کسی دشتِ کربلا میں کبھی سر نہ خم ہوئے ہیں
جب بھی سجا ہے مقتل، سر ہی علم ہوئے ہیں
سقراط ہو کہ سرمد، منصور یا حسین
جو سر نہیں جھُکے ہیں، وہ سر قلم ہوئے ہیں
زندہ وہی رہے ہیں، باغی تھے جبر کے جو
تاریخ کا وہ جھومر، قصے رقم ہوئے ہیں
راہ وفا کے راہی، وارے گئے ہیں کتنے
سوئی پہ جھُولنے کو، کب لوگ کم ہوئے ہیں
یہ جُرم آگہی بھی، ہے شوقِ جرم ایسا
آباد پھر بھی زنداں، مجرم نہ کم ہوئے ہیں
ان کو بجھا سکے نہ، تاریکیوں کے تاجر
خوں سے جلی جو شمعیں شعلے نہ کم ہوئے ہیں
ہاتھوں پہ مُنصفوں کے خوں اب بھی بولتا ہے
تاریخ میں مُنصف، قاتل رقم ہوئے ہیں
آواز پھر اُٹھاؤ، خلقِ خُدا جگاؤ
کئی کربلا بپا ہیں، ظالم نہ کم ہوئے ہیں
****