"کیا مطلب شہلا ۔۔"
شمعون نے اس کی کلائی تھام کر روک لیا اور سنجیدگی سے پوچھنے لگا ۔۔
البتہ آنکھیں پہلی بار یوں چمک رہی تھیں ۔۔
شہلا سے کوئی جواب نہیں بن پایا تو وہ کھانا ٹھنڈا ہوجانے کا کہتی ہوئی جھنجلا کر اپنی کلائی چھڑوانے لگی ۔۔
ہاتھ میں پکڑی ٹرے کی وجہ سے وہ زیادہ مزاحمت نہیں کر پا رہی تھی ۔۔
شمعون نے گہری نظروں سے اس کی گھبراہٹ ملاحظہ کی ۔۔
پھر جیسے ترس کھا کر اس کی کلائی چھوڑ دی ۔۔
شہلا ایک اچٹتی سی گھوری اس پر ڈال کر آگے بڑھ گئی تو وہ بھی مسکراہٹ دبائے اس کے ہمقدم ہوگیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں جب طوبی کے کمرے کے باہر پہنچے تب شہلا کے چہرے پر کچھ گھبراہٹ تھی ۔۔
جبکہ شمعون کا چہرہ بلکل سرد ہوگیا تھا ۔۔
اگر طوبی دماغی طور پر معذور نہ ہو چکی ہوتی تو اب تک وہ اس کا بھی صفایا کر چکا ہوتا ۔۔
جبڑے بھینچ کر شمعون نے کمرے کا لاک کھولا ۔۔
کمرے میں اندھیرا تھا ۔۔
تیمور نے گردن نکال کر اندر کا جائزہ لیا ۔۔
بیڈ پر دراز ہیولا دیکھ کر وہ کچھ مطمئین ہوگیا اور شہلا کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔۔
شہلا نیم اندھیرے کمرے میں بمشکل میز تک پہنچی ۔۔
ٹرے میز پر رکھ کر اس نے آگے بڑھ کر دیوار گیر کھڑکی کے پردے ہٹائے ۔۔
پورا کمرہ سورج کی تیز روشنی میں نہا گیا ۔۔
شمعون نے ترچھی ناگوار نظروں سے "اوں ہوں" کر کے نیند سے بیدار ہوتی طوبی کو گھورا پھر صوفے پر ٹک گیا جبکہ شہلا لب کچلتی طوبی کو اٹھتا دیکھنے لگی ۔۔
"طوبی نقصان پہنچا دیگی ۔۔
طوبی یہ کر دیگی ۔۔
طوبی وہ کر دیگی ۔۔"
حویلی کے مکینوں نے باتیں ہی کچھ ایسی کی تھیں کہ وہ دل ہی دل میں سخت پریشان ہوگئی تھی ۔۔
لیکن اب شمعون کو وہیں بیٹھتا دیکھ کر کچھ مطمئین بھی ہوگئی تھی ۔۔
طوبی نے عجیب سی نظروں سے شہلا کو گھورا پھر گردن موڑ کر شمعون کی طرف دیکھا ۔۔
شمعون پاس پڑا کوئی میگزین اٹھا کر چہرے کے آگے کر چکا تھا ۔۔
وہ ہر بار یہی کرتا تھا ۔۔
اسے نہیں اندازہ تھا ۔۔
کہ طوبی اس کے چہرے سے واقف ہے یا نہیں ۔۔
لیکن احتیاط ضروری تھی ۔۔
"کیوں آئے ہو تم لوگ یہاں ۔۔
کون ہو تم لوگ ۔۔
تت تم لوگ وہی بلائیں ہو ناں ۔۔
تم لوگ ابھی بلیاں بن جائوگے ۔۔
بڑی بڑی بلیاں ۔۔
لال لال آنکھوں والی ۔۔
پھپ پھر ۔۔
پھر تم لوگ میری گردن سے گوشت نوچوگے ۔۔
ہے ناں ۔۔
میرا خون پی لو گے تم لوگ ۔۔
میری جان لے لوگے تم لوگ ۔۔
جیسے طبیب بھائی کی لی تھی ۔۔
طبیب بھائی کی طرح مجھے مار دو گے تم لوگ ۔۔
مار دوگے ہے ناں ۔۔
ہاں ۔۔
مار دوگے ۔۔
پھر میں اپنے ماماں پاپا اور بھائی کے پاس چلی جائوں گی ۔۔
اوپر آسمانوں میں ۔۔
جہاں اللہ میاں بھی ہوتے ہیں ۔۔
وہاں کوئی مجھے کچھ نہیں کر سکے گا ۔۔
تم لوگ بھی نہیں ۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔"
چیخ چیخ کر بولتے بولتے طوبی اب قہقے لگانے لگی تھی ۔۔
اس کے پیروں میں زنجیر تھی جو بیڈ کی پائنتی سے بندھی تھی ۔۔
طوبی تالیاں پیٹ پیٹ کر اب شمعون اور شہلا کو اپنے پاس آنے کی اور اپنا خون پینے کی آفر کر رہی تھی ۔۔
"آئو ناں ۔۔
ختم کردو مجھے ۔۔
مجھے آسمان پر جانا ہے ۔۔
اپنے بھائی اور ماماں پاپا سے ملنا ہے ۔۔
پلیز میرا خون پیو ناں ۔۔"
شمعون جو میگزین کے اوپر سے اپنی سیاہ سرد آنکھوں سے طوبی کا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔
اب اکتا کر شہلا کی طرف دیکھنے لگا ۔۔
اس کا خیال تھا شہلا خوفزدہ ہوگی ۔۔
لیکن شہلا کی چھوٹی چھوٹی غلافی آنکھوں صرف ترحم تھا ۔۔
اور بہت زیادہ تھا ۔۔
شمعون کو عجیب سے احساسات نے گھیر لیا جب ہی اس نے اٹھ کر شہلا کو چلنے کا کہا ۔۔
"یہ ابھی کھانے کے موڈ میں نہیں لگ رہی ۔۔
ایک وقت نہیں کھائے گی تو مر نہیں جائے گی ۔۔
تم چلو ۔۔"
شہلا نے حیرت اور افسوس سے شمعون کے کٹھور انداز کو ملاحظہ کیا پھر نفی میں سر ہلا کر اسے جانے کا اشارہ دیا اور خود طوبی کے قریب بڑھ گئی ۔۔
شمعون تیوریاں چڑھائے کھڑکی کی طرف رخ موڑ کر کھڑا ہوگیا ۔۔
طوبی سے یہ ہمدردی کوئی بھی کر لیتا لیکن شہلا نہیں ۔۔
وہ اکتایا ہوا سا پشت سے شہلا اور طوبی کی باتوں کی آوازیں سننے لگا ۔۔
"آپ یہ کھانا کھالیں پلیز ۔۔"
شہلا کی آواز کانپ رہی تھی ۔۔
حویلی کا ہر فرد خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا ۔۔
لیکن سامنے بیٹھی یہ لڑکی ۔۔
جسے ایک حادثے نے ناکارہ بنا دیا تھا ۔۔
اس کے حسن کے آگے ساری حویلی والوں کا یکجا حسن بھی کچھ نہیں تھا ۔۔
ایک حسن سے مالامال وجود کو اس حال میں دیکھ کر شہلا کا افسوس اور بھی بڑھ گیا تھا ۔۔
طوبی کھانے کا کہنے پر بچوں کی طرح نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔
"پہلے تم مجھے کھائو پلیز ۔۔
مجھے مرنا ہے ۔۔
مجھے بھائی کے پاس جانا ہے ۔۔
مجھے ماماں پاپا چاہئیں ۔۔"
شمعون نے کوفت سے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنے سرپر ماری ۔۔
اس کا دماغ سہی خراب ہو رہا تھا ۔۔
"طوبی آپ کھانا کھالیں ۔۔
ایسے رہیں گی تو آپ کے ماماں پاپا اور بھائی ۔۔
سب کو تکلیف ہوگی ۔۔"
"تم بلی ہو ۔۔
تم مجھے کھانا کیوں کھلانا چاہتی ہو ۔۔
اوہ آئی سی ۔۔
تم اس اسٹوری والی وچ کی طرح کروگی ۔۔
میں کھانا کھا کر موٹی ہوجائوں گی تب تم میرا ڈھیر سارا گوشت کھائوگی ۔۔
ہے ناں ۔۔"
"ہاں ہم ایسا ہی کریں گے ۔۔
تمہارا سارا گوشت کھاجائیں گے ۔۔
یہ ہڈیاں نہیں کھانی ہمیں گوشت کھانا ہے ۔۔
اور گوشت بنانے کے لیئے ضروری ہے کہ تم یہ سارا کھانا کھائو ڈیئر ۔۔"
شمعون اس سب سے بیزار ہو کر اچانک چیخ پڑا اور بیڈ پر طوبی کے دائیں بائیں دونوں ہاتھ ٹکا کر آہستہ سے چبا چبا کر بولا ۔۔
شمعون کی پتلیاں غصے سے چھوٹی ہوگئی تھیں ۔۔
چہرے کے خدو خال نارمل ہونے کے باوجود ان میں ایک خوفزدہ کرنے والا تاثر نظر آرہا تھا ۔۔
شہلا شمعون کو بیڈ کے نزدیک آتا دیکھ کر پہلے ہی پیچھے ہوگئی تھی ۔۔
جب ہی شمعون کا چہرہ دیکھنے سے رہ گئی تھی ۔۔
لیکن طوبی ۔۔
طوبی پر تو جیسے بجلیاں گری تھیں ۔۔
ان آنکھوں کو بھلا کیسے بھول سکتی تھی وہ ۔۔
یہ وہی آنکھیں تو تھیں ۔۔
اور اس کے اتنے نزدیک بھی ۔۔
پہلے پہل تو طوبی کو لگا اس کی آواز کھو گئی ہے ۔۔
پھر اس نے وہ شور اٹھایا کہ شہلا کی بھی خوف سے چیخیں نکل گئیں ۔۔
اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر شہلا وہیں بیٹھنے لگی تھی لیکن شمعون کمرے میں بھاگے آتے وجدان کو طوبی کو سنبھالنے کا کہہ کر شہلا کو ساتھ لیئے کمرے سے باہر نکل آیا ۔۔
"اے لو ایک کام دیا وہ تک ہوا نہیں ۔۔
اللہ ہی حافظ ہے بھئی ان کا تو ۔۔"
حمنہ بیگم بھی نیچے سے اوپر بھاگی آئی تھیں ۔۔
طوبی کے کمرے میں جاتے ہوئے شہلا کو تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے زبان کے نشتر چلانے ضروری سمجھے ۔۔
شمعون ان پر اچٹتی نظر ڈال کر ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا ۔۔
اس کے لبوں پر لمحہ بھر کو عجیب سی مسکراہٹ بکھری پھر معدوم ہوئی تھی ۔۔
"ہم باہر آگئے ہیں ۔۔
اب سب ٹھیک ہے ۔۔
میں نے تو پہلے ہی کہا تھا چلتے ہیں ۔۔
مجھے اس کی طبیعت کا پتہ جو ہے ۔۔
ہر کسی پر ہمدردیاں نہیں نچھاور کردیتے شہلا ۔۔
ابھی میں نہ آتا تمہارے ساتھ ۔۔
کوئی نقصان پہنچا دیتی وہ تمہیں ۔۔
پھر ۔۔"
شہلا نے کوئی جواب نہیں دیا اور غائب دماغی سے طوبی کے کمرے کے کمرے کے دروازے کو دیکھنے لگی جہاں سے طوبی کی آواز ہنوز آ رہی تھی ۔۔
"وہ آ چکا یے ۔۔
وہ پھر سے آچکا ہے ۔۔
وہ ہم سب کو مار دے گا جیسے بھائی کو مار دیا تھا ۔۔
بچائیں مجھے مامی ۔۔
بچائیں مجھے ۔۔"
"شہلا مت سنو اس کی باتیں ۔۔
جائو اپنے کمرے میں ۔۔"
شمعون نے جبڑے بھینچ کر بدقت نرمی سے کہا ۔۔
شہلا لب بھینچ کر مرے مرے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔
اور پیچھے تیمور نے گھور کر طوبی کے کمرے کی طرف دیکھا ۔۔
"ایک بار شہلا میری ہوجائے ۔۔
سب کو ٹھکانے لگادوں گا ۔۔"
شمعون اندر ہی اندر دہاڑتا ہوا بجتے ہوئے فون کی طرف متوجہ ہوا ۔۔
فون اس کی کمپنی کی طرف سے تھا ۔۔
فون کان سے لگا کر وہ سائڈ ہوگیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔