جس رپورٹ کے تحت 1904 ء میں کمیٹی آف امپیریل ڈیفنس قائم ہوئی تھی، اس رپورٹ میں ایک جملہ برطانوی سلطنت کی بہترین از خود تعریف تھا: ’برطانوی سلطنت ایک عظیم16 بحری، ہندو ستانی اور نو آبادیاتی طاقت ہے، ہندوستان کا ذکر خاص بلاوجہ نہیں تھا۔ برصغیر سے مہیا ہونے والی افرادی قوت اور مال و اسباب برطانیہ کے عالمی استعماری غلبے کے لیے ایک اہم ستون تھا۔ بعداز غلام داری سماج میں رہنے والے ہندوستانی کاشت کاروں کی حوصلہ فزائی کی جاتی تھی کہ وہ اپنی دھرتی سے رشتہ توڑ کر سمندر پاٹرینیڈاڈ اور گیانا میں جا کر کاشت کاری کریں، مشرقی اور جنوبی افریقہ میں انتظامی امور کی دیکھ بھال کے لیے کلرک ہندوستان سے بھیجے جاتے۔ چین میں باکسر بغاوت ہو یا پھر دنیا کے کسی حصے میں کسی گڑ بڑ کا سرکچلنا ہوتا تو سکھ اور گورکھا سپاہی استعمال کئے جاتے۔ بعدازاں، ہندوستانی دستے دونوں عالمی جنگوں میں بھی کام آئے اور دورانِ جنگ ان دستوں کو عرب دنیا پر استعماری قبضے کے لئے بھی استعمال کیا گیا۔ اُن دنوں دشمنوں کے ساحلی علاقوں پر قبضے کے لیے توپیں (بحری برتری) اور گورکھا سپاہی درکار تھے۔
1917ء میں برطانیہ نے ہندوستانی نو آبادیاتی سپاہیوں کی مدد سے یروشلم اور بغداد پر قبضہ کیا۔ یوں یہاں عثمانی عہد کا خاتمہ ہوا جس نے کئی صدیوں تک اس خطے کی تقدیر کا فیصلہ کیا تھا۔ عثمانی عہد میں اکثر خطوں کو حقیقی خود مختاری حاصل تھی بشرطیکہ ٹیکس باقاعدگی سے استنبول کے شاہی خزانے میں پہنچتا رہے۔ اپنی کہنہ سالی کے باعث سلطنت عثمانیہ ویسی چست و چالاک نہ تھی جیسی اس کی مخالف اور اذیت رساں جدید یورپی سلطنتیں تھیں۔ کیا پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کے غیر جانبدار رہنے سے کوئی فرق پڑتا؟ شائد نہیں، ہاں البتہ سلطنت عثمانیہ اگر جاپان کی طرح لندن اور پیرس کی حامی بن کر پہلی عالمی جنگ میں حصہ لیتی تو بعداز جنگ بننے والا عالمی منظر نامہ خاصا پیچیدہ ہوتا۔ ایسی صورت میں نوتشکیل شدہ ریاستوں کی سرحدیں بہت مختلف ہوتیں اور جہاں تک تعلق ہے بالفور معاہدے کا، تو اس معاہدے پر عمل درآمد شائد اس قدر آسان نہ ہوتا اگر برطانوی فوج اس خطے میں موجود نہ ہوتی۔
عرب دنیا پر عثمانی غلبے کا آغاز سولہویں صدی میں ہوا اور مصر کے مملوک سلطان کی نیم مسلح فوج پر ترک توپ خانے اور توپچیوں کی واضح برتری کے باعث اپنے انجام کو پہنچا جس کے بعد مکہ و مدینہ کی طرح دمشق، بغداد، تریپولی اور الجزائر بھی عثمانی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ سب سے پہلے مبلغین نے وفاداریاں بدلیں اور نئے نظام کے حواری بن گئے۔ شہر فتح ہونے کے ایک ہفتہ بعد قاہرہ کی مساجد میں جمع کا خطبہ یوں شروع ہوا:
یاباری تعالیٰ! سلطان ابن سلطان، شاہِ بحر و بر، فاتحِ عالم، شاہِ عراق، وزیرِ حجاز، فاتح سلطان سلیم شاہ کا اقبال بلند ہو!
اے مالکِ کُل ! سلطان کو اپنی نصرت اور عظیم کامیابیوں سے بہرہ مند فرما!
عثمانی حکومت کو کئی وجوہات کی بنا پر قبول کر لیا گیا۔ یہ ایک مسلم سلطنت تھی جس کا سلطان خلیفہ تھا اور ماسوائے شیعہ فارس کے تمام مسلم دنیا میں عثمانی خلیفہ کی خلافت تسلیم کی جاتی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت اتنے لمبے عرصے کے لیے ایک ایسے مرکز کو تسلیم کر رہے تھے جو دینی و دنیاوی معاملات پر اختیار کا حامل تھا۔ اسلام اپنے ظہور کے فوری بعد ہی اناطولیہ کے قبائل میں گھس بیٹھ کر گیا۔ جس طرح رومیوں نے یونانیوں سے سیکھا اسی طرح ترکوں نے عرب علوم، ثقافت اور روایات کو اپنایا اور عربوں سے سائنس، مذہب اور حروفِ تہجی مستعار لئے جو نئی سلطنت کی بنیاد ثابت ہوئے اور اگر بنیاد یہ تھی تو عمارت بہرحال فارسی آرٹ، شاعری ا ور مطلق العنان بادشاہت باز نطینی فوجی مہارت و سول انتظامیہ اور جذب کرنے کی صلاحیت سے معمور سیلانی سخاوت کا ملغوبہ تھی۔ یہ امتزاج جہانبانی، فن تعمیر اور ادب کے میدانوں میں خاصا سود مند ثابت ہوا۔
عرب دنیا کے شہروں اور دیہاتوں میں یہ عثمانیت مشترکہ ورثہ بن گئی۔ اگر تو ٹیکس استنبول شاہی خزانے تک پہنچتے رہتے تو خلیفہ سلطان مکمل تسلط یا اطاعت کا مطالبہ نہ کرتا۔ نتیجتاً ہونہار صوبیدار کسی حد تک خود مختاری سے بہر مند ہوتے رہتے اور مرکز سے مکمل علیحدگی سے باز رہتے۔ بغداد، بصرہ اور موصل پر 1831ء میں عثمانی فوج کو دوبارہ قبضہ کرنا پڑا کیونکہ صوبیدار نے نئے صوبیدار کی تعیناتی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ آنے والی چند دہائیوں میں زرعی اصلاحات کی گئیں جس کے نتیجے میں صدیوں پرانا وہ نظام ختم ہو گیا جس میں زمین تو فرد کے پاس ہوتی البتہ زمین کی ملکیت ریاست کے پاس ہوتی۔ یوں جاگیردار شیخوں کا (جو عموماً قبائلی سردار ہوتے) ایک نیا طبقہ وجود میں آیا، ایک نئی سماجی قوت کا ظہور ہوا اور سو سال بعد برطانیہ نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے اسی طبقے کو استعمال کرنا تھا۔ سیاسی میدان میں جب عثمانی سلطنت اندر اصلاح پسند دھارے نے جنم لیا اور استنبول میں پارلیمان کا قیام عمل میں آیا تو ساتھ ہی ساتھ فارس اندر 1906ء کا آئینی انقلاب بھی برپا ہو گیا جس سے عربوں کے اندر بھی نئی امنگوں نے جنم لیا۔ عثمانی پارلیمان میں عربوں کی نمائندگی تو تھی البتہ ان کا یہ مطالبہ زیادہ شدت پکڑنے لگا کہ عربی کو ترکی کے برابر درجہ دیا جائے، ساتھ ہی ساتھ ان کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ مقامی پنچایتیں قائم کی جائیں۔ بے نیاز عثمانی بادشاہت تو ان مطالبات کو تسلیم کر ہی لیتی مگر استنبول میں ترک قوم پرستی سے معمور اصلاح پسند حکومت ان مطالبات سے خوفزدہ تھی کہ ایسے مطالبات سلطنت کے حصے بخرے کر سکتے تھے۔ سلطنت کو متحد رکھنے کے لیے مرکزیت کو توڑنے سے اس حکومت نے گریز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سلطنت کی ناراض رعایا نے خفیہ طور پر منظم ہونا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے عثمانی فوج اندر عرب افسروں نے بغداد اور بصرہ میں خفیہ حلقے منظم کئے۔ یہ افسر اُن اصلاح پسند ترکوں کے انداز میں منظم ہو رہے تھے جو اب استنبول میں حکومت چلا رہے تھے۔
انیسویں صدی کے اختتام پر حریف برطانوی سلطنت شرق العرب میں عثمانی مخالف دھاروں کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔ عربوں اندر عثمانیہ مخالف دھاروں کی بنیاد کسی حد تک تو قوم پرستی تھی البتہ زیادہ تر قبائلی سردار موقع پرستی کا شکار تھے۔ سامراجی چپقلش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے مخصوص خاندانوں اور قبائل کا انتخاب کیا جاتا جو زر کے عوض وفاداری بدلنے کے لیے تیار رہتے۔ لارڈ کچنر فلسطین اور مصر اندر خدمات انجام دے چکے تھے۔ لارڈ کچنر حجاز کے موروثی والی، خاندانِ ہاشمی کے ساتھ ابتدائی رابطے قائم کر چکے تھے مگر ہاشمی خاندان اس باعث کسی واضح اعلان سے باز رہا کہ اس طرح اینگلو ترک تعلقات متاثر ہو سکتے تھے۔ پہلی عالمی جنگ چھڑے ہنوز ایک ہی ماہ ہوا تھا کہ لارڈ کچنر نے بطور وزیر برائے جنگی امور ہاتھ سے لکھا ہوا ایک دیدہ زیب خط شریفِ مکہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبداللہ کے نام ارسال کیا۔ لارڈ کچنر جاننا چاہتے تھے کہ اگر جرمن قیصر ترکی کو جنگ میں گھسیٹ لایا تو عرب کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس سوال کے بعد لارڈ کچنر نے روایتی سامراجی دروغ گوئی کا اظہار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل پیش کش کی:
اب تک ہم ترکوں کی شکل میں اسلام سے دوستی کا اظہار اور اسلام کا دفاع کرتے آئے ہیں۔ آئندہ ہم ترکوں کی جگہ عربوں کو دیں گے۔ ممکن ہے کہ ایک نسلی عرب مکہ و مدینہ کا خلیفہ بن جائے اور یوں خدا کے فضل سے جو برائی اب ہو رہی ہے وہ ایک اچھائی کو جنم دے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر حضور والا دنیا بھر میں پھیلے اپنے ماننے والوں اور عقیدت مندوں کو عربوں کی آزادی کے ثمرات اور العربیہ پر طلوع17 ہونے والے سورج بارے آگاہ کر دیں۔
لارڈ کچنر اپنی جیت کا مزہ چکھنے کے لیے زندہ نہ رہے۔ ہاں مگر پہلی عالمی جنگ میں ہونے والی فتوحات اور شکستوں کے نتیجے میں ایک سلطنت رخصت ہوئی اور اس کی جگہ نئی سلطنت نے لے لی۔ جوں جوں عثمانی سپاہی مغرب کو سرک رہے تھے توں توں ان کی جگہ برطانوی اور فرانسیسی سپاہی لے رہے تھے۔ مال غنیمت کی بندر بانٹ کے لیے ہونے والا اینگلو فرنچ (سائس پیکاٹ) معاہدہ شرق العرب کی تقسیم اور نئے ممالک، نئی سرحدوں کے ظہور کی بھی وجہ بنا اور اس نے پہلے سے موجود مگر کمزور صورت قوم پرستی کو توانا بنا دیا۔ ہاشمی خاندان اور سعودی قبیلہ وہ مہرہ تھے جو جرٹروڈ بیل کے بقول قوم پرستی اور یورپ سے رسنے والے سنڈیکل اسٹ اور سوشلسٹ نظریات کے خلاف بند باند ھنے کے لیے پالے پوسے گئے۔18
جرٹروڈ نے نئی ریاست عراق کا نقشہ بنایا: تین عثمانی صوبے یعنی بغداد، موصل اور بصرہ کو بے ہنگم انداز میں ایکدوسرے کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ موصل کو ترکی سے کاٹنا درحقیقت معاہدہ جنگ بندی کی شدید خلاف ورزی تھی۔ کرزن نے انتہائی حقارت سے ترک اعتراضات رد کر دیئے کہ یہ فاتح کا حق ہوتا ہے ہاںمگر مختلف محکموں کے مابین نئی ریاست کے نظم و نسق کے حوالے سے ابھرنے والے اختلافات کو یوں حل کرنا ممکن نہ تھا۔ مصر کو تو برطانیہ نے ’شاہ کے محروس ملک‘ کے طور پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ نہر سویز پر اجارہ داری برقرار رکھی جا سکی کہ نہر سویز ہندوستان سے رابطے کے لیے انتہائی اہم تھی۔ میسو پوٹیمپا بہر حال عقدہ لاینحل بنا رہا۔ لیگ آف نیشنزکے مینڈیٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ برطانیہ عراق کا نظم و نسق کس طرح کرے گا۔ برٹش انڈیا سرکار چاہتی تھی کہ عراق کا نظم و نسق بھی ہندوستان ہی کی طرح چلایا جائے بلکہ زیادہ بہتر ہو گا کہ دہلی کے زیر اہتمام چلایا جائے۔ برٹش انڈیا سرکار کو خاص حیرت ہوئی جب کرزن نے جرٹروڈ بیل کے اس منصوبے کی حمایت کی کہ عرب نقاب اوڑھ کر عراق پر مکمل برطانوی اقتدار ہونا چاہئے۔ قبضے کا یہ ڈھنگ زیادہ دقیقہ سنج تھا۔ زیادہ قابل عمل بھی تھا۔ تین عثمانی صوبوں پر قبضہ کرنے والی میسو پوٹیمین ایکسپیڈ یشنری فورس ہندوستانی سپاہیوں پر مبنی تھی۔ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا تقاضا تھا کہ یہ سپاہی جلد از جلد وطن لوٹیں اور سامراجی نظم و نسق کا تحفظ یقینی بنائیں۔ عرب شاہی خاندانوں کی مناسب تربیت اور دیکھ بھال کے نتیجے میں ممکن تھا کہ آنے والے عرصے میں وہ سامراج کے مفادات کا مناسب تحفظ کر سکیں۔
سلطنت عثمانیہ شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی تو میسو پوٹیمیا میں متحرک خفیہ حلقے ایک تو زیادہ کھل کر سامنے آئے، دوسرا وہ دھڑے بندی کا شکار بھی ہو گئے۔ جو تو موقع پرست تھے وہ خلیفہ کرزن کے ہاتھ بیعت کرنا چاہتے تھے کیونکہ اچھے موقع پرستوں کی طرح انہیں علم تھا کہ پہلے وفاداریاں بدلنے والے نوازے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پرست نوری السید تھے جو کبھی عثمانی فوج میں افسر تھے دوسرے بہت سے لوگ بشمول اشرافیہ، قبائلی سردار اور مذہبی رہنما البتہ احتیاط سے کام لے رہے تھے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ نئی سلطنت شکست خوردہ عثمانیہ سے زیادہ بری ثابت ہو سکتی ہے اور ان کا خیال ایسا غلط بھی نہ تھا۔
تاریخ نوری السید اور شریف مکہ کے خاندان کا ساتھ دے رہی تھی۔ شریف مکہ نے لارڈ کچنر کی پیشکش قبول کرتے ہوئے خوشی خوشی ٹی۔ ای۔ لارنس اور جنرل ایلن بی کا ساتھ بھی دیا تھا۔ اس تعاون کے بدلے میں شریف مکہ کو جزیرہ نما میں حجاز جبکہ شریف مکہ کے بیٹے فیصل کو گریٹر شام کی بادشاہت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ گوریلے دوغلے پن سے کام لے رہے تھے۔ ایچ ۔ایس ۔ فل بی پہلے ہی جزیرہ نما کا وعدہ اس سعود خاندان سے کر چکے تھے کہ جسے برطانیہ کئی سال سے مالی مدد بھی دے رہا تھا اور مسلح بھی کر رہا تھا۔ 1924ء میں سعود خاندان کے سربراہ ابنِ سعود نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں ہوئی مگر ابنِ سعود نے شریف مکہ پر حملہ کر دیا اور شریف مکہ کو شکست دے دی۔ہاشمی خاندان کا سربراہ حجاز کی ولایت چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور ہو گیا۔ ان کا 1931ء میں دورانِ جلا وطنی انتقال ہوا۔ دونوں قبیلوں کے مابین یہ دشمنی ہنوز چل رہی ہے۔
شریف مکہ کے بیٹوں کو بادشاہتیں فراہم کر دی گئیں مگر ان دیسوں کی نہیں جن کے وہ متمنی تھے۔ 1919ء میں شاہ فیصل اپنے بدو گھڑ سوار رسالے کے ساتھ دمشق پہنچ چکے تھے مگر اگلے ہی سال فرانسیسی دستوں نے انتہائی نامناسب انداز میں انہیں ہٹا دیا۔ فرانس والے اپنی نو آبادیات پر اپنا ہی ماڈل مسلط کرنا چاہتے تھے اور بادشاہت اس ماڈل سے میل نہ کھاتی تھی۔ شاہ فیصل اب بے تاج شاہ تھے۔ عین اس موقع پر جرٹروڈ بیل نمودار ہوئیں۔ جرٹروڈ بیل اور ان کے باس سرپرسی کوکس نے محسوس کیا کہ ان کے نوتشکیل شدہ ملک کو ایک بادشاہ کی ضرورت ہے۔ مختلف محکموں کے مابین طویل بحث مباحثے کے بعد یہ منصوبہ منظور کر لیا گیا۔ ہاشمی خاندان نے مکمل وفاداری کا ثبوت دیا تھا، ان کے جذبات کا خون کیا گیا تھا اور اب زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت تھی۔ شاہ عبداللہ کو اردن کا بادشاہ بنا دیا گیا جبکہ جرٹروڈ بیل کی مسلسل سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ فیصل کو عراق کے نئے نویلے تخت پر بٹھایا گیا جبکہ جعفر عسکری کی صورت ایک قونصل بھی مقرر کیا گیا جو نئے شاہی حاشیہ نشین ٹولے میں سب سے زیادہ قابلِ بھروسہ آلہ کار تھے۔ دھوکے بازوں سے بھری دنیا میں جعفر عسکری ایسے لوگ نابغۂ روزگار تھے۔ ’میں دوبارہ کبھی بادشاہ تخلیق کرنے کے کھیل میں نہیں پڑوں گی بہت کھینچا تانی ہوتی ہے،‘ جرٹروڈ نے بعدازاں سامراجی تکبر سے بھرے انداز میں کہا حالانکہ اس بابت اصل فیصلہ 1921ء میں کلونیل سیکرٹری ونسٹن چرچل قاہرہ میں ہونے والی اس کانفرنس میں ہی لے چکے تھے جو مختلف مسائل کے حل کے لیے بلائی گئی تھی۔
عراقی جو یہ سمجھ رہے تھے کہ شاہ فیصل کو ان پر مسلط کیا گیا ہے، اس فیصلے کا اصل شکار بنے۔ کرُد، جنہوں نے اول اول برطانیہ کو خوش آمدید کہا تھا، اب نالاں تھے کہ انہیں کسی بھی قسم کی حقیقی خود مختاری نہیں ملی تھی:1919-20ء میں سلمانیہ اندر برطانیہ مخالف سرکشی کے ذریعے وہ پہلے ہی اپنی ناراضگی کا اظہار کر چکے تھے۔کرد رہنما محمد بار زنجی کو گرفتار کر کے موت کی سزا سنائی گئی جو بعدازاں کویت جلاوطنی میں بدل گئی (بہت سے کُردوں کے نزدیک کویت جلاوطنی بہرحال جہنم سے کسی طور کم نہ تھی)۔ یہ جلاوطنی پیش بینی کا ثبوت تھی کہ 1922ء میں برطانیہ کو محمد بارزنجی کی پھر ضرورت پڑنے والی تھی۔ کُردوں پر قابو پانے کے لیے بری دستے بھی استعمال میں لائے گئے تھے اور فضائی قوت کا استعمال بھی ہوا تھا۔ عرب رہنمائوں نے علم بغاوت تو بلند نہیں کیا البتہ ایک عرب رہنما‘ سید طالب النقیب نے اپنی ناراضگی نہیں چھپائی اور شاہ فیصل کو دخل در معقولات قرار دیا۔ برطانیہ نے سید طالب کو جلاوطن کر دیا۔ جنوب میں بھی البتہ عمومی رائے ہرگز موافق نہ تھی۔ 1920ء میں جب برطانوی انتظامیہ کو ٹیکس سے انکار پر رومیثہ میں ایک مقامی رہنما کو گرفتار کیا گیا تو نئی بغاوت پھوٹ پڑی۔ایک مسلح جتھے نے جیل پر حملہ کر کے اپنے رہنما کو آزاد کروا لیا اور پل اڑانے کے علاوہ ریل کی پٹڑیاں بھی اکھاڑ دیں تاکہ کمک بروقت نہ پہنچ پائے۔ جلد ہی بغاوت سماوا پہنچ گئی (جہاں برطانوی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیئے) اور پھر شیعائوں کا گڑھ نجف بھی اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ برطانوی گورنر نے قتل ہونے کا انتظار نہیں کیا۔ بغاوت کی ابتدائی علامت نمودار ہوتے ہی اس نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہر چھوڑ دیا۔ زیریں فرات کا سارا علاقہ اب بغاوت کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ بغاوت چھ ماہ چلی اور سامراجی فوج کے دو ہزار سپاہیوں کی جان اس بغاوت کی نذر ہو گئی۔ عراق کا جانی نقصان چار گنا زیادہ تھا۔ لگ بھگ پچھلے سو سال سے سامراجی استعمار کا مخصوص نظریاتی انداز بالکل بھی نہیں بدلا۔ وادی فرات میں ہونے والی بغاوت سے چند سال قبل، 1914ء میں جرٹروڈ بیل کے باس سرپرسی کو کس بصرہ کے شہریوں کو مطلع کر رہے تھے کہ برطانیہ ’فاتح‘ نہیں آزادی بخش قوت بن کر آیا ہے۔ اس بات پر کسی نے کم ہی کان دھرے البتہ قبضۂ کفار کے خلاف جہاد کے فتویٰ پر سب نے کان دھرے۔
روایتی سنی قیادت، جو عثمانیوں کے خاصے قریب تھی، کا ایک بڑا حصہ اس بات پر نالاں تھا کہ ان سے کنی کترائی گئی ہے جبکہ امیر فیصل ایک ایسے ملک میں بادشاہ بن کر آئے تھے جہاں انہیں نہ تو اشرافیہ کی حقیقی حمایت حاصل تھی نہ ہی عوام کی۔ مشترکہ دشمن کے خلاف لڑائی کی خواہش نے بھی شیعہ سنی اتحاد کو فروع دیا اور کسی حد تک ’ہر اس الاستقلال‘ ایسی خفیہ تنظیمیں بھی اس کا باعث بنیں۔ 1920ء کی ساری دہائی دجلہ اور وسط فرات کے کنارے آباد شہروں میں شاعر محمد البعیدی کی صدائیں گونج رہی تھیں:
معزز عراقیو! آگ لگا دو
خون سے ذلت کے دھبے دھو ڈالو
ہم غلام نہیں
کہ گردنوں میں طوق پہنیں
ہم قیدی نہیں
کہ بیڑیاں پائوں میں ڈالیں
ہم عورتیں نہیں
جن کا واحد ہتھیار آنسو ہوتا ہے
ہم یتیم نہیں کہ جنہیں
عراق کے لئے مینڈیٹ کی ضرورت ہے
اگر ہم نے جبر کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے
تودجلہ کی خوشیوں کا خون کریں گے
اس واضح عوامی موڈ کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ فیصل نے برطانیہ اور سابق عثمانی افسروں کی اس منڈلی پر انحصار بڑھا دیا جو 1916ء میں ان کے ساتھ آن ملی تھی۔ نوری السید کو ان کے بہنوئی جعفر عسکری نے، جو شاہی منڈلی کا سب سے متحرک رکن تھے، مختصر سی عراقی فوج کا چیف آف سٹاف مقرر کر دیا۔ دریں اثناء عرب آبادی بحیثیت مجموعی محسوس کر رہی تھی کہ تسلط کے نئے ڈھانچے نے اسے مقید کر دیا ہے۔ عثمانی دور کے آخر میں بے دلی سے تشکیل دی گئی جاگیرداری برطانوی دور میں ایک مضبوط ادارہ بن گئی: جاگیروں کے مالکوں پر انعام و اکرام کی بارش کی گئی اور یہ طبقہ نئے نظام کا محافظ بن گیا۔ ہندوستان کی طرح قوم پرستی اور دیگر ترقی پسند دھاروں کے آگے بند باندھنے کے لیے طبقاتی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جاتا۔ کچھ عرصے کے لیے تو اس طرح کام چلتا رہا مگر ہندوستان کے برعکس جاگیرداروں اور تاجروں کے طبقے بہت جلد مرکزی دھارے سے بیگانہ ہوکر رہ گئے19۔ جیسا کہ کرزن نے ایک بار شدید غصے میں کہا تھا، ’بدبخت بالشویکوں‘ کی فتح اور ان کی سامراج مخالف بڑ بازی نے سلطنت کے کام کو مشکل بنا دیا ہے۔ جاگیرداری استوار ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ روایتی قبائلی ڈھانچہ کمزور ہو گیا اور جہاں جہاں جاگیرداری نے مضبوط قدم جمائے وہاں بے زمین کاشت کاروں کا ایک طبقہ پیدا ہو گیا۔ شہروں میں غیر ملکی سرمائے کی آمد اور مقامی تاجر سے اس کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ طبقاتی تقسیم مزید تیز ہوئی اور اس کے نتیجے میں… سامراجی انتظامیہ کے حق میں یہ اچھا نہ ہوا…… ترقی پسند قوم پرستی نے جنم لیا جو کمیونسٹ پارٹی کی تشکیل پر منتج ہوئی اور یہ کمیونسٹ پارٹی شرق العرب کی سب سے زیادہ با اثر جماعت بن کر ابھری۔
برطانوی سلطنت کی کوکھ سے جنم لینے والے عراق کو لیگ آف نیشنز نے باقاعدہ بپتسمہ دیا اور اسے گود لے لیا۔ لیگ آف نیشنز وہ ادارہ تھا جو پہلی عالمی جنگ کے فاتحین نے تشکیل دیا تھا، اس ادارے نے مینڈیٹ جاری کیا جس کے مطابق ملک چلانے کا اختیار برطانیہ کو حاصل ہو گیا۔ اس حقیقت نے… یہ ملک جنم جنم سے نوآبادیاتی ملک تھا…… اس ملک کے ڈھانچوں کو تشکیل دیا۔ لندن میں قائم کلونیل آفس فوجی، اقتصادی اور خارجہ پالیسی سے متعلق تمام اہم نوعیت کے فیصلے کرتا۔ کسی کی سرپرستی یالسانی اور مذہبی معاملات سے متعلقہ مسائل بھی بعض اوقات بادشاہ اور مشیروں کے دائرہ کار میں نہ آتے تھے۔ ہربڑے چھوٹے مسئلے پر برٹش ہائی کمشنر سے مشورہ ضروری تھا20 ۔ بادشاہت بھی چونکہ اوپر سے مسلط کی گئی تھی لہٰذا اس کے استحقاق پربھی ابتدا ہی سے ہر طرف سے انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں۔ عزت و تکریم سے عاری بادشاہ کو بھی بکائو سیاستدانوں کی طرح کام کرنا پڑتا گو بادشاہ کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ بظاہر تمام جھگڑوں سے بالا تر رہے۔ شاہ فیصل کو یہ تو معلوم تھا کہ ان کے ارد گرد موجود سابق عثمانی فوجی افسروں اور افسر شاہی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر کوئی اپنا ہی کھیل رچانا چاہتا تھا۔ ابتدائی چند سالوں میں شاہ فیصل نوری السید، جو چاپلوس ملازم کا کردار بخوبی نبھا رہے تھے، کی جمع کی ہوئی خفیہ معلومات کے معیار سے خوب متاثر تھے۔ بعدازں، کبھی جب نوری کے چہرے سے نقاب سرکتا تو ہاشمی اوتھیلیو بغدادی چالباز کی سازشوں سے پریشان ہو جاتے۔ اپنی بادشاہت کے آخری سال شاہ فیصل اس درباری سے دور ہو گئے تھے۔ کبھی کبھار وہ برطانوی قبضے پر جزبُر ہوتے اور حقیقی خود مختاری کی تمنا کرتے مگر ان کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ فرانسیسیوں نے انہیں دمشق سے مار بھگایا تھا۔ اہل سعود نے ان کے والد کو شکست دے کر مکہ اور مدینہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ برطانیہ والوں نے کم سے کم انہیں ایک ملک اور تاج و تخت سے نوازا تھا۔ وہ اس بات پر شکر گزار تھے۔ وہ اپنے محسن پر سرِعام تنقید پسند نہ کرتے اور جب انہوں نے کی تو برطانوی ہائی کمشنر نے لگی لپٹی رکھے بغیر سنی رہنما کے خلاف شیعہ آبادی کے ایک حصے کو متحرک کر دیا۔ اپنے مربی کی قلیل المدت مخالفت کے بعد شاہ فیصل کو اندازہ ہو گیا کہ وہ کلونیل آفس کو مات نہیں دے سکتے۔ حجاز میں ان کے خاندان کو جو تجربہ ہوا تھا اس کے نتیجے میں شاہ فیصل کو معلوم تھا کہ سامراج نے ہاتھ میں جو پتے رکھے ہوتے ہیں ان میں کئی جو کر موجود ہوتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے وہ کردار قبول کر لیا جو انہیں اب ادا کرنا تھا اور اس بابت انہوں نے بے دھڑک کہا: ’میں برطانویی پالیسی کا آلۂ کار ہوں‘21 ۔
شاہ فیصل کو اس بات پر اگر حیرت نہیں تو دکھ ضرور ہوا ہو گا کہ ان کی بادشاہت کے پہلے تین سال تک مساجد میں خطبہ استنبول کے شکست خوردہ خلیفہ کے نام سے پڑھا جاتا ہے۔ کسے معلوم یہ سلسلہ کب تک چلتا اگر 1924ء میں کمال پاشا خلافت کا خاتمہ نہ کر دیتے۔ ایک حقیقت بہر حال سب کو معلوم تھی‘ اور امیر فیصل نے اس بابت خوب سوچا ہو گا، کہ عراق ایک استعماری قوت کے قبضے میں تھا۔ برطانوی گرفت عثمانی اقتدار کے مقابلے پر کہیں سخت بھی تھی اور ناقابلِ لچک بھی۔ برطانیہ کے ساتھ سازباز کہیں ان کے خاندان کی غلطی تو نہ تھی؟ اگر کبھی ایسی سوچیں ان کے دماغ میں آئیں بھی تو ان کا اظہار انہوں نے کبھی اپنے مشیروں سے نہیں کیا۔ کیا ان سوچوں کا اظہار کبھی ان کے صاحبزادے غازی کے سامنے ہوا؟
اس کے برعکس اگر عراقی سیاست کے مرکزی کردار نوری السید کو دیکھا جائے تو قرونِ وسطیٰ کے اس فلور ینٹائن کی یادتازہ ہو جائے جس کے خیال میں عرصہ قید حسن و خوبی سے کاٹا جانا چاہیے۔ نوری السید تھے کون؟ نوری السید کے والد عثمانی خلافت کے ایک معمولی کلرک تھے۔ جعفر عسکری اور ان کے ساتھی کیڈٹ جو بعدازاں بنو ہاشم سے بھی غداری کے مرتکب ہوئے، عموماً نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے استنبول کی عثمانی ملٹری اکیڈمی سے تربیت حاصل کی اور سلطان کی فوج میں افسر بن گئے۔ 1916ء میں جب مکہ کے شریف حسین نے دیکھا کہ عثمانی حلیف کا انتخاب کرنے میں غلطی کر گئے ہیں تو انہوں نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے برطانیہ کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ بلاشبہ ٹی ای لارنس نے اس سارے کھیل میں کردار ادا کیا البتہ ان کا کردار اتنا اہم نہ تھا جتنا ان کا دعویٰ ہے۔ وفاداریاں بدلنے کے لئے عرب قبائل کو کسی کی مدد درکار نہ ہوتی تھی۔ گھر کے بھیدی نوری السید اور جعفر عسکری کو بھی اندازہ تھا کہ عثمانی لنکا ڈھیہہ رہی ہے۔ 1916ء میں دونوں برطانوی قیدی بنے تو دوران قید ان کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے کسی خاص محنت کی ضرورت نہ پڑی۔ جب شریف مکہ نے برطانوی حمایت کا اعلان کیا تو برطانیہ نے والئی حجاز کو خدمات پیش کر دیں۔ جب شریف حسین کے سب سے چھوٹے بیٹے کو تین عثمانی صوبوں پر مشتمل ملک کا تخت پیش کیا گیا تو میسو پوٹیمیا کے بھگوڑے بھی شاہ کے ساتھ آن ملے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے: چاروں بھگوڑے عہد بادشاہت میں وزیراعظم کے عہدے پر براجمان رہے۔ یہ درست ہے کہ نوری السید کے دل میں یہ خواہش شدت سے موجود تھی کہ وہ آسمانوں کو چھولیں مگر اس کی ایک وجہ وہ معززین بھی تھے جو امیر فیصل کو طعنے دیتے کہ انہیں ’تیسرے درجے کے لوگوں‘ نے گھیر رکھا ہے۔ نوری السید انتہائی نچلے تو نہیں البتہ نچلے طبقے سے ضرور تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے دل میں ٹھان رکھی تھی کہ وہ طعنہ زن معززین سے کہیں اوپر نکل جائیں گے۔ جہاں تک تعلق ہے دولت کا تو نوری السید نے دولت جمع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
نوری السید کی سب سے پہلی وفاداری تو اپنی ذات اور احتیاط سے منتخب کی گئی خوشامد پرستوں کی اس جماعت سے تھی جو انہیں گھیرا ڈالے رہتی۔ اپنے عہدے کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے وہ برطانیہ کا اگر قابلِ بھروسہ مہرہ نہیں بھی تھے تو آزمودہ کار دوست ضرور تھے۔ بدعنوانی، بے رحمی اور اقتدار پرستی …… کہ اقتدار پرستی نفسیاتی و معاشی ضرورت بن چکی تھی … کے باعث نوری السید جلد ہی انتہائی قابل نفرت سیاسی شخصیت بن گئے۔ عام لوگ انہیں سازشی تصور کرتے اور نوری السید سے نفرت عرقی عوام میں ایک مشترکہ خصوصیت تھی۔ بادشاہت کے ابتدائی عہد میں تاجر طبقہ بغداد اور بصرہ میں ایک اہم سماجی پرت تھا، یہ طبقہ نوری السید اور دیگر سیاستدانوں پر ہمیشہ تبریٰ بھیجتا۔ سالہا سال بعد تحقیق کے لئے آئے ہوئے ایک تاریخ دان کو کاروباری شخص بتا رہا تھا کہ نوری اور نوری کا گروہ دونوں پرلے درجے کے بدعنوان تھے وہ ’کتے تھے اور کتوں کا بہترین حل یہ ہوتا ہے کہ انہیں ہڈیاں ڈالتے رہو‘22۔
عدم مقبولیت نے نوری السید کو شائد ہی کبھی پریشان کیا ہو۔ وہ اعصابی تنائو کا شکار تب ہوتے جب شاہی دربار یا برطانیہ ان سے نالاں ہوتے۔ نوری السید کے سرپر ایک ہی دھن سوار تھی، نہ ختم ہونے والی سازشیں کرتے رہو اور سب سازشوں کا ایک ہی مقصد ہوتا: اقتدار۔ مسلسل سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ سارا ماحول ہی سازشی بن گیا۔ کسی منصوبے کے ناکام ہونے کی صورت فرار کا راستہ نوری السید نے ہمیشہ کھلا چھوڑا ہوتا۔بحفاظت فرار کے لیے نوری السید کو کبھی زیادہ مشکل پیش نہ آئی۔ عارضی پناہ کے لیے برطانوی سفارت خانے میں ایک خواب گاہ تو ہر وقت موجود تھی۔ حالات مزید بگڑنے کی صورت تا آنکہ بغداد میں نوری السید کی موجودگی عارضی طور پر ناممکن ہو گئی تو انہیں فوراً ائرپورٹ پہنچا دیا جاتا جہاں سے لندن یا قاہرہ جانے والی پہلی پرواز پر سوار کرا دیا جاتا۔ جلاوطنی میں انہیں مائل کیا جاتا کہ وہ نشہ چھوڑ دیں مگر نوری السید کے لیے اس لت سے نجات پانا ممکن نہ تھا۔ انہوں نے کبھی کوشش بھی نہیں کی۔ وہ ہر وقت واپسی کے لیے تیار رہتے اور واپسی کے لیے مسلسل بساط بچھائے رہتے۔
1933 ء میں امیر فیصل کی وفات نے پہلا موقع فراہم کیا۔ نئے بادشاہ غازی نے جب والد کا تخت سنبھالا تو ان کی عمر صرف اکیس سال تھی۔ نئے بادشاہ بارے مشہور تھا کہ وہ کمزور، عیاش اور متورّق ہیں۔ جو درباری آخر میں ان سے رخصت ہوتا وہ اسی کے خیالات اپنا لیتے۔ کم از کم نوری السید ہر کسی کو یہی بتا رہے تھے اور ان کا ٹولہ برطانیہ کو یہ بات باور کرانے میں مصروف تھا۔ یہ بادشاہ کو سمجھنے میں شدید غلطی کا ارتکاب تھا۔ جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ غازی کا دل عراق میں نئے جنم لینے والے ترقی پسند دھاروں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ غازی کو برطانیہ سے بھی چڑ تھی، نوری السید سے بھی اور نوری کے حریف وزیراعظم یاسین الہاشمی سے بھی جو بدعنوان مگر ہنر مند سیاسی کارگر تھے، کئی پینترے بدلنے کے بعد،انہوں نے اپنی تقدیر برطانیہ کے سپرد کر دی تھی۔ یسین الہاشمی نے وقتی طور پر ری پبلکن ازم سے عشق شوئی کی تھی اور محض اسی وجہ سے امیر فیصل کا اعتبار کھو دیا تھا۔ امیر فیصل کو یہ بات سمجھ نہ آئی تھی کہ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح یسین الہاشمی بھی سودے باز اور بکنے کے لیے تیار تھے23 ۔ یسین الہاشمی سے جو سیاسی چڑھ غازی کو تھی وہ نوری السید سے بھی تھی۔ ہاں البتہ یسین الہاشمی سے ذاتی نفرت کی ایک وجہ سفارتی مگر غیر مبہم انداز میں کیا جانے والا وزیراعظم کا یہ اصرار بھی تھا کہ امیر غازی اپنے ایک خوبصورت مرد ملازم کے ساتھ تعلقات منقطع کریں۔ 1936ء میں ایک اور سکینڈل بنا جب غازی کی بہن شہزادی عزا ایک یونانی خانساماں کے ساتھ رہوڈز سے فرار ہو گئیں اور اسلام سے تائب ہو گئیں۔
غازی کے ضدی پن، اکھڑ مزاج اور جنسی تعلقات کے بارے کسی بحث کی ضرورت نہیں مگر یہ خصوصیات تو حکمران یا طبقہ اشرافیہ کے افراد اندر ایسی غیر معمولی بات نہیں۔ یہ تو غازی کا مستقل برطانیہ مخالف موقف تھا جس نے یسین الہاشمی کو مجبور کیا کہ وہ غازی پر براہِ راست دبائو ڈالیں۔ شاہ نے شاہی محل میں ریڈیو اسٹیشن (ایک طرح کا ریڈیو الجزیرہ) قائم کر رکھا تھا اور اس اسٹیشن سے مسلسل فلسطین اندر برطانوی __ صیہونی سازشوں کی مذمت کی جاتی، یہ زور دیا جاتا کہ کویت عراق کا حصہ ہے اور کویتی عوام سے اپیل کی جاتی کہ وہ شیح کا تختہ الٹ دیں اور برلن بغداد ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ سراہا جاتا، یہ منصوبہ پہلی عالمی جنگ کے باعث ادھورا رہ گیا تھا، گویا منصوبے کو ازسر نو شروع کرنے کا مطالبہ کیا جاتا۔ برطانوی سفیر کے نزدیک یہ مکمل غیر ذمہ داری کا ثبوت تھا، حالات کے پیش نظر ہلکی پھلکی ڈانٹ پلائی جاتی مگر ڈانٹ کا مقصد محض عوام کو باور کرانا ہوتا۔
بادشاہ نے اب کیا کیا کہ فوج میں قوم پرست عناصر کی مدد سے برطانیہ نواز وزراء کو ہٹانے کی کوشش کی۔ 1929ء میں مینڈیٹ کا خاتمہ ہو گیا تھا اور مینڈیٹ ختم ہونے سے کلونیل آفس کا اختیار بھی ختم ہو گیا تھا۔برطانیہ ہنوز معاشی و فوجی اعتبار سے چھایا ہو اتھا لیکن مقامی عدید یہ اب پہلے سے کہیں زیادہ آزادانہ دائو پیچ آزما رہی تھی۔ یسین نے اپنے بھائی طہٰ (چیف آف جنرل سٹاف) کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ جب تقرریاں ہوں تو ان کے دھڑے کو فوج اور شعبہ تعلیم میں مناسب حصہ ملے۔ مقصد یہ تھا کہ فوج پر گرفت مضبوط کر کے نوری السید اور جعفر عسکری ایسے حریف سرداروں کو کمزور کیا جائے۔
غازی نے ان دونوں دھڑوں پر پیشگی حملہ کرتے ہوئے جنرل بکر صدقی کی حوصلہ افزائی کی، جو فرسٹ ڈویژن سے تعلق رکھتے تھے اور اس ڈویژن میں زیادہ تر کر’د افسر تھے، تاکہ وہ بغداد پر پیش قدمی کرتے ہوئے نوری اور یسین کو کاری ضرب لگائیں۔یہ تاریخ عراق میں سامنے آنے والی بے شمار بغاوتوں کا آغاز تھا، بغاوت کامیاب رہی، حکومت کا خاتمہ ہو گیا مگر بغاوت کے نتیجے میں فوج اندر موجود متحارب دھڑے اور دھارے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے۔ ایک سال بعد پیٹی بورژوا شہری پس منظر رکھنے والے چار قوم پرست کرنیلوں نے بکر صدقی کو شکست دے کر فوج اور ریاست پر پان عرب اختیار بحال کر دیا۔ غازی کی پشت پناہی سے انہوں نے اس بات کو واضح کر دیا کہ وہ عراق کے اندرونی معاملات میں برطانوی مداخلت کا تسلسل برداشت نہیں کریں گے۔ بادشاہ اور فوج، دونوں ہی سرکش ہو چکے تھے، ایسے میں سلطنت اور اس کے کارندے کیا لائحہ عمل اختیار کر سکتے تھے؟
نظام کا تسلسل بحال رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ بادشاہ تبدیل کر دیا جائے۔ غازی نے باآسانی کار کے حادثے میں جان دے دی مگر نہ تو عوام اسے کار حادثہ ماننے پر تیار تھے نہ کرنیل۔ برطانیہ نواز توجیہہ یہ تھی کہ غازی کی سپورٹس کار ایک کھمبے سے جا ٹکرائی اور غازی نے موقع پر دم توڑ دیا۔ جب موقع کا معائنہ کیا گیا تو واضح ہوا کہ اس زبردست حادثے میں نہ تو کھمبے کو کوئی خاص نقصان پہنچا تھا نہ ہی گاڑی کو مزید یہ کہ کار میں موجود ملازم اور وائرلیس آپریٹر ایسے غائب ہوئے کہ ڈھونڈنے سے بھی ان کا کوئی سراغ نہ ملتا تھا ۔ یوں یہ یقین پختہ ہو گیا کہ بادشاہ کو قتل کیا گیا ہے۔ غازی کے جنازے میں ایک بڑے اور جذباتی ہجوم نے شرکت کی۔ لندن بھیجے گئے ایک مکتوب کے مطابق اس موقع پر جو نعرہ لگا اس نے شک و شعبے کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی: ’نوری! غازی کے خون کا حساب تم دو گے‘24 ۔ کیا یہ افواہیں درست تھیں؟ یہ بات صرف بغداد کی گلیوں میں نہیں ہو رہی تھی کہ نوری نے غازی سے ناراض ملکہ عالیہ اور ملکہ عالیہ کے بھائی شہزادہ عبداللہ کے ساتھ مل کر غازی کے خلاف سازش کی تھی۔ طبقہ اشرافیہ کے اکثر لوگ بھی اس بات پر یقین کر رہے تھے۔ بعض تو برطانوی ملی بھگت بھی سونگھ رہے تھے۔ بادشاہ کی تبدیلی محض گاڑی کا حادثہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس موقع پر صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس مفروضے کو غلط یا صحیح ثابت کرنے کے لئے کوئی واضح ثبوت موجود نہیں25 ۔
قبل از صدام دور کی جو شاندار تاریخ حانا باطاتو نے لکھی اس کے مطابق وہ ’حادثے‘ میں غازی کی اچانک موت والے مفروضے سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حادثے بارے شکوک و شبہات اب بھی پائے جاتے ہیں، گو جنوری 1939ء تک برطانیہ غازی کو تخت سے ہٹانے کے حق میں نہ تھا لیکن ’عین ممکن ہے بعد ازاں ان کی سوچ بدل گئی ہو‘۔ بادشاہ کے ریڈیو اسٹیشن سے برطانیہ مخالف قوم پرست نشریات میں اضافہ ہو گیا تھا اور یہ ریڈیو کویت والوں سے کہہ رہا تھا کہ شیخ کا تختہ الٹ کر پھر سے عراق کے ساتھ آن ملو۔ بادشاہ کو بھی ’فوری قتل‘ کا خدشہ لاحق تھا اور، جیسا کہ باطاتو نے لکھا ہے، یہ خدشہ محض بادشاہ کو ہی لاحق نہ تھا:
سابق وزیراعظم توفیق السویدی لکھتے ہیں: ’مجھے غازی کی موت سے دو ہفتہ قبل پرماننٹ انڈر سیکرٹری فارفارن افئیرز آربٹلر سے ہونے والی ملاقات یاد ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بادشاہ آگ سے کھیل رہے ہیں اور اس کھیل میں حضور والا کی انگلیاں جل سکتی ہیں‘۔ مزید براں، چند روز بعد بٹلر نے برطانوی سفیر مارس پیٹرسن سے شاہی محل کے مختلف افراد ’کی خامیوں بارے‘ اس حوالے سے بات کی کہ ’اگر کبھی کوئی ایمرجنسی ہو جائے‘تو کیا کیا جا سکتا ہے… بادشاہ کی موت کا منصوبہ بنانے یا اس منصوبے میں کردار ادا کرنے کا الزام نوری، عبداللہ اور ملکہ عالیہ کا عمر بھر پیچھا کرتا رہا اور اس واقعے نے شاہی خاندان کی تکریم کو ایسا دھچکا لگایا کہ وہ اس سے کبھی بھی سنبھل نہ سکا26۔
بادشاہت اور سامراج کے امتزاج پر مبنی حکومت کی پہلی تین دہائیوں نے مقامی لوگوں کو جو نقصان پہنچایا اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ بادشاہ کو درآمد کرنے اور استعماری حکومت قائم کرنے کی بہت زیادہ قیمت چکانی پڑی: کیمیائی ہتھیاروں اور فضائیہ کے استعمال کا نتیجہ98ہزار ہلاکتوں کی صورت نکلا۔ بے رحم سیاسی جبر کی ایک مثال سرِ عام پھانسیاں تھیں: سرِعام پھانسی لگنے والوں میں کمیونسٹ رہنما فہد بھی شامل تھے۔ 1920-48ء کے عرصے میں ہلاک ہونے والی تعداد کا موازنہ، مثلاً ہندوستانی نو آبادی سے کیا جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ تھی۔ عراق میں برطانوی اقتدار پر تنقید قوم پرست اور بائیں بازو کے لکھاریوں نے ہی نہیں کی۔ ایلی کیدوری، جن کی شہرت سلطنت نواز تاریخ دان کی نہیں، نے اس ضمن میں جو حساب کتاب پیش کیا وہ بھی بالکل منفی ہے۔ کیدوری کے نزدیک ہاشمی عراق ایک ’ایسی جابرانہ ریاست تھا جس کا انحصار سلطنتِ برطانیہ کے جابرانہ ہتھکنڈوں پر تھا اور اس ریاست نے خون ریزی سازشوں اور لوٹ مار کے ایسے دور کا آغاز کیا جس کا انجام اپنے آغاز میں ہی مضمر تھا‘27 ۔
خود برطانوی انتظامیہ اپنی بنائی ہوئی حکومت کی ناقد تھی۔ نومبر1943ء میں برطانوی سفیر کورن ویلس نے دفتر خارجہ میں انتھونی ایڈن کے نام مکتوب میں بتایا کہ کس طرح انہوں نے ’خیانت کو برداشت کرنے … پولیس میں بدعنوانی، فوج کے ناقابل اعتبار ہونے، کردوں سے زیادتی، اعلیٰ شخصیات کے زمینوں پر قبضے حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے پر‘ نوری سے استفسار کیا۔ جب برطانوی انٹیلی جنس سروس نے اس حکومت کو ’ٹھگ بازوں کا ٹولہ‘ قرار دیا تو کورن ویلس نے ہلکا سا دفاعی رویہ اپنایا: ’انہیں بلا امتیاز ٹھگ باز قرار دینا سراسر زیادتی ہے‘28 ۔
غازی کی موت/قتل نے پان عرب قوم پرستی کو ہوا دی اور 1941ء میں چار کرنیلوں کی بغاوت کے نتیجے میں ایک مقبول قوم پرست حکومت قائم ہوئی جس نے برلن سے بھی تعلقات بنانے کی کوشش کی اور ماسکو سے بھی۔ قائم مقام شاہ عبداللہ اور نوری السید، دونوں ملک سے فرار ہو گئے۔ اس کے بعد تیس روزہ جنگ ہوئی اور برطانیہ نے ایک مرتبہ پھر عراق پر قبضہ بحال کر لیا۔ برطانوی کام سویت یونین پر ہٹلر کے حملے کی وجہ سے بھی آسان ہو گیا کیونکہ ہندوستان یا دیگر برطانوی، فرانسیسی اور ولندیزی کالونیوں کی طرح عراق میں بھی سامراج مخالف تحریک تقسیم ہو گئی۔ قوم پرست ملک پر قابض قوتوں سے ہاتھ ملانے پر تیار نہ تھے جبکہ کمیونسٹوں نے ماسکو کے کہنے پر چار و ناچار موثر برطانوی مخالفت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بہرحال دورانِ جنگ اور بعد از جنگ بھی لاوا پکتا رہا۔ برطانیہ نواز اشرافیہ کو کبھی اندازہ نہ ہوا کہ وہ عوام سے کس قدر کٹ چکی ہے29 ورنہ نوری اور عبداللہ نے جو اشتعال انگیزی کی اس کی کوئی اور وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اشتعال انگیزی انہوں نے یہ کی کہ برطانیہ کے ساتھ انہوں نے 1930معاہدے کے لئے خفیہ بات چیت کی اور اس معاہدے کو قسمت کا لکھا بنا کر عراقی عوام کے سامنے پیش کیا30۔ 1948میں ہونے والا پورٹس مائوتھ معاہدہ درحقیقت نئی بوتل میں پرانی شراب تھی۔ جب یہ خبر پھیلی کہ اس معاہدے کے لئے خفیہ بات چیت چل رہی ہے تو اُس سال جنوری میں اس کے خلاف پہلامظاہرہ ہوا۔ سیکنڈری سکول کے طالب علم جو مظاہرے کے لئے نکلے تو لاء سکول کے طالب علم بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ جلوس بڑا ہوتا گیا اور اس پر گھڑ سوار فوج نے لاٹھی چارج کر دیا۔ بعد میں پولیس نے گولی چلا دی اور کئی طالب علم گولی کا شکار بنے۔ اگلے روز ہر سکول اور کالج ہڑتال پر تھا۔ حکومت نے تمام گرفتار طلباء رہا کر دیئے اور اگلے دو ہفتے تک گو امن رہا البتہ فضا بوجھل سی تھی۔
اس مرحلے پر عراقی کمیونسٹ پارٹی (اس پارٹی بارے تفصیل سے اگلے باب میں بات ہو گی) نے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی نے ریلوے مزدوروں اور شہر کے غریب رہائشیوں کو متحرک کیا کہ وہ 20 جنوری کو ہونے والے طلباء مارچ میں حصہ لیں۔ پولیس کو حکم ملا کہ وہ گولی چلا دے اور کئی مظاہرین مارے گئے۔ ایک ایسی عوامی سرکشی نے جنم لیا کہ جس کی مثال مسلسل شورشوں کے عادی عراق کی تاریخ میں بھی نہ ملتی تھی۔ لوگوں کا خوف جاتا رہا اور اگلے روز بڑے بڑے ہجوم شہر پر قابض تھے۔ اس تحریک کو الوطبہ (چھلانگ) کا نام دیا گیا تھا کیونکہ گذشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے مقابلے پر عوامی شعور نے ایک بڑی چھلانگ لگائی تھی۔ پہلے پہل تو پولیس نے گولی چلانے کا سلسلہ جاری رکھا اور میڈیسن فیکلٹی میں دو طالب علم ہلاک ہوئے۔ جذبات بھڑک اٹھے اور فوج اندر بھی ہلچل ہونے لگی۔ معاملات ہاتھ سے نکلنے لگے تو قائم مقام شاہ نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں صرف لبرل سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ قائم مقام شاہ نے پورٹس مائوتھ معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا۔
عوام کو اب آسانی سے غیر متحرک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لبرل گروہ افہام و تفہیم اور ’حضور والا‘ کے لئے مزید وقت کی سفارش کر رہے تھے البتہ ہجوم مزید مطالبے کر رہا تھا، شہر کے غریب محلوں میں ’جمہوریہ‘ کے حق میں اور ’سب کے لئے مفت روٹی‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ 27 جنوری کو حکومت نے جدیدیت اور تہذیب کے مکمل اظہار کا فیصلہ کیا: بکتر بند گاڑیوں اور مشین گنوں سے کہا گیا کہ ہجوم سے نپٹیں۔ لوگ سرکشی کے موڈ میں آ گئے۔ ایک بکتر بند گاڑی کو آگ لگا دی گئی۔ انتظامیہ کی کوشش تھی کہ مامون پل کے آر پار لوگ آپس اندر نہ مل سکیں اور مشین گن دستے نے فائر کھول دیا۔ اس روز سینکڑوں لوگ موت کی بھینٹ چڑھے مگر دجلہ کی لہروں پر تیرتی لاشوں کے باوجود لوگ آگے بڑھتے رہے۔ چار دوستوں میں گھری، سرخ پرچم اٹھائے ایک پندرہ سالہ لڑکی مشین گنوں کے سامنے ڈٹ گئی۔ سر اٹھائے وہ پل پار کرنے لگی۔ گولیوں کے وار سے اس کے چاروں ساتھی کٹ گرے۔ وہ البتہ پل پار پہنچ گئی۔ اس لڑکی کے حوصلے نے سب کے حوصلے بلند کر دیئے۔ لوگ پھر سے مجتمع ہوئے اور آگے بڑھنے لگے۔ عوام کے استقلال سے گھبرا کر پولیس اس موقع پر پوری طرح پسپا ہو گئی۔ گلیاں آزاد علاقے بن گئے۔ اس رات وزیراعظم صالح جبر… نوری السید کے ایک متوسل …خوف کے مارے بغداد سے فرار ہو گئے۔ پہلے تو وہ فرات کے جنوب کی طرف گئے بعدازاں انہوں نے برطانیہ سے سیاسی پناہ مانگی جو مل بھی گئی۔ یہ تحریک چار ماہ جاری رہی مگر الوطبہ فلسطین میں ہونے والی النکبتہ کی لپیٹ میں آ گئی۔ نوتشکیل شدہ ریاست اسرائیل کے خلاف جعلی جنگ کی تیاری کرتے ہوئے صوبیداروں نے صیہونیت کے خلاف لوگوں کا غصہ ہائی جیک کر لیا تھا۔ صیہونی خطرے کی گھنٹی بجا کر عراقی کیمونسٹوں کے خلاف جبر شروع کر دیا گیا۔ عراقی کمیونسٹ پارٹی کے قائد فہد پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے پارٹی کی قیادت کرنے کا الزام لگا۔ وہ الوطبہ کے دوران مسلسل پابند سلاسل تھے۔ دو دیگر ساتھیوں … زکی باسم اور الشبیبی … عدالت سامنے پیش کیا گیا۔ تینوں کو مجرم قرار دے کر پھانسی لگا دیا گیا۔ تینوں کی لاشیں شہر کے تین مختلف چوکوں میں لٹکا دی گئیں تاکہ ریاست کو چیلنج کرنے والے لوگ عبرت پکڑیں۔ عراق کے حکمران یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ الوطبہ اور پھانسیاں تو محض اس کھیل کی خونی ریہرسل تھے جو مستقبل قریب میں کھیلا جانا تھا، محض کردار بدلے جانا تھے۔
اب جبکہ عراق پر ایک مرتبہ پھر مغربی طاقتوں کا قبضہ ہے، اس عہد کی عراقی تاریخ کا مطالعہ ہرگز بے جا ثابت نہ ہو گا۔ اس مطالعہ کا ایک مقصد اور بھی ہے۔ جب صدام حسین کی آمریت اپنے عروج پر تھی… 1980-89 کا عرصہ … صدام حسین کو مقامی اپوزیشن کو دبانے اور ایران کے ساتھ جنگ لڑنے کے لئے لندن اور واشنگٹن سے مدد مل رہی تھی، ان دنوں بہت سے جلاوطن عراقی مایوسی کا شدید شکار تھے۔ ان میں سے کچھ نے تاریخ کے خلاف بغاوت کر دی اور ہاشمی دور ان کا ناسٹیلجیا بن گیا۔ اس عہد کے برطانوی اہل کاروں کے بیان کردہ نظریات کے برعکس یہ لوگ ہاشمی بادشاہت کو سنہرا دور قرار دینے لگے۔ یہ لوگ امیر فیصل کو لبرل ماڈرنائزر کے طور پر آئیڈیل بنا کر پیش کرنے لگے حالانکہ امیر فیصل کے اپنے درباری اس بات پر شرمندہ ہو کر رہ جاتے۔ اس فرضی ماضی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کنعان ماکیہ ایسے لوگ پہلی جنگ خلیج دوران عراق پر (جاپانی طرز کے) مستقل امریکی قبضے کی بات کرنے لگے اور بعد ازاں انہوں نے عراق پر امریکی جارحیت اور نو استعماری قبضے کی حمایت کی31۔
جلاوطنوں کی مایوسی کا نتیجہ سیاسی مالیخولیا کی صورت نکلا اور اس مایوسی کا شکار مریض اسی پرانے ___ نئے عقیدے کے پیروکار بن گئے: تہذیب بمقابلہ بربریت۔ سامراج کے نئے پیروکاروں کی ساری امیدیں امریکی سلطنت کی پیش قدمی سے وابستہ ہیں۔