چُھوٹے آنچل کی رداؤں کی طرف دوڑتے ہیں
بیٹے تھک ہار کے ماؤں کی طرف دوڑتے ہیں
جب دوا کام دکھاؤ نہ اثر اس میں رہے
ہم سے منکر بھی دعاؤں کی طرف دوڑتے ہیں
تیری درگاہ سے راندے ہوئے پرنم چہرے
اپنے غفار خداؤں کی طرف دوڑتے ہیں
حوصلہ مند ہیں وہ یا کہ ہیں حساس بہت
جو گریبان سے پاؤں کی طرف دوڑتے ہیں
شہر کے شور شرابے سے مشینوں سے پرے
ہم سے بے زار تو گاؤں کی طرف دوڑتے ہیں
جو سوا نیزے کے سورج کی تپش سہتے تھے
چاندنی رات میں چھاؤں کی طرف دوڑتے ہیں
میں نے پہلے بھی یہیں ہار دیا تھا سب کچھ
پھر قدم ان ہی صداؤں کی طرف دوڑتے ہیں
میں کھڑا ہوں کہ روایت ہی وراثت ہے مری
سوکھے پتے تو ہواؤں کی طرف دوڑتے ہیں
موجِ سخن کے ساتھ وہ کچھ بولتا ہوا
راتوں میں آگیا کوئی شب تولتا ہوا
کھلنے لگے تھے راز کئی چاک پردھرے
مٹی میں روشنی کا سفر گھولتا ہوا
دریائے زندگی کے بھنور کو ابھار کر
لکنت پڑی صدا کی گرہ کھولتا ہوا
پتے کسی کی یاد کے جب ٹوٹ کر گرے
چشمہ ابل پڑا تھا وہاں کھولتا ہوا
سنسان راستے میں کہیں کھیت کی جگہ
پنکھا اُگا ہوا تھا ہوا جھولتا ہوا