کرسٹوفر ہچنز اور پہلی جنگ خلیج
ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک ترقی پسند انگریز صحافی ہوتا تھا۔ گو اُس کے سینے میں دل تھا جو مارگریٹ تھیچر کے لئے دھڑکتا تھا (یہ معصوم سا راز وہ کسی پر ظاہر نہ کرتا تھا) مگر اس ملوکانہ جزیرے میں اس کا جی گھبراتا تھا۔ اس میں اس کا دوش بھی کیا تھا؟ اس کی زبردست صلاحتیں، اوپر سے پہاڑ ایسی بڑی انا، شمالی یورپ کے ایک اوسط جسامت کے ایسے ملک میں ہر گز نہ نکھر پاتیں جو ہر گزرے دن کے ساتھ دنیا سے کٹ کر مقامی رنگ میں ڈھل رہا ہو۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک اور براعظم کی اوٹ چلا جائے گا۔ جب 1980ء کی دہائی میں وہ نیویارک پہنچا تو میرے پرانے دوست اور کامریڈ الیگزینڈر کوک برن نے جو بطور کالم نگار اور لکھاری اپنا نام بنا چکا تھا، اس انگریز صحافی کو نیویارک کی سماجی زندگی میں متعارف کروایا۔ کوک برن نے مجھے منع کر رکھاہے کہ میں اُن اول اول دنوں بارے نہیں لکھوں گا۔ اس دور کی چٹخارے دار باتیں کوک برن جب خود یاداشتیں تحریر کریں گے تو ضبطِ تحریر میں لائیں گے۔ میرے لئے جو بچاہے وہ اس کتاب کیلئے زیادہ مصالحہ دار نہیں کہ بہت سے پرانے لوگ بھی اس کتاب کو پڑھیں گے لہٰذا میں فاسٹ فارورڈ کرتا ہوں۔
ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک ترقی پسند انگریز صحافی ہوتا تھا۔ گو اُس کے سینے میں دل تھا جو مارگریٹ تھیچر کے لئے دھڑکتا تھا (یہ معصوم سا راز وہ کسی پر ظاہر نہ کرتا تھا) مگر اس ملوکانہ جزیرے میں اس کا جی گھبراتا تھا۔ اس میں اس کا دوش بھی کیا تھا؟ اس کی زبردست صلاحتیں، اوپر سے پہاڑ ایسی بڑی انا، شمالی یورپ کے ایک اوسط جسامت کے ایسے ملک میں ہر گز نہ نکھر پاتیں جو ہر گزرے دن کے ساتھ دنیا سے کٹ کر مقامی رنگ میں ڈھل رہا ہو۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک اور براعظم کی اوٹ چلا جائے گا۔ جب 1980ء کی دہائی میں وہ نیویارک پہنچا تو میرے پرانے دوست اور کامریڈ الیگزینڈر کوک برن نے جو بطور کالم نگار اور لکھاری اپنا نام بنا چکا تھا، اس انگریز صحافی کو نیویارک کی سماجی زندگی میں متعارف کروایا۔ کوک برن نے مجھے منع کر رکھاہے کہ میں اُن اول اول دنوں بارے نہیں لکھوں گا۔ اس دور کی چٹخارے دار باتیں کوک برن جب خود یاداشتیں تحریر کریں گے تو ضبطِ تحریر میں لائیں گے۔ میرے لئے جو بچاہے وہ اس کتاب کیلئے زیادہ مصالحہ دار نہیں کہ بہت سے پرانے لوگ بھی اس کتاب کو پڑھیں گے لہٰذا میں فاسٹ فارورڈ کرتا ہوں۔
جلد ہی کرسٹوفر ایچ نے نیویارک کے ایک ترقی پسند ہفت روزہ ’دی نیشن‘ کیلئے ’مینارٹی رپورٹ‘ کے نام سے کالم لکھنا شروع کردیا۔ یہ کالم ہر پندرہ روز بعد شائع ہوتا۔ یہ کالم خاصا اچھا ہوتا چاہے کوئی اس کے متن سے پوری طرح متفق نہ بھی ہوتا۔یہ کالم بذلہ سنجی سے بھر پور ہوتا اور حیرت سے دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتا البتہ اگر کوئی جارج اورویل، سلمان رُشدی، کالم نگار کی مجوزہ محترم شخصیات، کا ناقد ہوتا تو اس کی طرف کالم نگار کا رویہ انتہائی ترش ہوتا (یہ مستقبل کی پرچھائیاں تھیں)۔ افسوس ایسے کالم نگار پر جسے ہیروز کی ضرورت ہو۔
دس سال قبل بہرحال ایسا کم ہی ہوا ہو کہ کالم نگار غصے سے پھٹ پڑا ہو۔ کرسٹوفر ایچ کی روح میں ہنوز وہ تلاطم پوری طرح برپا نہ ہوا تھا جو کبھی یونانی دیومالا اور عہدنامہ قدیم کے دو ہیروز کی کایا کلپ کا سبب بنا تھا۔ کبھی کبھار اس کی تحریروں میں نرگس اورعنان کے بیچ دوستانہ لڑائی کی جھلک دکھائی دیتی مگر بحیثیت مجموعی ترقی پسند سیاست کا رنگ گہرا تھا۔ اُس کے پاس کہنے کو کچھ تھا اور وہ اپنی بات کہنے کا ڈھنگ بھی خوب جانتاتھا۔
پہلی جنگ خلیج کے دوران ہچنز نے بعض انتہائی اہم سوالات کی نشاندہی کی۔ یہ سوالات آج بھی اہمیت کے حامل ہیں لہٰذا بہتر ہوگا کہ نئی نسل کو اُن کی بابت باخبر کیاجائے تاکہ نئی نسل کو پتہ چل سکے کہ یہ کالم نگار ہمیشہ سے ایسا رجعتی ضرب شدن اور ابدی زندیق نہ تھا یا سر روڈلک بریتھ ویٹ کے الفاظ میں(جوانہوں نے ٹونی بلیئر کیلئے استعمال کئے) ’مچھلی بیچنے والے مچھلی فروش کی طرح جنگ بیچنے والا جنگ فروش‘ نہ تھا۔ کبھی وہ مختلف انسان تھا۔
پچھلی جنگ خلیج کے آغاز میں سامراج مخالف ہچنز نے کویت کیلئے مغربی محبت پر انگلی اٹھاتے ہوئے عراقی عوام سے ہمدردی کا کھل کر اظہار کیا:
امریکہ کے لئے یہ بات عین ممکن ہے کہ اگر وہ چاہے تو از سر نو کویت کو فتح کر لے مگر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک بودا اور کمزور سٹیٹس کو بحال کیا جارہا ہے۔ جب برطانیہ نے سرحدی لکیریںکھینچی تھیں تو جان بوجھ کر عراق کو سمندر سے محروم کیا گیا تاکہ اس کا برطانیہ پر انحصار باقی رہے۔ مارگریٹ تھیچر کے سابق مشیر برائے خارجہ امور سرانتھونی پارسنز، جو اقوام متحدہ میں سفیر بھی رہ چکے ہیں اور اُس خطے بارے خوب آگاہی رکھتے ہیں، گذشتہ ماہ ہی انہوں نے فرمایا: ’عراقی لاشعور میں یہ بات موجود ہے کہ کویت بصرہ کا حصہ ہے اور خبیث انگریزوں نے اُسے اُن سے چھین لیا۔ ہم نے تو اپنے سٹریٹیجک مفادات کو خوب محفوظ بنا لیا لیکن ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اس اقدام کا نتیجہ وہاں بسنے والے لوگوں کیلئے کیا ہوگا۔ ہم نے ایک ایسی صورتِ حال کو جنم دیا جس کے نتیجے میں وہاں کے عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے‘۔ (دی نیشن، 2اکتوبر 1990ء)
ہچنز ایسے لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو ’تسلی و تشفی‘ کی بات کرتے ہوئے سمجھوتے بازی پر مبنی حل کی وکالت کرتے ۔ یہ ممکن تھا کہ کویت شاہی خاندان سمیت یا اس کے بغیر بھی پٹے پر عراق کو دیدیا جاتا اور مغرب اس مقصد کیلئے کویت پر زور ڈالتا مگر ایک مسئلہ اس سے بھی زیادہ شدید تھا:
اس وقت خطرہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کے نشے میں معمور صدربش صدام حسین کو ہٹا کر خطے میں کسی قسم کے مستقل اتحاد کو جنم دینے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ یہ بات جاننا یقینا باعثِ دلچسپی ہو گا کہ اگر صدر بش کے ذہن میں اس مقصد کے لئے کوئی شخص ہے تو وہ کون ہے اور یہ کہ کیا کوئی ہے جو اس فریضے کو نبھانے پر تیار ہے۔ اسرائیلی دائیں بازو کا گویا یہ خیال ہے کہ کسی عرب ریاست کو خاص حد سے زیادہ طاقت کے حصول اورترقی کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہٰذا ضروری ہے کہ لگ بھگ ہر دس سال بعد قرطاجنہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی جائے۔ کیا واشنگٹن کی بھی یہی حکمتِ عملی ہوگی؟
(دی نیشن 2اکتوبر 1990ء)
دو ہفتے بعد لکھے گئے کالم میں ہچنز نے البرٹ آئن سٹائن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ کس طرح 1948ء میں نیویارک ٹائمز میں آئن سٹائن نے منچن بیگن کو ’فاشسٹ‘ قرار دیا (دی نیشن کے مشہور و معروف محققین کو چاہیے تھاکہ ہچنز کو درست تاریخ تلاش کرنے میں مدد دیتے) اور قارئین کو بتایا کہ وہ نوبل انعام یافتہ اسرائیلی کو کس قدر ناپسند کرتا ہے۔ ہچنز نے پیٹرک بخانن (ٹھوس گھریلو میکارتھائٹ پیداوار جو فسطائی قسم کے رجحانات رکھتا ہے) جسے نازی قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ اس اضحاک شمیر کے اثر ورسوخ کی پروا نہیں کرتا جو خلیجی ممالک اندر واحد سیاستدان حیات ہے جس نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر کی طرف لڑنے کیلئے رضا کارانہ خدمات پیش کی تھیں‘۔ کالم کا اختتام دی نیو ری پبلک کے مارٹن پیریز پربذلہ سنج تنقید پر ختم ہوتا ہے۔ مارٹن پیریز کا جرم؟ مارٹن نے عراق پر قبضے اور اس کے ٹکڑے کرنے کی بات کی تھی۔ اس تنقید کے بعد عمومی غصے کا اظہار کیا گیا ہے:
گذشتہ روز میں نے اپنی ٹی وی اسکرین پر جنرل ایچ نارمن شوارز کوف جونیئر کی مسخرے ایسی شخصیت کو دیکھا۔ وہ منہ بگھار کر صدام حسین کی پیٹھ پر ڈھڈے رسید کرنے کی بات کررہے تھے اور ’سٹارمنگ نارمن‘ ایسے بچگانہ نام پر چہچہا رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر میری یادوں کے تالاب میں ایک لہرسی اٹھی۔ مجھے یاد ہے اس نام کا گریناڈا اور ویت نام میں بھی خوب چرچا ہوا تھا لیکن ان دنوں چرچا شائدکسی اور وجہ سے ہوا تھا۔ کیا ایسا ہی نہیں؟
(دی نیشن، 29اکتوبر 1990ء)
یقینا اس نام کا چرچا کسی اور وجہ سے تھا اور پھر قارئین کو باقاعدہ وجہ بھی بتائی گئی۔ نارمن کے والد نے ایران کی اُس جمہوری حکومت کو گرانے کیلئے سی آئی اے کی مدد کی تھی جس نے تیل کو قومی ملکیت میں لیا تھا۔ یقینا جنیاتی بنیادوں پر ’سٹارمنگ نارمن‘کو اس بات پر موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ ان کے والد نے ہٹلر کے ایک چاہنے والے کو ایران کے تخت پر بٹھایا۔ ہاں البتہ آئل انڈسٹری کی حفاظت پرمعمور باپ بیٹے پر مبنی یہ پولیس کسی اتفاق کا نہیں بلکہ تسلسل کا نام ہے اور اتفاق سے عراق میں فوجی مداخلت ’سامراجی زوال پذیری‘ کی علامت تھی کہ امریکہ کے پاس اس مسئلے کو سلجھانے کا اور کوئی راستہ ہی نہ بچا تھا۔ نومبر 1990ء میں کالم کے قارئین کو بتایا گیا کہ کویت کے صبا خاندان اور امریکہ کے بش خاندان میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی خاندان متنازعہ کاروباری سودوں میںملوث تھے۔ ہچنز نے اس موقع پر ایک اہم سوال اٹھایا: ’کیا بش خاندان اس قابل ہے کہ اس کیلئے جان قربان کر دی جائے‘۔ ہچنز نے اس کا جواب یوں دیا: ’جان قربان کرنا تو درکنار، ان کی خاطر کسی کی جان بھی نہیں لی جاسکتی‘۔ کیوں بھلا؟ اس لئے کے صدر بش اور ان کے بیٹے کوئی نیک کام سرانجام نہیں دے رہے تھے۔ نیل بش کو برے برتائو کے الزامات کا سامنا تھا، جیکب بش کو مقدمے کا سامنا تھا کہ ان پر 4.6ملین ڈالر کی خرد برد کا الزام تھا اور ہاں:
اس خوب صورت دنیا کے ایک باسی جارج بش جونیئر بھی ہیں ہمارے عقل کل چیف ایگزیکٹو کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں اور ’ٹیکساس کی ایک آئل کمپنی کے کنسلٹنٹ ہیں جہاں انہیں سالانہ 120,000 ڈالر تنخواہ ملتی ہے، وہ اس کمپنی کے بڑے سٹاک ہولڈر بھی ہیں اور کمپنی کے خلیج فارس اندر ممکنہ بڑے ڈرلنگ رائٹس کی حفاظت امریکی دستے کر رہے ہیں‘۔ میں نے یہاں دی ہوسٹن پوسٹ کے پیٹ برئیوٹن کے نقل کیا ہے جنہوں سب سے پہلے ایس اینڈ ایل والی خبر بریک کی تھی…
(دی نیشن 12اکتوبر 1990ء)
تین ماہ بعد، آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم شروع ہونے ہی والا تھا، جب ہچنز نے صدر جارج ہربرٹ والکر بش پر بے شمار جرائم کے الزام میں فردِ جرم عائد کی۔ ان جرائم میں یہ جرم بھی شامل تھا کہ صدر بش نے آخری لمحے امن کی اس کوشش کو رد کردیا جو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور بعض ممالک نے کی تھی۔ ہچنز فلسطین بارے بھی کھری کھری بات کرتا تھا۔ بش پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ جنگ کی منصوبہ بندی کیلئے اسرائیلی انٹیلی جنس اور فوجی تنصیبات استعمال کر رہے ہیں۔ ہمیں مزید بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں تو پھر بھی ’فلسطین کے مرکزی‘ لازمی اور اہم مسئلے کا جھوٹا سچا ذکر ہوتا تھا لیکن اب اسے ’خدا حافظ‘ کہہ دیا گیا ہے۔ اس سے اگلے کالم میں ہچنز کاطنز اپنے عروج پر ہے۔ وہ وائٹ ہائوس کے مکین کو شہ دینے کیلئے چرچلیانا٭ کے بے ڈھب استعمال کی بھی مذمت کرتا ہے اور اس بات پر بھی شدید غصے کا اظہار کرتا ہے کہ تمام مخالفین کو اخلاقی لحاظ سے ہٹلر کا مترادف قرار دیا جارہا ہے۔ جوں ہی امریکہ جنگ شروع کرتاہے، دی نیشن کا کالم نگار کہیں بلندی سے صدر کے سر پرتیزاب انڈیلتا ہے۔
11مارچ 1991ء کو مغربی نسل پرستی کے خوب لتے لئے جاتے ہیں، ’نیست ہوتی ملکی رائے عامہ‘ کو لتاڑا جاتاہے، ’میڈیا کے معمولی پن‘ پر طعن کیا جاتا ہے۔ اس دور کے بے شمار دیگر کالموں کی طرح اس کالم کا مطالعہ آج 2003ء میں اور بھی زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صیغۂ واحد متکلم کے باوجود اس کالم کا یہاں ازبر نقل کرنا مناسب رہے گا:
گذشتہ 28دسمبر کو جب لاس اینجلس ٹائمز کے بارسوخ اور دانشمند واشنگٹن بیورو چیف جیک نیلسن کی صفحہ اول پر شائع ہونے والی خبر کا تراشا کاٹتے ہوئے اپنا سامنہ لیکر رہ گیا۔ اس خبر میں آنے والی جنگ کا ذکر تھا کہ ملکی محاذ پر یہ جنگ کس طرح لڑی جائے گی۔ اس خبر میں ایسے دو اہلکاروں کے ساتھ گفتگو رپورٹ کی گئی ہے جو ’بش کی خلیج فارس والی حکمتِ عملی میں شریک کار ہیں‘۔ میں نے یہ خبر تراش کر رکھ لی کہ عین ممکن ہے اس کی ضرورت پڑے: ’ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ بش کے خیال میں امریکی عوام کے نزدیک اصل اہمیت امریکی جانوں کے ضیاع کی ہے نہ کہ ان ہزاروں عراقیوں کی جوزبردست فضائی حملے میں مارے جائیں گے یا معذور ہو جائیں گے اور یہ کہ بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں عراقیوں کی موت کے باوجود جنگ کے لئے امریکی حمایت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا‘۔
تادمِ تحریر سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ گمراہ کی گئی عوام یہ سمجھتی ہے کہ بغداد کے ایک مورچے میں اجتماعی خود کشی کامنصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ جارج بش کی شہرت کو نقصان پہنچے اور باربرا بش کے دل کو برا لگے۔ اس گھٹیا منصوبے کا انکشاف سینٹ ویلنٹائن ڈے سے ایک روز پہلے ہوا ور نہ اسے ویلنٹائن ڈے اشتعال انگیزی بھی کہا جاسکتا تھا اور یہ محض امریکی ارادے کی پختگی تھی کہ اس منصوبے کوناکام بنایا جاسکا۔ اس سے تین روز قبل کولن پاول اور ڈِک چینی کی جلد نئی جنگ میںاستعمال ہونے والے بموں کے خولوں پر زندہ دل تحریریں لکھتے ہوئے تصاویر اتاری گئیں۔ اس حرکت کے چند گھنٹے بعد مارلن فٹز والٹر اس رائے کا اظہار کر رہے تھے کہ کچھ عراقی موت سے متعلق مختلف رائے رکھتے ہیں۔ (کیا آپ نے دیکھا کہ اس کا مطلب ہے موصوف عراقیوں کی موت بارے مختلف رائے رکھتے ہیں)… سلطنت کے مالک ہونے کامطلب ہے کہ آپ کا ارادہ مضبوط اور خود آپ کو سخت گیر ہونا چاہیے۔ سلطنت کے عوام کو چاہیے کہ اصولی طور پر وہ ہر وقت پختہ رواقیت اور اجنبی لوگوں کے دکھ درد سے مکمل برأت کا اظہار کرے۔ اگر عوام ایسی باعزم نہ ہوتو امن بذریعہ طاقت ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جائے گا………
دوہفتے بعد جنگ ختم ہوگئی۔ 50,000 تا 100,000 عراقی فوجی بے کار میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہچنز نے یہ بات عراقیوں پر چھوڑ دی کہ وہ صدام حسین کو کتنی اموات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس کے خیال میں جب عراق نے اقوامِ متحدہ کی قرار داد 660 کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی نگرانی میں پسپا ہونے کا اعلان کردیا تو پسپا ہوتی ہوئی فوج پر حملہ گویا سامراجی اخلاقیات کی پستی کا بدترین اظہار تھا:
مجھے کارٹون فیئر کی جگہ سی سیم اسٹریٹ٭ اور ایسی خاص نشریات کا انتظار ہے جس میں امریکی بچوں کو یہ سمجھایا جائے کہ ’پرندے کے شکار‘ کا کیا مطلب ہے۔ مجھے ان امریکی امن پرستوںکی وضاحت کا انتظار ہے جو کہتے ہیں کہ ہم امریکی فوج کی حمایت تو کرتے ہیں مگر امن کے بھی حامی ہیں۔ آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ میں بطورِ خاص اہل کلیسا کے بھاشن کامنتظر ہوں جس میں یہ واضح کیا گیا ہو کہ کسی منصفانہ جنگ میں انصاف کا تناسب کیا ہوتا ہے؟ لیکن شائد ہمیں ان ساری وضاحتوں کے بوجھ سے آزاد سمجھنا چاہیے۔ جب کسی کو کوئی شکایت ہی نہیں تو پھر منطق کیسی؟
(دی نیشن، 25مارچ 1991ء)
جنگ کے بعد فتح مندی کے احساس اور نعرے بازی پر ہچنز کو شدید غصہ آتاہے۔ لہٰذا وہ کہتاہے:
پچھلے کچھ ہفتوں سے میں اس بابت پر حیرت میں مبتلا ہوں کہ کہیں بھی ’مُتلا قتلِ عام‘ کی اصطلاح سننے میں نہیں آئی۔ مُتلا اس جگہ کانام ہے جسے خوف کے مارے ’شاہراہ موت‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس مقام پر پسپا ہوتے ہوئے ایک عراقی فوجی قافلے پر امریکی پائلٹوں نے دونوں طرف سے ہلّہ بول دیا تھا۔ اس حملے سے جب ٹریفک جام ہوگیا تو اس جام ٹریفک کی مدد کیلئے بار بار حملے کئے گئے۔ یہ تصاویر سب لوگوں نے دیکھیں۔ اگر کوئی شخص اس بات پر احتجاج کرتا کہ اس واقعہ پر کسی نے احتجاج کیوں نہیں کیا تو اس شخص کے خلاف سب احتجاج کرتے…
ایک بھی آواز سنائی نہیں دیتی کہ اب امریکی فوج عراقی میں کیا کررہی ہے۔ دریں اثناء مغربی کنارے میں فلسطینی زراعت کرفیو کے ہاتھوں برباد ہو گئی ہے کہ کھیت کو لگانے یا جانوروںکو پلانے کیلئے پانی کی ایک بوند بھی دستیاب نہیں۔ پی ایل او کو تقسیم کرنے کی غرض سے کویتی اور سعودی نمائندوں نے دمشق میں استردادی ریکارڈ کے حامل دوکٹھ پتلیوں احمد جبریل اور ابو موسیٰ سے ملاقات کی ہے۔ ایران اس بات پر خوش ہے کہ عراق کو لبنان بنایا جارہا ہے اور عراق کو لبنان بنائے جانے کا عمل امریکی قبضے کے تحت روکنے کاکوئی منصوبہ نظر نہیں آتا۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی وہ حکمتِ عملی جو ابتدا میں جنگ کا باعث بنی، ایک مرتبہ پھر بھر پور طریقے سے دہرائی جارہی ہے اور ہم ہیں کہ بس دیکھ رہے ہیں۔
(دی نیشن 8اپریل 1991ء)
غصہ بڑھتا رہا۔ بش کو ’ڈیزرٹ اسٹار ٹروپر‘کا لقب بھی ملا اور ’صحرائی چوہے‘ کا بھی۔ عراق پر بمباری کا موازنہ ڈریسڈن پر بمباری سے کیا گیا اورہچنز کا اصرار تھا کہ مغربی رہنمائوں اور ان کے مقامی گماشتوں پر جنگ کے بعد جنگی جرائم کے الزام میںمقدمہ چلایا جائے۔ اس ضمن میں اس نے ٹھوس وجوہات پیش کیں:
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بُش اور اس کے ’لوگوں‘ نے کیا کیا ہے۔ انہوں نے ایک ملک کے پورے سویلین انفراسٹرکچر کو تباہ کردیا ہے، جان بوجھ کر پانی کی فراہمی، بجلی اور نکاسی کے نظام کوتباہ کر دیا ہے جو اس انفراسٹرکچر کے لئے ریڑھ کی ہڈی تھے۔ ان لوگوں نے ایک لاکھ عام سپاہیوں کو ہلاک کردیا ہے (اور ’ایلیٹ ری پبلکن گارڈ‘ کو سعودی خواہشات کے مطابق کسی نے چھوا تک نہیں) اوربڑی تعداد میں غیر فوجی افراد بھی موت کے گھاٹ اتارے گئے ہیں۔ ان لوگوں نے قحط اور بیماری کی صورت مزید قتل و غارت کا راستہ بھی کھول دیا ہے جس کی خوفناک صورتحال اقوامِ متحدہ اور عالمی حلالِ احمر کی رپورٹوں میں منعکس ہے۔
(دی نیشن6مئی 1991ء)
جنگ کے موضوع پر لکھے گئے آخری کالم میں جنرل شوارز کوف کو برطانوی ملکہ سے تمغہ وصول کرنے پر امریکی آئین کی خلاف ورزی کا مجرم قرار دینے کیلئے ہچنز ایسے ’لبرل‘ حتی کہ لیفٹ حضرات کے لتے لیتا ہے جو ’خود کو شریک جنگ قرار دے رہے تھے۔ ایک مقبول نعرہ یہ تھا کہ ’’میں سامراج کوفسطائیت پر ترجیح دیتا ہوں‘‘۔ اب جبکہ عراق تباہ ہو چکا ہے اور صدام حسین پہلے سے زیادہ مضبوط ___ سعود اور صبا خاندان کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے __ ہمیں سامراج اور فسطائیت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب دونوں ہمارے ہاںموجودہیں‘۔
آج 2003ء میں عراق اور فلسطین میں صورت حال 1991ء کی نسبت کہیں زیادہ خراب ہے۔ فلسطین کی جان صیہونی شکنجے میں پہلے سے بھی زیادہ پھنس چکی ہے۔ آج عراق پر قابض فوج کا سالار وہ شخص ہے جس کے باپ پر ہچنز جنگی جرائم کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتا تھا۔ برطانوی فوجی دستے بصرہ میں واپس متعین ہوچکے ہیں۔ 1991ء میں تو جنگ ختم ہونے کے دو ماہ اندر عراقی حکومت نے انفراسٹرکچر بحال کردیا تھا۔ کم سے کم پانی اور بجلی کی فراہمی تین ہفتے کے اندر اندر بحال ہوگئی تھی۔ تادمِ تحریر بغداد پر امریکی قبضے کو تین ماہ گزر چکے ہیں مگر ان ضروریات کی فراہمی بحال نہیں ہوسکی۔ اگر پچھلی جنگ کے بعد عراق پر اقوامِ متحدہ کی پابندیاں لاگو نہ ہوتیں تو صحت اور تعلیم کے میدان میں بھی عراق قبل از جنگ والے معیار کو دوبارہ حاصل کرلیتا ۔
اِن دنوں کرسٹوفر ہچنز خود کو ’وائٹ ہائوس کا کنسلٹنٹ‘ قرار دیتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر کلنٹن انہیں وائٹ ہائوس آنے کی دعوت دے دے۔ یوں وہ ہچنز کے تابڑ توڑ حملوں سے محفوظ رہتے۔ ہچنز کو آخر ہوا کیا ہے؟ گیارہ ستمبر کو دہشت پسندوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے اغوا کئے ہوئے طیارے پینٹا گون اورجڑواں میناروں میں دے مارے۔ یہ ناقابل بیاں المیہ تھا۔ اس حادثے میں جو لوگ ہلاک ہوئے ان میں درمیانی عمر کا ایک کالم نگار بھی تھا۔ کرسٹو فر ہچنز نامی یہ کالم نگار دی نیشن میں لکھتا تھا۔ گو یہ خبر اخبارات کی زینت نہیں بنی مگر ہچنز دوبارہ کبھی نظر نہیں آیا۔ آج کل جو مکروہ چہرہ دکھائی دیتا ہے وہ محض ہچنز کا ہم شکل ہے۔126
٭٭٭