عجیب آگ تھی چقماقِ دل رگڑنے سے
عجیب نظم ہوئی زخم کے ادھڑنے سے
اذانِ عصر ہوئی، تشنہ لب نے بَین کیے
شجر اداس ہوا برگِ سبز جھَڑنے سے
بہت قریبی عزیزوں کو یوں گنوایا ہے
میں دوستوں کو پرکھتا تھا کام پڑنے سے
ہمارا مَدًِمقابل نہ تھا برابر کا
پلٹ کے آنا ہی بہتر لگا تھا لڑنے سے
وہ مجھ کو چھوڑ کے اب یہ بھی سوچتا ہو گا
یہ شخص اور حسیں ہو گیا بچھڑنے سے
تو کھو نہ جائے مرے خواب میرے آخری خواب
میں مر نہ جاؤں ترے ہاتھ کو پکڑنے سے
شدید عشق کی خواہش تھی جو قبول ہوئی
وہ خود سے دُور ہوا فاصلے سکڑنے سے
بہت سے لوگ سنبھل جاتے ہیں اکیلے میں
جدائی اس لیے بہتر ہے گھر اُجَڑنے سے