دوپہر کے سوا دو ہو رہے تھے لیکن ماحول کی پراسراریت اپنے عروج پر تھی ۔۔
سرمئی بادلوں نے سورج کو چھپا رکھا تھا ۔۔
گہری شام ہو چکی تھی بھری دوپہر کے پہر میں ہی ۔۔
عموماً ایسے موسم میں ہوائیں چلا کرتی ہیں ۔۔
ہر چیز میں ایک شادابی جھلکتی ہے ۔۔
لیکن اس بار عجیب خاموشی اور دم گھونٹ دینے والا حبس تھا ۔۔
شہلا گیلری میں آسمان پر نظریں جمائے خالی الذہنی کی کیفیت میں کھڑی تھی ۔۔
لان میں چہل قدمی کرتی ۔۔
اور موسم کی پراسرایت کو محسوس کرتی امتل نے سر اٹھا کر شہلا کی طرف دیکھا ۔۔
پھر کچھ سوچ کر اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔
"میں نے ڈسٹرب تو نہیں کر دیا تمہیں ۔۔؟"
امتل کی پکار پر شہلا چونک کر اس کی طرف پلٹی پھر پھیکی سی ہنسی ہنس کر نفی میں سر ہلا گئی ۔۔
ساتھ ہی اس کے لبوں سے بلا ارادہ شکوہ سا پھسل گیا ۔۔
"میں تو منتظر ہی رہتی ہوں ۔۔
کوئی ڈسٹرب ہی کردے ۔۔
اب تو یہ حال ہے کہ جب میں بولتی ہوں ناں امتل ۔۔
تو اپنی آواز اجنبی لگتی ہے ۔۔"
امتل شرمندہ ہو کر نظریں چرانے لگی ۔۔
طوبی والے حادثے کے بعد سب بے وجہ ہی شہلا سے کترانے لگے تھے ۔۔
اس بیچاری کا بھلا کیا قصور تھا ۔۔؟
تیمور آفندی کی طرح وہ بھی شمعون کی حقیقت سے انجان تھی ۔۔
کچھ دیر تک دونوں چپ چاپ غیر مرئی نقطوں کو گھورتی رہیں جب اچانک ایک موٹی سی بوند آ کر شہلا کی ناک پر گری ۔۔
شہلا اپنے دھیان سے چونک اٹھی ۔۔
اسے لگا شائد بوندا باندی شروع ہوگئی ہے ۔۔
لیکن ایسا کچھ نہیں تھا ۔۔
الجھتے ہوئے شہلا نے اپنی دو انگلیوں سے ناک کے اوپر چھو کر دیکھا تو اس کا رنگ اڑ گیا ۔۔
وہ گہرا سرخ سیال تھا ۔۔
امتل نے بھی حیرت سے یہ منظر دیکھا تھا ۔۔
اور پھر وہ ڈر کر بے ساختہ دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔
کیونکہ ایک کے بعد پھر دوسری ۔۔
دوسری کے بعد تیسری ۔۔
تیسری کے بعد پھر ایک کے اوپر ایک خون کی بوندیں شہلا کے چہرے پر نہ جانے کہاں سے گر رہی تھیں ۔۔
شہلا خوفزدہ سی اپنا چہرہ دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے گیلری سے نکلتی ہوئی باتھروم میں بھاگ گئی ۔۔
باتھروم میں تو کھلی چھت نہیں تھی ۔۔
پھر بھی بوندیں گرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔۔
جنہیں صاف کرتے ہوئے شہلا کا دماغ مائوف ہو رہا تھا ۔۔
وہ شاور کھول کر اس کے نیچے کھڑی ہوگئی اور دیوانہ وار خود کو صاف کرنے لگی ۔۔
لیکن شاور کے تیز پانی میں بھی بوندوں کا سلسلہ جاری رہا ۔۔
"شہلا ۔۔
شہلا تم ٹھیک ہو ۔۔؟
کیا اندر بھی وہ خون کی بوندیں گر رہی ہیں ۔۔"
واشروم کے دروازے پر دستک دے کر امتل نے اونچی آواز میں پوچھا ۔۔
شہلا نے جواب دینے کے لیئے لب کھولے لیکن اچانک اسے واش بیسن کے شیشے میں اپنے سامنے ایک خوفناک صورت نظر آئی ۔۔
اور پھر خوف سے چیخ مار کر وہ بیہوش ہوگئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اوہ خدا ۔۔"
خاموشی سے آنکھیں بند کیئے اور سر جھکائے بیٹھے وہ جھٹکے سے سیدھے ہوئے ۔۔
"کیا بات ہے پیر صاحب ۔۔؟"
تیمور آفندی جو پیر صاحب کا دیا گیا اسم مبارک ان کے حکم پر بار بار پڑھے جا رہے تھے گھبرا کر بولے ۔۔
"اس شیطان کے چیلے نے شہلا کو ہتھیار بنانے کی کوشش کی ہے ۔۔
وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا ہے ۔۔
یہ کیا ہوگیا ۔۔"
ان کے چہرے پر چھائی پریشانی دیکھ کر تیمور آفندی بھی سخت پریشان ہوگئے ۔۔
ورنہ صبح سے جاری شنکر جادوگر اور پیر صاحب کی پراسرار جنگ کے بعد انہیں لگا تھا کچھ دیر بعد سب ٹھیک ہوجائیگا ۔۔
اور اگلا دن حویلی پر خوشیوں کے در کھول دے گا ۔۔
مگر یہاں تو ۔۔!
"لیکن پیر صاحب ۔۔
آپ نے شہلا کے لیئے ایک تعویز دیا تھا ۔۔
جس کے بعد کوئی بھی بدروح اس کے قریب نہیں بھٹک سکتی تھی ۔۔
پھر کیسے ۔۔؟"
"وہ بہت شاطر ہے ۔۔
اس نے خون کی بارش کا چھلاوا ظاہر کیا ۔۔
جو صرف آنکھوں کا دھوکا تھا ۔۔
پھر توقع کے مطابق شہلا حواس کھونے لگی ۔۔
اور اسی بدحواسی میں وہ تعویز بھی اتار بیٹھی ۔۔"
"اسی لیئے کہتے ہیں جوش نہیں ہوش سے کام لو ۔۔"
پیر صاحب کی بات ختم ہوتے کے ساتھ ہی مدھم سی خوبصورت مردانہ آواز قریب سے ابھری ۔۔
تیمور آفندی بیٹھے بیٹھے اچھل پڑے ۔۔
"تیمور ۔۔
تم اشرف المخلوق ہو ۔۔
اور صرف آواز سے ڈر پڑے ۔۔؟
اور تم قمر ۔۔
آٙئندہ اس طرح مت بولنا کہ سب کو سنائی دو ۔۔
یہ شرارت کا وقت نہیں ۔۔"
پیر صاحب نے تیمور آفندی اور اس اندیکھے وجود کو گھورا اور پھر سے اپنا عمل شروع کردیا ۔۔
جبکہ تیمور آفندی گہری سانس بھر کر کمرے میں نظریں دوڑانے لگے ۔۔
گویا قمر کو دیکھنے کی کوشش کی ۔۔
رہا حمزہ تو وہ کچھ دیر پہلے ہی پیر صاحب کی طرف سے مطمئین ہو کر حویلی نکل گیا تھا ۔۔
اب اس میں مزید کسی کو کھونے کا یارا نہ تھا ۔۔
وہ سب کو اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہتا تھا ۔۔
لیکن حویلی پہنچ کر جب اسے شہلا کے اچانک غائب ہوجانے کی اطلاع ملی ۔۔
تب ایک پل کو اس کا دل رک کر دھڑکا تھا ۔۔
"وہ کہاں چلی گئی ۔۔
میرے اللہ اسے اپنی امان میں رکھنا ۔۔"
اس کے دل کی گہرائیوں سے ایک دعا چپکے سے نکلی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون کی حالت اب قدرے بہتر تھی ۔۔
زنجیروں کی تپش اور سختی اب قدرے کم تھی ۔۔
اسے اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ یہ زنجیریں اسے موت کے منہ میں لیجا کر واپس کیسے کھینچ لائی ہیں ۔۔
کون ہے اس کا مددگار ۔۔؟
وہ کئی گھنٹوں سے کمرے میں اکیلا تھا ۔۔
نہ خیموں اور اس کے دیگر ساتھی وہاں موجود تھے ۔۔
نہ ہی شنکر جادوگر ۔۔
یہ ماجرا کیا تھا ۔۔
شمعون سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔
ہاں لیکن اس الجھن میں بھی اس کی نظریں دیوار کے ساتھ پڑی اس لاش کی طرف بھٹکتی ہوئی جا رہی تھیں ۔۔
وہ بھوکا پیاسا اور سخت کمزور ہو رہا تھا ۔۔
ایسے میں گوشت اور خون کی خوشبو اسے پاگل کر رہی تھی ۔۔
لیکن وہ لاچار تھا ۔۔
"ایک بار اس زنجیر سے آزاد ہوجائوں میں ۔۔
خیموں میں خود تیرے اور تیرے ان پلوں کے چیتھڑے اڑا دونگا ۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک سنسان علاقہ تھا ۔۔
آس پاس صرف کھنڈر ہی کھنڈر تھے ۔۔
عام طور پر یہاں نشئی وغیرہ بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے ۔۔
لیکن خیموں کچھ دن پہلے ہی سب کا "صفایہ" کر چکا تھا ۔۔
اور اس وقت کافی پرجوش لگ رہا تھا ۔۔
خیموں کے پیچھے اس کے دس کے دس ساتھی موجود تھے ۔۔
لیکن اس وقت کافی گھبرائے ہوئے تھے ۔۔
کیونکہ ان کے ماں باپ سمیت تقریباً پورا قبیلہ ان کے سامنے موجود تھا ۔۔
اور غم و غصے سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔
"تم لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہو ۔۔؟
اپنے ہی قبیلے کے سردار کو ایک شیطان کے پجاری کی غلامی میں دینے کی کوشش کر رہے ہو ۔۔؟
یہ غداری ہے ۔۔"
شاکوپا آگے بڑھ کر چیخا ۔۔
"اور جو شمعون نے کیا شاکوپا وہ ۔۔؟
اس نے ایک معمولی انسان کے لیئے اپنی ماں کو مار دیا ۔۔"
"وہ اس کی زندگی کا ذاتی معاملہ ہے ۔۔
بے شک اس نے جو کیا وہ غلط کیا ۔۔
لیکن اس کی نیت غلط نہیں تھی ۔۔
وہ ایونا کو مارنے کی نیت سے اس پر حملہ آور نہیں ہوا تھا ۔۔
یہ ایونا کی بدقسمتی تھی کہ وہ شمعون کے اس آدم زادی کے لیئے احساسات سمجھ نہیں سکی ۔۔"
"آپ تو کر رہے ہیں اس خاندان کی صدیوں سے غلامی شاکوپا ۔۔
یہی بولیں گے ۔۔
لیکن اب بس ۔۔
نہ میں کرونگا نہ میرے بعد کوئی اس کی غلامی کریگا ۔۔
قبیلے میں جو سرداری کے لیئے بہتر ہوگا وہی سردار بنے گا ۔۔"
خیموں کے اکڑ کر کہنے پر شاکوپا پراسرار سا مسکرایا ۔۔
"اور تمہیں یہ کیوں لگتا یے خیموں ۔۔؟
کہ پورے قبیلے میں تم سے اہل کوئی نہیں ۔۔
تم تو شمعون سے بھی اس لڑائی میں ہار گئے تھے ۔۔
پھر کس بنا پر خود کو سرداری کا حقدار سمجھتے ہو ۔۔؟
اچھا چلو شمعون کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں ۔۔
تم زیہم کو ہرا کر دکھا دو ۔۔"
شاکوپا نے خیموں کے پیچھے کھڑے اس کے ہی حامی کی طرف اشارہ کیا ۔۔
زیہم اپنے نام پر چونک گیا ۔۔
"مجھے تو زیہم تم سے زیادہ بہتر لگتا ہے ۔۔"
شاکوپا کی چال صرف قبیلے کے بڑے بزرگ ہی سمجھے تھے ۔۔
اور سمجھ کر مسکرا دیئے ۔۔
یعنی لوہا لوہے کو کاٹنے والا تھا ۔۔
خیموں نے ناگوار غصیلی نظروں سے گردن موڑ کر زیہم کو دیکھا تو زیہم غرور سے گردن اکڑا کر آگے بڑھا ۔۔
زیہم واقعی جسمانی لحاظ سے پورے قبیلے میں سب سے زیادہ بھرپور تھا ۔۔
جب وہ بلے کے روپ میں ڈھلتا تو اس پر کسی ریچھ کا گمان ہوتا ۔۔
ایک پل کے لیئے خیموں کا رنگ اڑ گیا لیکن پھر وہ پرسکون ہوگیا ۔۔
اس کے ساتھ شنکر جادوگر تھا ۔۔
جادوگروں کا بھی جادوگر ۔۔
اس نے شاکوپا سے کچھ دیر کی اجازت مانگی اور بلی کے روپ میں بدل کر چھلانگیں لگاتا کھنڈرات کو عبور کرتا شنکر جادوگر تک پہنچا جو زمین پر بے ہوش پڑی شہلا کے قریب بیٹھا خون اور الو کے سر کے ساتھ نہ جانے کیا کر رہا تھا ۔۔
"شنکر جادوگر ۔۔!
مجھے اپنے جادو کے سہارے اتنی طاقت دو کے میں لڑائی میں کسی کو بھی لمحوں میں دھول چٹا دوں ۔۔"
خیموں بڑا پرجوش ہو کر بول رہا تھا جیسے اسے یقین ہو ۔۔
یہاں وہ بولے گا ۔۔
وہاں شنکر جادوگر اس کے دل کی مراد پوری کر کے اس سے پوچھے گا "اور کچھ ۔۔؟"
لیکن شنکر جادوگر نے تو اس پر ایک نظر بھی نہیں ڈالی تھی ۔۔
جواب دینا تو دور کی بات ۔۔
خیموں کو بے عزتی محسوس ہوئی ۔۔
"شنکر جادوگر ۔۔
میں نے تم سے کچھ کہا ہے ۔۔"
خیموں کی اگلی پکار بھی شنکر جادوگر نے ان سنی کر دی ۔۔
"شنکر جادوگر ۔۔
کوئی جواب تو دو ۔۔
تم اس طرح نہیں کر سکتے ۔۔
میں نے تمہاری اتنی مدد کی ہے ۔۔"
"مورخ ۔۔"
خیموں کے چلانے پر شنکر جادوگر نے اچانک اس کی بات کاٹ کر غیض و غضب سے اس کی طرف دیکھا ۔۔
"کونسی مدد ہیں ۔۔؟
کونسی مدد ۔۔؟
شنکر جادوگر کو کسی کی مدد کی آشا ناہی ۔۔
جب تک ماں کالی ہم پر اپنی کرہا رکھے ہے ۔۔
ہمیں توہاری کیا ۔۔
کسی بڑے سے بڑے جادوگر کی بھی ضرورت ناہی ۔۔
دو ٹکے کا بلا آوے ہے ہم سے سوال کرنے ۔۔
پتا جی لگے ہیں ہم توہارے ۔۔
یہ کردے وہ کردے ۔۔
چل جا نکل جا ۔۔
تیرا میرا واسطہ ختم ۔۔
تجھے سرپنج کی جگہ خالی چاہیے تھی ۔۔
او ہم نے کردی ۔۔
اب سرپنج بننے کے واسطے تو جنگ لڑے یا آگ کے دریا کو پار کرے ۔۔
ہمیں پروہ ناہی ۔۔
اب جا یہاں سے نکل جا ۔۔
ورنہ بھسم کر دینگے ایک ہی پھونک میں ۔۔"
شنکر جادوگر کی آواز اور نظروں میں ایسی دہشت تھی ۔۔
کہ خیمو کا رنگ اڑ گیا ۔۔
وہ تیزی سے واپسی کے لیئے مڑ گیا ۔۔
بلکل اچانک ہی خیموں نے اندر ہی اندر فیصلہ کر لیا تھا کہ شاکوپا کو اس جگہ کے بارے میں بتا دیگا جہاں شمعوب قید تھا ۔۔
اور شہلا کی خبر بھی پہنچا دیگا ۔۔
سب سے معافی مانگ لے گا ۔۔
وہ جذباتی ہوگیا تھا ۔۔
شائد لالچی بھی ۔۔
لیکن کیا فائدہ ہوا ۔۔؟
سرداری کے لیئے تو ابھی بھی بہت کچھ کرنا تھا ۔۔
اور ظاہر ہے وہ کامیاب نہیں ہونے والا تھا ۔۔
جب سرداری اس کے نصیب میں ہی نہیں ہے تو شمعون کے ہی سہی ۔۔
دل میں ارادے باندھتا خیموں نہیں جانتا تھا ۔۔
دور بیٹھا شنکر جادوگر اس کے دل کی آواز بآسانی سن رہا تھا ۔۔
اور عجیب سا مسکرا رہا تھا ۔۔
"پاپی ۔۔
ہم سے دھوکا کرت ہے ۔۔"
بڑبڑاتے ہوئے اس نے ہاتھوں میں مٹھی بھر مٹی اٹھائی ۔۔
کچھ جنتر منتر پڑھ کر اس پر پھونکے ۔۔
مٹی ہاتھ سے نکل کر ہوا میں تیز تیز گھومنے لگی ۔۔
جیسے کوئی ننھا سا طوفان ہو ۔۔
شنکر نے عجیب زبان میں اس ریت کے ننھے سے مرغولے سے کچھ کہا ۔۔
جس پر ریت کا مرغولہ تیزی سے دور جاتے خیموں کی طرف بڑھ گیا ۔۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ریت کا شیطانی طوفان خیموں کے جسم کا سارا ماس اڑاتا آگے بڑھ گیا ۔۔
اب اس ریت کے ننھے طوفان کا رخ قبیلے کے اس فرد کی طرف تھا جو شاکوپا کے حکم پر خیموں کا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک پہنچا تھا ۔۔
اور چھپ کر تمام کاروائی ملاحظہ کر رہا تھا ۔۔
خیموں کا اتنا ہیبت ناک انجام دیکھ کر وہ بلے کے روپ میں ڈھلتا تیزی سے آگے بھاگا لیکن اس طوفان نے اسے بھی جا لیا ۔۔
اور اس کے ساتھ وہی کیا جو خیموں کے ساتھ کیا تھا ۔۔
اور اب اس طوفان کا رخ اس طرف تھا جہاں قبیلے کے دیگر افراد محو انتظار تھے ۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون نیند کے زیر اثر کھڑے کھڑے ہی جھولنے لگا تھا ۔۔
اس کی طاقت صفر ہو چکی تھی ۔۔
وہ بار بار اس بدبو اڑاتی لاش کی طرف دیکھتا جو اندھیرے کمرے میں اس کی زنجیروں سے پھوٹتی آتشیں روشنی کے باعث واضع تھی ۔۔
اس کا رنگ زرد جبکہ چہرہ سکڑنے لگا تھا ۔۔
اب وہ خیموں کو گالیاں دیتے دیتے بھی تھک گیا تھا ۔۔
دل و دماغ میں صرف شہلا کا خیال تھا ۔۔
نہ جانے وہ کس حال میں ہوگی ۔۔؟
اسے یاد تو یقیناً نہیں کر رہی ہوگی ۔۔
"شائد ڈر رہی ہوگی ۔۔"
دل نے بوجھل سا ہو کر سوچا ۔۔
شمعون اذیت کے اس تمام عرصے میں پہلی بار مسکرا دیا ۔۔
کہ ۔۔
اچانک اسے پیچھے سے کچھ روشنی اور ہوا اندر آتی محسوس ہوئی ۔۔
ساتھ ہی عجیب سی آواز بھی تھی ۔۔
جیسے تیز بارش ہو رہی ہو ۔۔
شمعون چوکنا ہوگیا ۔۔
"تو گویا یہ انسانی دنیا کا ہی ایک حصہ ہے ۔۔
اور باہر نکلنے کا راستہ پیچھے کی جانب بنا ہے ۔۔"
ذہن میں ایک کوندا سا لپکا ۔۔
اب شمعون جبڑے کسے ۔۔
چہرہ ذرا موڑے ۔۔
آنے والے کے قدموں کی چاپ سننے لگا ۔۔
پھر بالآخر اندر آنے والا اس کے پہلو میں پہنچ گیا ۔۔
جس کے چہرے پر نظر پڑتے کے ساتھ ہی شمعون ساکت رہ گیا ۔۔
کچھ دیر بعد لب بےآواز ہلے ۔۔
"شہلا ۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔