع کر لیں۔ ہیتھرو ایئر پورٹ ٹینک بھیجے گئے۔ لوگ ایسی کسی جنگ پر جانے کو تیار نہ تھے جس کا مقصد اقوامِ متحدہ کی بالادستی، کسی دور دراز ملک میں کسی آمر کا خاتمہ اور مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت تھا۔ ہاں البتہ جب ایسی ہسٹریائی کیفیت قائم کی گئی تو اہل برطانیہ کو محسوس ہوا گویا وہ خود بھی کسی خطرے کی زد میں ہیں اور ہمیں وار کرنے میں پہل کرنی چاہئے۔ یوں وزیراعظم پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
اس کے بعد کیا ہوا؟ تباہی کا کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوسکا۔ اگر ایسے کوئی ہتھیار موجود بھی تھے تو وہ اس قدر خفیہ رکھے گئے تھے کہ برطانیہ کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتے تھے۔ ہمارے شہروں پر حملوں کی سرکاری تنبیہہ اب سنائی نہیں دیتی گو جنگ کے نتیجے میں دہشت گردوں کے لئے حملہ کرنے کی ترغیبات میں شائد اضافہ ہوا ہے کمی نہیں۔ جمہوریت بغداد کی گلیوں سے آج بھی اتنی ہی دور ہے جتنی پہلے تھی ہو سکتا ہے سب ٹھیک ہوجائے مگر فی الحال ایسا دکھائی نہیں دیتی۔
مچھلی فروش مچھلی بیچتے ہیں، جنگ فروش جنگ۔ دونوں اپنے سودے پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے بلاشبہ نیک نیتی سے جنگ شروع کی۔ لیکن لگتا ہے انہوں نے سودا بیچتے ہوئے اپنے سودے کی کچھ زیادہ ہی بڑائی کر دی ہے۔ اس سودے کی خوبی خامی بارے حتمی فیصلہ کوئی عامل، مصنف یا سیاستدان نہیں کرے گا۔ فیصلہ تو کرنا ہے صارف کو ……جو برطانوی عوام ہیں۔
دو دن بعد نیویارک ٹائمزنے بھی اس بحث میں ٹانگ اڑائی اور انکوائری کا مطالبہ کیا جس کا مقصد یہ طے کرنا ہوکہ کہیں حکومت نے جان بوجھ کر تو عراقی خطرے بارے قوم کو گمراہ نہیں کیا۔ رائے عامہ کے جو جائزے جولائی 2003ء میں سامنے آئے ان سے پتہ چلا کہ پہلی بار امریکی عوام کی اکثریت کو اندازہ ہوا کہ عراق بارے ان سے غلط بیانی کی گئی ہے۔ستم ظریفی دیکھئے کہ بش، چینی اور پاول اس جھوٹ کے سہارے اقوامِ متحدہ کی آشیر باد حاصل کرنے گئے تاکہ ٹونی بلئیر اپنی پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کر سکیں۔ اکثر جھوٹ برطانیہ میں گھڑے گئے پھر امریکہ بھیجے گئے جہاں یہ جھوٹ امریکی رام کہانی کو سچ ثابت کرنے کے لئے استعمال کئے گئے۔ یہاں ہمیں ہانس بلکس کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جو اقوامِ متحدہ کے چیف آرمزانسپکٹر تھے۔ ہانس بلکس پر شدید دبائو تھا کہ وہ کچھ کر کے دکھائیں۔ انہیں کچھ نہ ملا۔ بعد ازاںہانس بلکس یہ شکایت کرتے پائے گئے کہ وہ اور ان کی ٹیم عراق پر امریکی حملے کے لئے امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں۔ انہوں نے دیگر ریاستوں کو مشورہ دیا کہ وہ کبھی بھی اقوامِ متحدہ کی نگرانی قبول نہ کریں۔ اقوامِ متحدہ کی بھیجی ٹیم کا مقصد غالباً جنگ ہوگا۔ یہ خبریں شائع ہوئیں کہ
’’مسٹر بلکس زخموں پر نمک مل رہے ہیں۔ ہانس بلکس نے کہا کہ لندن اور واشنگٹن نے عراق پر حملے کا جو جواز بنایا وہ ’’انتہائی‘‘ ناپائیدار تھا۔ انہوں نے ان دستاویزات کا حوالہ دیاجو اس بات کا ثبوت تھیں کہ عراق نے نائیجریا سے یورینیم درآمد کیا تھا۔ ہانس بلکس کے بقول یہ دستاویزات بعد ازاں جعلی ثابت ہوئیں۔ انہوں نے کہا یہ بات میرے خیال سے پریشان کن ہے کہ جن خفیہ معلومات کی بنیاد پر جنگ کا جواز گھڑا گیا، ان کی صحت بارے شکوک موجود ہیں۔ یہ اشارہ بھی دیا کہ برطانیہ اور امریکہ نے جان بوجھ کر ان معلومات کو عام کیاتاکہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی کے کام کو نقصان پہنچایا جاسکے۔91
ایک ماہ بعد وینٹی فیئر کے ساتھ ایک انٹر ویو میں پال وولفٹنر نے تسلیم کیا کہ بہت سے ایسی وجوہات کی بنا پر کہ جن کا تعلق امریکی حکومت کی بیورکریسی سے ہے، ہم ایک نقطے پر متفق ہوگئے جس سے کسی کو اختلاف نہ تھا۔وہ نقطہ تھا: عوامی تباہی کے ہتھیار، چند ماہ بعد دورہ سنگاپور کے دوران تو انہوں نے اور بھی بے دھڑک ہو کر بات کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ شمالی کوریا پر عراق کی طرح حملہ کیوں نہیں کیاجارہا جب کہ عراق میں تو کوئی ہتھیار بھی برآمد نہیں ہوئے تو امریکی نائب وزیرِ دفاع نے کہا ’سیدھی سی بات ہے۔ عراق اور شمالی کوریا میں سب سے اہم فرق یہ ہے کہ معاشی لحاظ سے عراق میں ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچاتھا۔ عراق تیل سے مالا مال ہے‘۔92یہ بات محض آدھا سچ تھا۔ اگر تو جنگ محض تیل کے لئے ہوتی تو صدام حسین کے ساتھ صلح صفائی ہوسکتی تھی اور صدام حسین امریکی کمپنیوں کے ساتھ بھی اسی طرح خوشی خوشی سودے بازی کرتے جس طرح فرانس اور روس کی کمپنیوں سے کررہے تھے۔
عراق پر ان پابندیوں کا جواز پیش کرنے کے لئے کہ جنہوں نے عراق کا تیاپانچہ کر ڈالا امریکہ بہادر یہ دلیل دیتا رہا کہ ہتھیار شائد صدام حسین کے محلات کے نیچے چھپائے گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کو ان محلات کے معائنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔اس دعوے کے بھونڈے پن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قطر میں سینٹ کام نے ان محلات پر بمباری کا حکم دیا۔ امریکہ کے جنگی رہنما یہ بات بھی مسلسل امریکی عوام کو جتارہے تھے کہ عوامی تباہی کے ہتھیار عین ممکن ہے اسلامی دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائیں۔ یقینا وہ خود بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ جیسا کہ فنانشل ٹائمز کے اس کالم نویس کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے:
اس خطرے سے نپٹنے میں امریکی انتظامیہ کی نااہلی کے حوالے سے ایک شرمناک مثال یہ ہے کہ بغداد فتح کرنے کے ایک ہفتے بعد تک عراق کی ایٹمی تنصیبات کو محفوظ نہ بنایا گیا اور ایٹمی مواد لوٹ مار کرنے والوں کے لئے کھلا پڑا تھا۔ یہ کہ ایسی حکومت جسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں ایٹمی خطرے کا خبط سوار ہے اس کی جانب سے ایسی کوتاہی سے اس کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔93
ری پبلکن انتظامیہ نے گیارہ ستمبر کے قومی سانحے کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے سے نپٹنے کے لئے حب الوطنی کو ہوا دی اور یوں اس ملک میں مختلف رائے رکھنے والوں کے لئے گنجائش مزید کم کر دی گئی جبکہ بیرونی محاذ پر یہ انتظامیہ سامراجی ایجنڈے پر عمل درآمد میں مصروف تھی اور عراق پر قبضہ اس ضمن میں پہلا قدم تھا جس منصوبے پر یہ حکومت عمل درآمد کر رہی ہے جو 1997ء میں پہلی دفعہ’’پراجیکٹ فار دی نیو امریکن سنچری‘‘کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس منصوبے پر دستخط کرنے والوں میں ڈک چینی، ڈونلڈ رمز فیلڈ، پال وولفٹنر، جیب بش، زلمے خلیل زاد، ایلیٹ ابراہمزاور ڈان کوئل کے علاوہ معروف دانش ور فرانسس فوکویاما مج ڈیکٹر، لوئس لبی اور نارمن پوڈ ہورٹس بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی ایمپائر سرد جنگ کے خاتمے پر عاجزی کا راستہ اختیار نہیں کرسکتی۔ ’لگتا ہے ہمیں ریگن انتظامیہ کی کامیابی کا کلیہ یاد نہیں رہا۔ ریگن انتظامیہ کی کامیابی کے پیچھے کارفرما عناصر تھے: ایک ایسی مضبوط فوج جو حال اور مستقبل کے خطرات سے نپٹنے کے لئے تیار ہو۔ ایک ایسی خارجہ پالیسی جو بیرون ملک بہادر اور بامقصد انداز میں امریکی اصولوں کو فروغ دے اور ایک ایسی قومی قیادت جو امریکہ کی عالمگیر ذمہ داریاں تسلیم کرے‘۔ یہ تیکھا اندازِ بیان کلنٹن عہد کے نرم ملائم انداز سے بالکل میل نہیں کھاتا۔ امریکی بالادستی کے لئے جب اور جہاں طاقت کی ضرورت ہوئی، طاقت استعمال کی جائے گی۔ یورپ کے ہاتھ مروڑنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹا گون پر ہونے والہ حملہ گویا بش انتظامیہ کے لئے ایک تحفہ ثابت ہوا۔ حملے سے اگلے ہی روز قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں اس بات پر بحث کی گئی کہ عراق پر حملہ کیاجائے یاافغانستان پر۔ کافی بحث کے بعد افغانستان کا انتخاب کیاگیا۔ ایک سال بعد پراجیکٹ فار دی نیوامریکن سنچری کے اہداف نیشنل سیکورٹی سٹریٹیجی آف دی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کو منتقل کر دئیے گئے جو ستمبر 2003ء میں صدر بش نے جاری کی۔ بغداد کی مہم نئے اہداف کے حصول کی جانب پہلا قدم تھا۔94
اقوام متحدہ کی بارہ سالہ پابندیوں اور اینگلو امریکی بمباری کے باوجود بعث حکومت کا خاتمہ نہیں کیاجاسکا نہ ہی اس کے رہنما کو ہٹایا جاسکا۔ ایک جارحانہ سامراجی حکمت عملی کی طرف رخ کا اس سے بہتر کوئی اظہار نہیں ہوسکتا تھا۔ عراق پر ایک نہیں کئی وجوہات کی بنا پر حملہ کیاگیا۔ اقتصادی پہلو کو دیکھا جائے تو عراق کے پاس سستے تیل کے دنیا میں دوسرے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ 2000ء میں بغداد کا فیصلہ کہ وہ اپنی برآمدات کی اِنوائس ڈالر کی بجائے یورو میں کرے گا وینزویلا کے ہیوگو شاویز اور ایرانی ملائوں کو بھی غلط راستے پر لگاسکتاتھا جبکہ امریکہ کی زیر نگرانی عراقی تیل کی نجکاری اوپیک کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ سٹریٹیجک حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بغداد میں ایک آزاد عرب حکومت کی موجودگی اسرائیل کو ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے۔ جن دنوں صدام حسین مغرب کے حلیف تھے، ان دنوں بھی آئی ڈی ایف نے ایران عراق جنگ کے دوران، ایران کو اسلحے کے پرزے بیچے۔ جب لیکڈ پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے کٹر ری پبلکن واشنگٹن میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے تو بغداد میں موجود روایتی حریف کا خاتمہ یروشلم کے لئے ایک دلکش مقصد بن گیا۔ آخری وجہ یہ کہ جس طرح دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پراٹیم بم گرا کر سویت یونین کو امریکی طاقت سے خبردار کیاتھا اسی طرح آج عراق میں جنگ قاموس آسا کے ذریعے امریکہ نے پوری دنیا کو بالعموم جبکہ مشرق بعید کی ریاستوں چین، شمالی کوریا حتیٰ کہ جاپان کو بالخصوص یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ من مانی امریکہ بہادر کی ہی چلے گی۔
جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ عراق پر حملے کا سرکاری جواز یعنی عوامی تباہی کے ہتھیار، اس قدر بودا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے تابع فرمان معائنہ کار بھی، ان کے اندر کئی سی آئی اے ایجنٹ بھی تھے، اسلحے کا نام و نشان پانے میں ناکام رہے اور مزید وقت کا تقاضا کرنے لگے۔ عین ممکن ہے برطانوی وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی ساکھ بچانے لئے کچھ ہتھیار بعد ازاں دریافت کر لئے جائیں لیکن واشنگٹن میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو اس جھوٹے جواز کو اب بھی بہت اہمیت دیتے ہیں۔ عراق پر قبضے کا جلد ہی نیا جواز گھڑ لیا گیا اور جمہوریت نے مرکزی اہمیت اختیار کر لی گویا قبضہ درحقیقت عراق کی آزادی تھی۔ مشرقِ وسطی میں چاہے وہ امریکہ بہادر کے دوست ہوں یا دشمن، چند ہی لوگ ہوں گے جو ایسی باتوں سے دھوکہ کھارہے ہوں۔ عرب دنیا کے باسی آپریشن عراقی فریڈم کو ایک دھوکہ سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک امریکی قبضہ بھی ماضی کے یورپی استعماری قبضے ایسا ہے۔ اپنے پیش رو یورپی استعمار کی طرح امریکی قبضے کی بنیاد بھی جھوٹ لالچ اور سامراجی تصورات پر ہی مبنی ہے۔ عراق میں جمہوریت کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کے سنکی پن کا اندازہ کولن پاول کی اس پریس بریفنگ سے لگایا جاسکتا ہے جو 1992ء میں انہوں نے بش سینئر کے دور میں دی تھی کہ جب وہ بحیثیت چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اب جو منصوبہ زیر تکمیل ہے اس بارے اس وقت ان کا کہنا تھا:
’’صدام حسین ایک خوفناک آدمی ہے۔ وہ اپنے ہی لوگوں کے لئے ایک خطرہ ہے۔میرا خیال ہے عراقی عوام کے لئے بہتر ہوگا کہ انہیں کوئی نیا رہنما مل جائے مگر ایک رومانی سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ اگر صدام کل کسی بس کی ٹکر کا شکار ہوجاتا ہے تو اس کی جگہ لینے کے لئے کوئی جیفرسن ایسا جمہوریت نواز موجود ہے جو فوراً انتخابات کا انعقاد کروادے گا۔ (قہقہے)
ذرا، سوچئے تو سہی! صدام کی جگہ بھی کوئی صدام حسین لے گا۔ نئے سرے سے دیواروں پر نئے آمرکی تصاویر بنانے پر وقت برباد کرنا پڑے گا۔ (قہقہے)، لہٰذا اس ملک اور اس معاشرے کی ہیئت بارے کسی کو بھی کسی شک کا شکار نہیں رہنا چاہئے۔ امریکی عوام اور ہماری طرف دیکھنے والے اس وقت شدید نالاں ہوتے اگر ہم نے بغداد پر چڑھائی کی ہوتی اور آج دو سال بعد بغداد کی سڑکوں پر کسی جیفرسن کی تلاش میں ہمارے فوجی دربد پھر رہے ہوتے (قہقہے)۔95
اب کی بار کولن پاول اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جیفر سن ایسے جمہوریت پسند بھی بمعہ ائرکنڈیشنگ ودیگر لوازمات عراق پہنچائے جائیں۔ کولن پاول کو خوب علم ہوگا کہ افغان کٹھ پتلی حامد کرزئی کی طرح اس عراقی جیفر سن کی حفاظت کے لئے بھی دن رات امریکی غنڈوں کا پہرہ درکار ہوگا۔ تادم تحریر واشنگٹن اندر محکمانہ رقابت نے عراق اندر بڑھتی ہوئی مزاحمت کے پیش نظر کسی بھی کٹھ پتلی حکومت کا قیام مؤخر کر دیا گیا ہے۔ ممکنہ کٹھ پتلی احمد شلابی کے اینگوامریکی حلیف جو پوری طرح جنگ کے حامی تھے اس بات پر نالاں ہیں کہ ان کے رہنما کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ احمد شلابی امریکی وردی میں ملبوس بغداد پہنچے اور اس بات پر حیران تھے کہ لوگ جوق در جوق ان کا والہانہ استقبال کرنے سڑکوں پر نہیں نکلے۔ شہر کے موڈ کو پیش نظر رکھاجائے تو احمد شلابی کو شکر کرنا چاہئے کہ لوگوں نے ان کی تکہ بوٹی نہیں کر ڈالی۔ احمد شلابی کے حامی بھی کسی خیالی دنیا میں بس رہے تھے۔ انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا اور جہاں بھی صدام حسین کے پورٹریٹ آویزاں تھے ان کو تباہ کر کے ان حامیوں نے ان کی جگہ شلابی کے پورٹریٹ لگا دئیے۔ ان لوگوں کو اس وقت شدید حیرت ہوئی جب شلابی کے پورٹریٹ بھی تباہ کر دئیے گئے۔ مستقبل کا نوری السید بہت سے گیدڑوں میں سے ایک ہے۔ احمد شلابی کا ہم فکر کنعان ماکیہ عراقی جیفر سن کے ہمراہ بغداد نہیں آیا، اس وقت موصوف کو تل ابیب میں یونیورسٹی کی طرف سے اعزازی ڈگری سے نوازا جارہا تھا (اسرائیل کی بے لوث حمایت کرنے پر) اور ڈگری وصول کرنے کے بعد موصوف امریکہ لوٹ آئے۔ اس محفوظ کمین گاہ سے انہوں نے سعودی ملکیت میں چلنے والے اخبار الحیات میں آزاد عراق کے مختصر المدت وائسرے جنرل جم گارنر کی مدح میں ایک توصیفی مضمون قلمبند کیا۔ ایک ہفتے بعد اس عظیم آدمی کی جگہ پال پریمر نے لے لی۔
ایک طرف عراق پر قبضے کے خلاف عوامی سطح پر مخالفت پائی جارہی تھی۔ دوسری جانب سرد مہر امریکی انتظامیہ تھی جو عراق پر گرفت مضبوط کرنے کا تہیہ کئے بیٹھی تھی۔ ان دو انتہائوں کے بیچ باقی دنیا کی حکومتیں تھیں، ان حکومتوں کا کیا ردِ عمل تھا؟ لندن نے حسب توقع مسلسل واشنگٹن کے خونی نائب کا کردار ادا کیا۔ لیبر سامراج کی پرانی روایت ہے جبکہ جنگ بلقان کے دوران ٹونی بلیرٔ نے ثابت کیا کہ وہ زنجیر تڑوائے ہوئے خونخوار کتے کی طرح ہیں نہ کہ ننھے منے پالتو کتے کی طرح۔ برطانیہ نے چونکہ امریکہ کے ساتھ مل کر پہلے کلنٹن دور حکومت میں پھر بش انتظامیہ کے دور میں مسلسل بمباری کی ہے لہٰذا جب تک نیو لیبر حکومت میں ہے کوئی احمق ہی ایک تہائی برطانوی فوج کی مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی سابق نو آبادی میں تعیناتی پر حیران ہوسکتا ہے یا سخن سازی میں مصروف ہاوس آف کامنز کے باغی رکن رابن کک، کلیئر شارٹ یامومولم (تمام سابق ارکان کابینہ) کو حیرت ہوسکتی ہے جو تشدد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ تشدد کرنے والے جلد از جلد اپنا کام نپٹا دیں۔
اٹلی کے برلسکونی اور ہسپانیہ کے آزنر یورپ کے انتہائی رائٹ ونگ حکمران، بلئیر کے دو ایسے کارآمد حمایتی تھے کہ جن کی مدد سے یورپی یونین کے دومعمولی کل پرزوں ڈنمارک اور پرتگال کی حمایت حاصل کرنے میں آسانی ہوئی جبکہ یونان کے سمیتس نے امریکی جاسوسی طیاروں کو مختلف فضائی سہولیات فراہم کیں۔ پولینڈ، ہنگری اور البانیہ میں حکمران سابق اشتراکی جماعتوں نے اپنی نئی وفاداریوں کااظہار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، وارسا نے تو عراق میں لڑائی کیلئے دستہ بھی روانہ کر دیا جبکہ بڈھا پسٹ نے عراقی جلا وطنوں کے لئے تربیتی کیمپ فراہم کئے حتیٰ کہ ننھے منے تیرانہ نے بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے میدان جنگ کے لئے غیر لڑاکا افراد مہیا کرنے کا اعلان کر دیا۔
فرانس اور جرمنی البتہ کئی ماہ تک یہ احتجاج کرتے رہے کہ وہ عراق پر امریکی حملے کے خلاف ہیں۔ شروڈر اگر معمولی اکثریت سے دوسری بار انتخابات جیت سکے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے عراقی جنگ، چاہے اسے اقوام متحدہ کی آشیر باد بھی حاصل ہو جائے، کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کر رکھاتھا۔سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت رکھنے والے شیراک تو اور بھی بے باک ثابت ہوئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ بعث حکومت پر کسی بھی حملے کو فرانس کی حمایت حاصل نہیں ہوسکتی۔ پیرس اور برلن نے مل کر ماسکو کو بھی اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ امریکی منصوبے کی حمایت نہیں کرے گا۔اور تو اور بیجنگ نے بھی ڈھکے چھپے انداز میں ناپسندیگی کا اظہار کیا۔ اس فرانکو جرمن اقدام کے باعث سفارتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اطلانتس اتحاد میں بلاشبہ دارڈیں پڑ چکی تھیں۔اگر یہ دراڑ برقرار رہی تو یورپی اتحاد ناٹو اور عالمی برادری کا کیا مستقبل ہے؟ کیا مغرب کا تصور باقی رہ پائے گا۔ایسے تحفظات کا خاتمہ ضروری تھا ادھر عراقی فضا میں ٹام ہینک میزائل روشن ہوئے اور عراقی شہری امریکی فوج کا نشانہ بنے ادہر شیراک نے اعلان کر دیا کہ فرانس اپنی فضائی حدود سے امریکی طیاروں کی بحفاظت پرواز کی یقین دہانی کراتا ہے۔(جب شیراک وزیراعظم تھے تو لیبیا پر حملے کے لئے فرانس نے ایسا نہ کیا تھا) اور شیراک نے دعا کی کہ امریکی ہتھیاروں کو عراق میں جلد کامیابی نصیب ہو، جرمنی کی زرد سبز وزیرخارجہ کو شیکافشر نے بھی اعلان کیا کہ ان کی حکومت نیک نیتی سے اینگلو امریکی حملے کے خلاف بعث مزاحمت کی تیزتر خاتمے کی حامی ہے۔پوٹن بھی کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے اپنے ہم وطنوں سے کہا کہ اقتصادی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر روس عراق میں بھرپور امریکی کامیابی کی خواہش ہی کر سکتا ہے۔ دوسری انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اس سے زیادہ باعزت راستہ اختیار نہیں کر سکتی تھیں۔
لاطینی امریکہ اندر برازیل کی حکمران ورکرز پارٹی نے بڑبڑانے کے انداز میں کچھ تحفظات کا اظہار کیا جبکہ چلی کے سوشلسٹ صدر کارڈو لاگوس نے جونیم استوائی سوشل ڈیموکریسی کے معیار کے مطابق بھی بے ہمت ہیں، ہڑبڑاہٹ میں اقوامِ متحدہ میں تعینات اپنے سفیر کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنا بیان واپس لیں۔سفیر نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا اور ان کے منہ سے مذمت کا لفظ نکل گیا۔ سفیر کو تردید جاری کرنے کی ہدایت کی گئی کہ ’چلی مذمت نہیں کرتا، چلی عراق پر اینگلو امریکی حملے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے‘۔ عہد حاضر کا نظام 1973ء میں بھی لاگو ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ سلوادور الاندے کے خلاف امریکی پشت پناہی سے ہونے والی بغاوت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمیں مذمت کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ آخر یہ بات بھی تو کہی جاسکتی تھی کہ بغاوت چلی کا اندرونی معاملہ تھا۔ امریکہ نے چلی پر جارحیت تھوڑا ہی کی تھی۔
کچھ پرے، منظر نامہ زیادہ مختلف نہ تھا۔ جاپان میں کو زومی نے اپنے یورپی ہم نشینوں سے بھی قبل اینگلو امریکی حملے کی بھر پورحمایت کا اعلان کر دیا اور بے چارے جاپانی ٹیکس دہندگان کی ادا کردہ رقوم سے بھرپور مالی مددکا وعدہ بھی کیا۔ جولائی 2003ء میں جاپان نے فوجی دستے عراق بھیجنے اورعراق پر امریکی قبضے کو دوام بخشنے کیلئے اپنی عملی خدمات بھی پیش کردیں۔ جنوبی کوریا کے نئے صدر رو موہون نے کہ جنہیں ترقی پسند خیال کرتے ہوئے کوریا کے نوجوانوں نے بہت سی امیدیں وابستہ کررکھی تھیں اور جن کے انتخاب سے لوگوں نے بے شمار امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، اپنے منہ پر کالک ملنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔
انہوں نے نہ صرف امریکی جارحیت کی حمایت کی بلکہ فوجی دستے بھی مشرقِ وسطیٰ روانہ کردئیے۔ ان کی یہ حرکت جنوبی کوریا کے آمر پارک چنگ ہی کی اس روایت کے عین مطابق تھی جو ویت نام جنگ کے دوران پارک نے قائم کی تھی۔ اگر نئے سیول نے یہ کرنا ہے تو پیانگ یانگ کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ اپنی فوجی تیاریاں تیز تر کر دے تاکہ جزیرہ نما کوریا میں کوئی نئی جارحیت ہو تو وہ اس سے نمٹ سکے۔
مشرقِ وسطیٰ میں منافقت اور ساز باز عام سی بات ہے۔ عرب عوام کی امریکی جارحیت سے زبردست بیزاری کے باوجود یہاں کی گماشتہ حکومتیں اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف تھیں۔ مصر میں حسنی مبارک نے امریکی بحریہ کو نہر سویز سے گزرنے کی اجازت دی جب کہ امریکی فضائیہ کو مصر کی فضائی حدود سے گزرنے کی سہولت فراہم کی گئی دریں اثناء مبارک کی پولیس سینکڑوں مظاہرین پر لاٹھی برسانے اور انہیں گرفتار کرنے میں مصروف تھی۔ سعودی بادشاہت نے اپنے علاقے پر کروز میزائلوں کی چھتری تان لی جبکہ امریکی کمانڈ سنٹرز حسب معمول سعودی سر زمین پہ کام کر رہے ہیں۔ اردن جو پہلی بار خلیجی جنگ کے دوران غیر جانبدار رہا، اب کی بار امریکی فوج کے لئے اڈے فراہم کرنے کے لئے بے چین ہورہا تھا تاکہ امریکی فوجیں باآسانی سرحد کے پار حملے کر سکیں۔ ایرانی ملاّں جو اندرونی محاذ پر جتنے جابر ہیں بیرونی محاذ پر اتنے ہی بے وقوف سی آئی اے کے ساتھ افغان طرز کی فوجی مہم کے لئے ساز باز میں مصروف تھے۔ عرب لیگ نے تو رسوائی کی ہر حد عبور کر ڈالی کہ ایک طرف تو عرب لیگ جنگ کی مخالفت میں بیان دے رہی تھی اور دوسری طرف اس کے اکثر ارکان جنگ میں براہِ راست حصہ لے رہے تھے۔ یہ ایسی تنظیم ہے جو خانہ کعبہ پر سرخ،سفید اور نیلارنگ کرنے کے بعد اسے سیاہ قرار دے سکتی ہے۔
’عالمی برادری‘ کی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی جاسکتی ہے: عالمی امریکی اجارہ داری کا ایسا نمایاں اظہار اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
ان حالات میں اگر کہیں حقیقی مزاحمت ہو تو ایسی مثالیں یادگار بن جاتی ہیں۔ اگر کسی منتخب ادارے نے حقیقی معنوں میں جنگ رکوانے کی کوشش کی تو وہ ترک پارلیمان تھی۔ترکی میں تازہ تازہ برسر اقتدار آنے والی اے کے پی حکومت کی کارکردگی دیگر حکومتوں سے کسی بھی طور بہتر نہ تھی۔یہ حکومت مسلسل اس کوشش میں لگی تھی کہ عراق پر امریکی حملے میں فوجی اڈے بننے کی ہر ممکن حد تک بھاری رقم بٹورلی جائے۔مگر ایک تو عوامی دبائو تھا دوسرا قومی حمیت تھی یا ضمیر کی ملامت کہ حکمران جماعت کے ارکان کی اکثریت نے اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور ترکی نے امریکی فوج کو راستہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں پینٹا گون کے منصوبے درہم برہم ہوگئے۔ انقرہ حکومت نے جلدبازی میں امریکی میزائلوں کے گزر اور امریکی چھاتہ برداروں کو زمین پر اتارنے کے لئے ترک فضائی حدود کھول دیں البتہ ترک پارلیمان نے جس طرح امریکہ کی بات تو چھوڑیے اپنی ہی حکومت کی مخالفت کی اس نے جنگ کا رخ بدل دیا۔ یہ مخالفت یورپی مخالفت کے بالکل برعکس تھی کہ یورپی مخالفت جنگ شروع ہوتے ہی ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ انڈونیشیا میں میگاوتی نے یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ عراق پر اینگلو امریکی حملے کی مذمت کرنے کے لئے سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جائے، درحقیقت یہ نشاندہی کی کہ بادشاہ ننگا ہے۔ پیرس برلن اور دیگر جگہوں سے یہ شور مہینوں سے اٹھ رہاتھا کہ حملے کے لئے اقوام متحدہ کی آشیر باد حاصل کی جائے مگر ایک ہو کا عالم طاری رہا۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد نے ایک مرتبہ پھر سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بے دھڑک کوفی عنان کو امریکی جارحیت میں بہرے خانساماں کا کردار ادا کرنے والا قرار دیتے ہوئے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ یہ سیاستدان تیسری دنیا کے دیگر سیاستدانوں کی نسبت بہتر طور پر سمجھ رہے تھے کہ سلطنتِ امریکہ اپنی بھاری فوجی قوت کے ذریعے جنوب کو شمال کی طاقت سے ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔
عراق پر جنگ بھی اسی انداز میں منظم کی گئی تھی جس انداز میں اس سے قبل یوگو سلاویہ اور افغانستان پر جارحیت کی گئی تھی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ واشنگٹن اور کابل کے سیاستدانوں اور جرنیلوں کے خیال میں، کوسوو کابل ماڈل، عراق میں بھی لاگو ہو سکتا ہے۔ یعنی زمینی حملوں کی بجائے بھاری فضائی بمباری تاآنکہ مخالف گھٹنے ٹیک دے۔ ان تمام جگہوں پر بی 52طیاروں اور ڈیزی کٹرز کی کاکردگی کے بعد زیادہ مزاحمت سامنے نہیں آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ البتہ درست نتائج کے حصول کی خاطر، حملے کا نشانہ بننے والی حکومت کے ’اتحادی‘‘ بھی موقع پر ہی دستیاب تھے۔ بلقان کی دفعہ بورس یلسن کے سفیر دستیاب تھے جنہوں نے میلاسوچ کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ امریکی شکنجے میں ہاتھ دیدیں اور کوسوو کے مورچوں سے اپنے دستے واپس بلالے۔ افغانستان کے سلسلے میں جنرل مشرف موجود تھے جنہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے شروع ہوتے ہی طالبان کی اکثریت اور ان کے پاکستانی ’مشیر‘ غائب ہو جائیں۔ ان دونوں ممالک کی حکومتیں بیرونی ا تحادیوں پر انحصار کر رہی تھیں اور دونوں کی پیٹ میں چھرا گھونپا گیا۔
عراق کی بعث آمریت البتہ ہمیشہ سے ایک مضبوط اور ہٹ دھرم حکومت تھی۔96 بعث آمریت کو اس کے دورِ حکومت کے دوران مختلف اوقات میں مختلف بیرونی حلقوں سے سفارتی و فوجی امداد ملی (اس میں یقینا امریکہ بھی شامل تھا اور روس بھی) لیکن بعث حکومت نے کبھی بھی بیرونی سہارے پر انحصار نہیں کیا۔ امریکہ کو یقین تھا کہ بعث قیادت بے لوچ اور بے ضمیر ہوگی لہٰذا اس کی مسلسل کوشش تھی کہ عراقی جرنیلوں کو خریدا جائے۔ ایسی تمام کوششیں آخری دم تک بری طرح ناکام ثابت ہوئیں۔ پینٹاگون کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ روایتی زمینی جنگ کا آغاز کرے۔ سلطنت امریکہ کی فوجی طاقت ایسی ہے کہ اگر اُسے پوری عرب دنیا میں انتفادہ یا خود امریکہ اندر سر کشی کا سامنا نہ ہوتا تو وہ عراق پر فوجی قبضے بارے تیقن سے کاروائی کر سکتی تھی۔ ہاں البتہ اس بارے امریکہ یقین سے کچھ نہ کہہ سکتاتھا کہ طاقت سے بھر پور اس وار کا سیاسی نتیجہ کیا ہوگا۔
بہرحال عراقی فوج نے پہلے ہی وار کے بعد ہتھیار نہیں ڈال دئیے۔ گو کسی حد تک حملہ آوروں کیلئے شکر مندی کے جذبات موجود تھے البتہ عمومی جذبات کا اظہار گوریلا جدوجہد ___ جس میں بمباری، میزائلوں اورتوپوں کے گولوں سے ہونیوالی اموات میں اضافے کے ساتھ ساتھ تیزی آئی __ اور عرب دنیا میں غصے میں اضافے کی صورت ہوا۔ وقتی طورپر صلیبی افواج نے صدام حسین کو قومی ہیرو بنا دیا: اومان، غزہ، قاہرہ اور ثناء میں جو مظاہرے ہوئے، ان میں صدام حسین کے پوسٹر لہرائے گئے۔ جوں جوں بغداد پر امریکی یلغار تیز ہوئی، توں توں بغداد کے ہسپتال زخمی اورمرتے ہوئے مریضوں سے بھرنے لگے۔ ایک امریکی کرنل نے 1940ء کے کسی پانزر کمانڈر کی طرز میں تباہ حال شہر کاجائزہ لیتے ہوئے کہا ’یہ سارا شہر ہمارا ہے‘۔97 ٹینکوں کے پیچھے پیچھے پینٹاگون کی تشکیل دی ہوئی قابض حکومت چلی آرہی تھی۔ اس حکومت کے سربراہ سابق امریکی جنرل جے گارنر تھے جو اسلحے کے سوداگر اور صیہونی لابی سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ ان کے ہمراہ احمد شلابی اور کنعان ماکیہ ایسے دھوکہ بازوں اور غداروں کا ٹولہ تھا۔ امریکہ کے لئے ہر گز بھی مشکل نہ ہوگا کہ وہ کسی انتخاب اور منتخب ایوان وغیرہ کے ذریعے کسی نمائندہ حکومت کا بندوبست کرے البتہ ’عبوری انتظامیہ‘ کا خرچہ پانی عراقی اثاثوں کی فروخت پر مبنی ہوگا۔ ہاں البتہ اگر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ یہ سارے معاملات پر امن طریقے سے طے پا جائیں گے تو ایسی امیدیں اب تک خاک میں مل بھی چکی ہیں۔ اس بات کو تو خیرچھوڑئیے کہ قوم پرستوں کے غضب سے غداروں کو بچانے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑے گا، صرف ہزاروں بعث وادی لڑاکوں اور وفاداروں کے علاوہ ہر قسم کے محب وطن عراقی جذبات کو کچلنے کیلئے شدید جبر کرنا پڑے گا۔
شیعہ آبادی نے کسی قسم کی گرم جوشی نہیں دکھائی جبکہ غیر منظم افواج کی مزاحمت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر ہی یہ باتیں ہونے لگی ہیں کہ عراقی ایسے ’بیمار لوگ‘ ہیں کہ انہیں ان کی تقدیر سونپنے سے قبل (اگر کبھی ایسا کیا بھی گیا تو) ان کا دیر پا علاج کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار آبزرور کے پکے بلئیروادی کالم نگار ڈیوڈ آرانوچ نے کیا۔ اسی طرح وال سٹریٹ جنرل کے جنرج میلن نے کہا: ’تین دہائیوں پر مبنی قاتل دور حکومت کے نتیجے میں عراقی معاشرہ بیمار ہو چکا ہے‘۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’منظم معاشرہ تشکیل دینے اور اقتصادی بحالی (نجکاری!) کیلئے وقت درکار ہو گا، سنڈے ٹائمز کے صفحہ اول پر اخبار کے رپورٹر مارک فرینچٹی نے ایک امریکی این سی او کا بیان رپورٹ کیا: ’’عراقی بیمار لوگ ہیں اور ہم ان کی دوائی ہیں‘‘۔ کارپورل ریان ڈپرے نے کہا: ’’مجھے اس ملک سے نفرت ہونے لگی ہے۔ مجھے انتظار ہے کہ کوئی خبیث عراقی میرے ہاتھ لگے مگر نہیں میں اسے ہاتھ کہاں لگائوں گا‘‘۔ مرڈوک اجارہ داری میں چلنے والے اس اخبار کی اطلاع ہے کہ بعدازاں اُس روز اس یونٹ نے ایک نہیں کئی عراقی سویلین شہریوں کو ہلاک کیا۔98 اس میں شک نہیں کہ ’بیمار معاشرے‘ والے نظرئیے کو مزید اجاگر کیا جائے گا البتہ یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کے حیلوں بہانوں سے مقبوضہ عرب علاقے کو ایک ایسے خطے میں بدلا جائے گا جو غزہ اورگوانتا نامو کا مرکب ہو گا۔
یقینا یورپی حکومتیں یہ مطالبہ دہراتی رہیں گی کہ امریکی شمشیروسناں سے حاصل ہونیوالی فتوحات کو اقوام متحدہ کا خول پہنایا جائے۔ ٹونی بلئیرجو منافقانہ لفاظی میں بش سے زیادہ مشاق واقع ہوئے ہیں، اس مطالبے کی حمایت کریں گے کہ اس میں ان کا اپنا مفاد پوشیدہ ہے۔ یہ باتیں اکثر سننے میں آتی ہیں کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچائی جائے، سول شہریوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے یا یہ کہ عالمی برداری پر ’ایک مرتبہ پھر متحد‘ ہونے کے لئے زور دیا جاتا ہے۔99 جب تک اقوام متحدہ کو کوئی حقیقی طاقت حاصل نہیں ہوتی‘ امریکہ بہادر تو چاہے گا کہ اس کی جارحیت پر اقوام متحدہ کی مہر ثبت ہوتی رہے جیسا کہ کوسوو کے معاملے میں ہوا۔ جن دنوں سلامتی کونسل میں نورا کشتی جاری تھی اور تمام متعلقہ فریقین کے علم میں تھا کہ امریکہ عراق پربھر پور حملے کی تیاری کررہا ہے، امریکہ کو بحث مباحثے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایک بار جب فرانس، روس اور چین، شام کا ذکر تو نہ کرنا ہی بہتر ہے، نے قرار داد 1441منظور کر دی، امریکہ نے اس قرار داد کو جیب میں ڈالا اور باقی سب معاملات محض دکھاوے کیلئے سرانجام دئیے گئے۔ خود فرانس کے سفیر برائے واشنگٹن ژاں ڈیوڈ لیوت نے امریکہ کو مشورہ دیا کہ وہ دوسری قرار داد کے چکر میں نہ پڑے: ’اس قرار داد کے پیش ہونے سے کئی ہفتے قبل میں وائٹ ہائوس اور محکمہ خارجہ گیا اور ان سے کہا : ’’ایسا مت کرو…… آپ کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
اصل مسئلہ لندن کی ریاکاری کا تھانہ کہ واشنگٹن کی ہٹ دھرمی جو سارا ناٹک نئے سرے سے نچایا گیا تاکہ اقوام متحدہ سے مزید اختیار حاصل کیا جاسکے۔ گو اس مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ ہاں مگر لیوٹ کے بیان سے خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ کی حیثیت امریکی خارجہ پالیسی کے آلۂ کار سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم موڑ بطروس غالی کی بطور سیکرٹری جنرل سبکدوشی تھی حالانکہ امریکہ بہادر کے سوا سلامتی کونسل کے تمام اراکین نے اُن کے حق میں ووٹ دیا۔ بطروس غالی کی غلطی صرف یہ تھی کہ انہوں نے مغرب کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جو بوسینا کے لئے مرا جا رہا تھا مگر افریقہ پر توجہ دینے کو تیار نہ تھا جہاں بوسینا سے بڑے المئے جنم لے رہے تھے۔ ایک بار جو کوفی عنان ___ جو افریقی والڈہیم ہیں اور انہوں نے روانڈا میں جاری قتلِ عام سے توجہ ہٹانے اور روانڈا کی امداد کٹوانے میں کلنٹن انتظامیہ کی مدد کی تھی __ جو سیکرٹری جنرل کے عہدے پر تعینات ہوئے تو گویا اقوام متحدہ پوری طرح امریکی مٹھی میں تھا۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اقوام متحدہ ہر بار ہی امریکی مرضی کے مطابق چلے گی جیسا کہ ٹونی بلیئر والے معاملے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی ضرورت بھی کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ جو بھی کچھ کر گزرے، اقوامِ متحدہ بعد ازاں اس پر مہر تصدیق ثبت کر دے اور ہوتا بھی درحقیقت ایسا ہی ہے۔ ایک کام جو اقوام متحدہ نہیں کر سکتی وہ ہے امریکہ کو کسی کام سے باز رکھنا یا اس کی مذمت کرنا۔ عراق اور اس سے قبل یوگو سلاویہ پر حملہ، ایک نقطہ نظر کے مطابق، اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سلامتی کونسل کے کسی بھی رکن کو البتہ یہ ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ مذمت تو دور کی بات اس مسئلے پر ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست ہی دیدے۔ ویسے ایک اور نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو عراق کے مسئلے پر ایسی کوئی قرار داد درحقیقت منافقت کے مترادف ہوتی کہ پہلی خلیجی جنگ کے بعد لگنے والی پابندیوں کی صورت عراق پر سے جنگ تو خود اقوام متحدہ نے شروع کر دی اور روانڈا کے بعد جو ہزاروں لوگ ان پابندیوں کی بھینٹ چڑھے ان کا خون سلامتی کونسل کے ہاتھوں پر ہے۔100 اقوامِ متحدہ سے امریکہ کے خلاف اپیل کرنا اس طرح ہے کہ ملازم سے کہاجائے وہ اپنے مالک کو علیحدہ کردے۔ اپنے کردار کے عین مطابق اقوامِ متحدہ نے مئی 2003ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مکمل طورپر گھٹنے ٹیکتے ہوئے عراق پر قبضے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ اس تصدیق کیلئے ’عالمی برادری‘ نے بالکل مناسب وقت کا انتخاب کیا۔ اس واقعہ کے اگلے ہی روز لندن میں ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں ایک ہزار کمپنیاں شریک ہوئیں۔ اجلاس عراق میں تعمیر نو کے سب سے بڑے ٹھیکے حاصل کرنے والی امریکی کمپنی بیخ ٹیل کی چھتری تلے ہوا اور مندوبین کو بتایا گیا کہ عراق میں جاری لوٹ مار کا معمولی سا حصہ ان میں بانٹا جاسکتا ہے۔
ان حقائق کو اجاگر کرنے کا مطلب ہر گز بھی یہ نہیں کہ عراق کی بابت ’عالمی برادری‘ میں پڑنے والی پھوٹ کو بھلا دیا جائے۔ جب کلنٹن انتظامیہ نے یوگو سلاویہ پر حملے کا منصوبہ بنایا تو سلامتی کونسل اس کی منظوری نہ دے پائی کہ روس نے ٹانگ اڑا دی۔ کلنٹن انتظامیہ نے یہ سوچتے ہوئے بذریعہ ناٹو اپنے منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیا کہ ماسکو بعدازاں قافلے میں شامل ہو جائے گا اور اقوام متحدہ بھی جنگ ختم ہونے کے بعد اس کی منظوری دیدے گی۔ امریکہ کو اگر یہ اطمینان تھا تو یہ ایسا بے جا بھی نہ تھا۔ اب عراق کی بار ناٹو میں بھی تقسیم تھی ہاں البتہ یہ توقع کرنا بے وقوفی ہو گی کہ اب کی بار نتیجہ مختلف نکلے گا۔
سرد جنگ ختم ہونے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ یورپی یونین کے مرکزی ممالک اور امریکہ کے درمیان تنازعے نے یوں بیچ چوراہے میں جنم لیا، اور اُس کے باعث بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب عوامی رائے اس بری طرح منقسم ہو گئی۔ اس قسم کے اختلافات سرد جنگ کے دوران بھی اسی خطے کے حوالے سے اسی قسم کی مہم جوئی کے ضمن میں سامنے آئے تھے مگر صحافتی حلقوں کی یاداشت کچھ کمزور واقع ہوئی ہے۔ 1956ء میں اینگلو فرانسیسی اتحاد نے اسرائیل کے اشتراک سے مصر میں حکومت بدلنے کی کوشش کی تھی۔ امریکہ کو اس مہم جوئی پر شدید طیش آیا۔ اس مہم جوئی کی پیشگی اطلاع امریکہ کو نہیں دی گئی تھی۔ امریکہ کو ڈر تھا کہ اس قسم کی مہم جوئی کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں اشتراکی لہریں ابھر سکتی ہیں۔ جب سوویت روس نے دھمکی دی کہ وہ راکٹوں سے جمال عبدالناصر کی حمایت کرے گا تو آئزن ہاور نے برطانوی فوج کو حکم دیا کہ وہ مصر سے فوج نکالے۔اس مہم کی بھاری اقتصادی قیمت بھی چکانی پڑی اور یوں یہ سہفریقی حملہ اپنے انجام کو پہنچا۔
اس بار کردار بدل گئے ہیں۔ فرانس اور جرمنی جارحیت کی مخالفت کر رہے تھے جبکہ امریکہ اوربرطانیہ __سدا کا لڑاکا کتا __ مہم میں شریک ہیں۔
اب کی بار فرق صرف یہ پڑا ہے کہ سوویت یونین کسی گنتی میں نہیں جبکہ حتمی طاقت امریکہ کے پاس ہے نہ کہ یورپ کے۔ 1956ء کے اسباق کی اہمیت بہرحال اپنی جگہ موجود ہے۔ اہم عالمی تنازعات سے بہر حال عالمی طاقتوں کی یگانگت میں فرق نہیںآتا۔ ہر تنازعے کے فوری بعد یہ یگانگت اپنا اظہار کرتی ہے۔ سویز مہم کی ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کر فرانس نے معاہدہ روم پر دستخط کر دئیے یوں ای ای سی کا قیام عمل میں آیا۔ اس ای ای سی کا مقصد امریکہ کے مقابلے کی قوت تیار کرنا تھا۔ ادھر امریکہ آج خود یورپی برادری کی توسیع کا خواہاں ہے کہ اس کی توسیع میں امریکہ کا بھلا ہے اور فرانسیسی اشرافیہ اب ہاتھ مل رہی ہے گو اب کافی دیر ہو چکی ہے۔ واشنگٹن، پیرس اوربرلن کے مابین کچھ عرصہ تو گذشتہ مہینوں میں ہونیوالی کشیدگی کا اثر موجود رہے گا چاہے تمام فریق یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ان باتوں کو بھلا کر آگے کی طرف دیکھنا چاہتے ہیں۔ یورپی یونین کے اندر برطانیہ نے فرانس اورجرمنی کی مخالفت میں امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی وہ بیچ کا آدمی ہے مگر اس کا کردار بے نقاب ہو چکا ہے۔ وہ دن البتہ عرصہ ہوا اب لد چکے کہ جب ڈیگال سچ مچ امریکہ سے ٹکر لے سکتا تھا۔ شیراک اور بلئیر نے بغل گیر ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔
اچھا تو اگر یوں ہے کہ چین اور روس تو ایک طرف رہے اقوام متحدہ یا یورولینڈ سے کوئی امید وابستہ کرنا بھی بے سود ہے تو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا راستہ کون روکے گا؟ مزاحمت کہاں سے شروع ہوگی؟
جواب: سب سے پہلے تو مزاحمت خود اس خطے سے جنم لے گی۔ امید کی جاسکتی ہے کہ امریکہ کی نامزد کردہ گماشتہ حکومت قومی مزاحمت کے آگے نہ ٹہر سکے گی اور ساز باز کرنے والوں کا انجام بھی نوری السید سے زیادہ مختلف نہ ہوگا۔ جلد یا برید، عراق پر مسلط بدعنوان گروہ کی گرفت ڈھیلی پڑے گی۔ یہ بات کہ پرانی طرز کے کلاسیکل انقلابات کا زمانہ گزر چکا ہے، اگر کہیں غلط ثابت ہوگی تو عرب دنیا میں ہوگی، جس روز مبارک، ہاشمی، اسد، سعودی اوردیگر شاہی خاندان عوامی ریلے میں تنکے کی طرح بہہ جائیں گے، اس روز امریکہ ___اور اسرائیل __ کا غرور اس خطے میں خاک اندر مل جائے گا۔جہاں تک تعلق ہے خود امریکہ کا تو حکومتی نظام کی مخالفت کرنے والوں کی خود امریکی تاریخ حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں چین اندر جنم لینے والی باکسر بغاوت اور فلپائن پر امریکی قبضے پر سامنے آنے والے شائونسٹ رد عمل پر دم بخود رہ جانے والے مارک ٹوین نے خوب خبردار کیا تھا۔ مارک ٹوین نے کہا تھا کہ سامراج کی مخالفت ناگزیر ہے۔ 1899ء میں شکاگو اندر امریکن اینٹی امپریلسٹ لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ دو سال کے اندر اندر اس تنظیم کے ارکان کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی جبکہ ولیم جیمز، ہنری جیمز، ڈبلیوای بی ڈیبوئس، ولیم ڈین ہاولز اور جان ڈیوی ایسے لوگ بھی اس کے رکن بن چکے تھے۔ آج جبکہ امریکہ ہی واحد سامراجی طاقت ہے تو ضرورت ہے کہ گلوبل اینٹی امپریلسٹ لیگ تشکیل دی جائے۔ اس ضمن میں البتہ ایسی کسی تنظیم کا امریکی ونگ ہی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ سب سے اہم مزاحمت وہ ہوتی ہے جو اندرونی محاذ پر جنم لیتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب کسی سلطنت کے شہری مسلسل جنگ اور مستقل قبضوں کے فلسفے پر مزید اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو سلطنت کو پسپائی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
ورلڈ سوشل فورم نے خود کو اب تک ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور نیئولبرل اداروں تک محدود رکھا ہے۔ ان اداروں کا انحصار ہمیشہ کسی سامراجی قوت پر رہاہے۔ واشنگٹن کونسینس٭ کے محرک فریڈرک وان ہائیک اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ نئے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے جنگ کی ضرورت ہے اور انہوں نے 1979ء میں ایران اور 1982ء میں ارجنٹینا پر بمباری کی پر زور وکالت کی۔ ورلڈ سوشل فورم کو چاہیے کہ اس چتاونی کا جواب دے۔ ورلڈ سوشل فورم دنیا کے سو سے زائد ممالک میں متعین امریکی فوجی اڈوں، فوجی دستوں اور فوجی تنصیبات کے خاتمے کی تحریک کیوں شروع نہیں کرتا؟ دنیا بھر میں پھیلی اس امریکی فوج کا اس کے سوا کیا مقصد ہے کہ کرۂ ارض پر امریکی گرفت مضبوط کی جائے! اگر ورلڈ سوشل فورم اپنے ایجنڈے میں اس بات کو شامل کر لے تو کسی طرح بھی اس کے اقتصادی ایجنڈے کی نفی نہیں ہوگی۔ معیشت بہر حال سیاست کے ارتکاز کا ہی دوسرا نام ہے جبکہ جنگ دیگر طریقوں سے معیشت اورسیاست کے تسلسل کا ہی نام ہے۔
گذشتہ کچھ مہینوں سے ہم ایسے سیاستدانوں، پنڈتوں، ناصحین اور دانشوروں کے نرغے میں ہیں جو بذریعہ تحریر یا برقی لہروں کے ذریعے اپناماضی الضمیر بیان کرتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ جنگ کے کس قدر مخالف تھے مگر اب جب جنگ شروع ہو چکی ہے تو انسانیت سے اظہار محبت کیلئے یہ لوگ امریکہ کی جلد از جلد فتح کے حامی ہیں تاکہ عراقی عوام کا دورِ مصائب جلد کٹ جائے۔ حسبِ معمول ان حضرات کو عراق پر لگی پابندیوں اور ان پابندیوں کے ساتھ ساتھ ان ہفتہ واراینگلو امریکی بمباری پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا جن کے نتیجے میں عراقی عوام بارہ سال تک مصائب کا شکار رہے۔ ان لوگوں کے واویلے کا ایک ہی فائدہ ہے۔ ان کی وجہ سے جنگ عراق کے حقیقی مخالفین کا پتہ چل جاتا ہے۔ سامراج مخالف تحریک کا فوری فریضہ یہ ہے کہ اینگلو امریکی قبضے کے خلاف عراقی مزاحمت کی حمایت کرے اور عراق میں اقوام متحدہ کی آمد کی مخالفت کرے کہ اقوام متحدہ کی عراق میں آمد کا مقصد ہو گا عراق پر اینگلو امریکی قبضے پر پردہ ڈالنا۔101 سامراجیوں کو سامراجی عزائم کی قیمت چکانے دیں۔ 1920ء کی دہائی میں جس طرح لیگ آف نیشنز نے مینڈیٹ کی صورت عراق پر قبضے کو جائز قرار دیا تھا، اگر آج اس طرح کی کوئی بھی کوشش ہوتی ہے تو اس کو بے نقاب کیا جائے۔ بلیئر اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے والوں میں سرِ فہرست ہیں مگر ان کے یورپی حامیوں کی بھی کمی نہیں۔ مرڈوک ٹی وی چینل، بی بی سی اور سی این این اگر اس قسم کے پراپیگنڈے میں مصروف ہیں تو مقصد اس کا یہ ہے کہ مغرب کو متحد کیا جائے۔ یورپ میں سرکاری حلقوں کی اکثریت اور امریکہ اندر بھی خاصا بڑا حصہ اس کوشش میں ہے کہ جنگ عراق کے دوران جو اختلافات کا گھائو لگا تھا، اب اس پر مرہم رکھا جائے۔ مستقل کی صورت حال سے نپٹنے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ اس کا جواب وہ نعرہ ہے جو 2003ء کے موسم بہار میں سان فرانسسکو کی سڑکوں پر لگایا جا رہا تھا: ’نہ اُن کی جنگ، نہ اُن کا امن‘۔ یہ جذبات بغداد سے لیکر بصرہ، ناصریہ اور نجف تک، امرہ سے لیکر فالوجہ تک پائے جاتے ہیں۔
یکم مئی 2003ء کہ جب جنگ سرکاری طورپر ختم ہوئی، سے لیکر 31جولائی 2003ء تک مسلسل زخمی ہونے اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانوی فوج بھی تمام تر اشتہاری مہم کے باوجود عوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ مسلسل نقصان اٹھا رہی ہے۔ اسی کم درجے کی گوریلا جنگ کا نتیجہ یہ ہے کہ پینٹا گون اگر منافع (جس کا امکان ابھی کم دکھائی دیتا ہے) نہیں تو نقصان دوسرے ملکوں کے ساتھ ضرور بانٹنا چاہتا ہے۔ امریکی فوجیوں میں پھیلی بددلی سے بھی پینٹاگون پشیمان ہے۔
تادمِ تحریر کوششیں جاری ہیں کہ امریکی قبضے کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستانی اور ہندوستانی دستے منگوائے جائیں۔ کم سے کم فوگی باٹم میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ ان دو ملکوں کی فوجوں کا تاریخی کردار تو یہی بنتا ہے۔ ماضی میں ان فوجوں نے یہ کردار خوب نبھایا ہے۔ ان کی تربیت کرنے پر زیادہ خرچ نہیں اٹھے گا۔ بجائے اس کے کہ یہ آپس میں لڑیں، بہتر ہوگا یہ ہمارے لئے لڑیں۔ سو سال پہلے برطانیہ کے بنائے ہو ڈھانچے آج بھی مضبوطی سے قائم ہیں۔ شام اور عراق کی طرح ان افواج کے چھوٹے افسروں نے بغاوت کرتے ہوئے کبھی بھی نظم وضبط کی عمدہ روایت سے غداری نہیں کی۔ یقینا یہ عمل سلطنتِ برطانیہ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے مترادف ہے۔ 1920ء کی دہائی میں ہندوستانی فوج نے کئی بار سرکشی کا قلع قمع کیا۔ ان دستوں کو ایک مرتبہ پھر بلوایا جاسکتا ہے اور ان کی کمان برطانیہ کے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے۔
اسلام آباد کے سیکولر سرخیل اور دہلی کے ہندو بنیاد پرست نے اس درخواست پر غور کیا تھا مگر نتائج کیا ہوں گے؟ پاکستان میں اب وہ حالات نہیں کہ جب ستمبر 1970ء میں بریگیڈئیر ضیاء الحق کو اردن بھیجا گیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی سرکشی کا خاتمہ کرنے میں اردن کی مدد کریں۔ اگر پاکستانی دستے عراق اس غرض سے بھیجے گئے کہ امریکی قبضے کی حفاظت کریں تو فوج کے اندر بھی اس کا اثر ہوگا اور یہ اثر ایک محدود عرصے تک باقی رہے گا۔ اثر یہ ہوگا کہ اسلامی رجحان رکھنے والے فوج کے اندر طاقت پکڑیں گے۔ جب جنرل مشرف یہ کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی چھتری فراہم کی جائے تو اس کا مقصد اپنے لئے ڈھال کی تلاش ہوتا ہے گو پاکستان میں لوگ کم کم ہی اس ڈھونگ سے دھوکا کھائیں گے۔ بلاشبہ پیسہ ملے گا۔ پاکستانی افسروں اور سپاہیوں کو پاکستان میں ملنے والی تنخواہوں سے کہیں زیادہ پیسے ملیں گے۔ پیسہ یقینا ایک کشش ہے بالخصوص آج عالمگیریت کے عہد میں۔ اس بات سے فوج کی اعلیٰ کمان کو قطعاً کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ان کی سپاہ اپنے ہم مذہب لوگوں کا خون کریں گے۔فلسطینی، بنگالی، بلوچ اور سندھی اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں۔ اس فہرست میں باآسانی عراق کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
ذرا پرے مزید جنوب کی جانب، نئی دہلی جو افغان جنگ میں شامل ہونے سے رہ گیا تھا، اس بات کو یقینی بنانا چاہتاہے کہ عراق جنگ میں ضرور حصہ لے۔ عوامی مطالبوں اور ملک کے معروف سیکولر دانشوروں کی مخالفت کے باوجود ہندوستان کی ہندو بنیاد پرست حکومت اپنی فوج کے ہاتھ خون سے رنگین کرنے پر تلی ہوئی تھی مگر جب مخلوط حکومت میں شامل بی جے پی کے اتحادیوں نے مخالفت کی تو ہندوستانی سرکار پیچھے ہٹی۔ ویسے ایک عاجزانہ سی جسارت ہے۔ سرکاری ہندوستانی دستے بھیجنے کی بجائے اگر نریندر مودی بریگیڈ کی بے رحم مگر متحرک کمان میں لشکری روانہ کر دئیے جائیں تو اندرونی محاذ پر بھی فائدہ ہوگا اور بیرونی محاذ پر بھی۔102 وقت آگیا کہ ازسرِ نو منتخب ہونے والے گجراتی جلاد کو پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ منتخب حکومتوں کے مظالم آمروں کے جبر سے مختلف ہوتے ہیں البتہ اگر آمروں کو سامراجی دارلحکومتوں سے ہدایات مل رہی ہوں تو بات دوسری ہے۔ مودی کے جمہوری تصدیق نامے پر کسی کو شک نہیں۔ قتل و غارت کی صلاحیت پر بھی کسی کو شبہ نہیں۔ مودی کی پولیس فورس کو باآسانی ہیلمٹ اور وردی مہیا کی جاسکتی ہے۔ وردی باہر سے نیلی مگر اندر سے گہرے زعفرانی رنگ کی ہو گی۔ یہ پولیس فورس عراق کے مسلم عوام کی سرکشی کچلنے کے لئے روانہ کی جاسکتی ہے۔ یہ کام سرکاری طورپر کیا جاسکتا ہے۔ کوئی جھوٹ گھڑنے کی بھی ضرورت نہیں۔
ایک چھوٹا سامسئلہ البتہ ضرور پیش آئے گا۔ عراقی مزاحمت کریں گے جبکہ مودی کے قاتل دستے غیر مسلح مسلمانوں کا قتل کرنے کے عادی ہیں۔ اس مسئلے کا حل البتہ موجود ہے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ مزاحمت کاروں کو غلے کی فراہمی روکنے کے لئے گائوں کے گائوں نذرِ آتش کر کے گائوں کے باسی ہلاک کر دئیے جاتے ہیں۔ مودی کے دستے اس قسم کی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔