ایسا کیوں ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے باسی جو ویسے تو ہر معاملے کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں مگر یہ معمولی سی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ عراقی شہریوں کی اکثریت قبضے کے خلاف ہے؟1 اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ان دو ملکوں کو ’ماسوائے برطانیہ پر رومی قبضے کے‘غیر ملکی قبضے کا تجربہ نہیں؟ برطانیہ پر رومی قبضے کے خلاف بھی وقتاً فوقتاً مزاحمت ہوئی تھی اور آگری قولا کو، جو برطانیہ میں تعینات ہونے والا قابل ترین رومی صوبیدار تھا، اس مزاحمت بارے اس کی آمد پر فوراً ہی آگاہ کر دیا گیا تھا۔ ایسا نہیں کہ برطانیہ کے بدبودار باسی رومن تہذیب کے اوصاف سے نابلد تھے۔ یوں تھا کہ وہ غیر ملکی تسلط کے خلاف تھے۔ رومی تاریخ دان ٹیسی ٹس نے آگری قولا پر جو مضمون تحریر کیا ہے اس سے سامراجی ذہنیت کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔ ایک روز جزیرے کے مضافات کا دورہ کرتے ہوئے آگری قولا نے اپنے ساتھی سے آئرلینڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ اس پر قبضہ کیوں نہیں کیا گیا۔ جواب ملا کہ وہاں تو محض دلدل ہے اور وہاں اجڈ اور وحشی قبائلی بستے ہیں۔ عظیم سلطنت کو بھلا ایسے جزیرے میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ اس جواب پر متعلقہ شخص کی خوب سرزنش ہوئی۔ اقتصادی فائدہ ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ آزاد ملک غلط مثال قائم کرتا ہے۔ یہ ملک پس ماندہ ہی سہی مگر آزاد ہے۔
اہل یورپ اور روسیوں کا تو اس بابت تجربہ زیادہ پرانا نہیں اور انہیں نتائج کا بھی علم ہے… کئی سطحوں پر مزاحمت جنم لیتی ہے۔ عراقیوں سے یہ درخواست کرنا کہ وہ اینگلو امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت نہ کریں… جی ہاں فرانسیسی گالسٹ، جرمن گرین/سوشل ڈیموکریٹ، روسی عدّیدیہ اور بہت سے دیگر یورپیوں نے یہ درخواست دائر کی…… ایک طرفہ تماشا ہے۔ کیا یہ محض شمال کا جنوب کی طرف مغرور رویہ تھا یا امریکہ کو خوش کرنا مطلوب تھا یا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ عراقی کسی کم تر نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو فلسطینیوں کی طرح غیر ملکی تسلط میں شیروشکر زندگی بسر کرنے لگیں گے؟ غالباً یہ درخواست ان تینوں باتوں کا ملغوبہ تھی۔ وجہ کچھ بھی ہو، عراقیوں نے بہرحال اس درخواست کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا۔
سلطنتیں بعض اوقات بھول جاتی ہیں کہ وہ کس کے خلاف اورکیوں برسرِپیکار ہیں مگر جن کی دھرتی پر قبضہ ہو چکا ہو وہ کبھی کسی گومگو کیفیت کا شکار نہیں ہوتے۔ عراق پر پہلے استعماری قبضے کے دوران برطانیہ نے ایک مخصوص طبقہ اشرافیہ تشکیل دیا جس کا مقصد ملک پر سامراجی تسلط کو برقرار رکھنا تھا۔ یہ پہلی عالمی جنگ کے بعد کی بات ہے کہ جب برطانیہ نے میسو پوٹیمیا پر قبضے کے لیے زوال پزیر سلطنت عثمانیہ سے لڑائی لڑی، اس دوران اسے ایک بڑی اور کئی چھوٹی چھوٹی ہزیمتوں سے دوچار ہونا پڑا، ہر ہزیمت کے موقع پر ہندوستان سے آئے نو آبادیاتی دستوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
دوران جنگ مزاحمت منظم کرنے کا کام شہری آبادی کے محروم طبقوں نے کیا۔ بغداد اور بصرہ سے آنے والی تازہ اطلاعات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تاجر اور سوداگر تو غیر ملکی تسلط برداشت کرنے پر تیار ہیں، یہ تو مفلوک الحال لوگ ہیں جو قبضے کو قومی غیرت کے منافی سمجھتے ہیں۔ جنگ اور قبضے کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے لئے وائسرائے پال بریمر نے عراقی تیل کو غیر ملکی لٹیروں کے ہاتھ بیچنے کا جو غیر قانونی منصوبہ بنا رکھا ہے، اگر وہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچا تو تاجر طبقہ بھی بڑبڑانے لگے گا۔ احمد شلابی اور اس کے حواریوں کو چھوڑ کر چند عراقی ہی ایسے ہوں گے جو یہ برداشت کریں گے کہ ان کا تیل ان کے اختیار میں نہ رہے۔ اگر اس مسئلے پر ریفرنڈم کرایا جاتا تو نوے فیصد سے زائد عراقی اس بات کے حق میں ووٹ دیتے کہ عراقی تیل پر عراقیوں کا اختیار ہونا چاہیے۔
یہ مگر نئیولبرل معاشی عہد کا سامراج ہے سول سوسائٹی سمیت ہر چیز کی نجکاری کردی جائے گی۔ ایک بار عراقی جو گرفت میں آ گئے (اگر کبھی ایسا ہوا) تو این جی اوز کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی مخلوق کی طرح عراق پر ٹڈی دل بن کر حملہ آور ہوں گی اور مقامی لوگوں سے مل کر افزائش باہمی کے عمل کو فروغ دیں گی۔ بڑے شہروں میں موجود ہر نوع کے دانشوروں کو خریدا جائے گا جو خالص علمی مسائل پر دقیق قسم کے کتابچے تحریر کریں گے۔ اس کا نتیجہ ممکنہ مخالفت کو غیر جانبداری میں بدلنے کی صورت میں نکلتا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ مخالفانہ رائے کی لگام اپنے ہاتھ میں لے کر اسے اپنی مرضی کے راستے پر ڈال دیا جائے۔ ڈونرز کا پیغام بالکل کھرا ہے: جی بھر کر شور مچائو لیکن تم نے اگر کوئی سیاست بازی کی جس کے نتیجے میں نیئولبرل ریاست کو کسی سطح پر نقصان کا خدشہ ہو سکتا ہے تو مزید فنڈ جاری نہیں کئے جائیں گے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ سنجیدہ سیاست میں شرکت ممنوع قرار پاتی ہے۔ اسے ’سول سوسائٹی‘ یا ’حقیقی گراس روٹ جمہوریت‘ کا نام دیا جاتا ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کی نسبت زیادہ قابل استعمال اور شفاف ہوتی ہے۔ ممکن ہے زیادہ لوگ اس سے مستفید نہ ہو پائیں مگر مغرب سے آئی ہوئی بڑی بڑی تنخواہیں اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کچھ این جی اوز ایسی ہیں جو اس رحجان کی غمازی نہیں کرتیں اور بعض سنجیدہ کام کر رہی ہیں مگر ایسی این جی اوز ایک استثناء ہیں۔ پاکستان اور مصر میں دیرپا تجربات نے اچھے نتائج فراہم کئے ہیں۔ ان دونوں ممالک میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی گروہ آگے آگئے ہیں،انہوں نے سیاسی خلا کو پر کر دیا اور موجودہ معاشروں کی غالب قدر،کنزیومرازم٭ کے خلاف تبلیغ شروع کر دی۔ دونوں ملکوں کے اندرموثر سیکولر اپوزیشن موجود نہیں اور دونوں ملکوں پر فوجی آمریتیں مسلط ہیں۔
باقی ملکوں میں فوجی آمریتوں کو فارغ کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ ایک نیا طرز حکومت لاگو کر دیا گیا ہے۔ سرمایہ دار جمہوریت= نج کاری +’سول سوسائٹی‘۔ اس آزمائے ہوئے فارمولے نے سارے افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بڑے حصے کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔ سرمائے کی آمریت فوجی آمریت کی نسبت زیادہ ہٹ دھرم ثابت ہوتی ہے۔ سرمائے کی آمریت اب عراق پر تسلط جمانا چاہتی ہے۔ کیا اسے کامیابی نصیب ہو گی؟
عراق پر قبضے کا ہنوز ابتدائی دور ہے۔ اس کے مقاصد واضح ہیں: نج کاری اور مغرب نواز حکومت کا تسلط۔ مستقل بنیادوں پر ان مقاصد کا حصول البتہ مشکل نظر آتا ہے کیونکہ عراقی عوام کی تاریخ اور ان کا شعور ان مقاصد کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ سارا ملک ایک طویل جنگ کے لیے تیار ہے۔ صورتِ حال اس کے عین برعکس ہے۔ اگر تو قابض قوتیں ملک اندر استحکام لانے میں کامیاب ہو گئیں اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ کسی حد تک معمولاتِ زندگی بحال ہو جاتے ہیں تو، محدود عرصے کے لیے ہی سہی، مقامی گیدڑوں پر مبنی وشے سٹائل حکومت سامنے آ سکتی ہے۔ کچھ ایسے شیر دل گیدڑ موجود ہیں جو سیاسی لحاظ سے خاصے پھرتیلے ہیں چاہے ملک میں ان کی حمایت بالکل صفر ہے اور وہ لوگ جو ان گیدڑوں کی طرح قبضے کو ’’آزادی‘‘ قرار نہیں دیتے، انہیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ یہ گیدڑ پال بریمر کو باور کراتے رہتے ہیں کہ جب تک صدام حسین زندہ ہے تب تک لوگ اس کی واپسی بارے سوچتے رہیں گے اور یوں قبضے کے لیے حمایت کا دائرہ محدود ہی رہے گا۔ صدام حسین کے خلاف لگائے گئے سامراجی فتوے میں صدام کے سر کی قیمت پچیس ملین ڈالر لگائی گئی ہے۔ توقع یہی کی جا سکتی ہے کہ یہ خرچہ بھی اسی طرح عراقی تیل کی آمدن سے پورا کیا جائے گا جس طرح صدام کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کے سر کی قیمت ادا کی گئی تھی۔
ہاں البتہ جب تک مسلح مزاحمت موجود رہے گی، ان میں سے کوئی بات بھی ممکن نہیں۔ بغداد کے علاقے میں گو مزاحمت کار زیادہ تر بعث وادی ہیں مگر مزاحمت کار محض بعث وادی نہیں اور مغربی صحافی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ قابض فوج کے سپاہی کی ہلاکت پر ہر خاص و عام نجی طور پر جشن مناتا ہے۔ اگر تنازعے کو جلد حل نہ کیا گیا تو مزاحمت کا دائرہ کار قومی سطح تک پھیل سکتا ہے اور بہت سی تنظیمیں اب اس فکر میں مبتلا ہیں کہ بعث وادی مزاحمت کی قیادت کرتے ہوئے اپنی ساکھ بحال کر سکتے ہیں اور یوں انہیں آبادی کے بعض اہم حصوں کی حمایت بھی مل سکتی ہے۔ اگر عراقی کمیونسٹ پارٹی، کرد تنظیموں کا ایک حصہ اور شیعہ ڈبکی لگا گئے تو امریکہ کے لیے لمبے عرصے تک عراق پر قبضہ ممکن نہیں رہے گا۔
اگر تو بغداد کے علاقے میں صورت حال گڑ بڑ رہتی ہے اور شیعہ قیادت پال بریمر کے ساتھ کوئی ’سنجیدہ‘ سودے بازی نہیں کرتی…… یعنی پوری طرح سربسجود نہیں ہو جاتی…… تو امریکہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ عراق کے حصے بخرے کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ صحرا اندر اسی طرح نئے سرے سے لکیریں کھینچی جائیں جس طرح کبھی عراق کو تخلیق کیا گیا تھا اور عثمانی عہد کی تین ولایتوں … بغداد، بصرہ اور موصل… کی طرز پر تین باجگزار ریاستیں تشکیل دی جائیں۔ اس کا درحقیقت مطلب یہ ہو گا کہ ایک کرد ریاست وجود میں آ جائے گی جس کا تیل پر قبضہ ہو گا، یوں بدبخت خانہ جنگی اور نسلی صفائی اس خطے کا مقدر بن جائے گا۔ بغداد میں بیس لاکھ کرد بستے ہیں۔ سامراجی سیاستدان انسانی تقاضوں پر کم کم ہی توجہ دیتے ہیں لہٰذا باجگزار ریاستیں ان کی نظر میں درمیانی مدت کے لیے محفوط ترین راستہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ملک کی تین حصوں میں موجودہ تقسیم عراق کی مستقل تقسیم بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر جنوب میں قائم ہونے والی اسلامی مملکت کا دارالحکومت کربلا بنا تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ مملکت اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے کی کوشش کرے گی۔کیا سلطنت٭ ایسی کسی گستاخی کو برداشت کرے گی؟ کیا ترکی کسی کرد ریاست کو چین سے رہنے دے گا یا یہ کہ مجوزہ کرد ریاست کو بھی اردن کی طرح اسرائیل کی باجگزار ریاست بن کر رہنا پڑے گا؟ بغداد کا کیا بنے گا؟ واپس بعث کے پاس؟ اگر نئی سیاسی قوتیں سامنے نہ آئیں تو یہ عین ممکن ہے۔
یہ مقبوضہ ممالک یا جنگ کے ہاتھوں تباہ حال ملکوں کے بچے ہوتے ہیں جو ان اجنبیوں کی موجودگی سے نفرت کرتے ہیں جن کی موجودگی نے ان کے والدین کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہوتا ہے۔ 1857ء میں جب ہندوستان میں برطانوی تسلط کے خلاف پہلی بڑی سرکشی ہوئی تو بچے پر جوش، بہادر اور شائق پیغامبر ثابت ہوئے جو ایک گائوں سے دوسرے گائوں تک پیغام رسانی کا کام سرانجام دیتے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں جب الجزائر اندر آبادکاروں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف قومی تحریک نے جنم لیا تو بچوں نے جن میں آٹھ دس سال کے بچے بھی شامل تھے، اہم کردار ادا کیا۔ 1966ء میں جب شمالی ویت نام پر امریکی بمباری اپنے عروج پر تھی، میں ہنوئی پہنچا۔ مجھے یاد ہے شہر سائیں سائیں کر رہا تھا۔ مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ اس کی وجہ بچوں کی عدم موجودگی ہے۔ بچوں سے شہر خالی کرا لیا گیا تھا اور بعض بچے تو ایسے تھے جن سے ان کی مرضی کے خلاف شہر خالی کرایا گیا۔ میں دیہاتوں میں پہنچا تو بچوں کی صورت دیکھنے کو ملی۔ بچوں کے اساتذہ شکایت کر رہے تھے کہ بچے پڑھنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ان کے لئے غاروں میں اور زیرِ زمین عارضی سکول بنائے گئے تھے۔ انہیں سبق لینے پر اسی صورت راضی کیا جا سکتا تھا اگر ان سے وعدہ کیا جاتا کہ ان کا ہوم ورک امریکی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو مار گرانا ہو گا۔ یہ گُر کارگر ثابت ہوتا۔ فلسطینی اساتذہ نے اسرائیلی ٹینکوں اور پتھروں سے خوب استفادہ کیا ہے۔
گذشتہ سالوں میں فلسطین اندر بچے مزاحمت کا ہراول ثابت ہوئے ہیں۔ شامی شاعر نظار قبانی نے انہیں ’اطفال سنگ‘ کا نام دیا، ان کے حوصلے کی داد دی اور انہیں بتایا کہ وہ ایسے قرم خوردہ عرب رہنمائوں کی پیروی نہ کریں جنہوں نے ہمیشہ دھوکا دیا ہے۔ 1998ء میں اپنی وفات سے ایک سال قبل منظوم کی ہوئی نظم ’میں دہشت گردی کا حامی ہوں‘ ان کی آخری سیاسی نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ اس نظم میں وہ انہیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں جو دہشت گردی کو جواز بنا کر آمریت اور قبضہ مسلط کرتے ہیں۔ قبانی جس دہشت گردی کے حامی ہیں وہ گیارہ ستمبر والی دہشت گردی ہے نہ اس سے مراد اٹکل پچو بم دھماکے اور قتل۔ نظار قبانی کی اپنی شریک حیات بلقیس الروی ایران عراق جنگ دوران لبنان میں ایک بم دھماکے اندر ہلاک ہوئیں تھیں۔ یہ بم دھماکہ ایران نواز مجاہدین نے عراقی سفارت خانے میں کیا تھا۔ وہ خود اخبار خریدنے کی غرض سے باہر گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو ان کی انتہائی محبوب شریک حیات اس دنیا سے کوچ کر چکی تھی۔ اس سانحے کا باقی ساری زندگی ان پر گہرا اثر رہا۔ مرحومہ کی یاد آخری سانس تک نظارقبانی کو ستاتی رہی۔ شاعر کے خیال میں ’دہشت گردی‘وہ اصطلاح ہے جسے غاصب قومی آزادی کی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ غاصب کی اس حرکت کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے لہٰذا انہوں نے فلسطین کی نوجوان نسل اور فلسطین کا نام بھلا دینے والی عرب قوم کے نام یہ پیغام لکھا:
اگر ہم
گلاب اور عورت
اپنے خوب صورت شعر
اور آسمان کے نیلے پن کی حفاظت کریں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اس دھرتی
کہ جس کا دامن
آب، ہوا، خیمے اور اونٹ سے خالی ہو چکا
جہاں اب عربی کافی تک باقی نہیں بچی
اگر ہم
اس دھرتی کی حفاظت کریں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
…
ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
تباہ حال دھرتی بارے، تباہ حال دھرتی کی تباہی
بارے دیکھیں
دھرتی کہ جس کا کوئی پتہ نہیں
قوم کی جس کا کوئی نام نہیں
…
دھرتی کہ جہاں ہمیں اخبار خریدنے
خبریں سننے تک کی اجازت نہیں
کنج کہ جہاں پرندے چہچہا نہیں سکتے
دھرتی کہ جہاں خوف کے مارے ادیب
بے موضوع مضمون باندھتے ہیں
دھرتی کہ جہاں شاعری کی طرح
گفتگو بات سے خالی
بے وزن
بدیسی
عجم، کہ چہرے اور زبان سے عیاری ٹپکتی
نہ کوئی آغاز
نہ انجام
عوام، دھرتی اور انسانی بحران سے بیگانہ
…
ایک نو آبادی
مذاکرات کے میز پر جارہی ہے
سر پر پگڑی
نہ پائوں میں جوتا
…
آنکھوں میں نمی نہیں
ہونٹ تر نہیں
لفظ بے جان
کیا ذات ایسی روکھائی کا بوجھ سہار سکتی ہے
ہماری قوم میں کوئی معاویہ نہ ابوسفیان
جرأت انکار کون کرے؟
نقطہ چینوں کے مقابل کون آئے؟
گھر،روٹی اور زیتون کا تیل
وہ سب ہاتھ سے گنوا چکے
ہماری درخشاں تاریخ کو انہوں نے ردی کی ٹوکری بنادیا ہے
…
بسترِ سلطان میں کنوار پن کھونے کے بعد
ہماری زندگیوں میں کوئی نظم نہیں بچی
اُنہیں ہماری عدم مدافعت کی عادت پڑ گئی ہے
جب دامن میں رسوائی کے سوا
کچھ بھی نہ بچا
تو کیا بچا؟
…
میں تاریخ کی کتابوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں
کوئی اسامہ ابن المنطق
کوئی عقبی ابن نفی
کوئی عمر اور حمزہ
کوئی خالد جو شام کو فتح کرنے جارہا ہو
کوئی معتصم بااللہ جو عورتوں کو زیادتی
اور آگ سے بچارہا ہو
…
اگلے وقتوں کے لوگوں کی تلاش میں
میرا سامنا مگر بزدل بلیوں سے ہے
جو چوہوں کی سلطانی سے خوفزدہ ہیں
کیا پوری قوم بالکل اندھی ہوچکی ہے!
…
کیا ہمیں رنگوں کی پہچان نہیں رہی
وہ ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
ان اسرائیلی بلڈوزروں تلے آکر
مرنے سے انکار کر دیں جو
ہماری دھرتی کچل رہے ہیں
ہماری تاریخ کچل رہے ہیں
ہماری انجیل ، ہمارا قرآن کچل رہے ہیں
اگر یہی ہمارا گناہ ہے تو
واللہ کتنی خوب صورت ہے دہشت گردی
…
اگر ہم
منگولوں، یہودیوں اور وحشیوں کے ہاتھوں
مرنے سے انکار کر دیں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
قیصر کے قدموں میں لیٹی
سیکورٹی کونسل کے شیشے پر
پتھر دے ماریں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
بھیڑیے سے مذاکرات
اور طوائف کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کر دیں
تو ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
…
امریکہ کہ جو لوگوں کی ثقافت کا دشمن
خود ثقافت سے عاری
کہ جو مہذب لوگوں کی تہذیب کا دشمن
خود تہذیب سے عاری
امریکہ
ایک بلند و بالا عمارت
مگر دیواروں سے خالی
…
ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
اپنی دھرتی
اور حرمت خاک کی حفاظت کریں
اگر ہم
اپنے لوگوں سے ہونیوالی زیادتی
اپنے آپ سے ہونے والی زیادتی کے خلاف
بغاوت کریں
اگر ہم
اپنے صحرائوں میں کھڑے کھجور کے آخری درختوں کی حفاظت کریں
اپنے آسمان میں بچے آخری ستاروں کی حفاظت کریں
اپنی ناموں کے آخری حروفِ تہجی کے حفاظت کریں
اپنے مائوں کی چھاتیوں میں دودھ کے آخری
قطروں کی حفاظت کریں
اگر یہی ہمارا گناہ ہے تو
واللہ کتنی خوب صورت ہے دہشت گردی؟
…
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اگر یہ مجھے
روس، رومانیہ، ہنگری اور پولینڈ سے آئے
مہاجروں سے بچا سکے
…
یہ مہاجر فلسطین میں آن بسے
اور ہمارے کندھوں پر سوار ہو کر
انہوں نے القدس کے مینار
اقصیٰ کے دروازے
اور محرابیں چرالیں
…
گئے سالوں میں
قوم پرستی سے سرشار لوگ
کسی منہ زور گھوڑے کی مانند بپھرے ہوئے تھے
نئی نسل جذبے سے سرشار تھی
…
اوسلو کے بعد لیکن
ہمارے منہ میں دانت نہیں رہے
ہم اندھے اور گمشدہ لوگ ہیں
…
وہ ہمیں دہشت گرد کہتے ہیں
اگر ہم
اپنی شاعرانہ وراثت
اپنی قومی میراث
اپنی منقش تہذیب
پہاڑوں میں بانسری بجانے والی ثقافت
اور سیاہ آنکھوں سے منقش آئینوں کی حفاظت کریں
…
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اگر یہ غاصبوں کے غضب سے
عوام کو نجات دلائے
اگر یہ انسان کو انسان کے ظلم سے بچائے
اگر یہ جنوبی لبنان کو
لیموں، زیتون کے درخت اور اس کے پرندے
اور گولان کو اس کی مسکراہٹ لوٹا دے
…
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اگر یہ مجھے قیصر یہودہ
اور قیصر روم سے پناہ دے
…
جب تک نیوورلڈ آرڈر
امریکہ اور اسرائیل کے درمیان
آدھا آدھا تقسیم رہے گا
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اپنی شاعری سمیت
اپنے لفظوں سمیت
اپنی ساری طاقت کے ساتھ
جب تک یہ نئی دنیا قصاب کی گرفت میں ہے
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
…
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اگر امریکی سینٹ
مدعی بھی ہو، مصنف بھی
جزا بھی دے اور سزا بھی
جب تک نیو ورلڈ آرڈر
میرے بچوں کا خون کرتا رہے گا
اور ان کے ٹکڑے کتے آگے ڈالتا رہے گا
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
اسی کا رن باآواز بلند کہتا ہوں
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
میں دہشت گردی کا حامی ہوں
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ایرل شیرون کو قیادت میں شامل کرکے واشنگٹن نے جان بوجھ کر قومی آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا بھیانک نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب مجھے اسرائیل یا فلسطین سے کسی تازہ ترین ظلم بارے ای میل موصول نہ ہو۔ میرے کمپیوٹر میں موجود ثبوت کو اگر جنگی جرائم کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے پیش کرنا پڑا تو اس کے لیے دو جلدیں درکار ہوں گی۔ ایسی ہی ایک ای میل9 جولائی 2003ء کو موصول ہوئی۔ یہ ای میل البتہ اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں ہر ای میل کی طرح بچوں کی ہلاکت کا ذکر نہ تھا۔ مجھے یہ ای میل فلسطینی مانیٹرز نے ارسال کی تھی:
آج علی الصبح اسرائیلی سپیشل فورسز اور سپاہیوں نے مغربی کنارے کے شہر برکن میں داخل ہو کر ایک شخص کو مار ڈالا، اس کی بیوی کو شدید زخمی کر ڈالا جبکہ ایک فلسطینی شخص کو گرفتار کر لیا۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ گائوں میں داخل ہونے پر انہیں فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا لہٰذا انہوں نے جوابی فائر کیا البتہ فلسطینی گواہوں کے مطابق یہ بات درست نہیں۔
’فوجی دستے گائوں میں داخل ہوئے اور ہمارے پڑوس والے گھر میں جا گھسے۔ میں اور میری بیوی چھت پر سو رہے تھے جب ہم نے گولیاں چلنے کی آواز سنی۔ ہم فوراً چھت سے اپنے گھر کی طرف بھاگے۔ گولیاں زیادہ دیر نہیں چلیں۔ یہی کوئی چار فائر ہوئے ہوں گے۔ دس منٹ بعد ہمارے گھر کی گھنٹی بجی، دیکھا، تو ایاد اور اس کی بیوی تھے۔ خون میں لت پت وہ رینگتے ہوئے ہمارے دروازے تک پہنچے تھے اور ان کے جسم سے ابھی بھی خون بہہ رہا تھا۔ ہم نے ایمبولنس منگوائی جو آخر کار پہنچ گئی۔ طبی عملے نے بتایا کہ فوجیوں نے محض دس منٹ تک ایمبولنس کو روکے رکھا۔
’ہم نے جا کر ایاد کے والد سے بات کی تو پتہ چلا کہ فوجیوں نے گھر میں گھس کر اس کے بیس سالہ بیٹے فادی کو گرفتار کیا۔ ایاد اور اس کی بیوی خالود اور بچے گرمی کے باعث صحن میں سو رہے تھے۔ فادی کو گرفتار کرنے کے بعد جاتے ہوئے فوجیوں نے انہیں دیکھا ہو گا اور ان پر گولیاں برسا دیں۔ فلسطینیوں نے کوئی گولی نہیں چلائی۔ صرف اسرائیلیوں نے فائرنگ کی۔ ہم نے خون میں لت پت ان کے بستر بھی دیکھے‘
ایاد بعدازاں چل بسا۔ نابلوس میں رفید یہ ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق موت گلے اور بازوں میں گولیاں لگنے کے باعث واقع ہوئی۔ خالود کو چہرے پر گولیاں لگیں۔ گو اس کی حالت خراب البتہ خطرے سے باہر ہے اور وہ ہنوز ہسپتال میں ہے۔ ان کے بچے، سب سے بڑا بچہ پانچ سال کا ہے، فائرنگ سے محفوظ رہے۔
گیارہ ستمبر کے بعد سے ایسے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں لہٰذا کسی صاحب عقل کو اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے اگر نوجوان بچے اسرائیل کی مزاحمت کرنے والی تنظیموں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بچوں میں بے باکی اور اخلاقی جرأت ہوتی ہے جو جدوجہد کو تابناک بنا دیتی ہے۔ ان بچوں کے قاتل تو ایک طرف رہے، ان بچوں بارے فتوے جاری کرنے والے سارے فقیہہ ان بچوں کے جوتوں کی خاک برابر بھی نہیں۔
فائرنگ سے بچ رہنے والا پانچ سالہ بچہ بڑا ہو کر جب اپنے باپ کی موت اور ماں کا چہرا بگڑنے کا سبب جانے گا تو اس کا رد عمل کیا ہو گا؟ یا یہ کہ اسے سن بلوغت تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے گا؟ کیا یہی وجہ تو نہیں کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز چھوٹے بچوں کو نشانہ بناتی ہیں؟ کیا وہ مستقبل کے ’دہشت گردوں‘ کا قلع قمع کر رہی ہیں؟ یا یہ کہ اسرائیلی ملٹری مالتھس کو خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہے؟ یہ کہنا کہ بچوں کی ہلاکتیں محض حادثاتی ہیں، مزید قابلِ یقین نہیں رہا۔ یہ ہلاکتیں فلسطینیوں کو بطور سیاسی قوت مٹانے کی منظم کوشش ہیں۔ امریکہ اس ملی بھگت میں شریک اور فلسطینیوں کے دکھوں سے لا تعلق ہے۔ یورپ اپنے ضمیر کی ملامت کا اس قدر شکار ہے کہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتا۔ خود تو کچھ کرنے کے قابل نہیں مگر مغربی تہذیب کے رہنما چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ دیں تاکہ وہ اپنا دفاع نہ کر سکیں۔
اس سے ملتی جلتی صورت حال اب عراق میں جنم لے رہی ہے۔ امریکی فوجی ایسے خاندانوں کے گھر ملیامیٹ کر رہے ہیں جن کے مردوں بارے شبہ ہوتا ہے کہ وہ مزاحمت میں حصہ لے رہے ہیں۔ نوجوان لڑکوں کے ہاتھ پشت سے بندھے ہوئے،ان سے تفتیش کرتے ہوئے امریکی سپاہی، جب یہ منظر تصویروں میں دکھائی دیتے ہیں تو فلسطین یاد آتا ہے۔ احتیاط سے منتخب کئے گئے بچے جنہیں دورے پر آئے ہوئے مغربی سیاستدان بو سے دیتے ہیں تو نو آبادیاتی عہد یاد آتا ہے۔ کیا یہ بتانے کی کوئی ضرورت ہے کہ عراقی بچے قبضے بارے کیا سوچتے ہیں؟ عراق سے آنے والی ہر خبر اور عراقی دوستوں سے ملنے والے ہر پیغام میں اس بات کا ذکر موجود ہوتا ہے کہ میسوپوٹیمیا کے شہروں کی غریب آبادیوں کے بچے قابض فوجیوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کے بڑے جو باتیں سرگوشیوں میں کرتے ہیں، بچے وہی باتیں ہنسی مذاق میں قابض فوجیوں کے منہ پر کہہ دیتے ہیں۔ غیر ملکی تسلط کے سائے میں پلنے بڑھنے والے یہ بچے مستقبل قریب میں اگلی انتفادہ منظم کریں گے۔
یہ کتاب عراقی و عرب تاریخ اور عالمی سیاست کا امتزاج ہے۔ ماضی کو سمجھے بغیر حال کا ادراک ممکن نہیں اور یہاں تاریخ بطور تنبیہہ پیش کی جا رہی ہے،یہ تنبیہہ قبضہ کرنے والوں کے لئے بھی ہے اور مزاحمت کاروں کے لئے بھی۔ قابض فوجوں کو اس سے سبق ملے گا کہ قبضے کے خلاف جدوجہد عراقی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ مزاحمت کار مجھے امید ہے ایسی غلطیوں سے دامن بچائیں گے اور ان سانحوں کو نہیں دہرائیں گے کہ جن کے باعث عراق پر دوبارہ قبضے کی راہ ہموار ہوئی۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ عرب دنیا پر نازل ہونے والی ہر آفت کا سبب مغربی مداخلت ہے۔ مغرب نے اکثر عرب دنیا کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر فتح حاصل کی ہے۔ عرب دنیا نے اپنے ہی ہاتھوں جو زخم کھائے ہیں ان کا تفصیلی ذکر بھی اس کتاب میں ہے کہ ان کی وجوہات سمجھے بغیر آگے سفر کرنا آسان نہیں۔
ماضی کے گیدڑوں کے ہاتھ 1948ء میں پھانسی لگنے والے عراقی کمیونسٹ رہنما ’آزاد عراق‘ اور ’خوشحال عوام‘ کی بات کیا کرتے تھے۔ ماسوائے سال 1958ء کے آزادی اور خوشحالی عراق کو کبھی بھی ایک ساتھ نصیب نہیں ہوئے۔ ملک تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ اگر پرانی غلطیاں پھر سے دہرائی گئیں تو دشمن ہماری کمزوری کے راستے پھر سے چیونٹیوں کی طرح داخل ہو جائے گا۔