مفلسی میں مال و زر کے خواب مت دیکھا کرو
اس قدربھی عالمِ اسباب مت دیکھاکرو
تم کسی دن بے حجابانہ بھی آؤ رو بہ رو
عہدِ الفت میں ادب آداب مت دیکھاکرو
مے کشی سے کیوں نہیں کرتے علاجِ دردوغم
واعظانِ شہرکے القاب مت دیکھاکرو
چھت سے سوئے آسماں کیادیکھتے ر ہتے ہوتم
تم توخودمہ تاب ہو،مہ تاب مت دیکھاکرو
پارلگ جائے گی ناؤ گر مقدرمیں ہوا
بحرِغم میں جانبِ گرداب مت دیکھاکرو
ساتھ گل کے خارتوہوتے ہیں اے نازک بدن
چاہتوں میں اشک زن سیلاب مت دیکھاکرو
بے خطرچلتے رہوعشق و وفاکی راہ پر
اس سفرمیں جانِ جاں اسباب مت دیکھاکرو
ہے غنیمت،خوب سیرت دوست مل جائے اگر
کار،کوٹھی اور یہ ارباب مت دیکھا کرو
شاعری توشاعری ہے،اس سے کیاتم کوغرض
تشنہ رکھے یاکرے سیراب،مت دیکھاکرو
گاہے گاہے چاہنے والوں پہ کرلینانظر
بے مروت نام کے احباب مت دیکھاکرو
یہ غنیمت ہے کہ عثماںؔ،نیندآجائے تمھیں
نیندآجائے اگر،توخواب مت دیکھاکرو
٭٭٭