اس کی سن کر اپنی سنا کر خوش ہوتا ہوں
فطرت کی آغوش میں آ کر خوش ہوتا ہوں
منظر پھیکے پڑ جائیں تو دیواروں پر
رنگ برنگے نقش بنا کر خوش ہوتا ہوں
خود ہی شاعر بن جاتا ہوں اور سامع بھی
آئینے کو شعر سنا کر خوش ہوتا ہوں
حافظؔ کو پڑھتا ہوں رنجیدہ نئیں ہوتا
وردِ ’’خوش باشیم‘‘ پکا کر خوش ہوتا ہوں
بوجھ ضعیفی کا بڑھ جائے تو پانی میں
کاغذ کی اک نائو بہا کر خوش ہوتا ہوں
صبح سویرے سارے پنچھی آ جاتے ہیں
میں اپنا دربار لگا کر خوش ہوتا ہوں
**