شمعون نے تیز نظروں سے بغور اپنے سامنے کھڑے ان تین نوجوانوں کو دیکھا جو بظاہر جسمانی طور پر اس سے بہت بھرپور نظر آ رہے تھے ۔۔
تین مقابلوں میں سے اسے کم از کم دو مقابلے جیتنے تھے ۔۔
پھر سجنا تھا اس کے سر سرداری کا تاج ۔۔
ہار جانے کی صورت میں وہ سرداری سے ہی نہیں ۔۔
اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتا تھا ۔۔
اور اسے اپنی جان بیت عزیز تھی ۔۔
کیونکہ اگر وہ ختم ہوگیا تو ایونا کا بدلہ لینے کے لیئے یہ لوگ شہلا کو بھی ختم کر دیتے ۔۔
پہلے مقابلے میں اسے ان تینو سے باری باری لڑنا تھا ۔۔
اور ان تینو نوجوانوں میں سے دو کو لازمی ہرانا تھا ۔۔
شمعون بآسانی ان سب کی آنکھوں میں سرداری کے حصول کی چمک دیکھ سکتا تھا ۔۔
ان سب کے حلق سے عجیب و غریب غراہٹیں نکل رہی تھیں ۔۔
اچانک شاکوپا نے اپنی جگہ سنبھال کر طبلہ جنگ بجانے کا اشارہ دیا ۔۔
آنکھوں پر گرتے بارش کے پانی کو انگلیوں سے جھٹک کر شمعون بھی غرایا ۔۔
اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے بلے کے روپ میں لوٹ آیا ۔۔
اب ان تینوں نوجوانوں میں سب سے زیادہ بھرپور جسامت والا شخص چند قدم آگے بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی بلے کی شکل اختیار کر گیا ۔۔
اور پھر وہ خونی کھیل شروع ہوگیا ۔۔
آس پاس قبیلے کے دیگر لوگ بلیوں اور انسانی شکلوں میں کھڑے شور مچا رہے تھے ۔۔
تقریباً سب ہی شمعون کے خلاف تھے ۔۔
ایک تو اس لیئے ۔۔
کہ وہ ایک آدم زاد کی اولاد تھا ۔۔
دوئم ۔۔
اس نے ایک انسان کے لیئے اپنی ماں کو قتل کر دیا تھا ۔۔
ہاں مگر کچھ لوگ اب بھی شمعون کا حوصلہ بڑھا رہے تھے ۔۔
شائد انہیں یقین تھا کہ شمعون اپنی سرداری کی لاج رکھ لے گا ۔۔
سو ایسے میں شمعون سے دشمنی مناسب نہیں تھی ۔۔
لڑائی زور و شور سے جاری تھی ۔۔
دونوں کے جسم سے گاڑھا سیاہ سیال نکل نکل کر گر رہا تھا ۔۔
بارش کا پانی جسمانی تکلیف کو اور بڑھاوا دے رہا تھا ۔۔
ہار ماننے کو دونوں میں سے کوئی تیار نہیں تھا ۔۔
لیکن وہ دوسرا بلا مطمئین تھا ۔۔
جبکہ شمعون کے ذہن پر کچھ بوجھ تھا ۔۔
شہلا کے مل کر بھی نہ ملنے کا بوجھ ۔۔
ماں کے قتل کا بوجھ ۔۔
اور سرداری اور جان کے خطرے کا بوجھ ۔۔
لیکن یہی بوجھ اسے تحریک بھی دے رہا تھا ۔۔
لڑنے کی اور جیت جانے کی ۔۔
لڑائی جاری رہی ۔۔
خون بہتا رہا ۔۔
غراہٹیں اونچی ہوتی رہیں ۔۔
اور پھر شمعون نے اپنے نوکیلے دانتوں سے جکڑ کر خود سے دگنا وزن رکھنے والے بلے کو بھنبھوڑ کر رکھ دیا ۔۔
بارش اب ہلکی ہو چکی تھی ۔۔
شمعون سکون سے الٹے قدم پیچھے ہوتا اب خود کو زبان سے چاٹ رہا تھا ۔۔
جبکہ دوسرے بلے کو میدان سے اٹھا کر لے گئے تھے ۔۔
ایک فتح نے اس کا جوش و جذبہ سو گنا زیادہ بڑھا دیا تھا ۔۔
اور پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا مقابلہ بھی ہو گیا ۔۔
اسے دو جیتنے تھے ۔۔
وہ تینو جیت گیا ۔۔
پہلی منزل اس نے عبور کر لی تھی ۔۔
اور اب اپنا ادھڑا ہوا زخمی وجود لیئے تن کر شاکوپا کے آگے کھڑا تھا ۔۔
شاکوپا کو شمعون کی اکڑ اور غرور اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔
ساتھ ہی شمعون کی آنکھوں میں تمسخر بھی تھا ۔۔
"مجھ سے چھینیں گے سرداری آپ ۔۔؟
مجھے دیں گے سزا ۔۔؟"
شاکوپا نے گہری سانس بھر کر شمعون کو واپس حویلی جانے کو کہا ۔۔
ساتھ ہی کل بستی واپس آنے کو بھی کہا ۔۔
دوسرے امتحان کے لیئے ۔۔
جتاتی ہوئی ایک نگاہ سب پر ڈال کر وہ فاتح کی سی چال چلتا بستی سے نکل گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اس کی گاڑی حویلی کے گیراج میں رکی تب صبح کے ساڑھے چھ بج رہے تھے ۔۔
وہ ہاسپٹل نہیں گیا تھا کیونکہ ڈاکٹر اس کے زخم دیکھ کر چونک سکتے تھے ۔۔
جگہ جگہ کسی جانور کے پنجوں کے نشانات واضع تھے ۔۔
شروع میں تکلیف اتنی نہیں تھی لیکن اب زخم سخت تکلیف دے رہے تھے ۔۔
جب لڑکھڑاتا ہوا وہ حویلی میں داخل ہوا تب ہر طرف خاموشی تھی ۔۔
یقیناً تھکا دینے والی رات کے بعد اب سب اپنے اپنے کمروں میں محو استراحت تھے ۔۔
لیکن سوال یہ تھا کہ شہلا کہاں تھی ۔۔
شمعون کے کمرے میں اس وقت ہونا بلکل ممکن نہیں تھا ۔۔
اچانک ذہن میں جھماکہ ہوا تو وہ کراہتا ہوا گیسٹ روم میں گھس گیا ۔۔
توقع کے مطابق وہ وہیں تھی ۔۔
بستر پر اوندھی پڑی وہ لحاف میں چھپی تھی ۔۔
ترچھا سا چہرہ نکل رہا تھا لیکن ۔۔
اب موسم بدل چکا تھا ۔۔
رات گئے اور صبح سویرے ٹھٹھرا دینے والے سردی ہوتی تھی ۔۔
جبکہ سارا دن جان نکالنے والے گرمی ہوتی تھی ۔۔
خیر ۔۔
شہلا کے قریب جا کر وہ لب بھینچے کچھ دیر تک اسے تکتا رہا ۔۔
کتنے سکون میں تھی وہ ۔۔
اس بات سے انجان کہ اس کے اسی سکون کے لیئے وہ ساری رات کتنی تکلیف میں گزار کر آیا تھا ۔۔
وہ ساری تکلیف تو ایک طرف ۔۔
وہ اس بے خبر سی لڑکی کے لیئے اپنی ماں کی جان لے چکا تھا ۔۔
اور شمعون کی اصلیت جاننے کے بعد ۔۔
کیا شہلا اس کی ان قربانیوں کا احساس کرے گی ۔۔؟
بلکل نہیں ۔۔
اسے ایک "بلا ۔۔ آسیب ۔۔ درندہ ۔۔" کہہ کر دور ہوجائے گی ۔۔
لیکن کیا شمعون اسے دور جانے دے سکتا تھا ۔۔
ظاہر ہے نہیں ۔۔
شمعون اپنی کراہوں پر ضبط کرتے ہوئے شہلا کے قریب ہی بیٹھ گیا ۔۔
پھر اپنی دو انگلیوں کے پوروں سے وہ آہستہ آہستہ شہلا کا ملائم گال سہلانے لگا ۔۔
"تم انسان بے وفا ہوتے ہو ۔۔
میری ساری قربانیاں بھلا کر تم صرف مجھے اس لیئے چھوڑ سکتی ہو ۔۔
کہ میں تمہاری طرح کا عام انسان نہیں ہوں ۔۔
لیکن میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا ۔۔
کیونکہ ۔۔
کیونکہ میں تمہاری طرح کا عام انسان نہیں ہوں ۔۔
ہاہاہاہاہا ۔۔۔"
شمعون جھک کر شہلا کے کان پر سے بال ہٹا کر آہستگی سے بولا اور پھر مدھم سا ہنس کر پیچھے ہوگیا ۔۔
کیونکہ شہلا نیند سے بیدار ہو رہی تھی ۔۔
شہلا نے جب اپنی آنکھیں کھولیں تو کچھ دیر تک وہ غائب دماغی سے شمعون کا زخمی وجود تکتی رہی ۔۔
پھر اچانک اچھل کر اٹھ بیٹھی ۔۔
"آآ آپ کو کیا ہوا ہے ۔۔؟
کیسے ہوا یہ سب ۔۔
کب آئے آپ ۔۔
کس نے کیا ۔۔خ
میں تیمور انکل کو بلاتی ہوں ۔۔"
سارے سوالات اور گلے شکوے بھلائے وہ اس وقت سخت ہراساں ہو رہی تھی ۔۔
بیڈ سے اتر کر وہ جانے لگی ۔۔
جب شمعون نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے آہستہ سے اپنی طرف کھینچا ۔۔
اس طرح کے ایک فاصلہ اب بھی قائم تھا ۔۔
شہلا اپنی جگہ ساکت رہ گئی ۔۔
اس کی نظریں شمعون کے کیچڑ میں لتھڑے بوٹوں سے اٹھ ہی نہیں سکیں ۔۔
شمعون لب بھینچ کر کچھ دیر تک شہلا کے چہرے کو ایک ٹک دیکھتا رہا ۔۔
پھر اس کی کلائی چھوڑ کر چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام لیا ۔۔
"ہر بات کے لیئے اپنے تیمور انکل کی طرف دیکھنا بند کرو ۔۔
بہت خیال رکھ لیا انہوں نے میرا اور تمہارا ۔۔
اب تم رکھو میرا ۔۔
اور میں تمہارا رکھوں گا ۔۔
اس جگہ دیکھو ۔۔
فرسٹ ایڈ باکس ہوگا ۔۔"
بہکے بہکے لہجے میں کہتے کہتے اچانک وہ شہلا سے دور ہوا اور سپاٹ انداز میں ٹیبل کی دراز کی طرف اشارہ کیا ۔۔
شہلا اس کے رنگ بدلنے پر حق دق ہوتی ٹیبل کی طرف بڑھ گئی ۔۔
شمعون ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا ۔۔
مجبوری اس قدر تھی ۔۔
"فرسٹ ایڈ باکس نکال کر بیڈ پر رکھا تو شمعون باتھ لینے کا کہہ کر واش روم کی طرف بڑھنے لگا ۔۔
پھر کپڑے لینے کے لیئے اپنے کمرے میں جانے کا خیال آیا ۔۔
جسے جان کر شہلا نے خود جانے کا فیصلہ کیا ۔۔
کیونکہ وہ زخمی تھا اور ایسے میں سیڑھیاں چڑھنا ممکن نہیں تھا ۔۔
"اٹس اوکے ۔۔
تمہیں ڈر لگ رہا ہوگا ۔۔
میں چلا جائونگا ۔۔"
شمعون نرمی سے بولا ۔۔
"میرا دل اتنا کمزور نہیں ہے ۔۔
سامنے "کچھ" ہو تو الگ بات ہے ۔۔
لیکن ویسے نہیں ڈرتی میں ۔۔"
شہلا کا لہجہ مضبوط تھا ۔۔
جس پر شمعون عجیب سے انداز میں مسکرایا ۔۔
"سامنے ہو ۔۔
تو ڈر جائو گی ۔۔"
"جی ۔۔"
شہلا شانے اچکا کر صاف گوئی سے بولی ۔۔
پھر اسے انتظار کرنے کا کہہ کر کمرے سے نکل گئی ۔۔
اور پیچھے شمعون لب بھینچے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔