مسافرت میں شجر کی طرح سمجھتا تھا
میں اپنے آپ کو گھر کی طرح سمجھتا تھا
کہ تیرہ بخت سمجھتا تھا ماہ تاب مجھے
تو شب نژاد سحر کی طرح سمجھتا تھا
چپک گیا ہے مری دید سے وہی منظر
جسے فریب نظر کی طرح سمجھتا تھا
پھر ایک شام اسے بند کر نہیں پایا
میں یار موت کو ڈر کی طرح سمجھتا تھا
کٹے ہوئے ہیں جو بازوں سمیت ہاتھ انہیں
وجودِ حرف و ہنر کی طرح سمجھتا تھا
عجب ہے کیا کہ وہ پتلے جلا رہا میرے
جو میرے پاؤں کو سر کی طرح سمجھتا تھا
عجیب دشت کے جیسا تھا وہ زبوں خانہ
میں جس مکان کو گھر کی طرح سمجھتا تھا
اسی وجود نے بخشا ہے آسرا شہبازؔ
میں جس وجود کو شر کی طرح سمجھتا تھا
٭٭٭