تین دن گزر چکے تھے اس اندوہ ناک سانحے کو ۔۔
تیمور آفندی کے تین بڑے بھائی تھے ۔۔
جن میں سے سب سے بڑے صابر آفندی کئی سال پہلے ہی رضائے الہیٰ سے انتقال کر گئے تھے ۔۔
دوسرے نمبر پر جعفر آفندی تھے جو اس رات ہانیہ کے علاوہ بلیوں کا شکار ہوئے تھے ۔۔
تیسرا شکار جعفر صاحب کے بعد والے سمیر صاحب کی اہلیہ رضیہ تھیں ۔۔
اور ایک تھی ہانیہ ۔۔
حمزہ کی اکلوتی پیاری بہن ۔۔
جس کی موت نے حمزہ کو توڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔
ان کی ایک بیوہ پھپھو بھی تھیں جو فوت ہو چکی تھیں ۔۔
ان کا اکلوتا بیٹا ٹین ایج میں ہی کئی سال پہلے ایسے ہی بلیوں کا شکار ہوگیا تھا ۔۔
جبکہ دماغی طور پر معزور ہوجانے والی بیٹی طوبی کسی کمرے میں بند رہتی ۔۔
تیمور آفندی کو چھوڑ کر ان سارے بہن بھائیوں نے اپنے پیاروں پر بلیوں کی بلا کا عذاب سہا تھا ۔۔
اب سب کے لب ہنسنا کیا جیسے بولنا بھی بھول گئے تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیمور آفندی نے آج شہلا سے اس شب کا احوال سنا اور خاموشی سے اس کا سر تھپک کر چلے گئے ۔۔
ان کا دل اتنا اداس تھا کہ وہ شہلا کو کوئی حوصلہ بھی نہ دے سکے ۔۔
تین لاشیں اٹھی تھیں اس گھر سے ۔۔
وہ بھی اس حالت میں کہ دیکھ کر روح کانپ اٹھے ۔۔
شہلا نے ان لاشوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا لیکن وہ اپنے پیاروں کو اس حال میں دیکھ چکی تھی ۔۔
اسے اندازہ تھا لاشوں کا کیا حال ہوا ہوگا اور حویلی کے باقی افراد اس وقت کس کرب میں مبتلا ہوں گے ۔۔
حویلی میں ہر طرف ویرانی چھائی تھی ۔۔
نہ کسی کو کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا ۔۔
امتل نازیہ اور فرح مارے باندھے کچھ الٹا سیدھا پکا لیتیں اور سب زہر مار کر لیتے ۔۔
شہلا کو اس ماحول سے وحشت ہو رہی تھی ۔۔
لیکن یہ حویلی ہی اب اس کی آخری پناہ گاہ تھی ۔۔
اسے اس سب کو برداشت کرنا ہی تھا ۔۔
وہ سب سے اونچی سیڑھی پر کھڑی بڑے سے ہال نما لائونج کو گھور رہی تھی ۔۔
کتنے لوگ تھے اس حویلی میں لیکن ۔۔
ہر طرف ہو کا عالم تھا ۔۔
شہلا ہمت کر کے نیچے اترنے لگی ۔۔
ریلنگ پر ہاتھ رکھا تو ہاتھ مٹی سے بھر گیا ۔۔
کسی کو بھی صفائی ستھرائی کا ہوش نہیں تھا ۔۔
ہوش تو خیر خود کا بھی نہیں تھا ۔۔
شہلا نے جائزہ لیا ۔۔
ساری حویلی دھول مٹی سے اٹی تھی ۔۔
وہ واپس اپنے کمرے میں جانے کے خیال سے مڑی لیکن کمرے کے دروازے پر پہنچ کر وہ پھر کچھ سوچ کر پلٹی اور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ نماز سے فارغ ہو کر دعا کے انداز میں ہاتھ پھیلائے خالی الذہنی کی کیفیت میں بیٹھا تھا جب کچھ گرنے کی زوردار آواز پر اچھل کر بجلی کی تیزی سے کمرے سے باہر بھاگا ۔۔
اس کے کمرے کے ہی باہر رکھا بڑا سا گملہ نیچے ٹوٹا گرا تھا اور شہلا پائنچے چڑھائے دوپٹہ سائڈ کر کے باندھے ہاتھ میں جھاڑو پکڑے افسوس کم خوف زیادہ سے دیکھ رہی تھی ۔۔
حمزہ کو دیکھ کر اس ک رنگ بلکل ہی اڑ گیا ۔۔
حمزہ نے بے تاثر نظروں سے دھلے دھلائے چمکتے ہوئے ہال کو دیکھا ۔۔
پھر ماسی بنی شہلا کو ۔۔
"یہ آپ کیا کر رہی ہیں اور کیوں ۔۔؟"
حمزہ کی آواز بھی اس کے چہرے کی طرح بے تاثر تھی ۔۔
شہلا اپنی جگہ سخت شرمندہ ہو رہی تھی ۔۔
"میں یہاں رہ رہی ہوں ۔۔
کک کچھ کر دیا تو کیا ہوگیا ۔۔
یہاں سب ۔۔"
"لسن مس شہلا ۔۔"
حمزہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔۔
اس بار اس کا لہجہ سخت تھا ۔۔
"آپ یہاں مہمان بن کر آئی ہیں ۔۔
مہمان بن کر رہیں ۔۔
نہ آپ حویلی کی ملازمہ ہیں نہ مستقل مکین ۔۔
سو پلیز ۔۔"
حمزہ نے مہذب لفظوں میں اسے اس کی اوقات میں رہنے کو کہا تھا ۔۔
شہلا کا چہرہ اہانت کے احساس سے دہکنے لگا لیکن وہ کچھ بولے بغیر دوپٹا ٹھیک کرنے لگی ۔۔
حمزہ نے ایک اچٹتی نظر شہلا کی بھری ہوئی آنکھوں پر ڈالی ۔۔
پھر بے پروائی سے سر جھٹک کر واپس کمرے میں گھس گیا ۔۔
پیچھے شہلا اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹتی ناراض بچے کے طرح سینے پر ہاتھ لپیٹ کر دیوار سے پشت ٹکا کر کھڑی ہوگئی ۔۔
ابھی وہ لب کچلتی جھاڑو اس کی اصل جگہ رکھنے کے لیئے سیدھی کھڑی ہوئی ہی تھی جب حویلی کا دیو قامت قیمتی لکڑی کا دروازہ کھلا ۔۔
شہلا نے دیکھا ہاتھ میں سفری بیگ پکڑے وہ شمعون تھا ۔۔
اندر داخل ہوتے شمعون کی نظر فوراً اس پر پڑی تھی ۔۔
وہ اپنی جگہ رک گیا ۔۔
"اسلام علیکم ۔۔"
شہلا اس سے بہت دور تھی ۔۔
سلام کی آواز بھی بہت دھیمی تھی ۔۔
شہلا کو اندازہ تھا شمعون نے اس کا سلام نہیں سنا ہوگا ۔۔
لیکن وہ نہیں جانتی تھی ۔۔
شمعون کی سماعت کتنی تیز تھی ۔۔
شمعون کے لب پل بھر کو پھیلے ۔۔
اس کی نظروں نے دور تک شہلا کا پیچھا کیا تھا بے اختیاری میں وہ شہلا کے پیچھے بڑھنے لگا جب تیمور آفندی اپنے کمرے سے نکلے اور ایک حیران نظر جگمگاتے لائونج پر ڈال کر شمعون کی طرف بڑھے ۔۔
شمعون نے لمحہ بھر میں اپنے سپاٹ چہرے پر مصنوعی رقت طاری کر لی ۔۔
"تیمور بھائی یہ کیا ہوگیا ۔۔
کیسے ہوا یہ سب آخر ۔۔
میرے کاغزات میں کچھ مسئلہ ہوگیا تھا سو میں فوراً کینڈا سے آ نہیں سکا تھا ۔۔
اتنا سب کچھ ہوگیا میرے پیٹھ پیچھے ۔۔
کیسے بھائی ۔۔"
کوشش کے باوجود شمعون اپنی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں لا سکا ۔۔
لیکن لہجے کو ہر ممکن حد تک بوجھل کر لیا ۔۔
تیمور آفندی سے کچھ نہیں کہا جا سکا ۔۔
وہ بس شمعون کے چوڑے شانوں میں منہ دیئے خود پر ضبط کرتے رہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی شمعون کی پیشانی کی رگ پھڑکنے لگی اور جبڑے کس گئے ۔۔
اس کی ماں وہاں پہلے سے موجود تھی اور صوفے پر بیٹھی اس کی منتظر تھی ۔۔
"اس رات کے بعد تم اچانک کہیں چھپ کیوں گئے تھے ۔۔"
اس کی ماں بہت سنجیدہ اور پہلے کی بنسبت صحت مند لگ رہی تھی ۔۔
وجہ یقیناً انسانی گوشت اور خون تھا ۔۔
وہ لوگ ہر طرح کا گوشت کھا سکتے تھے ۔۔
انسان کا ۔۔
جانور کا ۔۔
زندہ کا ۔۔
یا مردہ کا ۔۔
لیکن جب ان میں سے کوئی بیمار ہوتا تو انسانی خون اور گوشت ان پر دوائی جیسا اثر کرتا تھا ۔۔
اور سب سے لذیذ بھی وہی گوشت اور خون تھا ۔۔
لیکن کیونکہ ان کے قبیلے کی سرداری شمعون کے پاس تھی ۔۔
سو وہ بہت کم انہیں انسانی گوشت کی طرف بڑھنے دیتا تھا ۔۔
اور اس حویلی کے تمام افراد سے ہمیشہ دور رہنے کو کہتا تھا ۔۔
وجہ صرف یہ تھی کہ وہ تیمور آفندی سے بے حد محبت کرتا تھا ۔۔
اور تیمور آفندی حویلی کے باقی افراد سے بھی محبت کرتے تھے ۔۔
لیکن اب شمعون کا دل کسی اور کے لیئے بھی دھڑکنے لگا تھا ۔۔
اس کے اندر شرارے پھوٹ پڑے تھے شہلا کے ہمیشہ کے لیئے حویلی چھوڑ جانے پر ۔۔
وہ حویلی والوں کو سبق دینا چاہتا تھا ۔۔
"دیکھو جب دل سے قریب شخص دور ہوجائے تو کیسا لگتا ہے ۔۔"
شمعون نے حکم دیا تھا کہ تیمور آفندی اور ان فیملی کو چھوڑ کر حویلی میں جس پر چاہے حملہ کردو ۔۔
اس کے حکم کو مدنظر رکھ کر ان بلیوں نما بلائوں نے تینوں فیملیز میں سے کسی نہ کسی ایک فرد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔۔
"تم حویلی والوں پر کبھی حملہ نہیں کرنے دیتے ۔۔
پھر اس رات کیوں ۔۔
وہ بھی ایک ساتھ تین ۔۔"
اس کی ماں اپنی تیز نظروں سے شمعون کے سپاٹ چہرے کو گھور رہی تھی ۔۔
شمعون نے کچھ جواب نہیں دیا ۔۔
"میں کچھ پوچھ رہی ہوں شمعون ۔۔"
اس کی ماں چیخی ۔۔
"میں جواب نہیں دے رہا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جواب نہیں دینا چاہتا ۔۔
اب آپ جا سکتی ہیں ۔۔
آئندہ میری اجازت کے بغیر یہاں نظر نہ آئیں ۔۔"
شمعون اسی سرد بے تاثر انداز میں بولا ۔۔
اس کی ماں آگ اگلتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو سکون سے سفری بیگ سے کپڑے نکال کر وارڈروب میں سیٹ کر رہا تھا ۔۔
"تم کچھ ایسا تو نہیں کر رہے جو قبیلے کے اصولوں کے خلاف ہو ۔۔
شمعون میں قبیلے سے الگ ہونے کی سزا جھیل چکی ہوں ۔۔
تم خود کا خیال رکھو شمعون میرے بیٹے ۔۔
ورنہ تم قبیلے کی سرداری سے ہی نہیں بلکہ قبیلے سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہو ۔۔
اپنی طاقتیں بھی گوا سکتے ہو ۔۔"
"یہ قبیلے کی بدقسمتی ہوگی کہ وہ مجھ سے ہاتھ دھوئے گا ۔۔
اب آپ جائیں ۔۔"
شمعون رکھائی سے کہہ کر ٹرائوزر اور شرٹ اٹھائے واشروم میں گھس گیا ۔۔
پیچھے اس کی ماں لب بھینچ کر اپنے اصل روپ میں لوٹتی کھڑکی سے کود گئی جب نظریں ہوا کے دوش پر اڑتے سیاہ بالوں پر اٹک گئیں ۔۔
بال اتنے خوبصورت اور دراز تھے کہ وہ خود کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے نہیں روک سکی ۔۔
"یہ کون ہے ۔۔
حویلی میں پہلے کبھی نظر نہیں آئی ۔۔"
وہ چمکیلی نظروں سے شہلا کو دیکھتی اس کی طرف بڑھنے لگی جب اچانک ایک پتھر اس کے سر پر پڑا ۔۔
وہ غرا کر پلٹی ۔۔
شہلا نے بھی چونک کر اسے دیکھا اور اچھل کر کئی فٹ دور ہوئی ۔۔
وہ گارڈن میں بینچ پر بیٹھی اپنے بالوں کی چوٹی بنا رہی تھی ۔۔
موسم اتنا خوبصورت تھا ۔۔
وہ باتھ لے کر بال سکھا کر بے اختیاری میں سر سبز لان میں چلی آئی تھی ۔۔
وہ سیاہ بلی حمزہ کو تیز نظروں سے گھورتی چحلانگ لگا کر درختوں کی ٹہنیوں میں گم ہوگئی ۔۔
حمزہ نے ہاتھ میں پکڑا دوسرا پتھر جھٹکے سے زمین پر پھینکا پھر گھور کر شہلا کو دیکھا جو سہمی نظروں سے درخت کی ٹہنیون کو دیکھ رہی تھی ۔۔
"آپ کے بال بہت خوبصورت ہیں لیکن کیا ان کی نمائش کرنی ضروری ہے ۔۔
حویلی کے حالات سے آپ واقف ہیں ۔۔
بہتر ہے کمرے کے علاوہ کہیں تنہا بیٹھنے سے گریز کریں ۔۔
ہر کوئی آپ کی حفاظت پر نہیں لگا رہے گا ۔۔
سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں ۔۔"
حمزہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا جبکہ شہلا اتنی خوفزدہ تھی کہ آگے سے کچھ بھی کہہ نہیں سکی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔