گردش میں ایسے وقت کی آنا پڑا مجھے
لہروں کے سنگ خود کو بہانا پڑا مجھے
مڑ کر نہ دیکھنے کا ارادہ ہوا ہُوا
ایڑی پہ اپنا آپ گھمانا پڑا مجھے
کل رات تو ہوا نے بھی رستہ بدل لیا
اُٹھ کر چراغ خود ہی بجھانا پڑا مجھے
مرنے کے بعد پھرہمیں جینا ہیایک دن
یہ خواب زندگی کو دکھانا پڑا مجھے
بازارِ شب میں دن کا خریدار کون ہو
تھک ہار کے دکاں کو بڑھانا پڑا مجھے
افشائے رازِ عشق پر آمادہ دیکھ کر
ہلکے سے دستِ یار دبانا پڑا مجھے
مقتل کو یوں بے رونق و ویران دیکھ کر
نعرہ خدائے حق کا لگا نا پڑا مجھے
اپنی ہی بے بسی کے تماشے سے اے اسد
دکھ ساتھ ساتھ حظ بھی اُٹھانا پڑا مجھے
**