موجِ سخن کے ساتھ وہ کچھ بولتا ہوا
راتوں میں آگیا کوئی شب تولتا ہوا
کھلنے لگے تھے راز کئی چاک پردھرے
مٹی میں روشنی کا سفر گھولتا ہوا
دریائے زندگی کے بھنور کو ابھار کر
ساحل پہ آگیا تھا کوئی ڈولتا ہوا
پھر گفت گُو کے بام پہ خوش بُواتر گئی
لکنت پڑی صدا کی گرہ کھولتا ہوا
پتے کسی کی یاد کے جب ٹوٹ کر گرے
چشمہ ابل پڑا تھا وہاں کھولتا ہوا
سنسان راستے میں کہیں کھیت کی جگہ
پنکھا اُگا ہوا تھا ہوا جھولتا ہوا
**