شمعون آفندی ۔۔
جس نے جب آنکھ کھولی ۔۔
جب اسے ان باتوں کا مطلب بھی نہیں پتا تھا ۔۔
تب ہی اس کی چاروں تائیاں اور پھپھو بڑھ چڑھ کر اسے اس کی ذات کی حقیقت سے روشناس کراو چکی تھیں ۔۔
"ناجائز ہء تو ۔۔
گناہ ہے تو ۔۔"
اسے بچپن میں ہی بتا دیا گیا تھا ۔۔
اس کی سوتیلی ماں یعنی تیمور آفندی کی ماں جب تک زندہ رہیں اس کی ذات کو بلکل ان دیکھا کر دیا کرتی تھیں ۔۔
باپ کو تو اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔۔
بس سنا تھا کہ وہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے ہی موت کو گلے لگا چکا ہے ۔۔
اس کے سوتیلے بھائیوں کے اپنے بھی بال بچے تھے ۔۔
اس پر جب نظر ڈالی جاتی حقارت بھری ہی ڈالی جاتی ۔۔
صرف ایک تیمور آفندی تھے جو اس پر جان چھڑکتے تھے ۔۔
ان کی گھر میں موجودگی تک کوئی اسے کچھ نہیں سکتا تھا ۔۔
وہ شمعون کو اپنی پہلی اولاد کی طرح چاہتے تھے ۔۔
اس لیئے شمعون کی بھی ان میں جان بسی رہتی تھی ۔۔
وہ کوئی دبو یا صابر شاکر سا بچہ نہیں تھا ۔۔
وہ بڑوں کا بدلہ ان کے بچوں کو مار پیٹ کر نکال لیتا تھا ۔۔
پھپھو کچھ کہتیں تو وہ ان کے اٹھارہ سالہ طبیب کی چمڑی ادھیڑ دیتا ۔۔
جمنہ بیگم نے کچھ کہا تو حمزہ کا سر غصہ میں پھاڑ دیا ۔۔
یوں حالات بد سے بد سے بدتر ہوتے گئے ۔۔
نہ حویلی والوں کے دلوں میں اس کے لیئے کبھی جگہ بنی نہ اس نے بنانی ضروری سمجھی ۔۔
اس کے پاس تیمور آفندی کی محبت اور سپورٹ تھی ۔۔
یہ کافی تھا ۔۔
شمعون تیرہ سال تک اپنے اصل سے ناواقف رہا جب ایک دن اچانک ایک بڑی سی سیاہ بلی درختوں کے جھنڈ سے نکل کر اس کے قریب چلی آئی ۔۔
وہ رات کی ویرانی میں بیٹھا باسکٹ بال کو انگلی پر گھما رہا تھا ۔۔
اتنی بڑی سیاہ بلی اپنے قریب دیکھ کر وہ عام بچوں کی طرح ڈرا نہیں تھا لیکن ناگواری محسوس کر کے اٹھنے لگا تھا ۔۔
جب اس کی سیاہ بے رونق آنکھوں نے ایک ناقابل یقین منظر دیکھا ۔۔
وہ بلی ایک لمبی سی خوبصورت عورت کا روپ دھار چکی تھی ۔۔
اس کی کشادہ پیشانی پر ننھے ننھے پسینے چمکنے لگے جب اِدھر اُدھر سے کئی اور بلیاں بھی آتی ہوئی نظر آئیں ۔۔
پھر آہستہ آہستہ سب ہی انسانوں کا روپ بدلنے لگیں ۔۔
لیکن ایک بات سب میں مشترکہ تھی ۔۔
سب کی آنکھیں بلکل سیاہ اور بے رونق تھیں ۔۔
بلکل شمعون کی اپنی آنکھوں جیسی ۔۔
اور اس شب شمعون کو اپنی حقیقت معلوم ہوئی ۔۔
شمعون کا خاندان اپنے قبیلے کا سردار خاندان تھا ۔۔
سب سے پہلے جو بھی لڑکا ان کے خاندان میں جنم لیتا ۔۔
اسے سرداری دے دی جاتی ۔۔
اور پھر اس کے مر جانے کے بعد سرداری نئے لڑکے کو سونپ دی جاتی ۔۔
اس کے نانا مر چکے تھے اور اس کی ماں "ایونا" اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ۔۔
سو سرداری کا تاج اس کے سر سجا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی نانی کو کسی بڑی غلطی کے پاداش قبیلے والوں نے قبیلے سے دور کردیا تھا ۔۔
وہ انسانی دنیا میں بے آسرا تھی جب حویلی کے ایک بڑے بزرگ نے اس پر رحم کھا کر اسے اپنی حویلی میں پناہ دے دی تھی ۔۔
یہاں اس نے ملازمہ کے طور پر کام شروع کر دیا جب ایک دن بھوک اور کمزوری سے نڈھال ہو کر ایک شخص کا قتل کر کے اس کے خون اور گوشت سے اپنا پیٹ بھر لیا ۔۔
(وہ وہی شخص تھا جسے تیمور آفندی نے اپنے بچپن میں مرتے دیکھا تھا)
پھر ایک دن شمعون کی ماں ایونا اس دنیا میں آئی ۔۔
بلا کی خوبصورت ۔۔
اس پر تیمور آفندی کے رنگین مزاج باپ کی نظر پڑی تو اس نے اپنی طاقتوں سے ناواقف اس کی ماں کا جنسی استحصال کردیا ۔۔
(شمعون کی نانی نے مزید انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیئے ۔۔
ایونا کو اس کی حقیقت نہیں بتائی تھی ۔۔
کہیں وہ اس کی طرح جذباتی ہو کر انسانی خون نہ کر دے)
کیونکہ تیمور کی ماں انسانی دنیا میں رہی تھی اور اسے اس کی حقیقت کے متعلق کبھی بتایا نہیں گیا تھا سو وہ خود کو بچانے میں ناکام رہی ۔۔
پھر جب شمعون کی پیدائش کے دن قریب آنے لگے ۔۔
تب قبیلے والوں نے ایونا اور اس کی ماں کو قبیلے میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ۔۔
ایونا قبیلے کے ڈر سے شمعون کو حویلی میں ہی چھوڑ کر اپنی دنیا میں چلی گئی ۔۔
لیکن جب ان کے خاندان میں کوئی اور لڑکا سرداری کے لیئے نہیں پیدا ہوا ۔۔
تب ان سب کو شمعون کے بارے میں بتا دیا ۔۔
اور یوں شمعون اپنے اصل سے آگاہ ہوا ۔۔
اور قبیلے کا سردار بنا ۔۔
اپنی حقیقت سے واقف ہو کر وہ اور بھی ظالم ہوگیا تھا ۔۔
حویلی کے بچوں کی اس نے جان نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔
اس کی پھپھو جو بیوہ تھیں اور سب سے بڑے تایا ایک ایکسڈنٹ کا شکار ہو کر دنیا سے چلے گئے ۔۔
اور یوں اسے اپنے پھپھو زاد کزن طبیب (جو اسے سب سے زیادہ زہر لگتا تھا) کا شکار کرنے کا موقع مل گیا ۔۔
شمعون اس وقت سولہ سال کا تھا ۔۔
پوری حویلی دو اموات پر افسردگی کی چادر اوڑھے ہوئے تھی ۔۔
جب اس نے طیب کو بے دردی سے ختم کر کے اپنی بھوک اور پیاس مٹا لی تھی ۔۔
شمعون نہیں جانتا تھا بیڈ کے نیچے طبیب کی چھوٹی بہن طوبی کسی شرار کے لیئے چھپی ہوئی ہے ۔۔
اس نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا لیکن وہ کسی کو ٹھیک سے کچھ بتا نہیں سکتی تھی کیونکہ اس کی دماغی حالت درست نہیں رہی تھی ۔۔
وہ سب ہی کو دیکھ کر چیخنے لگتی ۔۔
سو طوبی کو حویلی کے ایک کمرے میں بند رکھا جاتا تھا ۔۔
دوسری طرف شمعون حویلی کے باقی افراد کو بھی ایسے ہی موت کے گھاٹ اتار دینا چاہتا تھا لیکن طبیب کی موت کے دن اس نے اپنے جان سے عزیز تیمور بھائی کو جس طرح روتے دیکھا تھا ۔۔
وہ اندر ہی اندر نادم ہوگیا تھا ۔۔
اس دن اس نے عہد کیا تھا ۔۔
وہ حویلی کے کسی شخص پر کبھی حملہ نہیں کرے گا ۔۔
وہ جنگل بیابان میں یا قبرستان میں جا کر جانوروں اور مردوں کا گوشت اور خون کھاتا پیتا تھا ۔۔
اس شب بھی وہ ایک جنگل نما جگہ پر کوئی شکار تلاش کر رہا تھا جب اس کا سامنا ایک درخت کے نیچے بیٹھے کچھ پڑھتے سفید لباس اور داڑھی والے شخص سے ہوا ۔۔
شمعون کو اس شخص کے اندر سے پھوٹتی خوشبو سے وحشت ہونے لگی ۔۔
وہ وہاں سے جانا چاہتا تھا ۔۔
جب اس بزرگ شخص نے بھی جان لیا کہ بظاہر اس خوبرو شخص کے پیچھے ایک خوفناک بلا ہے ۔۔
وہ اس پر پڑھ کر کچھ پھونکتا رہا ۔۔
شمعون کی سانسیں اکھڑنے لگیں ۔۔
وہ خود کو بچانے کے لیئے بھاگتا رہا ۔۔
وہ جنگل سے باہر تو پہنچ گیا تھا لیکن ایک عجیب سا لکڑی کا ننھا ٹکڑا اس کے پیر میں پھنستا اس کی جان اندر ہی اندر نکالنے لگا ۔۔
وہ خود بہ خود بلے کا روپ دھار چکا تھا ۔۔
شمعون کو لگنے لگا وہ کچھ ہی دیر میں مر جائے گا ۔۔
جب اسے ایک انسانی آواز سنائی دی ۔۔
"چاچی دروازہ کھولیں ۔۔
چاچی پلیز ۔۔"
وہ خود اس لکڑی کے ٹکڑے کو نکال نہیں سکتا تھا اس لیئے اس نے شہلا سے مدد لینے کا سوچا ۔۔
اور شہلا نے شمعون کی بچی کھچی طاقتوں کے زیر اثر اس کی مدد کی بھی تھی ۔۔
لکڑی کا ٹکڑا نکل جانے کے بعد شمعون بہت کمزوری محسوس کر رہا تھا ۔۔
اب اسے دوا ۔۔
(یعنی کے انسانی گوشت) کی اشد ضرورت تھی ۔۔
اس نے شہلا پر حملہ کرنے کا سوچا ۔۔
ابھی وہ اس کے خون کو چاٹنے ہی لگا تھا جب ایک عورت (شہلا کی چاچی) کمرے میں چلی آئی ۔۔
اور اندر کا منظر دیکھ کر چیخنے لگی ۔۔
اور یوں اس نے شہلا کو چھوڑ باقی سب کے خون اور گوشت پر ہاتھ صاف کر لیا ۔۔
وہ شہلا کو بھی ختم کر دینا چاہتا تھا ۔۔
لیکن اس کے احسان کی وجہ سے اسے زندہ چھوڑ آیا ۔۔
اور اب شمعون کو اندازہ ہو رہا تھا ۔۔
اس نے شہلا کو کسی احسان کے بوجھ تلے زندہ نہیں چھوڑا تھا ۔۔
معاملہ کچھ اور تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔