جنھیں سکوں نہیں حاصل تری عبادت سے
انھیں نہ روک سکے گا کوئی بغاوت سے
مزے لیے ہیں طلب میں بہت اذیّت سے
وصال نکلا ہے خالی کسی بھی لذّت سے
صبا کا جھونکا گزرتا ہے چھو کے روزانہ
یہ آرزو ہے کہ آواز دے محبت سے
مرے نصیب میں دولت نہیں شرافت ہے
یہی تو حصہ ملا ہے مجھے وراثت سے
چلا بھی آیا ہے خود شہر میں ترے قندیلؔ
مکر رہا ہے تُو اب بھی کسی کرامت سے
**