اُس کے بارے نہ کسی وہم کو پالا جاجائے
اب کسی اور ہی صورت کو خیالا جائے
کر لے وہ آخری دیدار میری خواہش ہے
میرے لاشے کو کنارے پہ اُچھالا جاجائے
اب تو دُشوار ہوا جاتا ہے سانسیں لینا
ہے ضرورت کہ درختوں کو سنبھالا جاجائے
ایک دُنیا وہاں بستی ہے، خُدارا سوچو۔۔۔!
کوڑے کرکٹ کو نہ دریاؤں میں ڈالا جاجائے
کس طرح روز کے کاموں میں لگاؤں دل کو؟
کس طرح یار اُسے دل سے نکالا جائے؟
اُس سے میں نے ابھی کرنی ہیں ضروری باتیں
دو مِنٹ کے لیے تقدیر کو ٹالا جائے
**