ساری دنیا کی نگاہوں سے بچا رکھا ہے
میں نے محبوب تصور میں چھپا رکھا ہے
مرنے والوں سے کوئی پوچھے مرے کیسے ہو؟
جینے والوں نے فقط شور مچا رکھا ہے
تیری یادوں کے پرندوں کو بٹھانے کے لیے
دل میں احساس کا اک پیڑ اُگا رکھا ہے
دل بضد ہے وہ کسی وقت بھی آ سکتا ہے
گھر کی دہلیز پہ آنکھوں کو جما رکھا ہے
میرے نزدیک میاں شعر عبادت ٹھرا
یار لوگوں نے اسے شغل بنا رکھا ہے
آسرا تیرگی میں ہے رُخ روشن عادلؔ
اس لیے میں نے اسے من میں بسا رکھا ہے
**