چھین کر لے گئے اغیار مقدر میرا
قربتِ یار نہیں یار مقدر میرا
ہے یہی ہجر کا آزار مقدر میرا
میں کہ منصور ہوں اس عہدِ ستم پیشہ کا
کبھی زنداں ہے کبھی دار مقدر میرا
کبھی زنداں ہے کبھی دار مقدر میرا
ہاں یہی جرم ہے میرا کہ میں سچ بولتا ہوں
تہمتیں ہیں سرِ بازار مقدر میرا
اے کہ انسان کی تقدیریں بنانے والے
اک نظر کا ہے طلب گار مقدر میرا
کاتبا! تیرے حوالے مری لوحِ قسمت
پھر ملے یا نہ ملے یار مقدر میرا
میں بھی دیکھوں کہ ہے تو کن فیکوں پر قادر
کر دے اس شخص کو اک بار مقدر میرا
یہ وہ غم ہے کہ نہیں جس کی تلافی ممکن
چھین کر لے گئے اغیار مقدر میرا
مجھ سے نفرت ہی کرو تم مگر اخلاص کے ساتھ
جانتا ہوں کہ نہیں پیار مقدر میرا
پہلے پہلے اسے پانے کی تگ و دو کی بہت
بعد میں مان گیا ہار مقدر میرا
مالک الملک! مشیت تری کیا ہے جس کی
زد میں آیا بھی تو ہر بار مقدر میرا
بد نصیبی پہ مری آپ بھی طعنہ زن ہیں
کب مرے بس میں ہے سرکار مقدر میرا
جب بھی چاہا کہ اسے اپنا بنالوں کاشرؔ
بن گیا راہ کی دیوار مقدر میرا