ربیع الائول وہ مبارک ماہ ہے جس میں گم راہی کی د لدل میں دھنسی انسانیت کے لیے روشنیوں کا سامان ہوا۔مکہ مکرمہ کی گھاٹیاں چمک اٹھیںجب وہ آفتاب طلوع ہوا جس کی روشنیوں نے انسانیت کے دلوں کو منور کیا اور روئے زمین پرموجود ہر چیز خوشی سے دمک اٹھی ۔ہر جانب ہریالی نظر آنے لگی ۔یہ زمین جوکہ اپنی پشت پر انسانیت کی وحشتوں اور دہشتوں سے اکتا چکی تھی اور برسوں سے اپنے اوپر دندناتے انسان نما درندوں کو سہ رہی تھی اسے بھی اطمینانِ قلب حاصل ہوا کہ رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ کی آمد ہوچکی جن کے استقبال کے لیے زمین پر موجود ہر چیز بے تاب ہوئے جارہی تھی اور ان کی مبارک راہوں میں اپنی آنکھیں بچھائے ہوئے تھے ۔اس آفتاب دوجہان کی روشنیوں نے ظلمتوں میں گھرے ماحول کو اپنی روشنیوں سے چمکا دیا تھا اورظلمتوں کا سینہ چیر دیا تھا ۔ظلمتوں کا شکا ر انسانیت کو بھی روشنی کی کرنیں نظر آنے لگی تھی ۔اب یہ زمین بھی اس آفتاب دوجہاں حضرت محمد ﷺ کی آمد پر مسرت سے نہاں تھی کہ اب اس رہبر دوجہان کے طفیل میری پشت بھی امن کی آماج گاہ بن جائے گی جس سے میری پشت کو بھی قرار میسر آئے گی ۔برسوں سے اپنی پشت پر جاری انسانوں کی برتری کے لیے جاری جنگ اور قتل وغارت سے زمین تنگ آچکی تھی تھی اب اسے بھی معلوم ہوچلا تھا کہ یہ آفتاب کائنات کی سرحدوں میں پنپتی ہوئی وحشت اور دہشت کو یقین کی لاٹھی سے ہانک کر دور بھگا ئے گا ۔
آقائے نامدار حضرت محمدﷺکی ذات مبارک رحمتوں اور برکات کا ذریعہ تھی جو کہ پوری کائنات میں بکھیرتی گئی اور کچھ ہی عرصے میں نبی کریم ﷺ کی برکات کی خوش بو دور دور تک پھیل گئی ۔برسوں سے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والی انسانیت راہ راست پر آنے کو بے چین تھی جیسے ہی ان کے ضمیر کو جھنجوڑا گیا تو پھر کیا تھا کہ ان برکات نے انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اللہ رب العزت کی رحمتوں کا ظہور ہونے لگا ۔ایک دوسرے کے خون کے پیاسے انسان آپس میں شیروشکر ہوگئے ۔دلوں میں نبی اکرمﷺ کی محبت موجزن ہوئی تو یہی دل نور کے آئینے بن گئے ۔گم راہیوں میں بھٹکے انسانوں کی روح ایسی صفائی ہوئی کہ انسانوں نے گھر بار کی پروا کیے بغیر اسلام کا علم اٹھا لیا ۔انسانوں کے دلوں میں اس آفتاب ِ نبوت حضرت محمد ﷺ کی پھیلائی ہوئی روشنی ایسے اتری کہ راہ کی تما م تر رکاوٹیں ریت کے گھروندے ثابت ہوئی۔پھر روئے زمین پر کچھ ایسے مناظر بھی سامنے آئے کہ دلوں سے آپ ﷺ کی پھیلائی ہوئی روشنی کو نکالنے کے لیے کسی کو تپتی زمین پر لِٹا کر اس کے سینے پر پتھر رکھے گئے اور کسی کے ٹکڑے کردیے گئے اور کسی کو ابلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا گیا مگر اسلام کی یہ تعلیمات دلوں میں ایسی موجزن ہوئی کہ تمام تر جبرواستبداد کے باوجود ہی کسی دل سے نہ نکلی بلکہ خود ظلم کے ذریعے اس روشنی کو مٹانے والے اس کے بہائو میں بہ گئے اور ان کے دل بھی اسلام کی تعلیمات سے منور ہوتے چلے گئے ۔تاریخ نے ان تمام مناظر کو اپنے اندر سمولیا جو کہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کے سبق بن گیا اور پھر دین اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اور محنتوں کے طفیل چھا گیا ۔
آج اکیس ویں صدی کے نصف وسط کے فلاسفر اورا سکالر بھی اسلام کی حقانیت کوتسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے کمالات کے قائل ہوچکے ہیں۔برطانوی ادیب جارج برنارڈ شاہ لکھتے ہیں کہ "میں نے محمدﷺکے مذہب کی حیران کن استقامت کی بنا پر ہمیشہ تعظیم کی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ واحد مذہب ہے جس میں گہرائی ہے اور یہی چیز لوگوں کے لیے د ل کش ثابت ہوئی ہے ۔میں محمدﷺ کے مذہب کے بارے میں پیش گوئی کرنا چاہتا ہوں کہ آج جسے یورپ کہتے ہیں وہاں یہ مانا جانے لگے گا ۔قرون وسطی میں نفرت یا تصورات کی بنا پر اسلام کو روشنی سے اندھیر ے میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی تھی انہیں انسانیت کے لیے نجات دہندہ کہا جاسکتا ہے ۔مجھے یقین ہے کہ آج دنیا کی قیادت کرنے کے لیے کوئی ایسا شخص ہوتا جیسے وہ تھے تو وہ تمام عالمی مسائل کو حل کرنے میں کام یاب ہوجا تا ۔انیس ویں صدی کے کارلائل اور گوئٹے جیسے مفکرین نے محمد کے مذہب کی قابل ذکر اقدار تو تسلیم کیا ۔عظیم جرمن شاہر اور مفکر یوہاں وولف گینگ گوئٹے کہتے ہیں کہ وہ شاعر نہیں ہیں وہ ایک پیغمبر ﷺ ہیں اور وہ ہمارے پاس قرآن لائے ہیں جو خدائی قوانین کا مجموعہ ہے ۔
آج اس عظیم تر پیغمبر کے امتی مسلمان کے دل سے اسلام کی روح محو ہوتی جارہی ہے ۔روئے زمین پر مسلمان ذلت کے گڑھوں میں دھنس رہا ہے ۔مسلم نسل نو پر ثقافتی یلغار کی جارہی ہے اور مختلف ہتھکنڈوں سے مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی روح سے عاری کرنے کے منصوبے اختیار کیے جارہے ہیںہمیں ان ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے دین اسلام کو اپنی زندگیوں کو اپنا نا ہوگا ۔ماہ ربیع الائول ہر سال ہمارے لیے زندگی کا ڈھنگ تبدیل کرنے کا پیام لے کر آتا ہے اور ہمیں بتا تا ہے کہ زندگیوں کی تمام تر الجھنوں اور پریشانیوں سبب ہماری اس اخلاقی ضابطے سے دوری ہے جس کو ہمارے پیارے نبیﷺ نے عمل کے مرحلے سے گزار کر ہمیں سمجھا یا اور پیروی کو سہل بنایا ۔اگر ہم اپنے نبی ﷺ کی محبت کو ان کی سیرت پر عمل سے مشروط کرکے سفر کا آغاذ کریں تو دلوں میں بھری تعفن زدہ کدورتیں دھواں بن کر ہوا تحلیل ہوجائیں۔عشق مصطفیﷺ کے تقاضوں میں ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم آقائے نامدار ﷺ کے ساتھ اپنی بے پایاں محبت کو محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہ رکھیں بلکہ حسب توفیق اپنی روزمرہ کی مشق بے سمت کو بدلیں ۔طرز زندگی میں خلوص کا تپاک اور باہمی میل جول میں ہم دردی کو جگہ دیں اس سے دلوں کی تاریک بستیاں روشن کریں۔روح کو ان کے جمال کی مہک سے مزین کرنے کے مساعی کریں۔
٭٭٭