اور پھر یوں ہوا کہ شاعر فرار ہوگئے کہ خوف کی وادی میں سوچنا یا گنگنانا ممکن نہیں رہا تھا۔ دن مہینے سال گزرتے رہے مگر موت کا کھیل اور ظلم و تشدد کی یادیں عراقیوں کے ذہن سے مٹ نہ پائیں چاہے وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے یا اپنے ہی ملک میں رہ رہے تھے۔ اکثر وہ اپنے آپ سے پوچھتے ’جو ہویا اے ایہہ ہونا ای سی‘ ہونی ہویاں رکدی نئیں‘؟ اور کبھی کبھار وہ ایک اور سوال بھی اٹھاتے جو شائد زیادہ مناسب تھا: اگر کمیونسٹ آجاتے تو کیا صورتِ حال مختلف ہوتی؟ کیا عزیز الحج صدام کی نسبت زیادہ مہربان آمر ہوتا؟ آخر بعث پارٹی کا خمیر بھی تو لگ بھگ وہیں سے اٹھا تھا جہاں سے باقی سیکولر گروہوں کے سوتے پھوٹے تھے۔ چالیس اور پچاس کی دہائی میں جو نوجوان حلقہ بگوشِ بعث ہوئے تھے، ان کے سامراج مخالف آدرش یا ان کی طبقاتی بنت قوم پرستی، سوشلزم اور کمیونزم سے متاثر ہونیوالیوں سے خاص مختلف تو نہ تھی۔ یہ تحریکیں بھی تو بہرحال اتنی بڑی نہ تھیں۔
سامراج کے گڑھ یورپ میں موجود لبرل اورسوشل ڈیمو کریٹک جماعتوں کی یہ بڑی ناکامی تھی کہ انہوں نے نو آبادیات یا ممالکِ محروسہ کی آزادی کے حق میں آواز بلند نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ عرب نوجوانوں کا ایک بڑاحصہ لبرل اور سوشل ڈیمو کریٹک روایات سے بیگانہ ہو گیا۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں جو دیگر ماڈل موجود تھے وہ کمیونزم اور فسطائیت تھے۔ کچھ قوم پرست تھے جو جرمن ماڈل سے متاثر ہوئے۔ انہیں فسطائیت کی جو بات پسند آئی وہ تھی اس کی قوم پرستی اور طاقت جس کے بل بوتے پر اس نے برطانوی اور فرانسیسی سلطنت کو شکست دیدی تھی۔ ایسے قوم پرست یہ بات بہر حال بھول رہے تھے کہ جرمن سامراج اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتا تھا۔ فسطائیت البتہ اپنی کشش کافی حد تک کھو بیٹھی جب دوسری عالمی جنگ کے دوران اسے پہ در پہ سوویت یونین کے ہاتھوں سٹالن گراڈ اور کرسک کے محاذ پر شکست اٹھانی پڑی۔ سرخ فوج کی برلن تک پیش قدمی کا عالمی سطح پر اثر پڑا، ہر خطے میں کمیونسٹ پارٹیوں کی طاقت میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔
چالیس کی دہائی میں بعث (نشاۃ ثانیہ) کی بنیاد رکھنے والے شامی دانش ور کبھی بھی فسطائیت سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔ بعث کے بانی اور اہم ترین نظریہ ساز مشعل افلاق فرانس کے تعلیم یافتہ تھے اور ابتداً فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی سے متاثر تھے۔ 1936ء میں فرانس اندر قائم ہونے والی پاپولر فرنٹ حکومت٭میں شامل کمیونسٹ پارٹی نے جب نو آبادیات کی آزادی کا مطالبہ ترک کردیا تو مشعل افلاق نہ صرف حیران رہ گئے بلکہ اشتراکی جماعت سے بیگانہ بھی ہوگئے۔ مشعل افلاق نے اس تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اشتراکی رہنما غریبوں اور محکوموں، بالخصوص نو آبادیاتی دنیا سے تعلق رکھنے والے غریبوں اور محکوموں پر یا اپنے گھٹیا مفادات کو ترجیح دیں گے یا سوویت ریاست کی ترجیحات کو۔ اگر عملاً ’پرولتاری عالمیت‘ ایسی تھی تو نو آبادیاتی اور نیم نو آبادیاتی دنیا کے باسیوں کو چاہیے کہ سہانے نعروں اورسوویت یونین کو بھلا کر سیدھے سادے قوم پرست کے طور پر اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کریں۔ 47 یہ جواز تھا جو مشعل افلاق نے صالح بیتار کے ساتھ مل کر 1943ء میں بعث کی بنیاد رکھتے ہوئے پیش کیا۔ یہ جواز 1948ء کے بعد تو گویا عقیدے کی صورت اختیار کر گیا جب عرب کمیونسٹ پارٹیوں نے ماسوائے عراق کے (فہد ہنوز زندہ تھے)، قیامِ اسرائیل کی حمایت کی کہ سرکاری سوویت پالیسی یہی تھی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عراق اور مصر کی کمیونسٹ جماعتوں کے یہودی ارکان نے سرکاری سوویت پالیسی کی سخت مخالفت کی تھی۔ مصر کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک بانی نے تو قیامِ اسرائیل کے خلاف احتجاجاً اپنا نام تبدیل کر لیا اور مصر چھوڑ کر اسرائیل جانے سے انکار کر دیا۔48 اس کے باوجود ان جماعتوں کی سرکاری پالیسی کا عذر مہیانہ ہو سکا۔ یہ بات اس خطے کے دو سامراج مخالف دھاروں کے مابین گہری مخاصمت کا ایک اہم عنصر تھااور اسی کی باعث بعث کے لئے یہ نہایت آسان تھا کہ وہ عوامی بنیادیں حاصل کرے۔ پچاس کی دہائی میں کہ بعث ہنوز شام و عراق میں برسر اقتدار نہ آئی تھی بلکہ اس کے بعد بھی کچھ عرصہ تک، پارٹی اندر کھلی بحثیں ہوتی تھیں جبکہ اختلافات عموماً رائے شماری کے ذریعے نپٹائے جاتے۔ بندوق کا عمل دخل بعد میں شروع ہوا۔ پارٹی کے تاریخی بانی، مشعل افلاق اور صالح بیتار، معتدل مزاج انسان تھے، دونوں پیشے کے اعتبار سے معلم تھے، دونوں پہلی عالمی جنگ سے ایک دہائی بعد سار بون سے فارغ التحصیل ہوئے۔انہیں دیکھ کر یوں لگتا گویا دو مہذب یورپی سوشلسٹ عرب سیاست کے بازار میں آن پھنسے ہیں اور مصیبت یہ تھی کہ برخلاف طبیعت انہیں بھائو تائو بھی کرنا پڑتا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ جب بعث برسراقتدار آئی تو مشعل افلاق ذاتی طورپر کسی بدعنوانی میں ملوث نہ ہوئے البتہ بطور بانی اپنی بات منوانے کیلئے وہ بعض اوقات بہت معمولی مسائل پر بھی اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے۔ جمال عبدالناصر اورشام کے اشتراکیوں سے سودے بازی خاصی بری بات تھی البتہ جب بعث کے اپنے اندر دھڑے بازی کی جنگ تیز ہوئی تو بانیان جماعت خوفزدہ ہوگئے۔ مشعل افلاق کمیونزم کے خلاف تھے البتہ وہ کمیونسٹوں کا قتل عام کرنے کے خلاف تھے جیسا کہ بغداد اندر 1963ء کی بغاوت کے بعد عراقی بعث وادیوں نے کیا۔ یہ امر کہ عراق اندر فرسودہ بعث وادی جو مخالفین پر ظلم و تشدد کا بندوبست کر رہے تھے___ اور اس بات پر فورٹ لانگلے خوب خوش تھا ___ افلاق اور افلاق کے حامیوں پر یہ کہہ کر تنقید کرتے کہ وہ ’بورژا آئیڈیل ازم‘ کے چکر میں ہیں یوں وہ بائیں بازو کی انتہاء پسندی بارے بانیٔ جماعت کے تمام تعصبات کی ترجمانی کرتے۔
5تا23 اکتوبر، 1963ء کو منعقد ہونے والی پارٹی کانگرس میں عراقی اور شامی شاخوں کے ’ترقی پسند دھڑے‘ متحد ہوگئے، یوں ان کو اکثریت حاصل ہوگئی۔ سیاسی جماعتوں کے اندر ایسا ہونا معمول کی بات ہے۔ اکثریتی گروہ نے تیاری کر رکھی تھی اور کانگرس دوران انہوں نے بعض اہم مندوبین کی حمایت بھی حاصل کرلی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی پیش کی ہوئی تمام قرار دادیں منظور ہو گئیں۔ ساربون کے فارغ التحصیل دو پرانے گریجویٹس حیران تھے کہ کانگرس نے ’سوشلسٹ پلاننگ‘ مشترکہ زرعی فارم چلانے کے لئے کسانوں کی منتخب پنچایتیں، اور ’ذرائع پیداوار پر مزدوروں کا جمہوری کنٹرول‘ قائم کرنے کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ (یہ کانگرس گویا 1968ء میں قائم ہونیوالی ساربون ’سوویت‘ کا ابتدائی خاکہ تھی)۔ اس بابت اگرکوئی شک باقی تھا کہ ان قراردادوں کا مدعا کون ہے؟ اس شک کو رفع کرنے کیلئے کانگرس نے’نظریاتی اشرافیہ‘ کے مقام اور بڑھتے ہوئے اثر کو بھی رد کرنے کا اعلان کیا۔ مشعل افلاق سخت چیں بہ جبیں تھے اورکانگرس ختم ہونے پر کہہ رہے تھے یہ ’جماعت اب میری جماعت نہیں رہی‘۔ انکے مخالفین یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے کہ وہ یہی سننا چاہتے تھے۔ اپنی جان کے لئے فکر مند ’نظریاتی اشرافیہ‘اپنے خیمے میں پسپا ہو کر اس شکستِ فاش پر غور وفکر کرنے لگی۔ وہ پارٹی اندر جاری کش مکش کو مزید تیز کرنے کی ٹھان چکے تھے۔
یہ چھٹی کانگرس درحقیقت عراقی کمیونسٹ پارٹی کو خراجِ عقیدت تھا۔ ٹریڈ یونین تحریک اور کسان تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والے بعث رہنما یہ حقیقت باور کر چکے تھے کہ کمیونسٹوں کو مات دینے کے لئے ضروری تھا کہ ان کے نظریات چُرا کر ان پر عمل در آمد کیا جائے۔ کمیونسٹوں کا قتل عام مسئلے کا حل نہ تھا کہ اس قتل و غارت نے مشعل افلاق کو بھی ناراض کیا تھا اور عام پارٹی کارکنوں کو بھی۔ چھٹی کانگرس کی یہ ڈرامائی کایا کلپ کہ یہ مارکسی رنگ میں ہی رنگی گئی درحقیقت عرب کمیونزم سے بہت آگے کی بات تھی۔49
علی صالح السعودی ____عراقی جماعت کے سیکرٹری ____اور ان کے حامیوں نے کم سے کم بعث پارٹی کو عرب اشتراکی جماعتوں کے بائیںجانب لاکھڑا کیا۔50 مشعل افلاق غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے ان الفاظ میں کانگرس کا حال بیان کیا:
جس انداز سے کارروائی جاری تھی، یہ پارٹی کے لئے بالکل نیا تھا …بلاک بننا، پارٹی قواعد و ضوابط سے فائدہ اٹھانا … لفظوں کا ہیر پھیر اورسو فسطائیت۔ اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ بعث وادی ایسے حربے اختیار کر رہے ہیں کہ جن کے ہاتھوں میں کروڑوں لوگوں کی تقدیر ہے … اور جب پوری قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ بعث وادی تجربہ کسی قابل بھی ہے کہ نہیں …آئیے کوئی اور دو ٹوک بات کریں۔ آپ کس بنیاد پر جماعتی قیادت پر براجمان ہوئے ہیں؟ فلاں فلاں شخص کا راستہ ہموار کرنے کیلئے، جو محض سال بھر قبل کمیونسٹ پارٹی کا رکن تھا، تاکہ وہ ہمارے نظریاتے کے خلاف سازش کر سکے۔ میں نے پیار سے قومی کانگرس کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ میں نے انہیں بتایا: ’میں اب قصۂ پارینہ بن چکا ہوں۔ مجھے اس دنیا میں اب کسی چیز کی تمنا نہیں۔ میری زندگی اس جماعت کیلئے وقف ہے اور میری خواہش صرف اتنی ہے کہ یہ جماعت صحیح معنوں میں ترقی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ میں پریشان ہوں …‘۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے بے د ھڑک سوال پوچھو ا ور مجھے بولنے سے مت روکو مگر کانگرس میں ایک موقع پر نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ میں نے بولنے کی اجازت چاہی مگر مجھے اجازت نہ ملی…… 51
افلاق کا پیار جلد ہی غصے میں بدل گیا اور انہوں نے گھمبیر فیصلہ کیا۔ انہوں نے کانگرس کے فیصلوں کو سبوتاژ کرنے اور منتخب قیادت کو ہٹانے کے لئے بعث پارٹی کے فوجی بازو کو استعمال کرنے کافیصلہ کیا۔52 نومبر 1963ء میں عراقی بعث پارٹی کی خصوصی کانگرس ہو رہی تھی جس میں چھٹی پارٹی کانگرس کے فیصلوں پر عمل در آمد کے حوالے سے بحث ہو رہی تھی۔ ان فیصلوں نے فوجی حکومت میںشامل بعث وزراء کو شرمسار کر کے رکھ دیا تھا۔ علامتی طور پر، جوں ہی نئی قیادت کا انتخاب ہونے لگا پندرہ فوجی افسر کانگرس ہال میں داخل ہوئے۔ غصے سے بپھرے ان کے رہنما، تیسری ٹینک رجمینٹ کے کرنل المہدوی نے مشین گن سے صالح السعدی کا نشانہ لیتے ہوئے مندوبین سے کہا: ’مجھے مفکرِ جماعت کامریڈ مشعل افلاق نے مطلع کیا ہے کہ عراقی شاخ پر ایک گروہ نے قبضہ کر لیا ہے، اس کاایک حامی گروہ شام میں بھی موجود ہے، دونوں نے مل کر چھٹی قومی کانگرس میں برتری حاصل کر لی ہے، لہٰذا ان گروہوں کا خاتمہ ضروری ہے‘۔53 بندوق کی نوک پر مندوبین نے مشعل افلاق کے حامی بعث وادیوں کو ’منتخب‘ کیا اور انہیں اکثریت حاصل ہوگئی۔ صالح السعدی اور اکثریتی دھڑے سے تعلق رکھنے والے دیگر رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا، انہیں ائر پورٹ لے جا کر میڈرڈ جانے والے فوجی طیارے پر سوار کرا دیا گیا۔ جب اس سارے واقع کی خبر بغداد میں پارٹی کی شاخوں تک پہنچی تو فسادات پھوٹ پڑے۔رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بعد مظاہرین نے براڈ کاسٹنگ ہائوس اورٹیلی فوج ایکسچینج سمیت شہر کے اہم حصوں پر قبضہ کر لیا۔ دو بعث وادی پائلٹ سیکورٹی کو چکما دیکر بمبار طیاروں کو لے اڑے اور فضا میں پہنچ کر انہوں نے اس وقت تک خانہ جنگی جاری رکھنے کی دھمکی دی جب تک بعث قیادت کو بحال نہیں کیا جاتا: انہوں نے فضائی اڈے پر حملہ کیا اور صدارتی محل کی اوٹ وارننگ راکٹ چلائے۔ اس بات کے پیش نظر کہ بعث پارٹی کمیونسٹ مخالف مخلوط حکومت کا حصہ تھی اور ریاستی ڈھانچے پر اس کی مکمل گرفت نہ تھی، یہ حیران کن پیش رفت تھی۔ پارٹی کی اندرونی لڑائی بغداد کی سڑکوں پر لڑی جارہی تھی۔
سہ پہر تک شہر کا بڑا حصہ باغیوں کے قبضے میں تھا۔ یہ بات بالکل قابل فہم ہے کہ بعث وادی وزیر اعظم نے فوج کو نظم و نسق بحال کرنے سے روک دیا۔ اس کامطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنی حمایت کے پائوں پر خود کلہاڑی مارتے۔ دو دھڑوں کے بیچ مکمل خانہ جنگی کو رکوانے کے لئے مشعل افلاق شام کے صدر (جو خود بھی بعث وادی تھے) کے ہمراہ بذریعہ طیارہ دمشق سے بغداد پہنچے اور صلح صفائی کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ مگر بے سود۔ عراقی صدر عبدالسلام عارف نے بعث کی اندرونی کش مکش سے فائدہ اٹھا کر مکمل اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ انہوں نے بری فوج اور فضائیہ کو حکم دیا کہ بغاوت کا قلع قمع کیا جائے: اس شام کے ڈھلتے ڈھلتے بغاوت کچلی جا چکی تھی۔ اگلے ہی روز عبدالسلام عارف نے اپنے شورشی حامیوں کو حکومت سے نکال باہر کیا۔ بعث کے لئے یہ کاری ضرب تھی۔
اس ضربِ کاری سے زیادہ نقصان دہ ’نظریاتی اشرافیہ‘ کا پارٹی کو ملٹرائز کرنے کا فیصلہ تھا۔ فوجی افسروں کے ایک چھوٹے گروہ کے ذریعے اکثریت کو شکست دیکر مشعل افلاق نے پارٹی اندر فوجی آمریت کے لئے دروازہ کھول دیا۔ پارٹی کے اندر ہر قسم کے جمہوری تصنع کا خاتمہ ہوا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست پر بھی فوج کی بالادستی قائم ہو گئی۔ شام اور عراق کی مثالیں اس حوالے سے خاصی سبق آموز ہیں۔ عرب نشاۃ ثانیہ پر یقین رکھنے والی بعث پارٹی جب ان دو ریاستوں کے مابین اندرونی جھگڑے نہ نمٹا سکی جو اس کی بالادستی میں تھے تو زوال پذیر ہو کر اقتدار کے بھوکے افسروں کا بیورو کریٹک ٹولہ حاوی ہو گیا جس کا انحصار جبر اور قبائلی وفاداریوں پر تھا۔ یہ نظام صدام حسین یا حافظ الاسد نے تشکیل نہیں دیا تھا مگر وہ اس نظام سے خوب بہرہ مند ہوئے۔ ذاتی آمرتیں تشکیل دینے کے بعد ان جڑواں آمروں نے مزید تنزل کی حوصلہ افزائی کی۔ 1970ء کی دہائی شروع ہوئی تو ذاتی اقتدار کی حفاظت شامی اور عراقی حکومتوں کا واحد مقصد رہ گیا۔ نظریاتی سطح پر عرب قوم کے اتحاد کا نعرہ باقی تھا مگر عملی طور پر مقامی ریاست ہی بعث حکومتوں کاستون تھی۔ نومبر 1970ء میں حافظ الاسد کے حامی دھڑے نے بعث سیاستدانوں کو ہٹا کر شام پر براہ راست قبضہ کرلیا۔ مشعل افلاق بغداد فرار ہو گئے۔
شام اور عراق، دونوں ملکوں میں بعث ملٹری کمیٹی کو ہی پارٹی پر بالادستی حاصل تھی، دوسرا طاقتور ادارہ تھا مخبرات: خفیہ ادارے۔54 عراقی قیادت خوش نہ تھی اور صدام حسین نے شام میں بغاوت کے بعد عراقی قیادت کے خدشات کا برملا اظہار کیا:
ہمارے شام سے تعلقات ٹھیک ہیں مگر جہاں تک تعلق ہے شام کی بعث پارٹی کا تو معاملہ ذرا مختلف ہے۔ 1963ء کے بعد سے یہ پارٹی بے شمار بحرانوں سے گزری ہے مگر اس کی ذہنیت بالکل بھی نہیں بدلی۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ٹینک، بندوقیں یا لڑاکا طیارے معمول کے پارٹی طریقہ کار کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ 55
عراقی بعث کی اجتماعی یاداشت مبالغہ آمیز حد تک چیدہ چیدہ باتوں تک محدود رہی ہے۔
چھٹی پارٹی کانگرس کے فیصلوں بارے کوئی کچھ بھی کہے لیکن اس نے عراقی اورشامی بعث وادیوں کی ایک بڑی اکثریت کو مشترکہ سیاسی پروگرام کی بنیاد پر متحد کر دیا تھا۔ مشعل افلاق نے فوجی طریقے سے اس اکثریت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عراق میں بعث مکمل زوال پذیر ہوگئی اور کارکنوں میں دھڑے بندی عروج پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد افلاق نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیکر نئی قیادت نامزد کردی: حسن البکر کلیدی ملٹری کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے جبکہ ان کے کزن صدام حسین پارٹی سیکرٹری مقرر کئے گئے۔ اس جوڑے نے پارٹی کی از سر نو تنظیم کا کام شروع کیا۔ 1966ء میں ایک طیارے کے حادثے میں صدر عبدالسلام عارف کی ہلاکت کے بعد فوج میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔ البکر اور صدام نے دو سال تک انتہائی ہوشیاری سے منصوبہ بندی کی اور دو سال کی منصوبہ بندی کے بعد فوج کے ذریعے بعث نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ سڑکوں پرکسی قسم کے فوری عوامی مظاہرے دیکھنے میں نہیں آئے۔
شام میں حافظ الاسد نے بھی یہی کیا گو شام کے معاملے میں یہ کام خاصا دشوار ثابت ہوا کیونکہ حافظ الاسد نے اقتدار سے ایک ترقی پسند بعث دھڑے کو الگ کیا اوراس کے کئے ہوئے کئی اقتصادی اقدامات کو منسوخ کیا۔56 افلاق نے عراق میں تو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے فوج استعمال کی البتہ وہ شام میں ہونے والی فوجی پیش رفت پر سیخ پا تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ترقی پسند دھڑے کو ہٹانے کے بعد پھر سے ان کے حامی معتدل دھڑے کے ہاتھ میں عنانِ اقتدار دی جائے جبکہ صالح بیتار کو وہ اعلیٰ عہدے پر براجمان دیکھنا چاہتے تھے۔ حافظ الاسد کو افلاق کی اس خواہش پر شدید طیش آیا، اسد کے غصے بارے ’نظریاتی اشرافیہ‘ کو بھی خبر پہنچی جو جلدی میں بغداد روانہ ہوگئی۔ ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کے دو کلیدی بانیوں پر بغاوت کا مقدمہ چلا اور موت کی سزا سنائی گئی۔ کئی سال بعد اسد نے یہ سزا نرم کردی مگر جب اسد کو بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی متبادل باقی نہ بچے: 1980ء میں صالح بیتار کو پیرس میں قتل کردیا گیا۔57
علاقائیت اور دھڑے بندی دونوں جماعتوں کے مابین تعلقات پر حاوی تھے، دونوں ریاستوں کے مابین تعلقات پر معمولی ریاستی مفادات حاوی تھے۔ صدام حسین اور حافظ الاسد کا سیاسی افق ایک ہی تھا۔ دونوں نے اپنے اپنے مدمقابل ترقی پسندوں کو پچھاڑا تھا، دونوں نے متوسط طبقے کے تاجر اور کاروباری طبقے کے مفادات کا خیال رکھا تھا، دونوں نے ایسے ڈھانچے تشکیل دئیے تھے جو اہرام کی مانند تھے اور اس سیاسی اہرام کے اوپر وہ خود براجمان تھے جہاں وہ ہر طاقت کا سرچشمہ تھے اور دونوں عوام کے سامنے سامراج مخالف بیان بازی کرتے مگر نجی طور پر امریکہ کی خوشنودی کے لئے کوشاں رہتے۔ جب جبر کرنے کی باری آتی تو اس میں دونوں ماہرتھے۔ صدام نے کمیونسٹوں اور کردوں کا قلع قمع کیا جبکہ ان کے ہم فکر نے حاما میں دس ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ان میں اسلام پرست بھی شامل تھے اور سیکولر حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے بھی جو حکومت کے خلاف سرکشی میں شامل تھے۔ دونوں کا برتائو البتہ متحارب مافیا کے سربراہوں ایسا تھا، دونوں محض اپنا اپنا اقتدار بحال رکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ سیاسی طور پر دونوں بھائی تھے لیکن وہ جو اطالوی زبان میں کہتے ہیں نا فرتیلی،قولتلی ٭ یعنی جہاں بھائی ہوں وہاں خنجر بھی ہوتے ہیں۔ 58 جب ساربون سے فارغ التحصیل شرفاء نے بعث کی بنیاد رکھی تھی تو ان کے ذہن میں یہ نہیں تھا لیکن انہوں نے پارٹی کو اس مقام تک پہنچا ضرور دیا تھا۔ 59
جب یہ دور بعث رہنما ایسے میں بھی عراق اورشام کو متحد کرنے میں ناکام رہے کہ جب دونوں ملکوں میں بعث حکومت تھی تو پھر عرب اتحاد کا نعرہ یا عرب دنیا بارے ان کے نیم صوفیانہ نعرے کی کیا ساکھ باقی رہ سکتی تھی؟ سچ تو یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد پہلی جنگ عظیم ختم ہونے پر جن ریاستوں نے جنم لیا تھا آہستہ آہستہ ان ریاستوں نے اپنی شناخت بنالی اور ان کے اپنے حکمران طبقے وجود میں آگئے۔ عرب قوم پرستی اگر زندہ تھی تو اس کی دو باہم مربوط وجوہات تھیں تیل اور اسرائیل۔ اگر اسرائیل شرق العرب کا پرشیا بن کر ابھرا تو اس کی وجہ نیو یارک ٹائمز کی متعصب رپورٹنگ تھی نہ اسرائیل نواز لابی کی اثر انگیزی، نہ ہی یہودیوں کے قتل عام پر اہل مغرب کے ضمیر کی خلش۔ وجہ صرف تیل تھی۔ یہ تیل ہی تھا جسے محظوظ بنانے کے لئے امریکہ نے اس خطے کی حفاظت بذریعہ اسرائیل، سعودی بادشاہت اور برطانیہ کی تخلیق کردہ ریاستوں پر اربوں ڈالر خرچ کر ڈالے۔60 اس صورت حال نے ایک شیطان مثلث کو جنم دیا: امریکی سامراج، صیہونیت اور عرب رجعت پسندی، اس شیطانی مثلث کے خلاف ہر نوع کے عرب قو پرست متحد ہو گئے۔ عرب قوم پرستوں کا اتحاد البتہ بہت مؤثر نہ تھا کہ وہ کسی حد تک باہم دست و گریبان بھی تھے۔
عراق میں بعث کو بھائی ہندوئوں کے قتلِ عام کے سوا بھی سنجیدہ مسائل کا سامنا تھا۔ یہاں عراقی کمیونسٹ پارٹی کی صورت میں ایک سنجیدہ حریف موجود تھا جو تمام تر جبر اور ہر طرح کا نقصان اٹھا کر بھی زیر زمین متحرک تھا۔ کردستان جو اس تنظیم کا گڑھ تھا ہنوز محفوظ تھا۔ بغداد میں اس تنظیم کی زیر زمین قیادت متحرک تھی جبکہ قیادت کی ایک اور سطح پراگ کے نسبتاً محفوظ ماحول میں موجود و متحرک تھی۔
1963ء کی شکست نے پارٹی اندر شدید تقسیم پیدا کر دی تھی۔ آنے والے چار سالوں میں پارٹی کے مجرد تقلید پسندوں کو اندر ہی سے مخالفت کا سامنا تھا۔ ایسا ہونا بدلتے ہوئے وقت کے عین مطابق تھا۔ ماسکو کی اجارہ داری ٹوٹ چکی تھی۔ ہوانا کا دوسرا اعلان نامہ ویت نامیوں کی مسلسل مزاحمت، چین سویت دھڑے بندی کا ابتدائی دور ایسے عناصر تھے کہ جو سیلاب بن کر عالمی اشتراکیت کے بند بہا کر نکل گئے۔ گرد ہنوز بیٹھی نہیں تھی کہ عراقی کمیونسٹ پارٹی کے ایک اہم دھڑے نے فیصلہ کیا کہ وہ ماضی کا حساب چکانا چاہتا ہے اور مستقبل کا راستہ آمریت کے خلاف مسلح جدوجہد کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس دھڑے کا کہنا تھا کہ پارٹی ماضی کے طریقہ کار چھوڑ دے۔ خاص کر ماسکو پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور ماسکو کے مفادات کا خیال رکھنے کی حکمت عملی بدلی جائے۔ اس دھڑے کی دلیل تھی کہ اگر اشتراکیوں نے پہل نہ کی تو 1963ء کی طرح وہ ایک مرتبہ پھر بعث وادیوں کے ہاتھوں مات کھائیں گے اور ہزیمت اٹھائیں گے۔ اس دھڑے کی تجویز آنے والے دور میں ذاتی دفاع کی ہی بہترین حکمت عملی ثابت ہوسکتی تھی۔ دلیل احمقانہ ہرگز نہ تھی البتہ قبل از وقت ضرور تھی۔ مگر یہ پُر آشوب زمانہ تھا اور پارٹی میں تقسیم ہوگئی۔ سنٹرل کمانڈ دھڑے نے کیوبن طرز پرمثالی مسلح جدوجہد کی فوراً تیاری شروع کر دی اور 1967ء میں ہونیوالی خصوصی کانفرنس میں اس دھڑے کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ سنٹرل کمانڈ دھڑے کا منصوبہ تھا کہ مزاحمتی تحریک کا آغاز جنوبی دلدلوں سے کیاجائے۔ جہاں پارٹی کی مناسب حمایت موجود تھی اور ایک آزاد علاقہ قائم کیاجائے۔ یہاں سے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ شمال کی جانب پیش قدمی کی جائے گی اور بعد ازاں مسلح کرد کمیونسٹ اور قوم پرست جنوب کی جانب بڑھیں گے اور دونوں بغداد میں آن ملیں گے جو اس دوران عوامی بغاوت کے نتیجے میں آزاد ہو چکا ہو گا۔یہ ساری منصوبہ بندی نیک نیتی سے کی گئی تھی مگر ساری منصوبہ بندی کا انحصار اس سیاسی جائزے پر تھا کہ عوامی شعور تیز ہورہا ہے حالانکہ صد افسوس ایسا نہ تھا۔ 1963-64ء میں ہونے والے جبر نے پارٹی کے قدرتی حامیوں کو ہیبت زدہ کر دیا تھا اور اگر وہ لرزاں براندام تھے تو اس میں ان کا دوش بھی کیاتھا۔ پارٹی میں تقسیم سے ہر کسی کی حوصلہ افزائی نہ ہو سکی۔ اگر طریقہ کار اور اوقات کار کے مسئلے پر عوامی اشتراکی متفق نہ ہو سکے تھے تو یہ بات خاصی غیر متوقع تھی کہ کردش ڈیموکریٹک پارٹی ساتھ چلنے پر رضامند ہوجائے گی۔ کردستان میں مسلح جدوجہد کوئی نئی بات نہ تھی مگر کرد رہنما کسی نئی خونریزی کو دعوت دینے پر تیار نہ تھے۔
جنوبی عراق میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد خاصی نوآموز ثابت ہوئی اور جیسا کہ پچھلے باب میں بیان ہوچکا ہے کہ بعض انتہائی قیمتی کامریڈز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے 61اور مسلح جدوجہد کے منصوبوں کا بعث رہنمائوں نے سیاسی فائدہ اٹھایا کہ فوج کو خوفزدہ کر کے1968ء کی بعث وادی بغاوت کا عمل تیز کر دیا اب کی بار بعث وادی تہیہ کئے ہوئے تھے کہ اقتدار میں فوج کے کسی حصے کو ساجھے دار نہیں بنائیں گے۔ یہ ادارہ بہت اہم تھا اور نئے رہنما جنرل حسن البکر اور ان کے نائب صدام حسین نے برق رفتاری سے فوج کو تمام حریف جماعتوں کے اثرو نفوذ سے محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کئے۔یہ عمل فوج اور سیاسی کومیسار تعینات کرتے ہوئے حاصل نہیں کیاگیا بلکہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو قبائلی رنگ میں رنگ کر یہ مقصد حاصل کیا گیا۔ حسن البکر اور صدام حسین کا تعلق تکریت سے تھا جب کہ فوج اندر جو حفاظتی گارڈ تخلیق کی گئی وہ قبائلی وفاداری کی بنیاد پر بھرتی کی گئی۔ دو سال بعد شام میں جو فوجی بغاوت حافظ الاسد نے کی، اس کا طریقہ کار بھی بالکل یہی تھا۔62عرب اتحاد کا خواب کہ جو بعث کی تشکیل کا باعث بنا تھا اب ایک مذاق نظر آنے لگا۔ پرانی نعرہ بازی اب بھی ہوتی تھی مگر محض سرکاری تقریبات کے موقع پر۔ عملی طور پر ہر عمل قبائلی اور خاندانی سیاست کے گرد گھوم رہا تھا۔ یہ مربیانہ اندازِ سیاست ادارے کی حیثیت اختیار کرتا چلا گیا اور اختیار پر گرفت مضبوط رکھنے کا مجرب طریقہ کار بن گیا۔
ایک بار جونیا نظام لاگو ہوگیا تو ضروری تھا کہ عراقی کمیونسٹ پارٹی کی بابت کوئی فیصلہ کیاجائے۔ اس کا لڑاکا بازو تو خود کشی کر چکا تھا البتہ ماسکو نواز دھڑا ابھی بھی باقی تھا بلکہ کردستان میں تو اس کی مضبوط بنیادیں موجود تھیں۔ صدام حسین اور حسن البکر نے سوچا کہ کمیونسٹوں سے نپٹنے کے لئے بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ ان کی زیر زمین سرگرمیاں ختم کرواتے ہوئے انہیں کھلے عام کام کرنے دیا جائے۔ اس صورت ان سے سودے بازی ہو سکتی تھی یا انہیں اپنے رنگ میں رنگا جاسکتا تھا یا یہ کہ ضرورت پڑنے پر انہیں قابو کر کے تباہ کیاجاسکتا تھا۔
تمام بعث وادی اس کلبیت کا شائد شکار نہ تھے مگر اس بارے بلا خوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے کے مصنف تھے صدام حسین جو ایک دہائی سے پارٹی کے سیکورٹی ونگ کے انچارج تھے انہوں نے باقی بعث قیادت کو بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کے لئے قائل کیا۔ کمیونسٹ راہنمائوں نے اس موضوع پر تفصیلی بحث کی کہ کیا بعث کے ساتھ مل کر قومی محاذ بنایا جاسکتا ہے۔ انہیں مجبور کیاجارہا تھا کہ وہ شیطان کے ساتھ کھانا کھائیں مگر انہیں اپنا چمچہ استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ وہ گومگو کا شکار تھے۔ وہ اپنی شرائط پر قومی محاذ میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ خوب چیخے چلائے۔ انہوں نے چونکہ اس پیش کش کو مکمل طور پر رد بھی نہیں کیا تھا لہٰذا اب وہ چوہے کی طرح پھنسے ہوئے تھے اور صدام نامی بلی ان کی ہر ہر حرکت کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔
دریں اثناء بعث حکومت نے سویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کر دیے۔ پولینڈ کے ساتھ تجارتی معاہدے ہوئے جب کہ عوامی جمہوریہ جرمنی کو بھی تسلیم کر لیا، ان دنوں عوامی جمہوریہ جرمنی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا گویا وہ امتحان تھا جس سے تیسری دنیا کے ممالک کے عالمی جھکائو کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ گو بعث حکومت نے تو یہ تمام اقدامات اپنے مفاد کے لئے کئے تھے مگر ان اقدامات نے کمیونسٹوں کو مخمصے میں ڈال دیا۔ کمیونسٹوں کی سیاست کا محور چونکہ ماسکو تھا لہٰذا اب ان کے لئے مشکل ہوگیا تھا کہ ایک قاتل حکومت پر تنقید کریں۔ عراق کے اس اشتراکی المئے کا آخری ایکٹ ہنوز باقی تھا البتہ پردہ اٹھنے ہی والا تھا۔ 1972ء کے اواخر میں کمیونسٹوں نے قومی محاذ میں شامل ہونے کی پیش کش قبول کر لی۔ زبردستی کی اس شادی کا نکاح سرعام 17مئی 1973ء کو پڑھایا گیا جب کہ سویت اور سویت سیٹلائٹ پریس میں اس واقعہ کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے ہدیہ تہنیت پیش کیاگیا۔ جب تک کمیونسٹ حکومت میں رہے، ان کے پاس کوئی اختیار نہ تھا وہ محض کٹھ پتلی تھے۔ تمام اہم فیصلے حسن البکر اور صدام حسین کرتے۔ قومی محاذ میں شامل ہونے یا حکومت کا حصہ بننے کے باوجود کمیونسٹوں پر جبر کا سلسلہ بند نہ ہوا۔ فوج میں موجود کمیونسٹ سپاہیوں کو نشانہ بنایا جاتا، فیکٹریوں میں متحرک کمیونسٹوں کو مختلف مدت کے لئے جیل میں ڈال دیا جاتا تاکہ اِن کے سر سے ٹریڈ یونین کا بھوت اتر سکے۔ گو پارٹی کا روزنامہ شائع ہو رہا تھا مگر سخت سنسر شپ کے بعد۔ جبر اور کردستان ایسے نازک مسائل اس رزنامے میں زیر بحث لانے سے پرہیز کیاجاتا، صدام حسین نے ذاتی طور پر کمیونسٹ رہنمائوں کو متنبہ کیاتھا کہ فوج میں سوائے بعث کے کسی جماعت کی سرگرمی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ملک کے اہم ادارے ممنوعہ علاقہ بن چکے تھے۔ حسبِ توقع یہ تجربہ تباہ کن ثابت ہوا، عراقی اشتراکیوں کو دل ہی دل میں یہ اندازہ تو پہلے سے ہو گا کہ قومی محاذ کا تجربہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔63
کمیونسٹ حکومت میں شامل تھے کہ کردستان میں نئی سرکشی نے جنم لیا۔ کردش ڈیموکریٹک پارٹی نے شاہ ایران سے خفیہ سودے بازی کی جسے امریکی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ ایرانی کردوں سے غداری کے بدلے میں کے ڈی پی کے رہنما مصطفیٰ بارزانی پر اشرفیوں کی بارش ہوئی اور بغداد کی بعث کمیونسٹ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اسلحہ بھی فراہم کیاگیا۔ بارزانی نے ہر کام خوب تندہی سے سر انجام دیا۔ ایرانی ارنشِ نامنظم کی حمایت بھی بارزانی کو میسر تھی چنانچہ عراقی فوج کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ بغداد میں قائم حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ صدام حسین کو الجزائر بھیجاگیا جہاں صدام کے ایرانیوں سے مذاکرات ہوئے اور ایران کو کچھ علاقائی رعایتیں مہیا کی گئیں۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ دونوں ممالک نے اپنے اختلافات ختم کر لئے ہیں کیا ان مذاکرات میں صدام حسین نے یہ وعدہ بھی کیاتھا کہ کردش خطرے سے نمٹتے ہی حکو مت کمیونسٹوں سے نجات حاصل کر لے گی؟ شاہ ایران کے ساتھ اس معاہدے کے فوری بعد بعث حکومت نے مغرب کی طرف رخ پھیر لیا اور عین ممکن ہے کمیونسٹوں کے حوالے سے کوئی وعدہ کیا گیا ہو۔
شاہ ایران نے بے رحمی کے ساتھ اپنا وعدہ نبھایا۔ الجزائر معاہدہ ہوئے چودہ دن گزرے تھے کہ ایران عراق کے ساتھ اپنی سرحد بند کر چکا تھا اور کردوں کی امداد سے ہاتھ پوری طرح کھینچ لیا گیا، تین ہفتے کے اندر اندر کرد بغاوت دم توڑ گئی اور عام معافی کا جو اعلان بغداد نے کیا تھا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہزاروں کرد گوریوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ بارزانی اور ان کا خاندان ایران فرار ہو گیا جبکہ کے ڈی پی بری طرح تقسیم ہوگئی۔ جلال طالبانی نے بارزانی خاندان کے قبائلی، غیر سیاسی طرزِ عمل کی مذمت کرتے ہوئے پاپولر یونین آف کردستان کی بنیاد رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ حقیقی قوم پرستی اور سوشلسٹ اقتدار کی طرف از سر نو رجوع کریں گے یعنی بغداد حکومت کو تسلیم کر لیں گے۔
بغداد کے پاس ایک حقیقی موقع ہاتھ آیا تھا کہ کردستان کو حقیقی خود مختاری دیتے ہوئے مسئلے کو حل کر دے۔ اس کے برعکس یہ ہوا کہ اوپر سے ایک پارلیمان مسلط کی گئی جبکہ ترکی اور ایرانی سرحدوں پر بسنے والے کردوں کو زبردستی جنوبی عراق میں بسانے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ جس طرح سٹالن نے کریمیا کے تاتاریوں اور وولگا کے جرمنوں کو ان کے روایتی علاقوں سے جبری بے دخل کیا تھا جس طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد مشرقی یورپ سے جرمن النسل لوگوں کو بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا تھا بالکل اسی طرز پر اور عوامی پیمانے پر زبردستی کردوں کو بے دخل کرتے ہوئے ان کے گائوں مسمار کر دئیے گئے اور یوں کردوں میں جو نفرت پیدا ہوئی اس کی چنگاریاں آج بھی سلگ رہی ہیں۔64
صدام نے ملک پر شخصی اقتدار کا عمل شروع کر دیا۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ کمیونسٹوں کو ٹھکانے لگایا جائے اور بعث میں موجود کسی بھی ایسے ممکنہ حریف کاخاتمہ کر دیا جائے جو ان کی راہ میں حائل ہو سکتا ہو۔ یہ دونوں آپریشن 1978ء میں شروع کئے گئے بعث سے ناپسندیدہ عناصر کا اخراج غیر معمولی انداز میں ہوا، صدام حسین اور حافظ الاسد نے وقتی جنگ بندی کا فیصلہ کیا۔ دونوں جماعتوں اور دونوں ریاستوں کے ادغام پر بات چیت کا آغاز ہوا، دونوں سنجیدہ نہیں تھے لہٰذا بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور یہ سلسلہ باہمی رضامندی سے رک گیا۔ اس عمل سے صدام حسین کو یہ انداہ ہو گیا کہ شام سے اتحاد کے لئے کون زیادہ بے تاب تھا۔ کچھ لوگ تو یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ وہ اتحاد کی صورت میں حافظ الاسد کو تکریتی پر ترجیع دیں گے۔ ایسے ممکنہ منحرفین کو پارٹی سے الگ کر دیا گیا بلکہ بعض کو تو فارغ ہی کر دیا گیا۔ اسی سال کمیونسٹ پارٹی کو حکومت سے جس میں انہیں کبھی شامل ہی نہیں ہونا چاہئے تھا اور قومی محاذ سے نکال دیا گیا جب کہ بعض پارٹی رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ واشنگٹن میں بیٹھے نئے دوستوںکو باور کرانے کے لئے کہ کمیونسٹوں سے ہمیشہ کے لئے ترکِ تعلق کر لیا گیا ہے صدام حسین نے کمیونسٹ پارٹی کے اکتیس ارکان کو اس الزام میں پھانسی دے دی کہ وہ تنبیہ کے باوجود مسلح افواج میں پارٹی سیل قائم کرنے میں مصروف تھے۔65یہ الزام سراسر غلط تھا۔ 1973ء کے بعد تو پارٹی کا جنازہ نکل چکا تھا اور پارٹی رہنما پوری طرح ماسکو اور بذریعہ ماسکو بعث حکومت کے تابع تھے حکومت میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے اپنی مشکلات کو اس وقت اور بھی بڑھا لیا کہ جب اپنے ارکان پر جبر کے باوجود پارٹی خاموش بیٹھی صبر کے ساتھ یہ انتظار کرتی رہی کہ بعث وادی انہیں حکومت سے نکال باہر کریں۔ یہ وہ پارٹی نہ تھی جو فہد اور حسین الردی نے بنائی اور چلائی تھی۔ وہ مہان لوگ تھے۔ جن رہنمائوں نے ایسی بعث حکومت اندر شمولیت کا فیصلہ کیا کہ جس میں انہیں کوئی اختیار حاصل نہ تھا ان رہنمائوں کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ یہ وہ مایوس رہنما تھے جو پارٹی ڈھانچے کی بنیاد پر لیڈر بنے تھے۔ جب بعث وادیوں نے انہیں نکال باہر پھینکا تو عوام میں ان ردے ہوئے کمیونسٹوں کے لئے آنسو بہانے والے کم ہی لوگ ہوں گے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آبادی کو منظم طریقے سے غیر سیاسی بنایا جارہا تھا اور اس کی کچھ وجہ یہ بھی سمجھی جارہی تھی کہ خود کمیونسٹ پارٹی غیر سیاسی پن کا شکار ہو چکی تھی۔
اگلے ہی سال یعنی 1979ء میں، صدام حسین نے خود کو جنرل نامزد کر دیا اور جرنیل بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد انہیں صدر جمہوریہ کا بپتسمہ دیا گیا اور اپنے رشتہ دار حسن البکر کی جگہ انہوں نے خود سنبھال لی۔ اس فیصلے کو بعث پارٹی کی موجودہ ادھوری قیادت کی بھی مکمل حمایت حاصل نہ تھی البتہ وقت صدام حسین کا ساتھ دے رہا تھا۔ اسی سال ملّاوں کی قیادت میں آنے والے عوامی انقلاب نے شاہ ایران کا تختہ الٹا اور امریکہ کو بری طرح تلاش تھی کسی ایشے شخص کو جو اس خطے میں شاہ ایران کی جگہ لے سکے۔ کیا صدام حسین سے ہر کام لیا جاسکتا تھا؟ وہ کافی حد تک توقعات پر پورے اترنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ یقینا مناسب حد تک ظالم تھے۔ اپنی اس صلاحیت کا اظہار وہ کردوں، کمیونسٹوں اور مولویوں کے معاملے میں کر چکے تھے۔ کیا ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ شائد نہیں لیکن اس خطے میں سعودی بادشاہت کے علاوہ پوری طرح آخر بھروسہ بھی کس پر کیاجاسکتا تھا۔
جہاں تک تعلق ہے صدام حسین کا تو وہ متضاد خواہشات کا شکار تھے۔ ایک طرف تو وہ واشنگٹن کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار تھے کہ دونوں یہ سمجھ رہے تھے وہ دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف صدام حسین عرب دنیا میں اپنا سکہ جمانا چاہتے تھے۔ دمشق میں ان کے بعث حریفوں نے 1967ء کی جنگ میں حصہ لیا تھا اور اس وقت لبنان میں متحرک تھے۔ بعث قیادت میں چلنے والے عراق نے اردن اندر پی ایل او کی حمایت کا وعدہ کر رکھا تھا لیکن جب 1970ء میں اردن کی فوج فلسطینیوں کا قلع قلمع کر رہی تھی تو عراق خاموش تماشائی بنا رہا۔ 66 1948ء میں جب فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکالا جارہا تھا تو نوری السید نے بھی یہی کیا تھا۔ اس سیاہ تاریخ کو فراموش نہیں کیاگیا تھا۔ حافظ الاسد مسلسل عراقی رہنمائوں کے حوصلے کا مذاق اڑاتے جب کہ فلسطینی سرِ عام ملامت کرتے۔
صدام حسین بعث ڈھانچے کی پیداوار بھی تھے اور اس کے مالک بھی۔اگر وہ مسندِ اقتدار پر براجمان تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ پارٹی کے اندر انہوں نے بھرپور تنظیمی ہنر مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ جوڑ توڑ کے ماہر تھے۔ مخالفین کو تقسیم کرتے ہوئے انہیں زیر کرنے کے خود ساختہ فن میں وہ یکتا تھے۔ یہ ہنر وہ کمیونسٹوں، حریف بعث وادیوں اور(کسی حد تک کامیابی سے) کردوں اور شیعہ ملائوں کے خلاف استعمال کر چکے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ وہ اس ہنر کو عالمی سطح پر بھی آزماسکتے ہیں۔ انہوں نے دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ کھیل کھلا اور ان طاقتوں کی باہمی رقابت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ صدام حسین نہ تو مشعل افلاق کی طرح دانشور تھے نہ فود الرکابی کی طرح عوامی رہنما۔ اس کے باوجود ان کو جنون تھا کہ لوگ ان کی پوجا کریں۔ مصیبت یہ تھی کہ ان کی شخصیت بھی بناوٹی تھی۔ شخصیت پرستی کا جو بت انہوں نے تراشا وہ سٹالن، مائو اور کم ال سنگ کی طرز پر تراشا۔ ہاں البتہ جو روپ وہ دھارنا چاہتے تھے وہ تھا جمال عبدالناصر کا۔ مصری رہنما کو فوت ہوئے کئی سال بیت چکے تھے مگر عرب گھروں اور گلیوں میں ان کو ہنوزبھی یاد کیاجاتا تھا۔ صدام حسین اس خلا کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ ایران میں تبدیلی نے ایک ایسا موقع فراہم کیا کہ جس کا فائدہ اٹھا کر وہ اپنی تمام خواہشات پوری کر سکتے تھے۔ ایران سے جنگ جہاں امریکہ کو خوش کرتی وہاں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں (جنہیں دورہ پڑنے والا تھا مبادا ایرانی وبا پھیل نہ جائے) کے سر سے خوف کے سائے بھی دور ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ شام کو بھی پتہ چل جائے گا کہ حقیقی سردار کون ہے کچھ حساب کتاب اندرونی محاذ کو سامنے رکھ کر بھی لیا گیا تھا۔
ہر قسم کی حزب مخالف ایک کردوں کے سوا، کو ختم کرنے کے بعد عراقی رہنما کو اپنی حیثیت کو جائز بھی تو تسلیم کروانا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ایران کے خلاف ایک تیز رفتار فتح کے باعث اہل عراق ان کی حکومت کا ساتھ دینے لگیں گے اور ان کی حیثیت مستحکم ہو جائے گی۔67
کچھ اور بھی سنجیدہ وجوہات تھیں۔ امام خمینی نے عراقی حکومت کو شیطانی حکومت قرار دیدیا تھا جو اہل ایمان (عراقی آبادی کی اکثریت شیعہ ہے) پر جبر کر رہی تھی اور وہ لوگوں سے اس حکومت کے تختہ الٹنے پر زور دے رہے تھے۔68
امام خمینی کا کہنا تھا کہ خطے میں اس وقت استحکام نہیں آسکتا جب تک بعث وادیوں کا تختہ الٹا نہیں جاتا، سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں جو نعرہ بازی امام خمینی کر رہے تھے اس قسم کی نعرہ بازی جنگ عراق اور 2003ء میں قبضے سے قبل بش رمز فیلڈ پاول بلیئر بھی کرہے تھے۔
اس میں شک نہیں کہ نجف اور کربلا کے ملاّں ایرانی انقلاب سے متاثر ہوئے تھے۔ شیعہ مجاہدین نے طارق عزیز اور بعض غیر معروف رہنمائوں کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بعث وادیوں نے انتہائی سخت جواب دیا اور جنوب میں تمام مذہبی گروہوں پر جبر کیا۔ پہلی بار عراقی تاریخ میں ایسا ہوا کہ مقتدر ملاّئوں کو موت کی سزا دی گئی۔ ہزاروں ایران نواز اور بلاشبہ بہت سے ایسے بھی جو ایران نواز نہ تھے گرفتار کر کے ایران بھیج دیئے گئے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ ایرانی شیعہ تھے جو عراق میں گھس بیٹھ کر رہے تھے گو ہر کسی کو معلوم تھا کہ یہ بات محض جھوٹ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عراقی شیعائوں کے اندر خود بخود ایرانی حکومت کے لئے ہمدردی پیدا نہ ہوگئی تھی۔ عراق کی شیعہ آبادی کی شناخت محض ان کے شیعہ ہونے سے نہ تھی۔ دیگر عناصر قبیلہ، طبقہ اور تاریخ بھی اتنے ہی بلکہ بعض اوقات زیادہ اہم تھے۔ بعث کے ابتدائی رہنمائوں کی اکثریت بھی شیعہ تھی۔ عراقی کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کی اکثریت بھی شیعہ تھی جبکہ ناصریہ بصرہ اور جنوبی دلدلی علاقے میں پارٹی زبردست اثرورسوخ کی حامل تھی۔ متبادل نہ بچنے کی وجہ سے شیعہ ہی نہیں بہت سے لوگ مذہب کی طرف سے راغب ہوئے۔ مگر اس کے باوجوود اکثر عراقی شیعہ خود کو پہلے عراقی شہری سمجھتے تھے۔ وہ بعث حکومت کے باوجود ایسا سمجھتے تھے اگر عراقی فوج کے شیعہ سپاہی وفاداری کا مظاہرہ نہ کرتے تو عنقریب شروع ہونے والی جنگ میں ایران فوجی طور پر عراق کو کچل کر رکھ دیتا۔
17 ستمبر1980ء کو عراق نے یکطرفہ طور پر ایران، عراق سرحد کے حوالے سے الجزائر میں ہونیوالے 1975 کے معاہدے کو منسوخ کر دیا۔ عراقی علاقوںکی واگزاری کے بہانے صدام حسین نے عراقی فوج کو ایرانی علاقے میں داخل کر دیا۔ شاہ ایران کے دور سے تعلق رکھنے والے جرنیلوں کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر عراقی قیادت کا خیال تھا کہ ایران میں بعد از انقلاب غیر مستحکم صورت حال ہے اور اس کا فوجی شیزارہ بکھرا ہوا ہے۔ ہزاروں اعلیٰ اور درمیانے درجے کے افسر پابندِ سلاسل تھے۔ توقع یہ تھی کہ صرف غیر تجربہ کار ملیشیا ہی مزاحمت کے لئے سامنے آئے گی اور عراقی فوجی تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے ملاّئوں سے نجات حاصل کر لے گی۔ یہ بہت بھیانک غلطی تھی۔
ایرانی صدر بنی صدر کو فوراً ہی اندازہ ہو گیا کہ نہ تو مذہبی نعرہ بازی انقلاب کو بچاسکتی ہے نہ پاسبان انقلاب کی تعصب پرستی بنی صدر نے امام خمینی کو قائل کیا کہ وگرگوں بری فوج اور فضائیہ کو از سرِ نو تعمیر کیاجائے سپاہیوں اور ان کے سالاروں کا اعتماد بحال کیا جائے۔ سینکڑوں افسروں کو رہا کر دیا گیا جو فوج کو از سر نو منظم کرنے میں مصروف ہو گئے اس تنازعہ کے حوالے سے عالمی قوتوں کا جھکائو کسی حد تک سرئیل٭تھا۔ عراقی فوج اور فضائیہ کافی حد تک سویت69اسلحے سے لیس تھی جبکہ ایرانی فوج کے پاس جدید ترین امریکی اسلحہ تھا جو شاہ ایران نے خریدرکھا تھا۔ اس خطے سے تعلق رکھنے والے امریکی صوبیدار عراق کی حمایت کر رہے تھے جب کہ کویت کے شاہی خاندان کے ایک سپتر نے تو ایک نظم بھی منظوم کرڈالی جس میں صدام کو ’’سیف العرب‘‘ قرار دیا گیا۔ پس پردہ، گو پردہ ایسا دبیز بھی نہ تھا، امریکہ اور برطانیہ بھی عراق کی حمایت کر رہے تھے۔ واشنگٹن نے خاص کر اس بات کو یقینی بنائے رکھا کہ عراقی حکومت کہیں گھٹنے ہی نہ ٹیک دے اور بعد ازاں امریکہ نے جنگ میں براہِ راست مداخلت کرتے ہوئے ایک ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرایا جس کے لئے آج تک معافی طلب نہیں کی گئی۔دوسری جانب لیبیا کے معمر قذافی اور شام کے حافظ الاسد نے کھل کر امام خمینی کی حمایت کی جبکہ اسرائیل نے خاموش حمایت کی اور اس بات کو یقینی بنائے رکھا کہ چیف پٹن ٹینکوں اور خراب ہونے والے جیٹ طیاروں کے پرزے تیز ترین اور خاموش تر انداز میں تہران پہنچتے رہیں۔70 1973ء سے ہی اسرائیل عراقی فوج کو خطے میں ایک ایسے خطرے کی صورت دیکھ رہا تھاجو ہنوز سر پر منڈلا رہا تھا۔
جب عراق ایرانی طیاروں کو زمین پر ناکارہ بنانے میں ناکام رہا تو یہ ایرانی طیارے ہی تھے جو جنگ کے ابتدائی عرصے میں فیصلہ کن کردار کے حامل ثابت ہوئے۔ جون 1982ء تک بغداد میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ جس مختصر برق رفتار جنگ کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہ طول پکڑتی جارہی ہے۔ بعث قیادت کا اجلاس ہوا اور صدام حسین کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ صدام حسین کی تمام تر دھمکیوں اور التجائوں کے باوجود فیصلہ یہ ہوا کہ ایران کو یک طرفہ جنگ بندی کی پیش کش کی جائے گی۔ اس پیش کش کا مطلب یہ تھا کہ 1975ء کے معاہدے کے مطابق طے کی گئی بین الاقوامی سرحد پر فوجوںکی واپسی۔ اگر ایرانی یہ پیش کش قبول کر لیتے تو صدام کا زوال مقدر بن چکا تھا۔ امام خمینی لیکن ضد میں آگئے۔ بڑے میاں کی صحت اچھی نہ رہی تھی لہٰذا وہ جلدی میں تھے وہ عراقی بعث کو شکست دے کر عراق میں ایرانی طرز کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ تہران نے جنگ بندی کی پیش کش رد کر دی 1984ء میں صدام حسین نے ذاتی طور پر جنگ بندی کی درخواست کی اور کسی غیر جانبدار مقام پر امام خمینی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آیت اللہ نے یہ پیش کش بھی رد کر دی اور عراق کے علاقائی حامیوںکو یوں تنبیہ کی: تم سب امریکی مہم جوئی اور جرائم میں شریک ہو۔ ہم نے ابھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جو پورے خطے کو آگ اور خون کی لپیٹ میں لے لے اور اس خطے کو پوری طرح غیر مستحکم کر دے۔ تمہیں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ اس نئے باب میں نقصان فقط تم لوگوں کا ہو گا۔71
دونوں فریق پراپیگنڈہ کر رہے تھے جس میں مخالف کونسل پرستی اور کفر کا مرتب قرار دیا جارہا تھا۔ عراقی پریس میں عموماً اسرائیل کے ساتھ ایرانی تعلقات کو نمایاں کیاجاتا۔ امام خمینی اور بیگن کے کارٹون شائع کئے جاتے اور ایرانیوں کو صیہونیت کا غلام اور قابل نفرت لپا ٹیے قرار دیا جاتا۔ جواباً تہران بعث وادیوں کو ’بعث صیہونی گروہ‘ قرار دیتا اور اکثر بعث وادیوں کو جنگ چھیڑنے والے لعنتی افلاقی کہہ کر مخاطب کرتا۔72
جان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ جنگ جوں جوں طول پکڑ رہی تھی توں توں مغرب کے اسلحہ فروش تاجروں میں جدید ترین اسلحہ فروخت کرنے کا مقابلہ تیز ہورہا تھا۔ جنگ کے پہلے سال فرانس نے آزمائشی پروازوں کے لئے بغداد کو ایگزوسیت میزائل سے لیس سوپر ایتن داردس طیارے پیش کئے۔ آزمائشی پروازیں کامیاب رہیں اور بغداد نے فیصلہ کیا کہ وہ تیس میراج ایف ون اور بھاری تعداد میں ایگزوسیت میزائل خریدے گا۔ اس کے علاوہ جو سوویت یونین سے آئے ہوئے اسلحے کا ذخیرہ تھا اسے بھی نئے سرے سے بھرا گیا۔ اس اسلحے سے بحری جہازوں کے خلاف ایک نئی مہم شروع کی گئی۔
یہ تنازعہ مزید چھ سال چلا پہلی عالمی جنگ کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ مفتوحہ علاقوں کے فاتحین توں توں بدلتے رہے جوں جوں ٹینک بردار فوجیں لاشوں کو روندتی آگے پیچھے ہٹتیں۔ طرفین کے نزدیک عام سپاہیوں بشمول بیس سال سے کم نوجوانوں کی زندگیاں کوئی معنی نہ رکھتی تھیں۔ لاشیں خزاں کے پتوں کی طرح اڑتی پھرتی تھیں۔ عراق نے ایرانی اور کردوں جن پر تہران کا ساتھ دینے کا الزام تھا، کو ہلاک کرنے کے لئے زہریلی گیس کا استعمال کیا۔ 73بے شمار جانیں ضائع ہوئیں گویا ہر تماشائی کے لئے سود مند تھا کہ دو مسلم ریاستیں آپس میں لڑتی رہیں اور کمزور ہوتی رہیں۔ اسلامی ریاستوں کی بے اعتنائی کسی طور پر اقوام متحدہ کی بے پرواہی سے کم نہ تھی۔
آٹھ سال بعد جب جنگ ختم ہوئی تو فقط اسلحے کے سوداگر ناخوش تھے۔ دونوں ملکوں میں سماجی ڈھانچے تباہ ہوچکے تھے اور دونوں پوری طرح کبھی سنبھل نہ پائے۔ مندرجہ ذیل اعدادو شمار محض ایک تخمینہ ہیں ممکن ہے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں مگر یہ اعدادو شمار بھی کم ہولناک نہیں:
262,000ایرانی اور 105,000عراقی ہلاک ہوئے۔ 700,000زخمی ہوئے گویا متاثرین کی تعداد دس لاکھ سے زائد تھی۔ مالی نقصان بھی نا قابلِ بیان تھا۔ ایران نے جنگ پر74تا91ارب امریکی ڈالر خرچ کرڈالے جب کہ اس عرصے میں عراق نے 41-94ارب (برطانوی) پونڈ خرچ کر ڈالے۔ ادھر ایران نے دفاعی اخراجات کی مد میں 94تا 112ارب ڈالر اور اسلحے کی درآمد پرمزید 11.24ارب برطانوی پونڈ خرچ کر ڈالے۔ اس خریدوفروخت سے اسلحہ فروشوں نے کتنا منافع کمایا، اس بابت اعدادوشمار نہیں مل سکے۔ ان تمام اخراجات میں وہ نقصان بھی شامل کر لیجئے جو تیل کی صنعت اور زرعی شعبے کو اٹھانا پڑا۔ اس ضمن میں ہولناک اعدادو شمار یہ ہیں کہ عراق کو561ارب ڈالر اور ایران کو 627ارب ڈالر کا خمیازہ اٹھانا پڑا۔74 یہ سب گویا کافی نہ تھا کہ دونوں ممالک فتح کے دعوے کرنے لگے اور دونوں ملکوں میں جنگ جو شروع ہی نہ ہونی چاہئے تھی اور اگر ہو گئی تو 1982ء ہی میں ختم ہو جانی چاہئے تھی، کے حوالے سے اپنے ماحول کو مزید پراگندہ کرنے کے لئے خوفناک قسم کی یادگاریں تعمیر کی جانے لگیں۔ تہران میں خون کا فوراہ تعمیر کیاگیا اور بصرہ میں سپاہیوں کے مجسمے نصب کئے گئے جبکہ بغداد کے وسط میں دوبازئوں کے بیچ بیضوی تلواریں بنا کر بہت بڑی یادگار فتح تعمیر کی گئی۔ تلواریں اور بازو(جو بعث رہنما کے بازوں کی طرز پر بنائے گئے تھے) ریڈنگ میں قائم ایک برطانوی بھٹی میں پگھلائے گئے۔
جنگ سے ایک سال بعد بیمار امام خمینی اس جہان سے کوچ کر گئے اور دکھ کے جو مناظر امام خمینی کے جنازے میں نظر آئے درحقیقت اسلامی جمہوریہ کا آخری شاہکار تھے۔ ریاستی ڈھانچہ تو قائم رہا البتہ لوگ مولویوں سے بدگمان ہوتے چلے گئے۔ ایران نے دوبارہ جنگ نہیں کی۔ عراق میں بعث رہنما اپنے ملک پر تباہی مسلط کرنے کے باوجود بچ گیا، شخصیت پرستی کا جو بت اس شخص نے تعمیر کیاتھا وہ مزید بے رحم ہوگیا کہ یہ جبر حقیقی مقبولیت کا نعم البدل تھا وہ سوچنے لگا کہ اندرون ملک اس کی مقبولیت کو جو نقصان پہنچا اس کا ازالہ کس طرح کیاجائے۔ عالمی سطح پر جنگ جو ایران نے شروع ہی نہ کی تھی کا الزام ایران پر لگتا رہا، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عراقی رہنما کہ مہمان خانے میں مغربی رہنما اور کاروباری شخصیات جلوہ افروزوہوتی رہتی تھیں۔ان مہمان شخصیات میں معروف کاروباری و سیاسی شخصیت ڈونلڈ رمز فیلڈ بھی شامل تھے۔ مگر رمز فیلڈ اکیلے تو نہ تھے۔ 1980-90کے عرصے میں مغرب کے عراق سے سیاسی و کاروباری تعلقات بہت مضبوط تھے۔
کسی کو بھی اس بات پر یقین نہ تھا کہ اس جنگ میں کوئی فاتح بھی تھا۔ جنگ کا نتیجہ خونی تعطل کی صورت نکلا تھا البتہ دونوں ملکوں کی حکومتیں کمزور ہوگئیں تھیں۔ شامی رہنما کھل کر عراق کے بعث وادیوں کا مذاق اڑاتے کہ وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں اور خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ جوں ہی عراق میں تعمیر نو کا کام شروع ہوا یہ مانناپڑے گا کہ یہ کام برق رفتاری سے ہوا۔ ایک ماہ کے اندر اندر تمام بنیادی خدمات بحال کر دی گئیں۔ کویت کے ساتھ تیل کے مسئلے پر جھگڑا عراقی قیادت کے ذہن پر حائل ہونے لگا۔ اس معاملے میں صدام حسین اکیلے نہ تھے۔ جب سے عراق وجود میں آیا ہے کویت کا بطور خود مختار ریاست وجود ہر عراقی حکمران کو کھٹکتا رہا ہے۔ 1899ء میں تیل کی دریافت سے قبل لارڈ کرزن نے اپنے حریفوں کو مطلع کرتے ہوئے یہ مخصوص اعلان کیا کہ ہم نے ہنوز خود مختار شیخ کویت سے معاہدہ کیا ہے، اس علاقے میں ترک حکومت اور دیگر طاقتوں کی مداخلت بڑھتی جارہی ہے۔ دیگر طاقتوں سے مراد جرمنی اور روس تھے۔ کیا خود مختار شیخ معاہدہ کر سکتا تھا؟ کر تو نہیں سکتا تھا مگر کمزور ہوتی عثمانی خلافت کو مجبور کیاگیا کہ وہ 1913ء کے اینگلو کو یتی معاہدے کو تسلیم کرتے ہوئے کویت کی حیثیت تبدیل نہ کرے۔ نئی قائم شدہ ریاست، عراق بھی کیا کسی ایسے معاہدے کی پابند تھی کہ جو ایسی سلطنت نے کیاتھا جس کا اب وجود ہی باقی نہ رہا تھا؟ عراقی حکمرانوں کا خیال تھا وہ ایسے کسی معاہدے کے پابند نہ تھے اور کویت کو بصرہ صوبے کا حصہ سمجھتے تھے۔
برطانوی مداخلت سے قبل خلیجی سماج تین گروہوں پر مشتمل تھے۔ یہ گروہ ایک دوسرے پر انحصار کرتے اور یوں ایک ایسا سماجی ڈھانچہ قائم تھا کہ جس میں سب کی بقا تھی۔ بدو تھے جو چراہگاہوں اور نخلستانوں کی تلاش میں صحرا صحرا گھومتے مگر وہ اس زندگی کو ترک کرنے کو بھی تیار رہتے بشرطیکہ کام تنخواہ اور مستقل ٹکے رہنے کا موقع میسر آئے۔75
زراعت پیشہ نخلستانی قصبوں میں آباد تھے جب کہ دودھ دہی کی اشیاء کھجور اور زرعی پیداوار ان کی مہارت تھی۔ساحلی علاقوں کے باشندے زمانوں سے مچھلی رانی کر رہے تھے یا سمندر سے موتی تلاش کر کے گزر اوقات کرتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ نے سرحدیں کھینچ کر یا کسی مخصوص قبیلے کی بالادستی پر اصرار کرتے ہوئے اس سماجی ڈھانچے میں کسی قسم کی خاص مداخلت نہ کی تھی۔ یہ تو سلطنت برطانیہ کی نوآبادیاتی حکمتِ عملی تھی کہ تیل کی دریافت سے قبل کے ان سماجوں کو قبیلے اور زمین کی بنیاد پر ہر طرح سے تقسیم کر دو۔ بلاشبہ جب تیل کی دولت دریافت ہوئی تو نو آبادیاتی نظام نے ترقی کی۔ منظورِ نظر قبائلی سرداروں کو اعلیٰ عہدوں سے نوازا گیا۔ نو آبادیاتی وجدیدیت نے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے فرسودہ سماجی نظام کی سرداری کے لئے ایک قبائلی نظامِ سر داری وضح کیا۔ اس سماجی انجینئرنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو محروم رکھا گیا اور یوں مزاحمت کو جنم دینے کے لئے سیاسی و سماجی بنیادیں فراہم کی گئیں۔ کویت اس کی ایک ابتدائی مثال تھا۔
جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ شاہ غازی (1933-39ء) اپنے نجی ریڈیو سے مسلسل اہلِ کویت پرزور دیتے رہے کہ وہ جابر اور گماشتہ شیخ سے نجات حاصل کریں ان نشری اعلانات کا تیل سے کوئی تعلق نہ تھا کہ تیل تو ابھی دریافت ہی نہ ہوا تھا۔ شاہ غازی کا خیال تھا کہ یہ مختصر سی شیخ شاہی جغرافیائی وجوہات کی بنا پر عراق کا حصہ ہونی چاہئے۔ ریڈیو سے نشر ہونے والے اعلانات کا حوصلہ افزا ردِ عمل ہوا۔ 1938ء میں ایک قوم پرست نوجوان تحریک شروع ہوئی جو سرِ عام مظاہرے منظم کرنے لگی اور اس تحریک کا مطالبہ تھا انتخابات۔ انہیں وقتی کامیابی بھی ملی۔ ایک آئین ساز ایوان کا قیام عمل میں آیا۔ اس آئین ساز ایوان نے جو پہلی قرار داد منظور کی اس پر لندن حیران رہ گیا۔ قرار داد تھی کہ عراق سے فوری الحاق کیاجائے۔ سلطنت برطانیہ فوراً ہی حرکت میں آگئی۔ اس نے کویت میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے شیخ کو بچالیا بغداد میں سلطنت برطانیہ نے شاہ غازی کو ہٹانے کا اشارہ دیدیا۔ یہ بات قابلِ بحث ہے کہ شاہ غازی کو تخت سے فارغ کرنے کا اشارہ دیاگیا تھا یا زندگی سے۔ شاہ غازی کی موت بہر حال اچانک ہوئی۔
تیل پہلی بار 1938ء میں دریافت ہوا البتہ اس کی فروخت 1946ء میں اس وقت شروع ہوئی جب یہ یقین ہوگیا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا ذخیرۂ تیل ہے۔ شیخ کی دولت کا بڑا حصہ لندن اور لندن اسٹاک ایکسچینج میں خرچ ہوتا ہے۔ شیخ اور شیخ کی ننھی منھی ریاست برطانیہ کا قیمتی اثاثہ بن چکا تھا۔ 1958ء کے انقلاب سے چند سال بعد جب جنرل قاسم کویت کو میلی آنکھ سے دیکھ رہے تھے تو وہ تیل کی ایک جنگ چھیڑا ہی چاہتے تھے۔76
حملے سے بچنے کے لئے کویت نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ اینگلوکویت معاہدہ منسوخ قرار پایا البتہ برطانیہ نے وعدہ کیا کہ شیخ کے خلاف کسی بھی اندرونی و بیرونی بغاوت کی صورت برطانیہ مدد کو آئے گا۔ یہ گویا اعلان تھا کہ اگر کوئی اندرونی معاملہ درپیش آیا تو مسلح جہاز اور گورکھا فوج روانہ کی جائے گی جبکہ غیر ملکی مداخلت کی صورت کوئی مزید سنجیدہ قدم اٹھایا جائے گا۔
قاسم نے کویت پر حق ملکیت ایک پریس کانفرنس میں جتایا اور پیش کش کی کہ وہ شیخ کو صوبہ بصرہ کے ضلع کویت کا گورنر مقرر کر دیں گے۔ قاسم نے اس موقع پر جو بات کہی وہ ساز باز کرنے والے آج کے عراقی سیاستدانوں پر بھی صادق آتی ہے۔ قاسم نے نہ صرف عام کویتی لوگوں کے حالاتِ زندگی بہتر بنانے کی بات کی بلکہ تیل کی دولت پر عیاشی کرنے والوں کے حالات سنوارنے کی بھی بات کی۔ ’غلام بھی کھاتے پیتے ہیں اچھے گھروں میں رہتے ہیں مگر ان کی روح مر چکی ہوتی ہے۔ غلام وہ شخص ہے جو غیر ملکیوں اور سامراجیوں کے آگے سر جھکا دے اور سجدہ ریزہو جائے‘۔ یہ بحران تو ٹل گیا مگر اس کے لئے برطانیہ کو بہت تگ و دو کرنی پڑی۔ ادھر جمال عبدالناصر نے بھی کردار ادا کیا۔ قاسم کا یہ ارادہ نہ تھا کہ براہِ راست قبضہ کر لیاجائے۔ ان کا خیال تھا کہ کویت میں بغاوت کو جنم دیا جائے جس طرح کہ شاہ غازی کے دور میں ہوا تھا اگر ایسا ہو جاتا تو قاسم خاموش تماشائی نہ بنے رہتے۔
تین دہائیوں بعد صدام نے یہ سوچتے ہوئے کویت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا کہ اس طرح ان کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہوجائے گی اور عرب دنیا میں ان کی حیثیت بھی۔ یہ گویا جمال عبدالناصر اور نہرسویز کاری پلے ہوگا۔ وہ ہر طاقتور سے اپنی طاقت کا لوہا منوالیں گے۔ وہ پراعتماد تھے۔ مغرب عراق کادوست تھا اور مغرب سے عراق نے جدید ترین اسلحہ خرید رکھاتھا۔ انہوں نے امریکی سفیر اپریل گلاس پائی کو دعوت پر بلایا اوور بتایا کہ کویت کے ساتھ سرحد اور تیل کا تنازعہ نازک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ انہوں نے خصوصی طور پر اور درست طور پر نشاندہی کی کہ کویت خلیجی گروہ کا رکن ہے جو اپنے منافع کی خاطر سستا تیل بیچ کر٭ اوپیک کو دھوکا دے رہا ہے۔ اوپیک اندر جاری اس جھگڑے پر عراق غصے میں تھا کیونکہ عراقی معاشی حالت تیل کی قیمتیں گرنے کے باعث پتلی ہورہی تھی۔ عراق کا مطالبہ تھا کہ کویت اس کے آئل فیلڈ سے مبینہ طور پر چوری کئے ہوئے تیل کی تلافی کرے۔ اپریل گلاس پائی نے جو خوب عربی بولتی اور کسی مترجم کی محتاج نہ تھیں نے کچھ ایسا تاثر دیا جو گول مول سا اور غلط فہمی میں ڈال دینے والا تھا۔ انہوں نے عراقیوں کو بتایا کہ وہ ان کے خدشات کو سمجھتی ہیں اور یہ کہ امریکہ عرب دنیا میں باہمی تنازعات کا حل متعلقہ فریقوں کی رضامندی سے چاہتا ہے۔ یہ بات اس خطے میں اس امریکی پالیسی کے عین مطابق تھی جسے جڑواں ستون پالیسی یعنی خطے میں شاہ ایران اور سعودی بادشاہت پر بھروسہ کی ناکامی کے بعد اس خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے لاگو کیا گیا تھا۔ ایران شاہ کی رخصتی کے بعد ہاتھ سے نکل چکا تھا۔عین ممکن تھا ایرانی ستون کی جگہ عراقی ستون لے لے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی اور گلاس پائی نے اس سرکاری پالیسی کا اس ملاقات میں بھی اعادہ کیا۔ یہ ملاقات بعد ازاں بہت زیادہ زیرِ بحث آئی مگر دریں اثناء گلاس پائی منظر سے غائب ہوچکی تھیں اور افسوس اس ضمن میں کوئی یادداشت بھی رقم کرتا دکھائی نہیں پڑتا۔77
جب کویت نے تمام عراقی مطالبے مسترد کردئیے تو صلح صفائی کی سعودی کوششیں بھی بے کار گئیں۔ کیا کویت غیر محتاط ہونے کا مظاہرہ کر رہا تھا؟ یا کہیں سے کوئی یقین دہانی ہوئی تھی۔ مطالبات کی عدم منظوری کے بعد 2اگست1990ء کو عراقی فوج نے سرحد عبور کرتے ہوئے کویت پر قبضہ کر لیا۔ صبا خاندان کا تختہ الٹ کر تیل کی تنصیبات کو قبضے میں لے لیا گیا۔ صدام حسین نے جو حکومت بدلی کی تو یہ یقینا اقوام متحدہ کی شق51 کی خلاف ورزی تھی اور امریکہ نے کویت کی واپسی کے لئے اقوامِ متحدہ کے جھنڈے تلے ایک اتحاد تشکیل دے دیا۔
ان دنوں قومی خود مختاری ایسی اصلاحات نے ہنوز رواج نہیں پکڑا تھا۔ اگر معاملہ تیل کا ہو تو حکومت بدلی کے کام کی اجازت نہیں ۔ مغرب کے رد عمل کا بہرحال قاعدے قانون سے تعلق کم ہی تھا۔ مغرب اور عرب دنیا کے مابین تعلقات کا تعین ہمیشہ طاقت کے ہاتھوں ہوا ہے۔ قانون کے ہاتھوں نہیں۔ نئے قانون لاگو کرنے کے لئے بھی طاقت ہی استعمال ہوئی ہے۔ تمام مغربی رہنمائوں کا اس بات پر اتفاق رائے پایا جانا کوئی ان ہونی بات نہ تھی کہ صدام کی گرفت مضبوط نہ ہونے پائے کہ اس کا مطلب تھا عراق تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے بلکہ خطے کا بھی سب سے اہم ملک بن گیا ہے یوں نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کا استحکام بلکہ فسلطین پر اسرائیلی قبضہ بھی خطرے سے دوچار ہو سکتا تھا۔ لہٰذا صدام حسین ہٹلر اور بدعنوان شیخ شاہی ’بے چارہ چھوٹا سا کویت‘ قرار پایا۔ میڈیا نے نئے سرے سے دوسری عالمی جنگ لڑنی شروع کر دی۔ ان تمام حالات نے اس تناظر میں جنم لیا کہ سوویت یونین کا انہدام ہورہا تھا۔ 78
جب تک عراق نے پسپائی پر اتفاق کیا تب تک امریکی قیادت میں اتحادی فوج جگہ سنبھال چکی تھی اور یوں بیسیویں صدی کی یک طرفہ ترین جنگ لڑی گئی۔ ایک امریکی افسر کے ناقابل فراموش بیان کے مطابق یہ جنگ ’پرندے کا شکار‘ ثابت ہوئی۔ تمام جنگی اخلاقیات کے برعکس کویت سے پسپا ہوتی ہوئی کویتی فوج پر حملہ کر کے اسے نیست و نابود کر دیا گیا۔ صحرا میں پڑی ایک عراقی فوجی کی جلی ہوئی لاش کی تصویر اس قتلِ عام کی علامت بن گئی۔ اس تصویر سے متاثر ہو کر انگریز شاعر ٹونی ہیرسن نے ایک نظم لکھی جو گارڈین میں شائع ہوئی اور جنگ کی مقبول ترین نظم بن گئی۔ تیل کی تیسری جنگ نے خطے میں طاقت کا توازن بدل دیا مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بیسویں صدی کا ایک اہم باب بند ہوا۔ ہٹلرکی شکست بعد مالٹا اور پوسٹ ڈام میں جو بندر بانٹ ہوئی تھی اب لاگو نہ رہی تھی۔ نئے سرے سے بھونڈی طرح بندر بانٹ ہوئی مگر اب کی بار جو چیزیں بانٹی گئیں تو امریکی پلڑا بہت بھاری تھا چاہے اس بندر بانٹ پر اتحادی غلاف چڑھا ہوا تھا۔ اس بابت بحران کے آغاز پر ہی جارج بش سینئر نے واضح کیاتھاکہ کس طرح ہم نے بعد از سرد جنگ شروع ہونے والے دور کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے۔79 بش سنیئر نے جنگ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے امریکہ نے ویت نام ٭سنڈ روم سے نجات حاصل کی۔ یہ در حقیقت قبل از وقت فیصلہ صادر کرنے والی بات تھی۔ ’تیسری‘ کامیابی آج کے حالات میں مطالعہ کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یکم مارچ 1991ء کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بش نے پر اعتماد انداز میں کہا کہ ’طاقت کے استعمال کی وجہ سے اب آئندہ کسی کو جارحیت کی جرأت نہ ہو گی۔ میرے خیال سے آئندہ ہمیں دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی فوج بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ میرے خیال میں جب ہم معروضی طور پر درست بات کریں تو لوگ اس بات پر توجہ دیتے ہیں‘ ۔ 80
توجہ دینے والوں میں ایک سعودی شہزادہ بھی شامل تھا۔ اسامہ بن لادن پامیر کے پہاڑوں سے لوٹے تو افغانستان میں سوویت روس کو شکست دینے میں ان کردار کو سراہتے ہوئے انہیں مجاہدِ آزادی کے طور پر مرحبا کہاگیا۔ کویت پر عراقی قبضے کے چند ہفتوںکے بعد جب سعودی افسر شاہی اس بحران سے نمٹنے کے کئے فکر مند تھی اسامہ بن لادن نے شاہ فہد سے ملاقات کے لئے وقت مانگا۔ وقت مل گیا۔ دوران ملاقات اسامہ بن لادن نے شاہ فہد سے کہا کہ امریکی فوجوں کو دعوت دینا تو کجا امریکی فوجوں کی سعودی عرب میں تعیناتی سے بھی گریز کیاجائے۔ جب شاہ فہد نے پوچھا کہ وہ کویت کو عراق سے کس طرح خالی کرائیں گے تو کہاجاتا ہے اسامہ بن لادن نے اپنے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا سعودی عرب میں پہلے سے موجود تیس ہزار مسلح مجاہدین نہ صرف جنگ پر جانے کو تیار ہیں بلکہ دہرئے صدام حسین کو شکست دینے کے لئے اپنی جان پر کھیل جائیں گے۔81 بادشاہ کو کویت پر قبضے سے ایسا دھچکا نہ لگا تھا جیسا اس خبر سے لگا۔ انہوں نے جلدی سے ملاقات ختم کی اور ایک وزیر کی طرف مڑتے ہوئے پوچھا کہ اسامہ کے پاس اس ملک میں اتنی بڑی فوج موجود ہو سکتی ہے! جب بادشاہ کو یہ یقین دلادیا گیا کہ یہ سب دیوانے کی بڑہے تو تب جا کربادشاہ کو سکون آیا۔82 اسامہ نے جو تعداد بتائی یقینا حقیقت سے واسطہ نہ رکھتی تھی۔ لیکن اسامہ نے محض بڑبازی نہیں کی تھی۔ سعودی خاندان سے اسامہ کی دوری اور گیارہ ستمبر کے واقعات درحقیقت 1990ء میں ہونے والے تنازعے کا گوغیر متوقع مگر چھوٹا سا اظہار تھے۔ جوابی وار کبھی بھی فوراً نہیں ہوتے۔
کویت کو باآسانی آزاد کروالیا گیا یعنی واپس صبا خاندان کے حوالے کر دیا گیا اور کویت پھر خاندانی جاگیر بن گیا۔ صدام حسین کی مہم جوئی کے نتیجے میں یہ ممکن نہ رہا کہ کوئی سنجیدہ حزب اختلاف کویت میں جنم لے سکتی جبکہ ہزاروں فلسطینیوں کو کویت سے نکال دیا گیا۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ عراق میں بعث وادیوں کا کردارہرگز مثالی نہ تھا، اس بات کی توقع نہ کی جاسکتی تھی کہ وہ کویت میں کوئی مثالی کام سر انجام دیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ کویت کا حکمران خاندان غیر مقبول تھا۔ اگر تو عراقی صبا خاندان کو ہٹا کر کویت کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے انتخابات کے ذریعے ایک ایوان وجود میں لاتے تو ان کی مہم یقینی طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوتی اور مغرب کا جوابی حملہ ناممکن بن کر رہ جاتا۔
1990ء میں قائم ہونے والا ایوان، 1938ء کی آئین ساز اسمبلی کی طرح عراق سے قریبی تعلق کے حق میں فیصلہ کر سکتا تھا۔ عراقی آمر ایسا کوئی بھی قدم اٹھاتا تو عراق میں بھی توقعات جنم لیتیں۔ اس نے سیدھا سادہ قبضہ کیا جو اندھا دھند جوا کھیلنے کے مترادف تھا اور بازی ہارنا مقدر تھا کہ کویت میں موجود تیل کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔83
حیرانی اس بات پر نہیں ہوتی کہ صدام حسین نے اہلِ کویت کو انتخابات کا حق کیوں نہیں دیا۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جب امریکی حملہ امر ہو چکا تو صدام حسین نے کویت سے عراقی فوج کیوں نہ نکالی؟ وجہ کچھ بھی ہو غرور،تکبر، حماقت یا دیوانگی، یہ فیصلہ انتہائی ظالمانہ تھا۔ ہزاروں عراقی فوجی موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔
عراقی فوج کے ہتھیار ڈالنے سے صدام حسین کو زوال نہ آیا۔ امریکہ کے پاس کوئی متبادل دستیاب نہ تھا جب کہ اس کے تمام عرب اتحادی جن میں سے کوئی بھی جمہوری طور پر منتخب نہ تھا، صدام حسین کو ہٹانے کے خلاف تھے۔ ایک بار یہ فیصلہ ہوگیا تو بعث قیادت نے دوٹوک انداز میں جنوبی عراق اندر سر اٹھانے والی اس سرکشی کو کچل کر رکھ دیا جسے ابتداء میں مغرب کی شہ حاصل تھی۔ شمال میں واقع کرد علاقے کو عراقی حکومت کے لئے نوفلائی زون قرار دیا گیا اور امریکی جنگی طیارے اس کی مستقل نگرانی کرنے لگے۔
’عالمی برادری‘ نے اب عراق کے لئے چند سزائیں تجویز کیں جن کے عراقی عوام پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ یہ سزائیں اقوامِ متحدہ کی آشیر باد سے منظور ہونیوالی وہ پابندیاں تھیں جو ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھیں اور اینگلو امریکی فضائی حملے تھے جو ہر ہفتے ہوتے تھے۔ نتیجہ ان پابندیوں کا یہ نکلا کہ عراقی عوام تمام بنیادی ضرورتوں کے لئے اپنی حکومت کے محتاج بن کر رہ گئے اور یوں عراقی حکومت کی گرفت اور مضبوط ہوگئی۔ بہت سے دیگر لوگوں کی طرح میں بھی مسلسل یہ دہائی دے رہا تھا کہ عراق کے خلاف پابندیاں جرم ہیں اور ان پابندیوں کے لئے جووجوہات بیان کی جارہی ہیں وہ عراق میں تعینات اقوامِ متحدہ کے مقتدر اہل کاروں کو قائل نہیں کر پارہیں اور یہ اہل کار جب عراق پر ان پابندیوں کے اثرات کا مشاہدہ کرتے تو اپنی ذمہ داریوں سے مستعفی ہو جاتے۔84
یہاں ان اعدادو شمار کر دہرانا ایسا بے جانا ہو گا جو ایک ملک کے عوام سے لئے گے بدلے کی تصویر پیش کرتے ہیں اور ان اعدادوشمار سے جارج بش بل کلنٹن جارج ڈبلیو بش سینئرٹونی بلیئر بل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش اور جونیئر کے ان دعووں کی قلعی بھی کھلے گی جو مسلسل پابندیوں کے حق میں تاویلیں پیش کیا کرتے تھے۔
اقتصادی پابندیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خطے کے لحاظ سے جس ملک میں خوراک، تعلیم اور عوامی سہولتوں کا معیار بہت بلند تھا اس ملک کے عوام ان سہولتوں کو ترسنے لگے۔ 1990ء سے قبل ملک کافی کس جی این پی 3000ڈالر تھا 2001 میں یہ کم ہو کر 500ڈالر رہ چکا تھا اور یوں عراق دنیا کے غریب ترین معاشروں میں شمار ہونے لگا۔ اس کا سماجی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا اس کے عوام انتہائی بنیادی سہولتوں کے لئے محتاج بن گئے جبکہ عراق کی مٹی یورنییم زدہ ہتھیاروں سے آلودہ ہونے لگی جس کے نتیجے میں سرطان کی بیماری تیزی سے پھیلنے لگی۔ اس بات کے شواہد اب سامنے آچکے ہیں کہ ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی اس بابت پوری طرح باخبر تھی کہ بعض آلات اور کیمیائی مادوں کی عدم فراہمی صاف پانی کا مسئلہ بھی پیدا کرے گی اور شرح اموات میں اضافہ بھی۔ اس موضوع پر کلنٹن انتظامیہ نے بحث بھی کی مگر پھر بھی ان پابندیوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔85
عوام سے لئے گئے اس سفاک بے باکی کی تاریل کیا پیش کی گئی۔ یہ کہ صدام حسین کی حکومت عوامی تباہی کے ہتھیار بنا رہی تھی اور ایٹمی ہتھیار بنانا ہی چاہتی تھی جس سے عالمی برادری کو شدید خطرہ لاحق ہوجاتا۔86یہ دلیل بعد ازاں 2003ء میں بھی استعمال کی گئی۔ باالفاظ دیگر پابندیاں اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔آپ امریکی کمانڈران چیف بھی ہوں تو متضاد بیانات سے ایک محدود عرصے کے لئے ہی کام چلایا جاسکتا ہے ہمیشہ نہیں حتیٰ کہ دائیں بائیں کندھوں پر بیٹھے آسٹریلین اور برطانوی طوطے بھی یہ متضاد بیانات مسلسل نہیں دہرا پاتے۔
کیا ایران اور کویت پر صدام حسین کی چڑھائی کا مطلب یہ تھا کہ وہ ایٹمی قوت کے مالک اسرائیل پر بھی حملہ کر دیں گے؟گیارہ ستمبر کے بعد بش کو مشورہ دینے والے لیکڈ وادی مشیروں کا تو یہی خیال تھا۔ جنگی جنون کے پھیلائو اور حالیہ تاریخ کے ناجائز استعمال کے خلاف جان جے میرزہیمر اور اسٹیفن ایم والٹ نے نیویارک ٹائمز میں مشترکہ مضمون لکھا جس میں امریکی انتظامیہ اور سمندر پار حامیوں کو چتاونی دی گئی۔
امریکہ کے پاس عراق کے سلسلے میں واضح راستہ موجود ہے: تحدید یاپیشگی حملہ۔ صدر بش کا اصرار ہے کہ تحدید کا عمل ناکام رہا لہٰذا اب ہمیں جنگ کی تیاری کرنی چاہئے۔ جنگ کی ہر گز بھی ضرورت نہیں۔ تحدید ماضی میں بھی کامیاب رہی اور مستقبل میں بھی ہو گی صدام حسین کے سلسلے میں بھی کامیاب ہوگی۔ پیشگی حملے کا جوازیہ دیا جارہا ہے کہ مسٹر حسین بے رحم توسیع پسند ہیں اور مشرقِ وسطیٰ پر اپنی گرفت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت انہیں اکثر ایڈولف ہٹلر سے تشبیہ دی جاتی ہے جو جدید تاریخ میں تسلسل سے بیرونی حملوں اور توسیع پزیری کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ حقائق البتہ کسی اور ہی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ صدام حسین نے اپنے اقتدار کے تیس سالوں میں دوجنگیں لڑی ہیں۔ عراق نے 1980ء میں ایران پر حملہ کیا مگر اس وقت جب ایران کی انقلابی حکومت نے عراقی اہل کاروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی، عراق کی سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزی کی اور مسٹرحسین کا تختہ الٹنے کی کوشش میں عراق اندر بدامنی کو ہوا دی۔ ایران پر حملے کا فیصلہ ایسا اندھا دھند فیصلہ نہ تھا کیونکہ ایران بالکل تنہا تھا اور فوجی لحاظ سے کمزور۔ گو یہ جنگ مہنگی ثابت ہوئی مگر اس کے نتیجے میں ایران کے خطے اندر منصوبے خاک میں مل گئے اور مسٹر حسین کی حکومت بچ گئی۔
1990ء میں جو کویت پر حملہ کیاگیا تو اس کی وجہ تیل کی قیمتوں پر سنجیدہ اختلافات، جنگی قرضہ جات پر تنازعہ تھا اور مسٹر حسین کو منانے کے چکر میں واشنگٹن کا اشارہ جسے سمجھنے میں مسٹر حسین نے غلطی کی وہ یہ سمجھے امریکہ حملے کی مخالفت نہیں کرے گا گو امریکہ نے جان بوجھ کر ایسا نہ کیاتھا۔ پہلی بار تحدید ناکام نہیں ہوئی … اسے آزمایا ہی نہیں گیا۔ لہٰذا مسٹر حسین محاذِ جنگ پر اسی صورت پر گئے جب یاتو انہیں خطرہ لاحق تھا یا انہیں کوئی موقع نظر آیا۔ یہ وجوہات عراق کی جارحیت کا جواز نہیں مگر ان سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹر حسین اندھا دہند جارحیت کرنے والے جارح نہیں کہ جنہیں روکا نہیں جاسکتا۔ حقیقت میں کسی واضح خطرے کی صورت عراق نے کبھی حملے کی جرأت نہیں کی۔87
آخری جملہ بالکل درست تھا اور اس پر زور دینے کی توجہ تھی۔ درحقیقت جو دلائل ڈونلڈ رمز فیلڈ پینٹاگون اور ٹونی بلیئر 10ڈاوننگ اسٹریٹ میں دے رہے تھے ان پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ دلائل تو اس جنگ کا طبل تھے جسے چھیڑنے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔88جنگ مخالف مہم میں متحرک ہم لوگوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی تھی۔ جنگ سے چھ ماہ قبل میں مسلسل یہ کہتا آرہا تھا کہ یہ جنگ انسانی حقوق کیلئے تو ہر گز بھی نہ ہوگی جبکہ تیل جزوی وجہ ہوگا۔ اصل وجہ سامراجی اجارہ داری ہے۔89 ستم ظریفی دیکھئے کہ جنگ کے حامی بھی اسے سامراجی اجارہ داری کی جنگ قرار دے رہے تھے۔
ان دو متحارب سوچوں کے درمیان بھی ایک سوچ موجود تھی۔ یہ سوچ تھی گیدڑوں کی جن کا تعلق ہر قسم کی قوم سے تھا۔ ان گیدڑوں کو اچانک احساس ہوا تھا کہ سامراج عراق کے حق میں بہتر ہے اور سامراج عراق پر ایک مہربان حکومت مسلط کرے گا۔ یہ سوچ جیسا کہ میں اگلے دوابواب میں ثابت کرنے کی کوشش کروں گا تاریخ اور موجودہ حالات دونوں کی نفی کرتی ہے۔